
یوکرین میں صورت حال پَل پَل بدل رہی ہے۔ دائیں بازو کے الٹرا نیشنلسٹ اور ان کے لبرل ساتھیوں نے مل کر یوکرینی پارلیمنٹ ’’رادا‘‘ (Rada) کا کنٹرول سنبھال لیا ہے۔ منتخب مگر بدعنوان اور نااہل صدر یانوکووچ کا تختہ الٹا جاچکا ہے۔
سابق وزیراعظم ٹائمو شینکو نے، جن پر مختلف جرائم میں ملوث ہونے کی فرد جرم بھی عائد کی جاچکی ہے، نئے نازی اور دیگر فاشسٹ عناصر کے ساتھ مل کر حکومت بنانے کی تیاری شروع کردی ہے۔ علامتی نوعیت کے اپوزیشن رہنما آرسینی یاٹسینیُک اور وٹالی کلچکو تیزی سے پس منظر میں جا رہے ہیں۔
یوکرین میں جو کچھ ہو رہا ہے، اس پر روس کا تشویش میں مبتلا ہونا فطری امر ہے۔ ماسکو میں صدر ولادیمیر پوٹن صورت حال پر نظر رکھے ہوئے ہیں۔ واشنگٹن میں وکٹوریا نولینڈ اور صدر اوباما البتہ قدرے پُرسکون اور خوش ہیں۔ یورپی یونین اب یوکرین کو گلے لگانے کے لیے بے تاب ہے۔ ان کے پاس یوکرین کے لیے ’’سادگی‘‘ اپنانے کی شرائط اور لبرل اقتصادی اصلاحات کے پیکیج ہیں۔
روس نے یوکرین کو ۱۵؍ارب ڈالر کی امداد دینے کا وعدہ کر رکھا تھا مگر صدر یانوکووچ کا تختہ الٹے جانے کے بعد اب یہ امداد خطرے میں پڑگئی ہے۔ سرمایہ کاری کے رجحانات پر نظر رکھنے والے ادارے ’’موڈی‘‘ کا کہنا ہے کہ یوکرین کو صرف ۲۰۱۴ء میں گیس اور دیگر مدوں میں بیرونی ادائیگیاں یقینی بنانے، پنشن اور بجٹ خسارے پر قابو پانے کے لیے کم و بیش ۲۴؍ارب ڈالر کی ضرورت پڑے گی۔ اگر ان فنڈز کا اہتمام نہ ہوسکا تو یوکرین کی معیشت شدید زوال سے دوچار ہوگی۔
یوکرین دو راہے پر کھڑا ہے۔ روس اب تک یوکرین کے سرکاری بونڈز کی خریداری کے ذریعے اس کی معیشت کو مستحکم رکھنے پر توجہ دیتا آیا ہے۔ اگر روس نے امداد بند کردی اور معاشی معاملات میں اشتراکِ عمل بھی ترک کردیا تو یوکرین کے لیے صرف یورپی یونین کی طرف دیکھنے کا آپشن رہ جائے گا اور یورپی یونین زیادہ سے زیادہ سادگی اپنانے کے نام پر اخراجات کم کرنے کی شرط عائد کرے گی۔ اس کے نتیجے میں یوکرینی معاشرے میں خرابیاں پیدا ہوں گی۔ بین الاقوامی مالیاتی فنڈ کی طرف سے اگر امداد ملے گی تو اس کے ساتھ بہت سی ایسی شرائط نتھی ہوں گی، جو یوکرین میں صرف خرابی کو جنم دیں گی۔
اگر یوکرین نے یورپ سے امداد قبول کی تو اسے ایک طرف تو اجرتیں گھٹانی پڑیں گی اور دوسری طرف سرکاری شعبے میں اخراجات کم کرنے پڑیں گے۔ سماجی خدمات کے شعبے میں اخراجات بھی گھٹانا ہوں گے۔ پنشن میں کٹوتی اور محنت کش طبقے پر ٹیکسوں میں اضافہ کرنا ہوگا۔ معیشت کو آزاد کرنے کے نتیجے میں یورپی یونین کے ممالک سے یوکرین میں بڑے پیمانے پر اشیائے صَرف ڈمپ کی جائیں گی۔ ایسا ہوا تو یوکرین میں مینوفیکچرنگ کا شعبہ کمزور پڑ جائے گا۔ اس کی برآمدات سُکڑ جائیں گی۔ اگر ڈی ریگیولیشن کی پالیسی اپنائی گئی تو یوکرین میں بھی نجکاری کا سلسلہ چل پڑے گا۔ اس کے نتیجے میں ادارے مضبوط ہونے کے بجائے مزید کمزور ہوجائیں گے۔
