عالمِ اسلام کے صفِ اول کے مفکر، دانشور، فقیہ اور بزرگ اسکالر علامہ ڈاکٹر یوسف القرضاوی، مصر کے ظالم و جابر حکمراں کرنل جمال عبدالناصر کے دَور میں وہاں سے بے وطن ہو کر نکلے اور قطر میں آباد ہوگئے۔ درجنوں کتابوں کے مصنف ہیں۔ انہوں نے اپنی ایک کتاب اَیْنَ الْخَلَلْ میں، جو گزشتہ صدی کی آخری دہائی میں منظرِ عام پر آئی تھی، امتِ مسلمہ کی مجموعی صورتحال اور دنیا بھر کی اسلامی تحریکوں کے احوال کا بڑا عمدہ تجزیہ کیا ہے۔ اُن کی تنقیدآراء، تجزیوں، تبصروں، مشوروں اور تجاویز پر مشتمل یہ کتاب حال ہی میں اردو کے قالب میں ڈھل کر بیت الحکمت / کتاب سرائے لاہور کی جانب سے ’’بگاڑ کہاں؟‘‘ کے نام سے منظرعام پر آئی ہے۔ جناب میر زمان نے اس کا ترجمہ کیا ہے۔ ہم مصنفِ مکرم، مترجم اور پبلشرز کے شکریے کے ساتھ اس کتاب کے کچھ ابواب کا قسط وار ترجمہ یہاں شائع کرنے جارہے ہیں۔ آج اس کی پہلی قسط ملاحظہ فرمایئے۔ (مدیر)
مجلہ ’’الامت‘‘ عدد ۴۶ نے ڈاکٹر نعمان السامری کے مقالے ’’أین الخلل‘‘ کو جب سے شائع کرنا شروع کیا ہے تو گویا ایک ارتعاش سا پیدا ہوگیا ہے۔ میں نے اس وقت سے رسالۂ مذکور کو بڑے اہتمام اور باقاعدگی سے پڑھنا شروع کر دیا۔ اس موضوع کے مختلف گوشوں اور پہلوئوں کو اجاگر کرنے کے لیے مجلہ نے دانشوروں اور مفکروں کو اظہارِ خیال کرنے اور مباحثہ میں شریک ہونے کی دعوت دی۔ ان کی دعوت پر لبیک کہتے ہوئے میں نے بھی قلم پکڑا اور یوں بفضلِ تعالیٰ مجھے اپنا حصہ ڈالنے کا شرف حاصل ہوا۔
میری نظر میں یہ مسئلہ نہایت اہمیت کا حامل ہے اور اس پر خصوصی توجہ دینے اور مختلف پہلوئوں کو واضح کرنے کی ضرورت ہے، لہٰذا مفکرینِ اسلام کو وقت نکال کر ضرور اس کارِخیر میں حصہ لینا چاہیے۔ میں ذاتی طور پر بھی اس موضوع پر آج سے کچھ عرصہ قبل خامہ فرسائی کر چکا ہوں اور کچھ خیالات تحریر میں آچکے ہیں، لیکن ضرورت اس امر کی تھی کہ یہ سلسلہ باقاعدگی سے چل پڑے اور درمیان میں تعطل یا توقف کی صورت حال پیدا نہ ہو۔
اصل موضوع کی طرف آنے سے قبل ایک بات واضح کردوں کہ مسئلہ زیر بحث کی تحدید اور تعیین کر لینا ضروری ہے، جس کا حل پیش کرنا مدنظر ہے۔ یعنی یہ کہ مسئلہ یا قضیہ ہے کیا؟ یعنی ’’خلل‘‘ (بگاڑ) سے ہمارا کیا واسطہ ہے؟ اس صورتحال کو ہم چند سوالات کے ذریعے واضح کر سکتے ہیں مثلاً… کیا ہم خلل کو صرف تلاش کرنا چاہتے ہیں؟ یا یہ کہ خلل تلاش کیا جاچکا ہے اور اب ہم اس خلل کو درست کرنا چاہتے ہیں۔ دوسرے الفاظ میں یوں کہہ لیں… کیا بیماری کی تشخیص کی راہ میں کوئی سنگِ گراں حائل ہے یا علاج تجویز کرنے میں کسی دقت کا سامنا ہے؟ یا یہ کہ مسئلے کو واقعی یقینی سمجھا جائے اور اس پر دماغ سوزی کی جائے (جو کہ بڑا صبر آزما عمل اور سخت کڑوا گھونٹ ہے) یا نہیں؟
کیا ہماری مشکل یہ ہے کہ کوئی باصلاحیت و ماہر طبیب ہی موجود نہیں جو اس مرض کی نشاندہی کر سکے؟ یا کیا وہ دوا ہی ناپید ہو چکی ہے جو اس مرض کو جڑ سے ختم کر سکے؟ یا یہ کہ خود مریض کی حالت ہی یہ ہوچکی ہے کہ اب اسے کوئی دوا فائدہ نہیں پہنچا سکتی اور کوئی علاج کارگر نہیں ہوسکتا؟
دوسرے نمبر پر یہ غور کرنا ہوگا کہ ہم جس دائرے میں ’’خلل‘‘ (بگاڑ) کو تلاش کرنا چاہتے ہیں اس کی حدود کہاں کہاں تک پھیلی ہوئی ہیں؟ یعنی کیا یہ خلل پوری امت مسلمہ میں بلحاظ جغرافیہ مکمل طور پر پھیل چکا ہے جس کے حصار میں پوری امت آچکی ہے؟ یا یہ کہ خلل کا دائرہ صرف تحریک اسلامی تک پھیلا ہوا اور ہمیں اس سے باہر دیکھنے یا جھانکنے کی ضرورت نہیں ہے؟ یا یہ کہ دائرہ اتنا وسیع ہے کہ اس کی لپیٹ میں پوری امت اسلامیہ بمع تحریک اسلامی کے آچکی ہے؟
