سلامتی کونسل نے فلسطین میں یہودی آبادکاری کی ایک نئی قرارداد منظور کی جس میں فلسطین میں یہودی آبادکاری کو باطل قرار دیا۔ فلسطین میں اسرائیل کے ناجائز قبضے کے خلاف سلامتی کونسل کی یہ پہلی قرارداد نہیں۔ اب تک اقوام متحدہ کی جانب سے ۱۰؍ایسی ہی قراردادیں منظور کی جاچکی ہیں۔ مرکز اطلاعات فلسطین نے ایک رپورٹ میں اقوام متحدہ کی فلسطین میں اسرائیل کے ناجائز قبضے کے خلاف ماضی میں منظور کردہ دیگر قراردادوں پر مختصر روشنی ڈالی ہے۔ ان قراردادوں کے اہم نکات کیا تھے؟ ان پر کتنا عمل درآمد ہوا اور فلسطینیوں کو ان قراردادوں سے کتنا فائدہ پہنچا ہے؟ اس رپورٹ میں ان ہی سوالوں کا تجزیہ کیا گیا ہے۔ اقوام متحدہ میں منظور ہونے والی قراردادوں کے دوران کئی اور بھی ایسی ہی قراردادیں پیش کی گئیں، مگر انہیں صہیونی ریاست کے لے پالک (امریکا) نے ویٹو کرکے فلسطین ہی نہیں بلکہ انسان دشمنی کا ثبوت دیا۔ امریکا نے ہر بار فلسطین کی حمایت میں منظور کردہ قراردادوں میں صہیونی ریاست کا ساتھ دیا، کبھی ان قراردادوں کی مخالفت کرتے ہوئے، ویٹو پاور کا استعمال کیا اور کبھی رائے شماری سے راہِ فرار اختیار کی۔ یوں امریکا نے ہر اہم موقع پر فلسطینیوں کے حقوق کے حصول کی مساعی کی حوصلہ شکنی کی۔ ماضی میں جھانک کر فلسطین کی حمایت میں منظور ہونے والی قراردادوں پر نظر ڈالتے ہیں۔
قرارداد نمبر۲۴۲:
یہ قرارداد ۲۲ نومبر ۱۹۶۷ء کو ’نکسہ‘ جنگ کے بعد جاری کی گئی تھی۔ اس قرارداد میں اسرائیل سے مطالبہ کیا گیا تھا کہ ۱۹۶۷ء کی جنگ میں قبضے میں لیے گئے بعض علاقوں کو متنازع قرار دیتے ہوئے فلسطینی علاقوں سے اسرائیل کے نکل جانے کا مطالبہ کیا گیا۔ اس قرارداد میں فلسطینی پناہ گزینوں کی مشکلات کے حل، عالمی گزرگاہوں کو سرگرمیوں کی مکمل آزادی مہیا کرنے، پناہ گزینوں کے منصفانہ حقوق، اسلحہ سے پاک علاقے کا قیام اور مشرقِ وسطیٰ میں دیرپا قیام امن کے لیے موثر اقدامات کے مطالبات شامل ہیں۔
قرارداد نمبر۳۳۸:
یہ قرارداد ۲۲؍اکتوبر ۱۹۷۳ء کی اسرائیل اور عرب ممالک کے درمیان جنگ کے بعد جاری کی گئی۔ اس قرارداد میں فریقین میں جنگ بندی اور قرارداد ۲۴۲ کے تمام نکات پر جلد ازجلد عملدرآمد کا مطالبہ کیا گیا، اس قرارداد میں جنگ بندی پر قائم رہنے، مذاکرات کے آغاز اور مشرقِ وسطیٰ میں قیامِ امن کے لیے حالات سازگار بنانے کے اقدامات پر زور دیا گیا۔
قرارداد نمبر۴۴۶:
