
گزشتہ سے پیوستہ
عالمِ اسلام کے صفِ اول کے مفکر، دانشور، فقیہ اور بزرگ اسکالر علامہ ڈاکٹر یوسف القرضاوی، مصر کے ظالم و جابر حکمراں کرنل جمال عبدالناصر کے دَور میں وہاں سے بے وطن ہو کر نکلے اور قطر میں آباد ہوگئے۔ درجنوں کتابوں کے مصنف ہیں۔ انہوں نے اپنی ایک کتاب اَیْنَ الْخَلَلْ میں، جو گزشتہ صدی کی آخری دہائی میں منظرِ عام پر آئی تھی، امتِ مسلمہ کی مجموعی صورتحال اور دنیا بھر کی اسلامی تحریکوں کے احوال کا بڑا عمدہ تجزیہ کیا ہے۔ اُن کی تنقیدآراء، تجزیوں، تبصروں، مشوروں اور تجاویز پر مشتمل یہ کتاب حال ہی میں اردو کے قالب میں ڈھل کر بیت الحکمت / کتاب سرائے لاہور کی جانب سے ’’بگاڑ کہاں؟‘‘ کے نام سے منظرعام پر آئی ہے۔ جناب میر زمان نے اس کا ترجمہ کیا ہے۔ ہم مصنفِ مکرم، مترجم اور پبلشرز کے شکریے کے ساتھ اس کتاب کے کچھ ابواب کا قسط وار ترجمہ یہاں شائع کرنے جارہے ہیں۔ آج اس کی دوسری قسط ملاحظہ فرمایئے۔ (مدیر)
ہماری عددی قوتیں معطل ہیں:
اس وقت ہماری عددی طاقتیں بھی تعطل کا شکار ہو چکی ہیں۔ دنیا میں ہماری تعداد ایک ارب سے بھی زیادہ ہے لیکن ہم الگ الگ ٹولیوں میں بٹ کر منتشر اور کمزور ہو چکے ہیں۔
اللہ کے نور سے ایسے محروم ہو گئے ہیں کہ طاغوتی اندھیروں نے ہمیں تقسیم در تقسیم کر دیا ہے۔ اللہ کے واحد راستے صراطِ مستقیم کو جب سے تَرک کیا ہے تب سے لاتعداد راستوں میں گم ہو کر رہ گئے ہیں۔ ہم میں سے کچھ ہیں جو دائیں بازو کے ساتھ چمٹ گئے ہیں اور کچھ بائیں بازو کی طرف انحراف کر چکے ہیں۔ ایک گروہ نے اپنا منہ مشرق کی طرف موڑ لیا ہے تو دوسرے نے مغرب کی طرف۔ کیونکہ ہم اللہ تعالیٰ کی تحذیر کو نظرانداز کر چکے ہیں جس میں فرمایا گیا ہے:
وَاَنَّ ہٰذَا صِرَاطِیْ مُسْتَقِیْمًا فَاتَّبِعُوْہُج وَ لَا تَتَّبِعُوا السُّبُلَ فَتَفَرَّقَ بِکُمْ عَنْ سَبِیْلِہٖ… (الانعام:۱۵۳)
’’اور یہ میرا راستہ بالکل سیدھا راستہ ہے، اسی کو اختیار کرو، دوسرے راستے نہ اختیار کرو کیونکہ وہ تمہیں متفرق کر کے منحرف کر دیں گے‘‘۔
اس لیے ہم تفرقہ میں پڑ گئے ہیں اور تفرقہ کی صفت یہ ہے کہ وہ اکثریت کو یوں کمزور کر دیتا ہے جیسے اتحاد اقلیت کو طاقتور بنا دیتا ہے۔
ہم آج تک ایک دوسرے کی مدد اور تعاون کی راہ پر گامزن نہ ہو سکے اور آپس میں جڑ نہ سکے جبکہ دنیا میں بڑے بڑے بلاک تشکیل دینے کی باتیں ہو رہی ہیں۔ کیونکہ اَقلیّات اپنا وجود باقی نہیں رکھ سکتیں۔ ہم دیکھ رہے ہیں کہ ترقی یافتہ ممالک کس طرح آپس میں عسکری اتحاد قائم کرتے ہیں، تجارتی و اقتصادی منڈیاں قائم کرتے ہیں اور سیاسی بلاک بھی سامنے آرہے ہیں۔
دوسری جانب ہم ہیں کہ عرب و عجم جیسی قومیتوں میں بٹے ہوئے ہیں۔ فکری طور پر بھی جدت پسند اور قدامت پسند میں تقسیم ہوتے جاتے ہیں۔ سیاسی طور پر مشرق و مغرب کے قدم پر قدم رکھ رہے ہیں۔ اس کے علاوہ کئی دوسری قسم کی تقسیمات ہیں جن میں ہم منقسم ہو چکے ہیں۔ اور نتیجتاً ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہیں۔