میرے پوچھنے کا مطلب یہ ہے کہ یہ مریض ہے کون جس کا علاج کرنا مقصود ہے، جس کی بیماری کی تشخیص کرنا اور پھر علاج بتانا مطلوب ہے؟
خلل دراصل خلل نہیں:
یہ مسئلہ جسے ہم خلل کے لفظ سے تعبیر کر رہے ہیںاصل میں یہ خلل ہے ہی نہیں بلکہ اصل بات یہ ہے کہ امت مسلمہ میں احساس ذمہ داری کا فقدان ہے۔
یوں اگر لفظِ خلل کو لے لیا جائے تو اس کا مطلب یہ ہوتا ہے کہ نشانہ اپنے ہدف پر لگ چکا اور بیماری کی جڑ پکڑ لی گئی۔ اس کے بعد تو راستہ ہموار ہو جاتا ہے اور منزل تک پہنچنے کے لیے ذریعہ میسر آجاتا ہے۔ لیکن جب خلل کو ڈھونڈتے ڈھونڈتے خود واسطہ یا ذریعہ ہی آدمی کو الجھا کر رکھ دے تو…؟
اس بات کو سمجھنے کے لیے ذرا ایک ایسے طالب علم کی مثال سامنے رکھیے جو حصولِ علم کے لیے سفر کرنا چاہتا ہے۔ اسے پتہ بھی چل گیا تھا کہ وہ کون سا علم حاصل کرے گا اور کون سے ملک جائے گا، جانے کے لیے کون سا راستہ اختیار کرے گا، لیکن جس کار کے ذریعے وہ سفر جاری رکھے ہوئے تھا وہ اچانک خراب ہوگئی اور رک گئی۔ ظاہر ہے کہ اس میں ’’خلل‘‘ واقع ہو چکا ہے جس کی وجہ سے کار معطل ہو کر رہ گئی ہے، لیکن یہ معلوم نہیں کہ خلل کہاں واقع ہوا ہے؟ کیا آپریٹر میں خلل پیدا ہوا ہے یا انجن میں؟ یا اس کے علاوہ کسی تیسرے حصے میں؟ اب اس امر کی ضرورت ہے کہ خلل کا تعین کیا جائے۔ جب خلل کی جگہ مل گئی تو اس کا سبب بھی مل سکتا ہے، جب سبب مل گیا تو علاج بھی سوچا جاسکتا ہے۔
اس مثال کو جب ہم اُمّتِ مسلمہ پر منطبق کر کے اس کا مطالعہ یا تحقیق کرتے ہیں تو معاملے کی نوعیت خلل سے کہیں بڑھ کر گھمبیر اور عمیق دکھائی دیتی ہے، اور ہمیں واضح طور پر نظر آتا ہے کہ یہاں جس چیز کا فقدان ہے وہ فقدان ہے احساسِ ذمہ داری کا!! فقدان ہے ذاتی پہچان کا!! یہ تو نام ہے اپنی منزل اور ہدف سے بھٹکنے کا، بلکہ اس سے بھی دو قدم آگے یہ نام ہے راستے کے گم ہو جانے کا!!
امت جو اپنے آپ کو بھی بھول چکی:
جب ہم اپنی اُمت کو قرآن کی روشنی میں تلاش کرتے ہیں تو وہ اُمت نظر ہی نہیں آتی جس کا وصف قرآن نے بیان کیا ہے بلکہ جو کچھ ہمیں دیکھنے کو ملتا ہے اس کے پیشِ نظر تو وہ اس کے برعکس ایک دوسری ہی قسم کی اُمت نظر آتی ہے۔ مثلاً:
٭ قرآن کریم نے جب بہترین اُمت کا ذکر کیا تو فرمایا کہ یہ اُمت اس لیے بہترین ہے کہ یہ اچھائی کا حکم دیتی اور برائی سے منع کرتی ہے اور اپنے رب پر ایمان رکھتی ہے۔ فرمایا:
کُنْتُمْ خَیْرَ اُمَّۃٍ اُخْرِجَتْ لِلنَّاسِ تَاْمُرُوْنَ بِالْمَعْرُوْفِ وَ تَنْہَوْنَ عَنِ الْمُنْکَرِ وَ تُؤْمِنُوْنَ بِاﷲِ… (آل عمران: ۱۱۰)
’’اب دنیا میں وہ بہترین گروہ تم ہو جسے انسانوں کی ہدایت اور اصلاح کے لیے میدان میں لایا گیا ہے۔ تم نیکی کا حکم دیتے ہو، بدی سے روکتے ہو اور اللہ پر ایمان رکھتے ہو‘‘۔
مگر آج ہماری امت (اِلَّآ مَنْ رَّحِمَ رَبُّکَ) ’’مَعْرُوْف‘‘کا حکم نہ دینے والی اور ’’منکر‘‘ سے نہ روکنے والی بن چکی ہے، بلکہ اس کا احساس اور اس کی پہچان ہی کھو چکی ہے۔ ایسے لوگ بھی بکثرت پائے جاتے ہیں جو منکر کی طرف بلاتے اور بھلائی سے روکتے ہیں۔ اس امت کو ایسے فتنے نے گھیر لیا ہے کہ عقل مند آدمی دیکھ کر ہی ششدر رہ جاتا ہے۔