یورپی یونین کی طرف سے مدد کا ہاتھ بڑھائے جانے پر یوکرین میں جو کچھ ہوگا، اس کا اندازہ لگانے کے لیے کسی روحانی طاقت کی ضرورت نہیں۔ یونان اور قبرص میں جو کچھ ہوا، وہ سب کے سامنے ہے۔ مشرقی یورپ میں لیٹویا اور سلووینیا کی مثال سے اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ یوکرین میں کیا ہوگا۔
’’کامیابی‘‘ کا ماڈل
ٹائمو شینکو اور ان کے ساتھی یورپی یونین کی طرف دیکھنے کے عادی ہیں۔ وہ چاہیں گے کہ یوکرین کی معاشی حالت بہتر بنانے میں یورپی یونین اپنا کردار بروقت اور عمدگی سے ادا کرے۔ یوکرین کے عوام اگر لیٹویا کی مثال سامنے رکھیں تو اچھی طرح اندازہ لگا سکتے ہیں کہ مستقبل کے دامن میں ان کے لیے کیا ہے۔ مشہور ماہرین معاشیات مائیکل ہڈسن اور جیفری سومرز نے ۲۰۱۲ء میں لکھا تھا: ’’یورپی یونین اور آئی ایم ایف کے بیل آؤٹ پیکیجز کی مدد سے لیٹویا میں مکمل معاشی تباہی کو روکا تو جاسکا مگر ملک کا حال برا ہوگیا۔ صرف اشرافیہ نہیں بلکہ متوسط طبقے کے بہت سے لوگ بھی ملک سے نکل گئے۔ ملک میں بہت بڑے پیمانے پر نقل مکانی ہوئی۔ ماہرین نے اندازہ لگایا ہے کہ بہت کم مدت میں کم و بیش ۲ لاکھ افراد ملک چھوڑ چکے ہیں۔ یہ آبادی کا ۱۰ ؍فیصد ہے۔ لیٹویا میں ایک طرف تو سادگی اپنائی گئی یعنی سرکاری شعبے کے بیشتر اخراجات میں غیر معمولی کٹوتی کی پالیسی اپنائی گئی اور دوسری طرف نیو لبرل ازم آیا جس کے نتیجے میں نجی شعبے کو تقویت ملی۔ بہت سے سرکاری ادارے نجی شعبے کے ہاتھ میں چلے گئے۔ معاشی بحران کے زمانے میں شرح پیدائش بھی گھٹ گئی۔ ملک میں ہر طرف غیر معمولی معاشی اور معاشرتی تبدیلیوں کا مشاہدہ کیا گیا۔ لوگوں پر شدید ذہنی دباؤ طاری ہوا جس کے نتیجے میں شراب نوشی کا رجحان پنپ گیا۔ شراب پی کر گاڑی چلانے کے نتیجے میں حادثات کی شرح بڑھ گئی اور خودکشی کا رجحان بھی تیزی سے پروان چڑھا۔ اس وقت لیٹویا کا شمار یورپ کے ان ممالک میں ہوتا ہے جہاں خود کشی کی شرح خطرناک حد تک بلند ہے۔ ایک طرف پولیس کے بجٹ میں کٹوتی کی گئی ہے اور دوسری طرف بے روزگاری بڑھی ہے، جس کے نتیجے میں جرائم کی شرح بھی بلند ہوتی جارہی ہے۔ ان تمام باتوں سے زیادہ خطرناک امر یہ ہے کہ ملک سے ذہین افراد کا انخلا جاری ہے۔ بلیو کالر جاب کرنے والے بہتر امکانات کی تلاش میں ملک چھوڑ رہے ہیں۔ معیشت کی بہتری کے لیے کام کرنے والے مشکل سے میسر ہو پارہے ہیں۔
بہت سے لوگ یہ سوچتے ہیں کہ یورپ کی طرف سے دیے جانے والے بیل آؤٹ پیکیجز ملک میں خوش حالی لائیں گے۔ مگر یہ محض خام خیالی ہے، فریبِ نظر ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ بیل آؤٹ پیکیجز سے افلاس اور بیروزگاری میں اضافہ ہوتا ہے۔ یوکرین میں اس کا ابھی سے مشاہدہ کیا جاسکتا ہے، بالخصوص مغربی حصوں میں۔ کوئی بھی آسانی سے اندازہ لگا سکتا ہے کہ اعلیٰ تعلیم یافتہ اور معیشت کے لیے ریڑھ کی ہڈی سمجھے جانے والے افراد مواقع ملتے ہی ملک سے نکل جانے کو ترجیح دیں گے۔ جن میں قائدانہ صلاحیت پائی جاتی ہے، وہ ملک میں رہنے کو ترجیح دینے کے لیے تیار نہیں۔ جن کے ہاتھ میں ملک کی باگ ڈور ہے، وہ امریکا اور یورپ کی طرف دیکھ رہے ہیں اور وہ یوکرین کی طرف اُسی نظر سے دیکھ رہے ہیں، جس نظر سے کوئی گِدھ کسی لاش کو دیکھتا ہے۔ یوکرین میں یانوکووچ دور میں جو بدعنوانی اور نااہلی دکھائی دی، وہ یورپ اور امریکا کے لیے من کی مراد بر آنے کے مترادف تھی۔
