اچھا ہے کہ زخم مندمل ہوں!

محمد عمر داؤد زئی کو پاکستان میں افغانستان کا سفیر تین ماہ قبل مقرر کیا گیا تھا۔ وہ صدر حامد کرزئی کے چیف آف اسٹاف اور ایران میں سفیر کی حیثیت سے بھی خدمات انجام دے چکے ہیں۔ نیوز ویک کے سمیع یوسف زئی نے اسلام آباد میں عمر داؤد زئی سے پاک افغان تعلقات اور دیگر امور پر تبادلہ خیال کیا۔ اس انٹرویو سے اقتباسات پیش خدمت ہیں۔


٭ آپ کا کہنا ہے کہ پاک افغان تعلقات کا ایک نیا باب شروع ہوا ہے۔ تجارت پر تو بات ہوئی ہے مگر حقانی نیٹ ورک اور دیگر حساس امور پر اب تک زیادہ بات نہیں ہوئی۔ ایسا کیوں ہے؟

عمر داؤد زئی: پاک افغان تعلقات بہتر بنانے کے حوالے سے ہر معاملے پر بات ہوئی ہے۔ ہم چاہتے ہیں کہ تجارت اور سیکورٹی سمیت تمام امور پر کھل کر بات ہو اور غلط فہمیاں دور کی جائیں۔ طالبان سے مفاہمت کے حوالے سے بھی پاکستان سے گفت و شنید ہوئی ہے۔ پاکستان نے واضح کردیا ہے کہ طالبان سے مفاہمت کے عمل کی قیادت افغان حکومت کو سنبھالنی چاہیے اور انہیں جو بھی مدد درکار ہے، پاکستان سے براہ راست کہا جائے۔ ہم نے چند ایسے شعبوں کی نشاندہی بھی کردی ہے جن میں ہمیں پاکستان سے مدد درکار ہے۔

٭ مفاہمت کس نوعیت کی ہوگی اور کیا امریکا اور طالبان کے درمیان جاری بات چیت سے بھی پاکستان اور افغانستان جڑے ہوئے ہیں؟

عمر داؤد زئی: اب تک یہ واضح نہیں کہ مصالحت اور مفاہمت کے عمل کا حتمی نتیجہ کیا ہوگا۔ افغان عوام نے دس سال کے دوران جو کامیابیاں حاصل کی ہیں ان سے ہاتھ دھونا تو یقیناً پسند نہیں کریں گے۔ اب تک ہم طالبان سے براہ راست مذاکرات نہیں کر پائے ہیں اس لیے اندازہ نہیں کہ وہ چاہتے کیا ہیں۔ امریکا اور طالبان کے درمیان مذاکرات دراصل اب تک ابتدائی درجے کے رابطوں سے زیادہ کچھ نہیں۔ یہ بات اچھی طرح سمجھی جاسکتی ہے کہ امریکا یا نیٹو کا کوئی بھی اور رکن طالبان سے رابطے استوار کرسکتا ہے۔ جب یہ طے ہو جائے کہ جس سے رابطہ ہوا ہے وہ طالبان کی قابل اعتماد شخصیت ہے تب معاملہ افغانستان کی اعلیٰ امن کونسل کے حوالے کردیا جاتا ہے۔

٭ دس سال کی لڑائی کے بعد بھی طالبان خاصے مستحکم ہیں تو پھر انہیں بات چیت کی ضرورت کیا ہے؟

عمر داؤد زئی: معاملہ طاقتور یا کمزور ہونے کا نہیں بلکہ ملک میں مزید خوں ریزی روکنے کا ہے۔ ہم چاہتے ہیں کہ طالبان افغان عوام سے امن کا معاہدہ کریں، دوستی اور مفاہمت کو اپنائیں۔ افغان عوام نے تیس برسوں میں امن کی سب سے بلند قیمت اب ادا کی ہے۔ طالبان یقیناً اب صورت حال کو سمجھنا چاہیں گے۔ اب معاملات امریکا اور اتحادیوں کے ہاتھ میں نہیں ہوں گے بلکہ سیکورٹی کی ذمہ دار خود افغان حکومت ہوگی۔