٭ ہماری امت کو تو اللہ تعالیٰ نے قرآن کریم میں امتِ وَسَطْ کے لقب سے متصف کیا تھا۔ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ملاحظہ ہو:
وَ کَذٰلِکَ جَعَلْنٰکُمْ اُمَّۃً وَّسَطًا…(البقرۃ:۱۴۳)
’’اور اسی طرح تو ہم نے تم مسلمانوں کو ایک امتِ وَسَطَ بنایا ہے‘‘۔
لیکن آج ہماری اُمت درمیانی طریقے کو یعنی اُمتِ وسط ہونے کے منصب کو یکسر ترک کر چکی ہے اور اپنی جگہ چھوڑ کر دائیں بائیں بھٹک رہی ہے۔ کبھی دائیں بازو سے چمٹتی ہے اور کبھی بائیں بازو سے، کبھی مشرق سے رشتہ جوڑتی ہے اور کبھی مغرب سے۔ دراصل یہ اُمت صراطِ مستقیم سے ہی بھٹک گئی ہے جس پر قائم رہنے والے تو وہ بلند مرتبت انسان تھے جن پر اللہ تعالیٰ نے انعامات کیے (انبیاء، صدیقین، شہداء) اُمت نے انبیاء کے انعامات والا راستہ چھوڑ کر ان لوگوں کا راستہ اختیار کر لیا ہے جن پر اللہ تعالیٰ نے غضب کیا تھا یا پھر ان کا راستہ اختیار کیا ہوا ہے جن کو اللہ تعالیٰ نے گمراہ کیا تھا۔ یہ اُمت غیروں کے راستے پر قدم بقدم بڑھتی جارہی ہے۔
٭ اس اُمت کو اللہ تعالیٰ نے اُمتِ واحدہ کی صفت سے موصوف کیا تھا، چنانچہ فرمایا:
اِنَّ ہٰذِہِ اُمَّتُکُمْ اُمَّۃً وَّ احِدَۃً وَّ اَنَا رَبُّکُمْ فَاعْبُدُوْنِo (الانبیاء: ۹۲)
’’بے شک یہ آپؐ کی اُمت، اُمتِ واحدہ ہے، اور میں تمہارا رب ہوں، پس میری ہی عبادت کرو (دوسروں کی طرف نہ جھکو)‘‘۔
لیکن آج یہ اُمت، اُمتِ واحدہ نہیں رہی جیسا کہ اللہ تعالیٰ چاہتا تھا، بلکہ یہ اب کئی ’’اُمتوں‘‘ کا آمیزہ اور مرکب بن چکی ہے، جیسا کہ استعماری قوتیں چاہتی ہیں۔ ایسی ’’اُمتوں‘‘ کا مجموعہ جو ایک دوسرے کی دشمن اور باہم دست بگریبان ہیں۔
خلاصۂ کلام یہ ہے کہ ہماری اس اُمت نے اب اللہ تعالیٰ کو بھلا دیا ہے۔ اس لیے اللہ تعالیٰ نے بھی اس کو نظرانداز کر دیا ہے، جیسا کہ ارشاد باری تعالیٰ ہے:
وَ لَا تَکُوْنُوْا کَالَّذِیْنَ نَسُوا اللّٰہَ فَاَ نْسٰہُمْ اَنْفُسَہُمْ… (الحشر:۱۹)
’’ان لوگوں کی طرح نہ ہو جائو جنہوں نے اللہ کو بھلا دیا تو اللہ نے بھی انہیں بھلا دیا‘‘۔
حق بات یہ ہے کہ اس اُمت کے وجود کی اسلام کے بغیر کوئی معنویت و مقصدیت ہی نہیں۔ اسلام کو اُمت سے الگ کر کے نہ اس کی نصرت و فتح کوئی معنی رکھتی ہے، نہ اس کی وحدت کوئی وزن رکھتی ہے۔ نہ اسلام کے بغیر اس کی کوئی عزت ہے، جیسا کہ امیر المومنین حضرت عمر فاروقؓ فرماتے ہیں:
نَحْنُ کُنَّا أذَلَّ قَومٍ فَأَعَزَّنَا اللّٰہُ بِالْاِسْلَامِ، فَہَمَا نَطْلُبَ العِزَّ بِغَیْرِہٖ أَذَلَّنَا اللّٰہُ۔
’’ہم ذلیل ترین قوم تھے، اللہ تعالیٰ نے اسلام کے ذریعے ہمیں عزت دی۔ پس اسلام کو چھوڑ کر ہم جتنے عزت والے بننا چاہیں گے اللہ تعالیٰ اتنا ہی ذلیل کرے گا‘‘۔
مادّی ترقی اور ہماری اُمّت:
جب ہم اپنی امت کو موجودہ دور کی مادی ترقی اور دنیاوی خوشحالی کے آئینے میں دیکھتے ہیں تو یہ سب سے پیچھے نظر آتی ہے۔ یہ امت ابھی تک اقتصادی اور عسکری میدان میں دوسری قوموں کی زیر کفالت ہے۔ اس نے اپنی پیداوار میں اتنا اضافہ نہیں کیا جو اسے زندہ رہنے میں مدد دے سکے اور نہ قابل ذکر اسلحہ تیار کیا جس سے یہ اپنے وجود اور اپنی عزت و آبرو کا دفاع کر سکتی۔
