
ششی تھرور بھارتی شہری ہیں اور کئی سال تک اقوام متحدہ کے اسٹاف میں رہے ہیں۔ وہ دل سے چاہتے ہیں کہ بھارت کو سلامتی کونسل میں مستقل رکن کی حیثیت ملے، لیکن اس کی راہ میں جو مشکلات ہیں وہ ان سے بھی پوری طرح آشنا ہیں۔ سلامتی کونسل میں ’’اصلاح‘‘ کس طرح ہو سکتی ہے، ششی نے اس کی تفصیل بھی بیان کی ہے اور ایسی معلومات فراہم کی ہیں جو قارئین کی دلچسپی کا باعث ہوں گی۔
مجھے اقوام متحدہ کی ملازمت سے الگ ہوئے ایک سال گزر چکا ہے، لیکن آج بھی مجھ سے یہ سوال اکثر پوچھا جاتا ہے کہ ’’بھارت سلامتی کونسل کا مستقل رکن کب بنے گا؟‘‘۔ میرا مختصر جواب یہ ہوتا ہے ’’اس سال نہیں، نہ اگلے سال‘‘۔ مگر ہمارے ملک میں اس سوال پر اتنی غلط فہمیاں ہیں کہ اس سوال کا مفصل جواب ضروری ہے۔
’’سلامتی کونسل‘‘ کی اصلاح کا معاملہ ایسا ہے جیسے ایک مریض کے گرد بہت سے ماہر ڈاکٹر جمع ہوں۔ ان میں مرض کے بارے میں تو اتفاق رائے ہو، لیکن مرض کا علاج کیا ہو گا، اس پر اختلاف ہو۔ ’’مرض‘‘ کی تشخیص تو واضح ہے۔ اقوام متحدہ تو ۱۹۴۵ء میں قائم ہوئی اور اس وقت جو حالات تھے یہ انہی کی آئینہ دار ہے۔ اس وقت اقوام متحدہ کے ارکان کی تعداد ۵۱ اور سلامتی کونسل کے ارکان کی تعداد ۱۱ تھی۔ گویا مجموعی ارکان کا ۲۲ فیصد سلامتی کونسل میں شامل تھا۔ آج اقوام متحدہ کے ارکان کی تعداد ۱۹۲ ہو چکی ہے، لیکن سلامتی کونسل کے ارکان کی تعداد صرف ۱۵ ہے، جو مجموعی تعداد کے ۸ فیصد سے بھی کم ہے، چنانچہ بہت سے ارکان محسوس کرتے ہیں کہ سلامتی کونسل میں ارکان کو مناسب تعداد میں نمائندگی حاصل نہیں۔ سلامتی کونسل کے ارکان میں طاقت کا توازن بھی درست نہیں۔ ارکان کی تعداد عالمی آبادی کی مناسبت سے بھی بجا نہیں۔ دنیا کی مجموعی آبادی کے ۵ فیصد پر مشتمل ممالک سلامتی کونسل کی ۳۳ فیصد نشستوں پر قابض ہیں۔ پانچ مستقل ارکان امریکا، برطانیہ، فرانس، روس اور عوامی جمہوریہ چین تو اپنی اپنی حیثیت کا لطف اٹھا رہے ہیں، انہیں سلامتی کونسل کی کسی بھی قرارداد کو ’’ویٹو‘‘ کرنے کا حق حاصل ہے۔
چنانچہ ۲۱ ویں صدی کی پہلی دہائی میں سلامتی کونسل میں اصلاح ناگزیر محسوس ہوتی ہے۔ اقوام متحدہ نے اس ضرورت کا احساس ۱۹۹۲ء میں ہی کر لیا تھا جب جنرل اسمبلی میں ایک گروپ قائم کیا گیا، تاکہ اس معاملہ کا جائزہ لیا جا سکے اور اقوام متحدہ کی ۵۰ ویں سالگرہ (۱۹۹۵ء) کے موقع پر اس حوالے سے مسئلہ کا حل تلاش کیا جا سکے، مگر یہ گروپ نہ صرف ادارہ کی ۵۰ ویں سالگرہ پر کوئی حل پیش نہ کر سکا بلکہ ۶۱ ویں سالگرہ بھی یونہی گزر گئی۔ وہ شاید اقوام متحدہ کی ۱۰۰ ویں سالگرہ بھی اس معاملہ کے میرٹ پر غور کرتے ہی گزار دیں گے۔ ویسے یہ معاملہ بڑا سیدھا سادا ہے، جو ملک بھی یہ محسوس کرتا ہے کہ اسے سلامتی کونسل کی رکنیت حاصل ہونی چاہیے، خصوصاً وہ ممالک جو یہ سمجھتے ہیں کہ وہ سلامتی کونسل کے کم از کم تین چار مستقل ارکان سے کسی صورت کم تر نہیں، بلکہ کئی اور ممالک بھی یہ سمجھتے ہیں کہ وہ سلامتی کونسل میں اصلاح سے کوئی فائدہ حاصل نہیں کر سکیں گے۔ چھوٹے ممالک جو اقوام متحدہ کے نصف ارکان سے بھی زیادہ ہیں، اس حقیقت سے پوری طرح باخبر ہیں، چنانچہ وہ کبھی کبھار سلامتی کونسل کی دو سالہ عارضی رکنیت کے لیے انتخاب لڑتے رہے ہیں، مگر جو بڑے ممالک ہیں وہ اس بات پر آزردہ اور ناراض رہتے ہیں کہ انہیں بھی عالمی ادارہ کے دوسرے درجے کا رُکن ہی سمجھا جاتا ہے۔ بعض اعتراض کنندگان مثلاً کینیڈا اور اسپین نہیں چاہتے کہ مزید ارکان مستقل ارکان میں شامل کیے جائیں، لیکن کئی دوسرے ممالک مستقل ارکان کی دوڑ میں شامل ہونا ضروری تصور کرتے ہیں، چنانچہ ایسے ارکان نے اقوام متحدہ کے اندر اپنے گروپ قائم کر لیے ہیں تاکہ سلامتی کونسل کی ’’اصلاح‘‘ کو ناکام بنا سکیں۔