یہ قرارداد ۲۲ مارچ ۱۹۷۹ء کو منظور کی گئی۔ اس میں سلامتی کونسل نے ۱۹۶۷ء بیت المقدس اور فلسطین کے دوسرے شہروں میں یہودی بستیوں کی تعمیر کی مذمت کی گئی۔ اس قرارداد میں بھی یہودی بستیوں کی تعمیر فوری روکنے اور مشرقِ وسطیٰ میں پائیدار امن کے قیام کے مفاہمانہ اقدامات پر زور دیا گیا تھا۔ اس قرارداد میں جنیوا معاہدے کے کنونشن ۴ کے نکات پر عملدرآمد یقینی بنانے پرزور دیا گیا۔ قرارداد میں یہودی آبادکاری اور توسیع پسندی کے حوالے سے کیے گئے تمام سابق اقدامات کو کالعدم قرار دینے، بیت المقدس کو اسرائیل میں ضم کرنے کے اقدامات روکنے اور ۱۹۶۷ء کی جنگ میں قبضے میں لیے گئے عرب شہروں سے فلسطینیوں کی جبری بے دخلی روکنے اور فلسطینیوں کے خلاف طاقت کے استعمال کا سلسلہ ختم کرنے کے مطالبات کیے گئے۔ اس قرارداد میں جولائی ۱۹۷۹ء میں قیامِ امن اور مسئلے کے منصفانہ اور سیاسی حل کے لیے قائم کردہ کمیٹی کا اجلاس منعقد کرنے کا مطالبہ کیا گیا۔
قراردادنمبر ۲۵۲:
یہ قرارداد ۲۲ جولائی ۱۹۷۹ء کو منظور کی گئی۔ اس میں واضح کیا گیا کہ فلسطینی عرب شہروں میں اسرائیلی بستیاں عالمی قوانین کی خلاف ورزی اورجنیوا معاہدہ ۴ کے اصولوں کی خلاف ورزی ہیں۔ ۱۴؍اگست ۱۹۴۹ء کو منظور ہونے والے چوتھے جنیوا معاہدے کے تحت شہریوں کے بنیادی حقوق کی فراہمی کو یقینی بنانے اور کسی خاص طبقے کی اراضی پر غاصبانہ قبضے کی مخالفت کی گئی ہے۔ اس قرارداد میں ۱۹۶۷ء کے عرب شہروں میں یہودی آبادکاری فوری روکنے کا مطالبہ کیا گیا۔ چودہ ممالک نے اس قرارداد کی مخالفت کی مگر امریکا نے رائے شماری میں حصہ نہیں لیا۔
قراردادنمبر ۴۶۵:
یہ قرارداد ۱۹۸۰ء میں منظور کی گئی۔ اس قرارداد میں بھی یہودی آباد کاری میں توسیع اور ۱۹۶۷ء کے مقبوضہ عرب شہروں سے فلسطینیوں کے جبری انخلا کو روکنے اور فلسطینی اراضی پر آبادکاری کا سلسلہ بند کرنے کا مطالبہ کیا گیا۔ اس قرارداد میں کہا گیا ہے کہ اسرائیل نے فلسطینی اراضی پر یہودی آبادکاری کے حوالے سے بنیادی ڈھانچے میں جو مالیاتی اور جغرافیائی تبدیلیاں کی ہیں، ان پر مزید عملدرآمد روکا جائے اور فلسطین کی ۱۹۶۷ء کی چھ روزہ جنگ سے قبل والی پوزیشن بحال کی جائے۔ قرارداد میں بیت المقدس میں اسرائیلی سرگرمیوں کو عالمی قوانین کے منافی قرار دیتے ہوئے مسئلہ فلسطین کے پُرامن حل کے لیے موثر اقدامات پر زوردیا گیا۔ اس قرارداد میں فلسطینی شہروں میں بیرون ملک سے لاکر یہودیوں کو آباد کرنے کی پالیسی تَرک کرنے، دیرپا امن کے قیام اور مشرقِ وسطیٰ میں تنازعات کے حل کے لیے ٹھوس اقدامات کا مطالبہ کیا گیا۔ قرارداد میں اس بات پر زوردیا گیا کہ عالمی برادری مقبوضہ فلسطینی عرب علاقوں میں اسرائیلی اقدامات اورمنصوبوں میں مدد نہ کرے۔
قراردادنمبر۴۷۶:
یہ قرارداد ۳۰ جون ۱۹۸۰ء، میں منظور کی گئی۔ اس قرارداد میں بیت المقدس کا نقشہ تبدیل کرنے کی سازشوں کی مذمت کی گئی ہے۔ قرارداد میں کہا گیا ہے کہ طاقت کے ذریعے فلسطینی علاقوں پر قبضہ ناجائز ہے۔ قرارداد میں القدس میں موجود مقدس مقامات کا دینی اور روحانی تقدس قائم رکھنے کی ضرورت پر زوردیا گیا ہے۔ اس قرارداد کی چودہ ممالک نے حمایت کی، جبکہ امریکا نے قرارداد پررائے شماری میں حصہ نہیں لیا۔