ترقی و تقدم کے اس انتہائی آخری موڑ پر بھی مسلمان، یا تو زراعت میں پھنسے ہوئے ہیں یا گائے کی دُم سے لٹکے ہوئے ہیں۔ (جیسا کہ حدیث نبویﷺ میں آیا ہے) مگر تعجب ہے کہ زراعت انہیں دانہ دُنکا مہیا کرنے سے قاصر ہے اور گائے دودھ دینے سے انکاری ہے اور یہ امت بالآخر دودھ اور دانہ بھی دوسروں سے درآمد کرنے پر مجبور ہے۔
اُمّت جس کی تمام قوتیں معطل ہیں:
اُمتِ اسلامیہ کے لیے سب سے بڑی مصیبت یہ ہے کہ اس کی تمام قوتیں اور وسائل تعطل کا شکار ہیں حالانکہ اس کے پاس وسائل انتہائی وسیع اور متنوع ہیں۔ کہنے کا مطلب یہ نہیں کہ یہ وسائل کلی طور پر مفلوج ہو چکے ہیں بلکہ جزوی طور پر ایسا ہوا ہے، کیونکہ ہماری امت اپنے تمام وسائل کو استعمال میں نہیں لاتی۔ اگر ان سے کام لے کر استعمال کیا جاتا تو ممکن تھا کہ وہ اپنی اس کمی کو پورا کر سکتی جو اسے (غفلت اور نیند کے زمانے میں) لاحق ہوئی تھی۔ اس طرح وہ موجودہ عالمی دوڑ میں شامل ہو سکتی تھی جس کے لیے اب کئی گنا زیادہ زور لگانے کی ضرورت پڑے گی۔ لیکن ہماری اُمّت اپنے مجموعی وسائل کا آدھا حصہ بھی استعمال میں نہیں لارہی، چوتھائی بھی نہیں، پانچواں بھی نہیں، بلکہ دسواں حصہ بھی نہیں۔ اس کے پاس سب سے زیادہ ارزاں چیز اس کا ’’وقت‘‘ ہے اور اس پر سب سے زیادہ بھاری اور بوجھل چیز ’’عمل‘‘ یعنی کام کرنا ہے اور سب سے کم قیمت والی اور بے وقعت چیز ’’انسان‘‘ ہے۔
ہماری عقلی قوتیں معطل ہیں:
ہماری عقلی قوتیں بھی جمود و تعطل کا شکار ہیں۔ کیونکہ ہم تقلید کرتے ہیں، اجتہاد نہیں کرتے۔ روایت سے کام لیتے ہیں، تجدید نہیں کرتے۔ نقل کرتے ہیں، ایجاد نہیں کرتے۔ حفظ کر کے رَٹّا لگاتے ہیں، تفکر اور تدبر نہیں کرتے۔ دوسروں کے افکار کو نافذ کرتے ہیں، خود نہیں سوچتے۔ ایسے مفکرین سے خیالات مستعار لیتے ہیں جو بے شک اغیار ہی ہوں۔
یہ صورتحال نہ صرف ہمارے روایتی علوم تک محدود ہے (جیسا کہ گمان کیا جاتا ہے) بلکہ علوم طبیعیات اور ریاضیات تک یہی کیفیت ہے۔ ہماری بے بسی کی بڑی مثال یہ ہے کہ اہل مغرب اپنی تفکیر کو استعمال کرتے ہیں اور ہمارے لیے اختراعات و ایجادات کرتے ہیں! تو گویا وہ اکتشافات و ایجادات کرنے والے اور ہم ترجمہ کرنے والے ٹھہرے!!
ہمارے لیے اس سے بڑھ کر اور کیا عار ہو سکتی ہے کہ بیس اسلامی ممالک کے اندر تمام سائنسی علوم غیر ملکی اجنبی زبان میں پڑھائے جاتے ہیں، یہ ممالک اپنی عاجزی اور بے بضاعتی کا برملا اعتراف یوں کرتے ہیں کہ ہم اپنی زبان (عربی، اردو وغیرہ) میں پڑھا نہیں سکتے۔ دوسری طرف اسرائیل کو دیکھیں (جس کا کوئی واضح نقشہ بھی نظر نہیں آتا) اور چند ملین آبادی کا ملک ہے لیکن پھر بھی اپنے باشندوں کو عبرانی زبان میں تمام علوم پڑھاتا ہے!! (عبرانی یہودیوں کی قومی زبان ہے)
حتیٰ کہ انسانی علوم جن کا تعلق کسی قوم کے عقائد، روایات اور ثقافت سے ہوتا ہے، جن سے کسی قوم کے ان نظریات کی عکاسی ہوتی ہے جو وہ کائنات کی تکوین، انسان کی آفرینش، زندگی کی حقیقت اور انجام، معرفت اور اس کے مآخذ و مصادر وغیرہ کے متعلق اختیار کرتی ہے۔ لیکن اس کے باوجود ہم یہ تمام علوم و معارف مغرب سے جوں کے توں حرف بہ حرف نقل کر رہے ہیں اور جس مکتب فکر نے جس انداز میں ان نظریات کو ڈھالا ہوتا ہے اسی پیرائے میں ہم قبول کر لیتے ہیں۔
دراصل مغرب سے درآمد شدہ یہ علوم اُسی درخت کی شاخیں ہیں جس پر مادیت کا رنگ چڑھا ہوا ہے اور اسے قرآن کریم حتیٰ کہ تورات و انجیل نے شجر ملعونہ سے موسوم کیا ہے۔ اس تقلیدی عقل کی روشنی میں ہمارے تمام نظم ہائے تعلیم پرورش پارہے ہیں۔