اقوام متحدہ کے منشور میں ترمیم بڑی مشکل ہے۔ کسی بھی ترمیم کے لیے دو تہائی اکثریت ناگزیر ہے۔ گویا جنرل اسمبلی کے اجلاس میں ادارہ کے کل ۱۹۲ ارکان میں سے ۱۲۸ ترمیم کی حمایت کریں تو ترمیم ممکن ہو سکتی ہے۔ پھر اس ترمیم کو ہر ملک کی پارلیمنٹ سے بھی ۲ تہائی اکثریت کے ساتھ منظور کرنا لازمی ہے۔ چنانچہ کئی ممالک میں حکمران جماعتیں یا گروپ اتنی اکثریت نہیں رکھتے، چنانچہ وہ سلامتی کونسل میں اصلاح سے لاتعلق رہتے ہیں، اس کا مطلب یہ بھی ہے کہ ترمیم ارکان جنرل اسمبلی کی دو تہائی اکثریت سے منظور ہو سکتی ہے، لیکن اس کے لیے یہ بھی ضروری ہے کہ سلامتی کونسل کے مستقل ارکان ترمیم کی مخالفت نہ کریں تو ایسا ممکن نہیں، کیونکہ جب ترمیم کو سبھی ممالک کی پارلیمنٹوں سے منظور کرانے کا مرحلہ درپیش ہو گا تو امریکی سینیٹ کا کوئی ایک بااثر رکن بھی ترمیم کی توثیق ناکام بنا سکتا ہے۔ گویا ترمیم ایک مشکل کام ہے۔
سوال یہ بھی ہے کہ پھر وہ کون سے ممالک ہیں جو سلامتی کونسل کی رکنیت میں اضافہ چاہتے ہیں۔ ظاہر ہے ایسے ممالک ہی چاہیں گے جن کا دنیا کے معاملات میں کچھ اثر ورسوخ ہے اور جو اقوام متحدہ کے لیے فنڈ میں بھاری رقوم فراہم کرتے ہیں۔ جاپان اور جرمنی اقوام متحدہ کے فنڈز میں سب سے زیادہ حصہ ڈالنے والوں میں دوسرے اور تیسرے نمبر پر ہیں (حالانکہ ۱۹۴۵ء میں دوسری جنگ عظیم میں فتح حاصل کرنے والے اتحادیوں نے اقوام متحدہ کا جو منشور تیار کیا تھا اس میں ان دونوں ممالک کو ’’دشمن ملک‘‘ قرار دیا گیا تھا اور یہ منشور آج بھی نافذ ہے۔) جب ان دونوں ممالک نے سلامتی کونسل کی مستقل رکنیت دیئے جانے پر زور دیا تو اٹلی کے وزیر خارجہ نے فقرہ کسا: ’’یہ جاپان اور جرمنی کے بارے کیا باتیں ہو رہی ہیں؟ جنگ تو ہم نے بھی ہاری تھی‘‘۔ اگر ان دونوں ممالک کو سلامتی کونسل کا رکن بنا لیا جائے تو شمالی و جنوبی توازن مزید خراب ہو سکتا ہے، چنانچہ توازن کو درست رکھنے کے لیے ترقی پذیر دنیا سے مزید مستقل ارکان سلامتی کونسل میں لینا پڑیں گے۔ یہ کون سے ملک ہو سکتے ہیں۔ ایشیا میں بھارت جو دنیا کا سب سے بڑا جمہوری ملک اور معاشی اعتبار سے دنیا کا پانچواں بڑا ملک ہے اور وہ اقوام متحدہ کے قیام امن کی کوششوں میں بھی شامل رہا ہے چنانچہ وہ سلامتی کونسل کی مستقل رکنیت کے لیے اصرار کرے گا، مگر پاکستان اور انڈونیشیا ضرور اس کی مخالفت کریں گے۔ جنوبی امریکا میں برازیل کو وہی حیثیت حاصل ہے جو بھارت کو ایشیا میں حاصل ہے لیکن ارجنٹائن اور میکسیکو کے نظریات اس کے برعکس ہیں۔ افریقہ میں نائیجریا کی معیشت سب سے وسیع تر ہے،جنوبی افریقہ کی ثقافت قدیم ترین ہے۔ پھر مصر بھی ہے۔ جاپان کے حوالے سے چین اور جنوبی کوریا کو بھی سخت اختلاف ہو گا۔ جاپان پر ستر سال قبل جنوبی کوریا اور چین پر مظالم توڑنے کا الزام بھی ہے، جس کا اسے آج ’’انعام‘‘ بھی دیا جا رہا ہے۔
بلاشبہ جنرل اسمبلی کے دو تہائی ارکان کی شرط سلامتی کونسل کی ’’اصلاح‘‘ کی راہ میں حائل رہی ہے، مگر مجھے یقین ہے کہ سلامتی کونسل میں تبدیلی لانی ہی پڑے گی اور بھارت ایک دن اپنا حق حاصل کر کے رہے گا۔
(بشکریہ: ’’ٹائمز آف انڈیا‘‘۔ تلخیص و ترجمہ: نذیر حق)
Leave a Reply