٭ خطے کے لیے زیادہ خطرناک کون ہے؟ افغان طالبان یا تحریک طالبان پاکستان؟

عمر داؤد زئی: دونوں کے نظریات ایک ہیں تاہم طریق کار اور ہتھکنڈوں میں فرق ہے۔

٭ آپ نے کہا ہے کہ افغانستان میں دہشت گردی پاکستان نے نہیں کرائی۔ افغان عوام کی اکثریت اس کے برعکس سوچتی ہے۔

عمر داؤد زئی: ہم نے الزام تراشی کا کھیل ختم کردیا ہے۔ ماضی میں بہت سی غلطیاں سرزد ہوئیں۔ اب ہم زخموں کو مندمل کرنے کے عمل سے گزر رہے ہیں۔ اب مزید کوئی زخم نہیں لگانا۔ میں نے کہا تھا کہ بیشتر خود کش حملے پاکستانی مدارس کی پیداوار ہیں تاہم اس کا یہ مطلب نہیں کہ اس میں پاکستان کی حکومت یا ریاستی مشینری ملوث ہے۔

٭ کیا پاکستان کی یہ شکایت درست ہے کہ افغانستان میں موجود بھارتی بلوچستان لبریشن آرمی کا تحفظ اور ان کی مدد کر رہے ہیں؟

عمر داؤد زئی: افغان سرزمین سے ایسا کچھ نہیں ہو رہا۔ ہم نے واضح پالیسی اپنا رکھی ہے کہ افغان سرزمین کو کسی بھی ایسی سرگرمی کے لیے استعمال نہیں ہونے دیں گے جس سے پاکستان کو نقصان پہنچ سکتا ہو۔ اگر ٹھوس معلومات فراہم کی جائیں تو ہم خود کارروائی کریں گے۔

٭ وہ عسکریت پسند کون ہیں جو افغان سرحد عبور کرکے پاکستان میں فورسز کو نشانہ بنا رہے ہیں؟

عمر داؤد زئی: یہ لوگ پاک افغان دوستی اور دونوں ممالک کے عوام کے درمیان تیزی سے پنپتے ہوئے خیر سگالی کے رشتوں کے دشمن ہیں۔ حقیقت یہ ہے کہ ہم معاملات کو درست کرنا چاہتے ہیں اور بعض عناصر دوستی اور مفاہمت کی اس فضا کو تاراج کرنا چاہتے ہیں۔

٭ صدر حامد کرزئی اور ان کی ٹیم نے حال ہی میں پاکستان کے فوجی اور انٹیلی جنس چیفس سے ملاقات کی ہے۔ ایجنڈے پر کون سے نکات تھے؟

عمر داؤد زئی: انہوں نے خطے میں سلامتی اور استحکام یقینی بنانے سے متعلق دو طرفہ تعاون بڑھانے پر بات کی۔

٭ کیا افغانستان میں بھارت کے بڑھتے ہوئے اثر و رسوخ سے متعلق پاکستانی خدشات درست ہیں؟

عمر داؤد زئی: میڈیا نے اس معاملے کو مبالغے کی حد تک پہنچا دیا ہے۔ افغانستان کی ترقی اور استحکام میں بھارت نے جو کردار ادا کیا ہے اسے پاکستان بھی قدر کی نگاہ سے دیکھتا ہے۔

٭ افغانستان سے غیر ملکی افواج کے مکمل انخلاء کے لیے ۲۰۱۴ء کی ڈیڈ لائن حقیقت پسندانہ ہے؟

عمر داؤد زئی: سب کچھ ٹھیک چل رہا ہے۔ امریکا نے دس برسوں میں افغانستان کی جس قدر امداد کی ہے اس پر ہم اس کے شکر گزار ہیں۔ ہمیں امید ہے کہ طویل مدت تک یہ تعاون جاری رہے گا۔ ویسے افغانستان کو اپنی سیکورٹی کے لیے اپنے وسائل ہی پر انحصار کرنا چاہیے۔

(بشکریہ: ’’نیوز ویک پاکستان‘‘۔ ۸ جولائی ۲۰۱۱ء)

Be the first to comment

Leave a Reply

Your email address will not be published.


*