آپ دیکھ سکتے ہیں کہ ہماری دنیا کی طاقتور ترین قوم امریکا، اپنے بچوں کو دی جانے والی ناقص تعلیم کی وجہ سے خطرے کے آخری کنارے پر پہنچ چکی ہے۔ کیونکہ خود امریکا پکار پکار کر دُہائی دے رہا ہے کہ اسے آئندہ آنے والے خطرے سے بچایا جائے جو اس کے تعلیمی میدان میں نمودار ہونے والا ہے۔ امریکیوں کے چاند پر چڑھ جانے اور فضائے نیلگوں کو مسخر کر لینے کا مطلب یہ نہیں کہ وہ زمینی معاملات سے اندھے ہو چکے ہیں اور اپنی نسل میں پائی جانے والی کمزوریوں کو بھانپ نہیں سکتے۔
دوسری جانب ہم ہیں کہ اپنے معاشروں میں تعلیمی معیار کی خرابیاں اپنی آنکھوں سے دیکھ اور محسوس کر رہے ہیں اور صورتحال انتہائی شرمناک ہوچکی ہے۔ لیکن پھر بھی ہم خاموش تماشائی بنے ہوئے ہیں یا غیر ضروری کاموں میں مشغول ہیں یا جان بوجھ کر ٹال مٹول سے کام لے رہے ہیں۔
ہمارے تعلیمی نظام ملازم تو تیار کرتے ہیں، لیکن علماء یا سائنس دان نہیں۔ مطالعے کو لیجیے… ہم تو پڑھنا یا مطالعہ کرنا پسند ہی نہیں کرتے، کیونکہ مطالعہ ہم سے تفکر اور جُہد کا تقاضا کرتا ہے۔ تب جاکر آدمی کچھ سمجھ سکتا ہے یا غور کر سکتا ہے۔ مگر سستی اور آرام ہمارے نظامِ فکر میں شہد سے بھی میٹھے قرار پاتے ہیں (یہ صفت عرب مسلمانوں میں آج بھی بہت عام ہے جو نماز فجر کے بعد سو جاتے ہیں اور ۹ بجے اٹھتے ہیں۔ صبح کی نیند انہیںکھانے سے بھی زیادہ محبوب ہے۔ مترجم)۔ ایک یہودی مفکر ’’موشی دان‘‘ نے (جس کی قومِ یہود نے سخت الفاظ میں مذمت اور ملامت کی ہے، کیونکہ اس نے اپنی قوم کی بعض سازشوں اور منصوبوں کا بڑی صراحت کے ساتھ انکشاف کر دیا تھا۔ اس پر قوم نے خدشہ ظاہر کیا کہ اگر یہ منصوبے عرب قوم کی نظر میں آگئے تو ہمارے تمام منصوبے وقت سے پہلے ہی منظر عام پر آجائیں گے) بڑے اعتماد کے ساتھ کہا: ’’آپ اطمینان رکھیں عرب قوم مطالعہ نہیں کرتی‘‘!! تعجب ہے اُس قوم پر کہ جس کی کتاب میں سب سے پہلی نازل ہونے والی آیت میں مطالعے کا حکم دیا گیا ہے ’’اقراء‘‘ یعنی پڑھو۔ لیکن اس کے باوجود یہ قوم پڑھتی نہیں۔ فرض کیا اگر پڑھ ہی لے تو اسے سمجھتی نہیں۔ اگر خدانخواستہ اسے سمجھ لے تو اس پر عمل ہی نہیں کرتی۔ اگر کبھی کبھار عمل بھی کر لے تو اس عمل کو دوامی حیثیت سے جاری نہیں رکھتی!!
اللہ تعالیٰ نے اسلام کو حِسّی معجزے کے بجائے عقلی اور ادبی معجزے کی شکل میں پیش کرنا پسند کیا (سابقہ انبیاء کے دور میں حِسّی معجزات کی شکل تھی)۔ کیونکہ دین میں عقل و فہم کی شان کو بلند کرنا مقصود تھا۔ اسی نازل ہونے والی کتاب قرآن مجید میں اس کی مثالیں دیکھیں۔
اللہ تعالیٰ نے اس کے اندر بے وقوفوں اور بے عقلوں کو خطاب کرنے کے بجائے اولی النہیٰ (عقل مند) اور أُولی الالباب (عقل مند) کو خطاب کیا ہے۔ اللہ تعالیٰ نے جب مسلمانوں کے لیے مشرکین و یہود اور دوسرے دشمنوں کے مقابلے میں فتح پانے کا ذکر کیا تو بتایا کہ فتح حاصل کرنے کا سبب یہ ہے کہ تمہارے دشمن ایسی قوم ہیں جو قَوْمٌ لَّا یَعْقِلُوْنَ اور قَوْمٌ لَّا یَفْقَہُوْنَ ہیں۔ (یعنی عقل و فہم سے درست کام نہ لینے والے)۔
معلوم ہوا کہ مسلمان، قومِ یَعْقِلُوْنَ اور قومِ یَفْقَہُوْنَ ہوتے ہیں۔ یعنی ایسی قوم جو عقل وفہم سے کام لیتے ہیں۔ اس کے مقابلے میں کٰفِرُوْن ومُشْرِکُوْن ویَہُوْدِیًّوْنَایسی قومیں ہیں جو عقل و فہم سے کام نہیں لیتیں۔ مگر آج صورتحال بالکل مختلف ہے۔ آج مسلمان وہ وصف اپنائے ہوئے ہیں جو کبھی مشرک اور کافر اپنائے ہوئے تھے۔ آج کے مسلمان قَوْمٌ لَّا یَعْقِلُوْنَ اور قَوْمٌ لَّا یَفْقَہُوْنَ کی تصویر بنے ہوئے نظر آتے ہیں۔