ہمارا فرض تھا کہ ہم اپنی عددی قوت سے استفادہ کرتے۔ اگر ہم اس نعمت سے فائدہ حاصل کرتے تو آج اس حال میں نہ ہوتے۔ سید جمال الدین افغانی نے ہندوستان والوں کو (جب وہ انگریزی استعمار کے غلام تھے) فرمایا تھا: ’’اگر تم ملین کی تعداد میں مکھیاں ہوتے اور مل کر انگریزوں کے کانوں میں صرف بھنبھناہٹ ہی کر لیتے تو ان کے کان پھاڑ سکتے تھے‘‘۔ لیکن ہم نے اتنی بڑی بشری طاقت سے کوئی فائدہ حاصل نہ کیا کیونکہ ہمارے نظریۂ جدید کے مطابق کثرت تعداد ایک طوفان ہے۔ حالانکہ کثرت تعداد ہر زمانہ میں نعمت ہی رہی ہے۔ قرآن مجید نے بھی اس نعمت کی یاددہانی یوں کرائی ہے:
وَّ اذْکُرُوْا اِذْ کُنْتُمْ قَلِیْلًا فَکَثَّرَکُمْ (الاعراف:۸۶)
’’یاد کرو جب تم بہت کم تھے تو ہم نے تمہیں بڑھا دیا‘‘۔
ہم میں سے اکثر لوگوں کا (جو اپنے آپ کو اصلاح کرنے والے قائدین تصور کرتے ہیں) بڑا مقصد یہ رہ گیا ہے کہ تعداد کو کسی صورت میں کم کریں اور نسل کی تحدید کریں [جیسا کہ آج کل خاندانی منصوبہ بندی کا زور ہے]۔
غور سے دیکھا جائے تو پتا چلتا ہے کہ اس روئے زمین پر بڑی بڑی عظیم قومیں موجود ہیں لیکن کثرت آبادی کا خوف انہیں اتنا زیادہ نہیں جتنا کہ ہمیں ہے۔ بلکہ انہوں نے تو اس کثرت کو پیداوار بڑھانے کے لیے استعمال کیا ہے۔
ہماری روحانی قوتیں معطل ہیں:
سب سے پہلے اور بعد، یہ کہ ہماری جملہ روحانی طاقتیں تعطل کا شکار ہیں۔ آج ہم نے مٹی اور ٹھیکرے کے آمیزے کو روح کی پھونک پر ترجیح دے رکھی ہے۔ [یعنی مادے کو روح سے زیادہ اہمیت دیتے ہیں] حالانکہ روح ہی ہمارے انبیاء کرام کے لیے اللہ کی جانب سے عزت و سربلندی کا راز تھی۔ اور نہ صرف انبیاء کے لیے بلکہ ہمارے لیے بھی روحانیت میں ہی عزت و تکریم تھی۔ جیسا کہ قرآن میں فرمایا:
فَاِذَا سَوَّیْتُہُ وَنَفَخْتُ فِیْہِ مِنْ رُّوحِیْ فَقَعُوْا لَہُ سَاجِدِیْنَo (الحجر:۲۹)
’’جب میں نے اس آدمؑ کو بنایا اور اس میں اپنی روح پھونکی تو فرشتے اس کے سامنے سجدہ ریز ہوگئے‘‘۔
لیکن جب معصیت و سرکشی کی ہوائیں چلنے لگیں اور ہمارے دلوں سے خشیت الٰہی کی شمعوں کو گل کر کے نکل گئیں، تب ہم پر آزمائش و ابتلاء کی گھڑیاں لمبی ہو گئیں، حتیٰ کہ ہمارے دل بھی سخت ہو گئے جیسا کہ اہل کتاب کے ساتھ ہوا:
فَہِیَ کَالْحِجَارَۃِ اَوْ اَشَدُّ قَسْوَۃً (البقرہ: ۷۴)
’’پس وہ پتھروں کی طرح یا اُن سے بھی سخت ہیں‘‘۔
ہمارا تعلیمی نصاب اور تربیتی نظام اتنا ناقص اور بوسیدہ ہے کہ اس نے ہماری روحانی زندگی میں بہت بڑا خلا پیدا کر دیا ہے۔ ہماری نفسیات میں روحانیت کے ربانی اور الہامی مفہوم کے نفوذ کی اہلیت و صلاحیت ختم ہو کر رہ گئی۔
روحانیت کی پستی اور اس کے اسباب کو دیکھ کر اسلام کے عظیم شاعر اور مفکر علامہ اقبالؒ نے بہت خوب فرمایاکہ: ’’جدید مدرسہ نے موجودہ نسل کی آنکھیں حقائق و معارف جاننے کے لیے ضرور کھولیں لیکن ان آنکھوں کو آنسو بہانا اور ان دلوں کو خشوع کرنا نہ سکھا سکا‘‘۔
