مصر۔ تکلیف دہ قُطبی تقسیم

حسنی مبارک کے مستعفی ہونے کے بعد سے مصر میں سیاسی نظام درست کرنے کا سفر کچھ آسان نہیں رہا۔ فروری کے انقلاب کے بعد فوج نے اقتدار اپنے ہاتھ میں لیا اور انتخابات کا روڈ میپ دیتے ہوئے ٹیکنو کریٹس پر مشتمل عبوری حکومت تشکیل دی۔ فوج کی پالیسی اب تک کمزوریوں اور خامیوں سے مزیّن دکھائی دی ہے۔ رجعت پسندی، عوام سے رابطے میں مشکلات اور انقلاب کے نتیجے میں پیدا ہونے والی سیاسی لہر کو سمجھنے میں ناکامی پر فوج کی ساکھ کو متاثر کیا ہے۔ انقلاب کے بعد دارالحکومت قاہرہ میں تشدد کی بدترین لہر آئی ہے جس نے عوام کو فوج کی صلاحیتوں ہی نہیں بلکہ اقتدار کی منتقلی کے بارے میں بھی شک میں مبتلا کردیا ہے۔

۹؍ اکتوبر کو ٹی وی ہیڈ کوارٹر کے سامنے پُرشور مگر پرامن مظاہرہ کرنے والوں سے نمٹنے کے معاملے میں ملٹری پولیس کے اہلکاروں کے رویے سے خرابی پیدا ہوئی۔ سادہ کپڑوں میں موجود اہلکاروں کی مدد سے ملٹری پولیس نے مظاہرین کو سختی سے کچلنے کی کوشش کی۔ اس غیر دانش مندانہ کارروائی کے نتیجے میں ۲۵ مظاہرین مارے گئے۔ چند سپاہی بھی ہلاک ہوئے تاہم ان کی تعداد ظاہر نہیں کی گئی۔ بہت سے شہری گولیوں سے یا پھر بھاری فوجی گاڑیوں سے کچل کر مارے گئے۔ مرنے والوں میں بیشتر قِبطی عیسائی تھے جو عیسائیوں پر حملوں کا جواب دینے کے حوالے سے حکومت کی نا اہلی کے خلاف احتجاج کر رہے تھے۔ مصر کی ساڑھے آٹھ کروڑ کی آبادی میں قِبطی عیسائی ۸ فیصد ہیں۔

سرکاری میڈیا نے مبارک دور کا سا انداز اختیار کرکے عبوری حکومت کی مشکلات میں مزید اضافہ کردیا۔ یکطرفہ کوریج کرتے ہوئے سرکاری میڈیا نے بتایا کہ مشتعل عیسائیوں نے فوج پر حملہ کیا۔ سویلین اموات کی رپورٹنگ میں تاخیر کرتے ہوئے سرکاری میڈیا نے یہ دعویٰ بھی کیا کہ امریکا نے عیسائیوں کو تحفظ فراہم کرنے کے لیے فوج بھیجنے کی پیشکش کی ہے۔ اس افواہ سے مصر کے اسلام پسند عناصر میں اس شبہ کو تقویت ملی کہ قِبطی عیسائی ملک کے غدار ہیں اور بیرونی قوتوں کے ذریعے اپنا استحکام چاہتے ہیں۔ اس کا نتیجہ یہ نکلا کہ ۹؍ اکتوبر کی رات شدت پسند اسلامی عناصر بھی عیسائیوں کے خلاف آپریشن میں فوج کے ساتھ شریک ہوگئے۔

اگلے دن جب یہ ثابت ہوگیا کہ سب کچھ یک طرفہ طور پر ہوا تھا تب باشعور طبقے کی عمومی رائے عیسائیوں کے حق میں ہوگئی۔ جرنیلوں اور سویلین کابینہ نے ہلاکتوں پر دکھ کا اظہار کیا۔

انقلابی نوجوانوں میں یہ تاثر عام ہو رہا ہے کہ فوج اب سابق حکومت کی باقیات کے ساتھ مل کر تشدد کو ہوا دے رہی ہے تاکہ جمہوریت کی طرف سفر دشوار ہو۔ محنت کش طبقہ فوج کے ساتھ دکھائی دیتا ہے کیونکہ اس کے خیال میں انقلاب سے زیادہ اہمیت امن و امان ہے تاکہ معیشت چلتی رہے۔

بہت سے رجعت پسند مسلمان اب بھی اس خیال کے حامل ہیں کہ غلطی قِبطی عیسائیوں کی تھی۔ دوسری طرف عیسائی اپنی اس امید کو دم توڑتا دیکھ رہے ہیں کہ انقلاب کے نتیجے میں انہیں مساوی شہری کا درجہ مل سکے گا۔ عراق میں بھی صدیوں سے آباد عیسائیوں کو جبر کا سامنا کرنا پڑا ہے۔ ان کی مثال مصر کے عیسائیوں کو مزید تشویش میں مبتلا رکھتی ہے۔

بڑھتی ہوئی کشیدگی کے باوجود مصر میں انتظامیہ کا ردعمل خاصا تذبذب آمیز ہے۔ حکومت نے کارخانوں اور دفاتر میں امتیازی سلوک پر سزا کا قانون منظور کیا ہے اور ساتھ ہی ساتھ فوجی عدالت نے عیسائی بلاگر مائیکل نبیل کے کیس کی دوبارہ سماعت کا حکم بھی دیا ہے جسے فوج پر تنقید کے جرم میں تین سال کی سزا سنائی گئی تھی اور جو بھوک ہڑتال کے دوران موت کے دہانے پر پہنچ گیا تھا۔ تشدد کی حالیہ لہر کے بعد اب تک کسی بھی سرکاری افسر کے خلاف کوئی کارروائی نہیں کی گئی۔

(بشکریہ: ہفت روزہ ’’دی اکنامسٹ‘‘ لندن۔ ۱۵؍اکتوبر ۲۰۱۱ء)

Be the first to comment

Leave a Reply

Your email address will not be published.


*