اس کی وجہ یہ ہے کہ جو کام یہود و نصاریٰ کا تھا، وہ آج مسلمانوں نے اختیار کر لیا ہے۔ آج کا مسلمان کتاب اللہ کی آیات کو سمجھنے کی کوشش ہی نہیں کرتا، وہ آیات جو کائنات میں مختلف نشانیوں کا مشاہدہ کراتی ہیں۔ کائنات ایک خاموش کتاب ہے، جس میں اللہ تعالیٰ کی ایسی آیات ہیں جو مشاہدہ کی دعوت دیتی ہیں۔ مگر مسلمان آنکھ کان بند کیے رہتے ہیں اور انہیں پڑھنے کی کوشش ہی نہیں کرتے۔ یہی آیات ہمیں اللہ کی اس کتاب میں ملتی ہیں جو بولنے والی کتاب ہے، یعنی قرآن مجید، جسے اللہ تعالیٰ نے نازل کیا اور بیان سے واضح کیا لِقُوْمٍ یَفْقَہُوْنَ اور لِقَوْمٍ یَعْقِلُوْنَ ] سمجھنے اور عقل والی قوم کے لیے[
ہم نے اللہ کے دین میں ایجادات شروع کر رکھی ہیں، یعنی بدعات۔ جبکہ دین میں ایجادات (بدعات) ضلال اور گمراہی ہیں۔ لیکن دنیاوی معاملات میں ہم پر جمود طاری ہے۔ دنیوی معاملات میں جمود کی نمایاں ترین شکل جہالت ہے۔ حالانکہ ہمارے لیے مناسب یہ تھا کہ ہم موجودہ روش کے برعکس کرتے۔ یعنی دین کے معاملے میں اتباع کا راستہ اختیار کرتے اور دنیا کے معاملے میں ابتداع کا راستہ اپناتے۔ اس لیے کہ دین کی روح اقتداء و اتباع ہے جبکہ دنیاوی معاملات کی روح ایجاد و ابتکار ہے۔
ہماری عمل کی قوتیں معطل ہیں:
اللہ تعالیٰ نے ہمیں صرف عمل کے لیے پیدا کیا تھا، لیکن اس کے باوجود ہماری تمام عملی قوتیں تعطل کا شکار ہیں۔ بلکہ انسان کے پیدا کرنے کا مقصد ہی یہ تھا کہ کون ہم میں سے اچھا عمل کرتا ہے۔
لِیَبْلُوَکُمْ اَیُّکُمْ اَحْسَنُ عَمَلًا… (الملک: ۲)
’’تمہیں اس لیے پیدا کیا کہ دیکھ سکے کہ تم میں اچھا عمل کرنے والا کون ہے‘‘۔
قرآن کی اس آیت میں ایک گہرا مفہوم پنہاں ہے۔ اللہ تعالیٰ نے ایک بات کو اس طرح تعبیر کیا ہے کہ جس کے اندر دعوت بھی ہے اور دلیل بھی ہے۔ آیت کا مطلب یہ نہیں کہ اللہ تعالیٰ تمہارے اچھے اور برے عمل میں تمیز یا فرق دیکھنا چاہتا ہے کہ کون اچھا عمل کرتا ہے اور کون برا عمل کرتا ہے۔ بلکہ مراد یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ سب کا عمل اچھا دیکھنا چاہتا ہے۔ اب پتا چلے گا کہ تم میںسے کس کا عمل سب سے اچھا اور کون سب سے بڑھ کر عمل کرنے والا ثابت ہوتا ہے۔
مسلمان کو تو اس وقت تک کام کرنے کی تلقین ہے جب تک اس میں زندگی کی آخری رمق موجود ہو۔ ایسی حالت میں بھی عمل کا حکم ہے کہ قیامت برپا ہو چکی اور مسلمان کے ہاتھ میں ایک شاخِ تر ہو جسے بونے کے لیے وہ بیٹھا ہو۔ وہ اس وقت تک زمین سے کھڑا نہ ہو جب تک اُس ٹہنی کو زمین میں لگا کر شجر کاری نہ کر دے، جیسا کہ رسول اللہﷺ کی حدیث میں وارد ہوا ہے:
حَتَّی لَوْ قَامَتِ السَاعَۃُ وَفِی یَدِہٖ فَسِیْلَۃٌ فَاِنَّہ اِسْتَطَاعَ أَلَّا یَقُوْمَ حَتَّی یَغْرِسَہَا، فَلْیَغْرِسْہَا۔ (مسند احمد)
عمل چاہے دین سے متعلق ہو یا دنیا سے، اسلام میں عبادت کا درجہ رکھتا ہے، بشرطیکہ نیت صحیح ہو اور حدوداللہ کا خیال رکھا جائے۔ لیکن افسوس کی بات یہ ہے کہ ہماری امت تمام دوسری امتوں اور قوموں کے مقابلے میں کم نتیجہ خیز اور کم عمل والی ہے۔ زیادہ باتیں اور بحث و جدل کرنے والی امت ہے۔ ہماری پہچان یہ ہے کہ ہم بولتے زیادہ ہیں اور کرتے کم ہیں اور جو کچھ کرتے ہیں وہ غیر ضروری ہوتا ہے اور اہم کام چھوڑ دیتے ہیں۔