ہم نے دین اسلام کو سمجھنے کی کوشش ہی نہیں کی حالانکہ دین ہی کی وجہ سے ہماری بقا ممکن ہے اور دین ہی میں ہماری شناخت کا راز مضمر ہے بلکہ اس کے بغیر ہمارے وجود کی حیثیت ہی کچھ نہیں رہتی کیونکہ دین جسم میں روح کی حیثیت رکھتا ہے۔ روح کے بغیر جسم صرف ڈھانچا رہ جاتا ہے۔ ہماری تمام تر توجہ صرف ظاہر پر رہتی ہے جس کی وجہ سے ہم جوہر اصلی یعنی باطن سے غافل ہو گئے ہیں، ہم نے قالب کی فکر میں قلب کو بھلا دیا ہے۔
ہمارے مذہب میں ظاہری رکھ رکھائو کو بجائے تطہیر قلب اور تزکیۂ نفس کے زیادہ اہمیت دی گئی ہے۔ اس کی طرف قرآن مجید میں بار بار توجہ دلائی گئی ہے جیسا کہ اللہ تعالیٰ کا یہ فرمان ہے:
قَدْ اَفْلَحَ مَنْ زَکَّاہَاo وَقَدْ خَابَ مَنْ دَسَّاہَاo (الشمس:۹۔۱۰)
’’جس نے اپنے نفس کو پاک کر لیا وہ فلاح پاگیا لیکن جس نے نفس کے آگے ہتھیار ڈال دیے وہ ناکام و نامراد ہوا‘‘۔
تاریخ کا مطالعہ کر کے دیکھیں کہ قوموں کی حالت صرف ظاہری ٹیپ ٹاپ بدلنے سے نہیں بدلتی۔ جب تک اندر (نفس) کی دنیا نہ بدلے کوئی سیاسی و اخلاقی انقلاب برپا نہیں ہو سکتا۔ یہی بات قرآن حکیم نے واضح الفاظ میں یوں بیان کی ہے:
اِنَّ اﷲَ لَا یُغَیِّرُ مَا بِقَوْمٍ حَتّٰی یُغَیِّرُوْا مَا بِاَنْفُسِہِمْ… (الرعد:۱۱)
مولانا حالی نے اس آیت کا ترجمہ ایک شعر کی صورت میں یوں کیا ہے:
خدا نے آج تک اس قوم کی حالت نہیں بدلی
نہ ہو جس کو خیال خود اپنی حالت کے بدلنے کا
ظاہر میں تو یہ بات بھی خوش آئند ہے کہ ہم عیدیں اور دوسرے مذہبی تہوار بڑی دھوم دھام سے منانے کے لیے سرکاری اداروں میں تعطیل بھی کر دیتے ہیں، ہم بڑی تعداد میں قرآن مجید کے نسخے اور دینی کتب بھی چھاپتے ہیں لیکن اس کا یہ مطلب نہیں کہ ہم نے دین کا حق ادا کر دیا اور اللہ کی قائم کردہ حدود پر پورا اتر گئے۔ دین کی خاطر یہ چند روایتی اقدام کر لینے کا مطلب یہ ہے کہ ہم دین کو بس رسم و رواج تک محدود کر دینا چاہتے ہیں جب کہ ہم اسے نظامِ زندگی کے طور پر اپنانے کے لیے تیار نہیں۔ مثال کے طور پر ہر ایک آدمی اپنے بزرگوں کا احترام کرنے کا دعویٰ کرتا ہے، اس احترام میں وہ ان کے ہاتھ بھی چومتا ہے لیکن ان کی کسی نصیحت پر عمل نہیں کرتا۔ یہی سلوک دین اور مذہب کے ساتھ آج کل کیا جاتا ہے۔ چند ظاہری رسوم کو بڑی خوشی کے ساتھ ادا کرلیتے ہیں مگر حقیقت میں دین سے بغاوت کا رویہ اپناتے ہیں۔ اگر یہ صورت حال ہماری امت میں واقعی موجود ہے تو پھر ہم خطرناک انجام کی طرف بڑھ رہے ہیں۔ اور ایسی قوموں کا انجام ہمارے سامنے ہے جنہوں نے اپنے دین کو کھیل کود اور لہو و لعب تک محدود کر کے رکھ دیا۔ جیسا کہ قرآن مجید میں ارشاد ہے:
الَّذِیْنَ اتَّخَذُوْا دِیْنَہُمْ لَہْوًا وَلَعِبًا وَغَرَّتْہُمُ الْحَیٰوۃُ الدُّنْیَا… (الاعراف:۵۱)
’’ذرا اس قوم کے انجام کو یاد کرو جنہوں نے دین کو کھیل کود اور تماشا بنا لیا، اور دنیا کی زندگی نے انہیں مغرور کر دیا‘‘۔
جب ہماری حالت ایسی قوم کے مشابہ ہو جائے تو آپ خود اندازہ لگا لیں کہ ہماری امت کے لیے اس سے بدترین مصیبت اور کیا ہوگی!!