قرارداد نمبر۴۷۸:
مجریہ ۲۰؍اگست ۱۹۸۰ء اس قرارداد میں بھی باردگر فلسطینی علاقوں میں طاقت کے زور پر فلسطینی اراضی پر قبضے کی مذمت کی گئی اور القدس کے حوالے سے اسرائیل کے منظور کردہ قوانین کو مسترد کردیا گیا۔ قرارداد میں کہا گیا ہے کہ جنیوا معاہدے کے اصولوں کی خلاف ورزی ناقابلِ قبول ہے۔ اسرائیل کی جانب سے فلسطینی علاقوں میں قبضے کے لیے اسرائیل کی قانون سازی کی تمام کوششیں، بیت المقدس کے مقدس مقامات کا نقشہ مٹانے اور مقدس مقامات پر قبضے کو باطل اقدامات قرار دیا گیا۔
قرارداد نمبر۱۳۹۷:
مجریہ ۱۲ مارچ ۲۰۰۲ء، اقوام متحدہ کی فلسطین کے حوالے سے منظور کی جانے والی اس قرارداد میں ستمبر ۲۰۰۰ء کے بعد اسرائیلی فوج اور پولیس کے ہاتھوں فلسطینیوں پر تشدد کے استعمال کی مذمت کی گئی۔ قرارداد میں مسئلہ فلسطین کے دو ریاستی حل کی ضرورت پر زوردیا گیا۔ اس قرارداد کی ۱۴ ملکوں نے حمایت کی جبکہ شام نے اس قرارداد کی رائے شماری میں حصہ نہیں لیا۔
قرارداد نمبر۱۵۱۵:
مجریہ ۹نومبر ۲۰۰۳ء، اس قرارداد میں مشرقِ وسطیٰ میں قیامِ امن کے لیے قائم کردہ گروپ چار کے روڈ میپ کی حمایت کی گئی اور دو خودمختار ریاستوں کے اصولوں کے تناظر میں فلسطین۔اسرائیل تنازع کے حل پر زور دیا گیا۔ قرارداد میں عالمی برادری پر زور دیا گیا کہ وہ قضیہ فلسطین کے حل کے لیے گروپ چار کے وضع کردہ فارمولے کے تحت دو ریاستی حل کے لیے مل کر کوششیں کریں۔ مشرقِ وسطیٰ میں ایسا امن قائم کیا جائے کہ دو خودمختار ریاستیں اچھے ہمسایوں کی طرح ایک دوسرے کے ساتھ مل جل کر رہ سکیں۔
قرارداد نمبر۱۸۵۰:
مجریہ ۲۳ دسمبر ۲۰۰۸ء، اس قرارداد میں مصر کے شہر اناپولس میں میریلینڈ ہوٹل میں ۲۷ نومبر ۲۰۰۷ء کو ہونے والی کانفرنس کے تحت طے پائے فیصلے کے تحت، فلسطین اور اسرائیل پر مذاکرات کی بحالی پر زور دیا گیا۔ قرارداد میں فلسطینی اتھارٹی اوراسرائیل پر زوردیا گیا کہ وہ بات چیت کا سلسلہ بحال کریں اور مسئلے کے حل کے لیے وضع کردہ گروپ چار کے روڈ میپ کی شرائط پر عملدرآمد کو یقینی بنائیں۔ ساتھ ہی ساتھ فریقین میں اعتماد سازی کی فضا قائم کرنے کے لیے مؤثر اقدامات کرنے پر زور دیا گیا۔
درجن بھر قراردادوں کے طویل سفر کے باوجود مسئلہ فلسطین ہنوز حل طلب ہے اور عالمی برادری صہیونی ریاست کو نکیل ڈالنے اور فلسطینیوں کو حق خودارادیت دینے سمیت دیگر بنیادی حقوق فراہم کرنے میں بُری طرح ناکام رہی ہے۔ (مرکز اطلاعات فلسطین)
(بشکریہ: سہ روزہ ’’دعوت‘‘ دہلی۔ ۲۵ جنوری ۲۰۱۷ء)
Leave a Reply