ہم اپنے ہی ارد گرد کولہو کے بیل کی طرح چکر کاٹتے رہتے ہیں۔ ہماری مثال اس بے وقوف ’’حجا‘‘ (حُجا ایک ایسا فرضی نام ہے جسے عرب بے وقوف آدمی کی مثال کے طور پر پیش کرتے ہیں جیسے ہمارے ہاں گدھے کو بے وقوفی کی مثال کے طور پر پیش کیا جاتا ہے) کی ہے۔ جس کے متعلق ایک حکایت اس طرح ہے کہ وہ پانی کی مشک نہر سے بھر کر گھر لاتا، پھر گھر سے اٹھا کر نہر پر لے جاتا اور دوبارہ پانی نہر میں پھینک دیتا۔ کسی نے پوچھا کہ یہ بے سود مشقت کیوں کر رہے ہو؟ تو کہنے لگا کہ میرے لیے اتنا بھی کافی ہے کہ نہر کو ادھار دیتا رہوں‘‘۔
میں نے متعدد عالمی اسلامی کانفرنسوں میں شرکت کی ہے جن میں بڑی وزن دار اور اہمیت رکھنے والی قراردادیں پاس کی گئیں لیکن (الاماشاء اللہ) یہ قراردادیں عمل کی روشنی نہ دیکھ سکیں اور تنفیذ یا تطبیق کے دائرے میں داخل نہ ہو سکیں۔ بس صرف کاغذوں پر سیاہی بن کر چھائی رہیں۔ آپ بتا سکیں گے کہ ایسا کیوں ہوا؟ کیا ہم نے صرف چرب زبانی کی مشق کرنا سیکھا ہے اور بس؟ کیا ہم حُسنِ عمل کی عادت نہیں ڈال سکے؟ یا پھر ہمارا کام صرف باتیں کرنا ہے اور کام کی توقع ہم دوسروں سے رکھتے ہیں؟ یا پھر ہمارا کام صرف فیصلے صادر کرنا اور اندازے لگانا ہوتا ہے۔ یہ فکر نہیں ہوتی کہ جو فیصلے کیے ان کا کیا حشر ہوا؟
میرا مطلب یہ نہیں کہ میں باتوں کی کلی طور پر نفی کرتا ہوں بلکہ اگر بات سچی ہو اور اخلاص پر مبنی ہو تو ضرور اثر رکھتی ہے۔ اسلام کا اولین معجزہ قرآن تھا جو کہ کلامِ الٰہی ہے اور نبی کریمﷺ کی احادیث مبارکہ بھی کلام پر مشتمل ہیں۔ لیکن میں اس کا قائل نہیں ہوں کہ قول عمل سے تجاوز کر جائے، اور غالباً قرآن کریم کے ۲۳ سالوں میں تھوڑا تھوڑا کر کے نازل کرنے کا مقصد بھی یہی تھا کہ اہل ایمان کو عمل کی بھی فرصت مل سکے، تاکہ جو حکم نازل ہو اُسے عملِ صالح کے سانچے میں ڈھالا جاسکے۔ اس کلام کو ایسی زندگی کا حصہ بنایا جاسکے جو دھڑکنے والی اور بولنے والی ہے۔ اسی لیے حضرت عائشہؓ نے جب نبی اکرمﷺ کی تعریف کی تو اس مشہور قول کے ساتھ کہ کَانَ خُلُقُہ الْقُرآنَ!! (’’ان کے طور طریقے قرآن کا چلتا پھرتا نمونہ تھے‘‘۔ خُلق اَخلاق کی جمع ہے۔ اخلاق سے مراد صرف مسکرا کر نرم لہجے میں بات کرنا نہیں ہے۔ بلکہ یہ ایک جامع لفظ ہے جس میں آدمی کے سارے اعمال اور معاملات آتے ہیں۔ اس لیے میں نے ’’خُلق‘‘ کا ترجمہ ’’طور طریقے‘‘ کیا ہے۔مترجم)۔
موجودہ زمانے کے زندہ و تابندہ اقوال میں ایک قول وہ ہے جس میں کسی نے صحابہ کی تعریف یوں کی ہے: ’’صحابہ کرام میں سے ایک ایک شخص قرآنِ (مجسم) تھا جو دو پائوں پر چلتا پھرتا نظر آتا تھا‘‘۔ اس میں شک نہیں کہ کلام کی اہمیت ہے اور اس سے انکار نہیں اور ہر بڑے معاملے کی ابتدا کلام سے ہوتی ہے جیسے کسی شاعر نے کہا ہے کہ ’’جنگ کی ابتدا بات سے ہوتی ہے‘‘۔ لیکن وہ کلام مَذموم ہوتا ہے جو عمل سے بڑھ جاتا ہے اور مزید مَذموم اس وقت ہوتا جب عمل کے بغیر ہو۔ سب سے زیادہ مَذموم اس وقت ہوتا ہے جب عمل اس کے منافی ہو۔ (اور اسی موقع کے لیے اللہ تعالیٰ نے وعید سنائی ہے جس کے الفاظ یوں ہیں: یٰٓاَیُّہَا الَّذِیْنَ آَمَنُوا لِمَ تَقُوْلُوْنَ مَا لَا تَفْعَلُوْنَo کَبُرَ مَقْتًا عِنْدَ اللّٰہِ اَنْ تَقُوْلُوا مَا لَا تَفْعَلُوْنَo (الصف:۲۔۳)) ’’اے لوگو جو ایمان لائے ہو، تم کیوں وہ بات کہتے ہو جو کرتے نہیں ہو؟ اللہ کے نزدیک یہ سخت ناپسندیدہ حرکت ہے کہ تم کہو وہ بات جو کرتے نہیں‘‘۔