اگر انصاف کی نظر سے دیکھیں تو آپ تسلیم کریں گے کہ ہماری حالت بالکل وہی ہے جو آیت بالا میں بیان ہوئی ہے۔ آج ہم قرآن کریم کی آیات سے درودیوار مزین کرتے ہیں لیکن ہمارے دلوں پر قرآنِ حکیم کی تعلیمات کا کوئی اثر نہیں۔ قرآن کو اموات اور جنازوں پر پڑھا جاتا ہے، لیکن زندوں پر نہیں۔ قرآن کو سینوں سے لگایا جاتا اور قسمیں اٹھانے کے لیے درمیان میں لایا جاتا ہے، دن رات اس کی تلاوت کی جاتی ہے مگر کیا صرف برکات حاصل کرنے کے لیے قرآن نازل ہوا ہے؟ قرآن کی حقیقی برکت یہ ہے کہ اس کے مطابق اپنی زندگی کو ڈھالا جائے۔ قرآن کے ہر حکم پر عمل کیا جائے، مکمل اتباع اور پیروی اختیار کی جائے، جیسا کہ ارشاد باری ہے:
وَ ہٰذَا کِتٰبٌ اَنْزَلْنٰہُ مُبٰرَکٌ فَاتَّبِعُوْہُ وَ اتَّقُوْا لَعَلَّکُمْ تُرْحَمُوْنَo (الانعام:۱۵۵)
’’یہ وہ کتاب مبارک ہے جسے ہم نے اس لیے نازل کیا ہے کہ تم اس کے مطابق عمل کرو اور تقویٰ اختیار کرو، اس میں تمہاری کامیابی ہے‘‘۔
ہم نے دین کے ساتھ جو سلوک کیا ہے وہ کسی سے چھپا ہوا نہیں ہے۔ ہم نے تو اللہ تعالیٰ سے بغاوت کی روش اختیار کر رکھی ہے۔ اس کی شریعت کو اس دنیا میں معطل کر کے رکھ دیا ہے۔ اللہ کے جملہ احکامات کو جامد کر دیا ہے۔ اللہ تعالیٰ کے احکامات میں جو حکمتیں اور مصلحتیں پنہاں ہیں ان کو ہم نے نظرانداز کر دیا ہے۔ جیسے کہ ہمیں اللہ تعالیٰ سے زیادہ علم حاصل ہے اور اس کی مخلوقات کے بارے میں یا مخلوق کی مصلحتوں کے متعلق زیادہ جانتے ہیں۔ ارشاد باری ہے:
قُلْ ئَ اَنْتُمْ اَعْلَمُ اَمِ اﷲُ… (البقرہ:۱۴۰)
’’اے نبیؐ! ان سے ذرا پوچھیں کہ تم زیادہ علم رکھتے ہو یا اللہ‘‘۔
اَلَا یَعْلَمُ مَنْ خَلَقَ وَہُوَ اللَّطِیْفُ الْخَبِیْرُo (الملک:۱۴)
’’کیا وہ اللہ نہیں جانتا جس نے سب کچھ پیدا کیا اور وہ باریک بین خبر رکھنے والا ہے‘‘۔
میں ہمیشہ کہتا رہا ہوں اور اب بھی دعوے سے کہتا ہوں کہ ہماری امت کی شناخت اور اس کی تمام قوتوں کا مصدر صرف ’’ایمان‘‘ ہے۔ اسلام پر غیر متزلزل یقین ہی وہ واحد قوت ہے جس کے ذریعے کرۂـ ارضی کی واحد سپرپاور اور سب سے بڑی شہنشاہیت (روم و ایران) کو مسلمانوں نے شکست دی تھی۔
اہلِ ایمان تعداد میں بہت ہی قلیل اور قوت میں بہت ہی کمزور تھے، اس کے باوجود فتح و نصرت اہل ایمان کو ہوئی۔ اسی ایمان کی بدولت اس امت کو:
کُنْتُمْ خَیْرَ اُمَّۃٍ اُخْرِجَتْ لِلنَّاسِ…(آل عمران: ۱۱۰)
’’تم سب سے بہترین امت ہو، جسے لوگوں کی بھلائی کے لیے بھیجا گیا ہے‘‘۔
بنا کر بھیجا گیا ہے۔ اور اسے دوسری تمام قوموں پر برتری دے دی۔
اسی ایمان کی قوت سے امت نے مشرق سے پیش قدمی کرنے والے تاتاریوں کو پسپا کیا اور مغرب سے بڑھنے والے صلیبیوں کی باقیات کا مقابلہ کر سکتے ہیں اور انہیں ایک مرتبہ پھر مغلوب و مفتوح کر سکتے ہیں۔