یورپ جس لبرلائزیشن کا مطالبہ کر رہا ہے، وہ اسٹاک مارکیٹ کے سَٹّہ بازوں کے لیے انتہائی خوشگوار حالات پیدا کرے گی۔ مگر اس کیفیت کا فائدہ ملک کے لوگوں کو شاید ہی کم مل پائے گا۔ ملازمت کے کم ہی مواقع پیدا ہوسکیں گے۔ ملک کی بہترین زمین غیر ملکی اداروں اور لینڈ گریبرز کو فروخت کردی جائے گی۔ ملک کے وسائل کی ایسی نجکاری ہوگی کہ عوام کے ہاتھ میں غربت رہ جائے گی یا بیروزگاری۔ زرعی شعبے پر دباؤ میں اضافہ ہوگا، جس کے نتیجے میں دیہی آبادی زیادہ سے زیادہ مسائل کا شکار ہوگی اور شہروں پر دباؤ بڑھتا جائے گا۔ افلاس کی سطح بلند ہوتی جائے گی۔ یہ ہے یوکرین میں متوقع ’’کامیابی‘‘ کی تصویر۔ جب کامیابی ایسی ہے تو، سوچیے کہ ناکامی کیسی ہوگی۔
سلووینیا بھی مشرقی یورپ کا ملک ہے اور وہاں بھی وہی کچھ ہوا ہے جو لیٹویا میں ہوا ہے۔ یورپی یونین کے بیل آؤٹ پیکیجز نے صرف خرابیاں پیدا کیں۔ حالت یہ ہے کہ اب ملک کی معیشت پھر ڈانوا ڈول ہے۔ یورپ میں اقتصادی تعاون و ترقی کی تنظیم او ای سی ڈی نے حال ہی میں ایک رپورٹ میں کہا ہے کہ اگر انقلابی نوعیت کے اقدامات نہ کیے گئے تو ملک کی معیشت دوبارہ اپنے پیروں پر کھڑی نہ ہوسکے گی۔ بینکنگ سیکٹر کو دوبارہ اپنے پیروں پر کھڑا کرنا لازم ہے۔ ایسا نہ کیا گیا تو پوری معیشت نیچے آ رہے گی۔
او ای سی ڈی نے تمام بینکوں کی نجکاری کو بھی لازم قرار دیا ہے۔ اور مزے کی بات یہ ہے کہ اس کے باوجود اس امر کی کوئی ضمانت نہیں دی جارہی کہ سلووینیا کی معیشت دوبارہ اپنے پیروں پر کھڑی ہوسکے گی۔ سلووینیا کے لوگوں پر زور دیا جارہا ہے کہ وہ زیادہ سے زیادہ قربانیاں دیں۔ یورپی یونین سے تال میل بڑھانے کے لیے انہیں بہت کچھ داؤ پر لگانا پڑے گا۔ مغربی یورپ کے ساتھ مل بیٹھنے کے لیے ایسا کرنا لازم ہے۔
یوکرین انتہائی خطرناک دو راہے پر کھڑا ہے۔ معیشت تباہی کے دہانے تک پہنچ چکی ہے۔ سیاسی قیادت اب انتہا پسندوں کے ہاتھ میں ہے، جو نئے نازیوں کے آئیڈیلز اور فاشسٹ نظریات کی گود میں بیٹھے ہیں۔ معاشرتی ڈھانچا بھی تباہی سے دوچار ہے۔ ملک کا ہر خطہ اپنے مسائل کے لیے مقامی نوعیت کا حل تلاش کر رہا ہے۔ قومی سوچ رفتہ رفتہ مٹتی جارہی ہے۔ جن سے کسی بہتری کی توقع ہے وہ صرف ڈالر دیکھ رہے ہیں۔ اِس سے آگے انہیں کچھ بھی دکھائی نہیں دے رہا۔
(ایرک ڈریسٹر stopimperialism.com کے بانی اور خود مختار تجزیہ کار ہیں)
(“Ukraine’s sickness and Europe’s cure: Neo-Liberalism and Neo-Fascism join hands”… “globalresearch.ca”. Feb. 25, 2014)
Leave a Reply