ہمارے لیے یہ معمولی بات ہے کہ ہمارے ملکوں میں لاتعداد لوگ بھوک سے مرتے ہیں، جبکہ ہمارے ملک زرعی شناخت رکھتے ہیں۔ وجہ یہ ہے کہ ہم تو زمین میں ایک کنواں کھودنے سے بھی عاجز ہیں۔ بس آسمان سے بارش کا انتظار کرتے رہتے ہیں۔ دوسرا یہ کہ ظاہری آن بان کا دھیان رکھتے ہیں، پیداوار کے وسائل سے لاپروا ہیں۔ ہماری حالت ان اہلِ قریہ کی سی ہے جن کا ذکر قرآن مجید میں یوں آیا ہے۔
فَہِیَ خَاوِیَۃٌ عَلٰی عُرُوْشِہَا وَبِئْرٍ مُّعَطَّلَۃٍ وَقَصْرٍ مَّشِیْدٍo (الحج: ۴۵)
’’اب ان کی کیفیت یہ ہے کہ وہ اپنی چَھتوں پر گری پڑی ہیں۔ بہت سے بیکار کنویں اور بہت سے قلعی چونے کے محل بھی تباہ ہو گئے‘‘۔
ہمارے لیے اولین فرض یہ تھا کہ ہم محلات تعمیر کرنے سے قبل کنوئوں کی کھدائی اور پانی کی فراہمی کے لیے وسائل مہیا کرتے! اس پر بھی کسی کو تعجب نہیں ہونا چاہیے کہ پورا عالمِ اسلام اب ترقی پذیر ممالک کی صف میں داخل و شامل ہو چکا ہے۔ لفظ ’’ترقی پذیر‘‘ ایک ایسی اصطلاح ہے جو ادبی رنگ میں پسماندگی کی تعبیر ہے۔ اس اصطلاح میںان لوگوں کو شمار کیا جاتا ہے جو اب تک اونٹوں اور گدھوں پر سفر کرتے ہیں، جبکہ ترقی یافتہ لوگ طیاروں میںادھر سے اُدھر آتے جاتے ہیں۔ ترقی پذیر لوگ اگر طیاروں سے سفر کریں بھی تو وہ طیارے ان کے اپنے بنائے نہیں ہوتے، بلکہ دوسروں کی صنعت کا مال ہوتا ہے۔ اس سے بڑھ کر بھی کوئی دردناک صورت ہو سکتی ہے کہ ہم آج تک دوسروں کے زیر سایہ پَل رہے ہیں؟ غذائیت کے لیے اتنی محنت بھی نہیں کرتے کہ اپنی خوراک کی حد تک ہی خودکفیل ہو جائیں، اور اتنی صنعتیں بھی نہیں لگاتے کہ جس کی بدولت ہم اپنی عزت و آبرو کا دفاع کر سکیں؟
افریقا میں کئی اسلامی ممالک کی یہ حالت ہے کہ وہاں لوگ بھوک اور پیاس سے مر رہے ہیں۔ وہاں زندگی کی آخری رمق کو بچانے کے لیے کچھ نہیں ملتا۔ حالانکہ یہ امکان موجود تھا کہ وہاں بَروقت زمین میں کچھ کنویں کھود لیے جاتے اور پائپوں (یعنی ٹیوب ویلوں) کے ذریعے زمین سے پانی نکال کر ذخیرہ کیا جاتا۔ خشک سالی کے دنوں میں وہ پانی استعمال میں لایا جاتا تو زمین میں متبادل کے طور پر زراعت کا کام جاری رہ سکتا تھا۔
یہ ہماری عاجزی اور لاچاری کی زندہ مثالیں ہیں۔ اس عاجزی سے اللہ کے رسولؐ نے بھی پناہ مانگی ہے۔ فرمایا: اَللّٰہُمَ اِنِّی اَعُوْذُبِکَ مِنَ الْعَجْزِ وَالْکَسَل (بخاری۔ابودائود) (اے اللہ! میں بے بسی اور کسلمندی سے آپ کی پناہ مانگتا ہوں)۔ پھر رسول اللہﷺ نے عجز سے منع فرمایا: اِسْتَعَنْ بِاللّٰہِ وَلَا تَعْجَزْ (اللہ سے مدد طلب کر اور بے بسی کا مظاہرہ نہ کر) اور فرمایا: اِن اللّٰہ یَلُوْمُ عَلَی العَجْزِ وَلٰکِنْ عَلَیْکَ بِالْکَیْسِ (رواہ ابودائود) (اللہ تعالیٰ عاجزی پر ملامت کرتا ہے لیکن تمہیں تدبیر کی راہ اختیار کرنی چاہیے)۔
فرض کیا کہ اسلامی ممالک الگ الگ ہوتے ہوئے یہ کام کرنے سے عاجز ہیں اور وہ اکیلے اکیلے ہونے کی صورت میں بے بس و بے کار ہیں، تو کیا اگر وہ مل جل کر اجتماعی تعاون کی راہ اختیار کریں تو ان کی قوتیں باہم مجتمع نہیں ہوسکتیں؟ حقیقت یہ ہے کہ اسلامی ممالک کا آپس میں تعاون اور یکجہتی سرے سے مفقود ہو چکا ہے۔
(۔۔۔جاری ہے!)
☼☼☼
Leave a Reply