یہودیوں نے روحانی قوتوں اور دینی جذبوں کی مدد سے سوئی ہوئی قوم کو خواب غفلت سے بیدار کیا اور صدیوں کے جمود کو توڑا۔ ان جذبوں سے انہوں نے بکھری ہوئی قوم کو ایک پلیٹ فارم پر جمع کر لیا۔ اپنی قومی زبان (عبرانی) کو جو مردہ ہو چکی تھی زندہ کیا۔ اب حالت یہ ہے کہ وہ ہمارے ساتھ مقابلہ کرنے کے لیے اپنے ہمراہ تورات لے کر آتے ہیں لیکن ہمارے پاس قرآن مجید بھی نہیں ہوتا۔ وہ یہودیت پر پوری دنیا میں ’’ایک‘‘ ہو چکے ہیں مگر ہم اسلام کے نام پر پارہ پارہ ہیں۔ وہ تلمود کی تعلیمات سے چمٹ چکے ہیں جبکہ ہم بخاری اور مسلم کو جانتے تک نہیں! ان کے زعماء میں سے کسی نے فخر کے ساتھ کہا تھا: ’’یہی ہمارے انبیاء کی تلقین اور ہمارے قائدین (مارکس و لینن) کی تعلیمات ہیں‘‘۔
اس وقت ہمارے پاس سب سے عظیم الشان عقیدہ اور دنیا کی مکمل ترین رسالت ہے، ہمارے پاس دنیا کی واحد کتاب الٰہی ہے جو بالکل محفوظ اور تحریف و تغییر سے منزہ و مبرا ہے۔ لیکن ہم ہیں کہ اپنی ان عظیم قوتوں سے غافل اور بھول بھلیوں میں گم ہیں، ہم تعداد میں بہت زیادہ ہیں لیکن اس کثرت کی حیثیت پانی کی جھاگ سے زیادہ نہیں جیسا کہ حدیث میں ہے:
کَثْرَۃٌ کَغثاء السَیْلِ۔ (احمد۔ ابودائود)
’’اتنی کثرت جیسے سیلاب کی جھاگ‘‘۔
سوال پیدا ہوتا ہے کہ یہ کثرت سیلاب کی جھاگ کی مانند کیوں ہو چکی ہے؟ اس کا جواب بالکل واضح ہے اور وہ یہ کہ ہمارے ایمان کی اندرونی حالت بگڑ چکی ہے۔ ایمان کی پہچان یہ ہے کہ انسان دنیوی زندگی کو موت کے مقابلے میں حقیر سمجھے۔
لیکن ہم دنیا کی محبت میں مبتلا اور موت سے ڈرتے ہیں۔ جیسا کہ حدیث شریف میں ہے:
حُبُّ الدُنْیَا وَکَرْاہِیَۃُ المَوتِ۔
’’دنیا کی محبت اور موت کا خوف‘‘۔
اسی چیز کو وَہْنَ یعنی ضعیفی قرار دیا گیا ہے۔ اور یہ کیفیت ہم پر آج مکمل طور پر طاری ہے، لہٰذا یہ کوئی تعجب کی بات نہیں کہ سیلاب کی جھاگ میں ہزار ملین (مسلمان) تین ملین یہودیوں کے سامنے سرنگوں ہو جائیں!!
آخر ذمہ دار کون ہے؟
ہم پارہ پارہ ہو چکے ہیں، ضائع ہو گئے اور میدان سے غائب ہو چکے۔ یہ ہے حال ہماری امت کا۔ آخر اس کا ذمہ دار کون ہے؟
آئیں ان عوامل کی نشاندہی کریں جو اس امت کو بکھیرنے اور اس کی قوتوں کو ضائع کرنے والے ہیں۔ ان عوامل کو ظاہر کرنے کا مقصد یہ نہیں کہ ان پر بغاوت یا غداری کا مقدمہ قائم کریں اور ان کو قرار واقعی سزا دلوائیں بلکہ ہمارا کام صرف اتنا ہے جو ایک داعی کا ہوتا ہے نہ کہ جج اور قاضی کا۔ ہم صرف یہ معلوم کرنا چاہتے ہیں کہ جو کچھ ہمارے ساتھ ہو رہا ہے یہ کہاں سے ہورہا ہے اور کیوں ہو رہا ہے تاکہ ان سوراخوں کو بند کیا جاسکے جہاں سے خلل داخل ہو رہا ہے۔ یعنی ان اسباب کو تلاش کریں جن کی وجہ سے مرض لاحق ہوا ہے تاکہ علاج کرنا ممکن ہو سکے اور خطرات کے مقامات سے بچا جاسکے۔
حکمرانوں کی ذمہ داری:
کیا بگاڑ کے ذمہ دار اربابِ اقتدار و اختیار یعنی حکمران ہیں؟
اکثر لوگوں کی رائے ہے کہ ہماری مصیبتوں کے ذمہ دار صرف حکمران ہیں۔ اس کے جملہ اسباب مندرجہ ذیل ہیں:
اول… عموماً ہمارے دور کے لوگوں کی ایک عادت بن گئی ہے کہ وہ اپنی جان چھڑانے کے لیے دوسروں کے پیچھے لگ جاتے ہیں۔ کسی بھی ذمہ داری کو خود اٹھانے کے بجائے دوسروں پر ڈال دیتے ہیں اور خود بری الذمہ ہو جاتے ہیں۔ اس لیے عوام اور محکوم اپنے بوجھ کو حکمرانوں کے پلڑے میں ڈالنا زیادہ بہتر سمجھتے ہیں اور تمام بگاڑ کا ذمہ دار صرف حکومت کو قرار دیتے ہیں۔
دوم… چونکہ ہمارے حکمرانوں کے ظلم و ستم کا تختہ مشق بننے والے ہمارے عوام ہی ہوتے ہیں اس لیے ان پر جو چوٹ بھی پڑے اس کا الزام حکومت کو دیتے ہیں۔ لہٰذا وہ ہر سانس کے ساتھ اپنے حکام کو یاد کرتے ہیں۔
سوم… ذمہ داری بھی دراصل اختیار اور اقتدار کے مطابق ہوتی ہے اور کسی معاشرے میں حکمران ہی وہ طبقہ ہوتا ہے جن کے پاس تسلط اور تمکن ہوتا ہے۔ لیکن جب ان کو تمکن اور تسلط مل جاتا ہے تو یہ اللہ کو اور اس کے بندوں کو بھول جاتے ہیں اور فرمانِ الٰہی کے مطابق وسائل کو استعمال نہیں کرتے، حالانکہ قرآن کا ارشاد ہے:
اَلَّذِیْنَ اِنْ مَّکَّنّٰہُمْ فِی الْاَرْضِ اَقَامُوا الصَّلٰوۃَ وَ اٰتَوُا الزَّکٰوۃَ وَ اَمَرُوْا بِالْمَعْرُوْفِ وَ نَہَوْا عَنِ الْمُنْکَرِ… (الحج: ۴۱)
’’اگر انہیں زمین میں اقتدار مل جائے تو وہ نماز قائم کرتے، زکوٰۃ کا انتظام کرتے اور امر بالمعروف ونہی عن المنکر کا فریضہ ادا کرتے ہیں‘‘۔
اس میں کوئی شک نہیں کہ ہمارے حکمران سب سے زیادہ اختیارات کے مالک ہوتے ہیں لیکن حقیقت میں حکمران اور عوام ایک جیسے ہی ہوتے ہیں۔ کیونکہ ان حکمرانوں کو اقتدار کے محلات تک پہنچانے والے عوام ہی ہوتے ہیں۔ جن کے ووٹوں اور تائید سے وہ عوام کے حکام بن جاتے ہیں، جیسا کہ مقولہ مشہور ہے ’’جیسا منہ ویسے فرشتے‘‘ اور [دیسی زبان میں ’’جیسا منہ ویسی چپیٹ‘‘] لہٰذا حکمران عوام کا نچوڑ ہوتے ہیں اور کوئی باہر کی مخلوق نہیں ہوتے۔ حتیٰ کہ جو حکمران زبردستی عوام پر مسلط کیے جاتے ہیں اور چور دروازے سے اقتدار کی دہلیز پر آتے ہیں وہ بھی عوامی حمایت کے بغیر نہیں چل سکتے اور ان کے لیے عوام میں نرم گوشہ موجود ہوتا ہے جس کے سہارے وہ اپنے دن پورا کرتے رہتے ہیں۔
حدیث شریف میں یہی بات آئی کہ کَمَا تُکُونُوا یُوَلَّی عَلَیْکُمْ۔(رواہ الدیلمی فی مسند الفردوس) یعنی جیسے عوام ہوں گے ویسے ہی ان کے حکمران ہوں گے۔ طبرانی نے اس حدیث کا مفہوم حضرت حسن سے یوں روایت کیا ہے کہ:… انہوں نے کسی کو کہتے ہوئے سنا کہ ’’حجاج کے خلاف اقدام کیجیے‘‘! اس پر انہوں نے جواب دیا کہ ’’ایسا کرنے کی ضرورت نہیں کیونکہ یہ تمہارا اپنا روپ ہے جو حجاج کی شکل اختیار کیے ہوئے تمہیں نظر آتا ہے۔ اس لیے ہمیں خدشہ ہے کہ اگر حجاج مر گیا تو تمہارے اوپر بندر اور خنازیر حکومت کریں گے‘‘۔ ایک دوسری روایت میں یہ الفاظ آئے ہیں:
اِنَّ اَعْمَالَکُمْ عُمَّالُکُمْ۔ (کشف الخفاء والالباس)
’’یعنی جیسے تم ہو گے ویسے ہی تمہارے حکمران ہوں گے‘‘۔
علماء کی ذمہ داری:
چونکہ علماء انبیاء کے وارث ہیں، پیغامِ حق دوسروں تک پہنچانے والے ہیں، مخلوقِ خدا کے رہبر و راہنما ہیں، جن سے اللہ تعالیٰ نے یہ عہد لے رکھا ہے کہ وہ لوگوں تک اللہ کا دین پہنچانے میں بخل سے کام نہیں لیں گے۔ تو کیا ان پر بھی موجودہ بگاڑ کے حوالے سے کوئی ذمہ داریاں عائد ہوتی ہیں؟
افسوس کے ساتھ کہنا پڑتا ہے کہ اس وقت علماء کرام سب سے زیادہ بگاڑ اور خلل میں مبتلا ہیں اور اس خلل میں ان کا ہاتھ سب سے زیادہ ہی دکھائی دیتا ہے۔ آپ دیکھیں گے کہ علماء میں کچھ تو ایسے ہیں جو تبلیغ کے اہم فریضے میں کمزوری اور کوتاہی کا مظاہرہ کرتے ہیں۔ کچھ دوسرے ہیں جو کرپٹ حکمرانوں کے ہم پیالہ و ہم نوالہ بنے ہوئے دکھائی دیتے ہیںاور اپنے علم کو سیاست کی خدمت میں وقف کیے ہوئے ہیں، کچھ ایسے ہیں جو فتویٰ دینے والی مشین بن کر رہ گئے ہیں، ان سے ہر کوئی اپنی خواہش کے مطابق فتویٰ خرید سکتا ہے۔ موجودہ ترقی یافتہ دور میں ان لوگوں کی بات میں زیادہ تاثیر اور کشش ہوتی ہے جو الیکٹرانک و پرنٹ میڈیا کا استعمال کرتے ہیں۔ کیونکہ یہ میڈیا کا دور ہے اور میڈیا کے ذریعے عوام میں زیادہ بہتر انداز میں کام ہوتا ہے۔ لیکن ہمارے علماء میڈیا سے گھبراتے ہیں اور انہوں نے ابھی اپنے آپ کو حجروں اور منبروں کے اندر بند کر کے رکھا ہوا ہے۔ یہ الگ بات ہے کہ دین کے پیغام میں اپنی قوت اور تاثیر ہے جو اپنا اثر ظاہر کیے بغیر نہیں رہ سکتی، لیکن علماء نے جدید وسائل سے استفادہ کرنے کی کوشش نہیں کی۔
ایک اور مصیبت یہ ہے کہ آجکل کے علماء حکمرانوں کے زرخرید ملازم بن کر رہ گئے ہیں اب علماء کی معزولی اور تعیناتی کے احکامات حکومت کے کارندوں کے پاس چلے گئے ہیں۔ علماء حکام کے ہاتھوں میں کھلونے بن چکے ہیں۔ اس کے برعکس سلف صالحین اور پہلے دور کے علماء ناپید ہو چکے ہیں جن کے کردار اور شخصیات اس قدر بلند ہوتی تھیں کہ وہ حکمرانوں کی معزولی و تعیناتی کا اختیار خود رکھتے تھے۔ اس کی وجہ یہ تھی کہ پہلے دور کے علماء تجارت یا حرفت سے روزی کماتے تھے اور اپنے نفس کو پاک و صاف بچا کر رکھتے تھے۔ کسی والی (گورنر) سے دریافت کیا گیا کہ امام حسن بصریؒ کی قوت و عظمت کا راز کیا ہے؟ تو گورنر نے صراحت کے ساتھ یہ کہا: ’’ہم حسن بصری کے دینی مقام و مرتبہ کے محتاج ہیں اور وہ ہماری دنیا سے لاپروا و بے نیاز ہیں‘‘!!
یہ تو کردار تھا علماء سلف کا جن کے سامنے حکمران بھی دم مارنے کی جرأت نہیں کرتے تھے مگر آج کے علماء ہیں کہ حکومتوں کے دروں پر بھکاریوں کی طرح چکر کاٹتے رہتے ہیں۔ حکام کے سامنے ان کی کوئی عزت اور حیثیت نہیں رہی۔ [عوام کے سامنے بھی کوئی عزت نہیں رہی]
اس کے باوجود اس گئے گزرے دور میں چند علماء ایسے بھی ہیں جنہوں نے امانت کا حق ادا کیا اور اپنا پیغام دوسروں تک پہنچایا، اللہ کے راستے میں تعذیب و تشدد کو برداشت کیا بلکہ ایسی مثالیں بھی موجود ہیں کہ بعض علماء نے اپنی گردنیں بھی راہِ خدا میں کٹا دیں!!
جمہور عوام کی ذمہ داری:
اب ذرا یہ جائزہ لیتے ہیں کہ کیا موجودہ خلل پیدا کرنے میں عوام کی بھی کچھ ذمہ داری ہے یا نہیں؟ واقعہ یہ ہے کہ ذمہ داری ہر طرف مشترکہ طور پر موجود ہے اور ہر طرف اس کا کچھ نہ کچھ حصہ ضرور دکھائی دیتا ہے۔ جس قدر کسی کے اختیارات اور وسائل زیادہ ہیں اسی قدر ذمہ داری بھی عائد ہوتی ہے۔ مثلاً عالم کی ذمہ داری جاہل کے برعکس بہت زیادہ ہے۔ اسی طرح صاحب سلطنت و اقتدار کی ذمہ داری عام آدمی سے بہت بڑی ہے۔ مال دار آدمی کی غریب آدمی سے زیادہ ہے۔
لہٰذا ذمہ داریوں میں فرق اور تفاوت ضرور ہے لیکن کوئی فرد اس سے مستثنیٰ نہیں ہے۔
اُدھر نبیﷺ نے ہر فرد پر اس کے مقام اور مرتبہ کے مطابق ذمہ داری ڈالی ہے۔جیسا کہ اس حدیث شریف میں ہے:
کُلُّکُم رَاعٍ وَکْلکُمْ مَسْئُولْ عَنْ رَعِیَّتِہٖ…
اسلام ایسے کسی خاص گروہ یا طبقے کو نہیں جانتا جس کا خصوصی اعتبار کر کے اسے ’’رجال الدین‘‘ سمجھ کر ذمہ دار ٹھہرائے (جیسا کہ یہود و نصاریٰ کا عقیدہ ہے کہ دین صرف کلیسا تک محدود ہے) بلکہ اسلام میں ہر مسلمان اپنے دین کا پابند ہے اور پوری امت بحیثیت مجموعی اس بات کی ذمہ دار ہے کہ وہ اللہ کے احکامات اور فرائض کی پاسداری کرے اور امر بالمعروف ونہی عن المنکر کا کام انجام دے۔
جیسا کہ قرآن میں ارشاد ہے:
وَالْمُؤْمِنُوْنَ وَالْمُؤْمِنٰتُ بَعْضُہُمْ اَوْلِیَآء بَعْضٍ یَاْمُرُوْنَ بِالْمَعْرُوْفِ وَیَنْہَوْنَ عَنِ الْمُنْکَرِ… (التوبۃ:۷۱)
’’تمام اہل ایمان (مرد و خواتین) ایک دوسرے کے حامی و مددگار ہیں (یہ سب) اچھائی کی طرف دوسروں کو بلاتے اور منکرات سے منع کرتے ہیں‘‘۔
ہماری عادت یہ بن گئی ہے کہ ہم اپنے آپ کو بھول جاتے ہیں اور دوسروں کو تمام ذمہ داری سونپ دیتے ہیں۔ ایک دفعہ کا واقعہ ہے کہ میں ایک مجلس میں بیٹھا ہوا تھا اور ایک عالم دین (جو بہت اچھے داعی ہیں) وہاں خطاب کر رہے تھے۔ خطاب کے بعد مجلس میں بیٹھے ہوئے لوگوں میں سے ایک شخص کھڑا ہوا اور خطیب صاحب سے کہنے لگا:
’’جناب آپ کو تیس برس گزر گئے ہیں باتیں کرتے ہوئے لیکن ابھی تک آپ نے کچھ کیا نہیں اور نہ کوئی تبدیلی آئی ہے‘‘۔
اس پر خطیب صاحب نے جل کر کہا:
’’آپ لوگ تیس سال سے میری باتیں سُن رہے ہیں لیکن آپ نے آج تک ان پر کتنا عمل کیا؟‘‘
یہ حقیقت ہے کہ ذمہ داری کسی ایک جانب نہیں پڑ سکتی۔ جتنی ذمہ داری متکلم اور خطیب کی ہے اتنی ہی ذمہ داری سامع کی بھی ہے۔ سامع کی ذمہ داری یہ ہے کہ وہ کلام کو عمل میں تحویل کرلے اور افکار و نظریات کو واقعہ و تجربہ میں ڈھالے۔ ذمہ داری کی تقسیم اور درجے میں فرق ضرور ہے لیکن کوئی اس دائرے سے باہر نہیں۔
جس طرح علماء ذمہ دار ہیںاس طرح عام آدمی بھی ہیں، جس طرح حکمران ہیں اسی طرح عوام بھی ہیں۔ جس طرح دعاۃ یا واعظین کی ذمہ داری ہے اسی طرح سامعین کی بھی ہے۔
تحریک اسلامی کی ذمہ داری:
جب تحریک اسلامی کا نام لیا جائے گا اور موجودہ خلل کی بات ہوگی تو ہر ایک کی انگلیاں موجودہ تحریک اسلامی کی طرف اٹھیں گی اور امت کو جن مصائب و آلام اور انتشار و تفرقے سے پالا پڑا ہوا ہے اسے اس کا ذمہ دار ٹھہرائیں گی
تحریکِ اسلامی سے لوگوں کی توقعات یہ تھیں کہ وہی واحد امید کی کرن ہے جو امت کے بیڑے کی قیادت کر کے اسے ساحل مراد تک پہنچائے گی۔ امت کے خوابوں کو حقیقت کا پیرہن پہنائے گی۔ کیونکہ تحریک اسلامی کے پاس اب عوام کی بڑی تعداد موجود ہے اور اس کے فدائی (جو جان کو ہتھیلی پر رکھ کر میدان میں کود پڑتے ہیں) جو رات کے راہب اور دن کے شاہسوار ہیں رُہْبَانُ اللَّیلِ وفْرسَانُ النَہَار۔ اب امت کی ہچکولے کھاتی نائو کو بھنور سے نکال لائیں گے۔ تحریک اسلامی کو قائم ہوئے اتنا عرصہ گزر چکا ہے جو اسے جوانی کے مرحلے میں داخل ہونے اور پھل دار درخت بننے کے لیے کافی ہے۔ اگر صورت حال ایسی ہی ہے تو پھر ضروری ہے کہ ذرا توقف کرکے تحریک اسلامی کا جائزہ لیا جائے اور موجودہ حالات کے تناظر میں اس کی ذمہ داریوں اور فرائض کو سامنے رکھ کر اس کا محاسبہ کیا جائے۔
ooo
Leave a Reply