’’انڈو پیسفک ریجن‘‘مودی کی ترجیحات

آج سے چار برس قبل جب مودی نے اقتدار سنبھالا تو خطے کے حوالے سے جاری معاشی تعلقات پر منحصر خارجہ پالیسی کو تبدیل کر کے سیاسی اور سکیورٹی کے حوالے تعلقات کو مستحکم کرنے پر زور دیا۔لیکن تیزی سے تبدیل ہوتے اور تزویراتی طور پر نہایت ہی اہم خطے ’’انڈو پیسفک‘‘ سے متعلق ان کی منصوبہ بندی یا اس حوالے سے ان کا نقطہ نظر جاننابھی اہم ہے۔

مودی کے دورِ اقتدار میں بھارت کی معاشی ترقی اوسطاً ۳ء۷ فیصد رہی۔۲۰۱۶ء سے ۲۰۱۸ء تک بھارت دنیابھر میں تیزی سے ترقی کرتی ہوئی معیشت والے ممالک میں شامل رہا ہے۔ ۲۰۱۸ء اور ۲۰۱۹ء میں معاشی ترقی ۴ء ۷ فیصد تک ہونے کا امکان ہے، جبکہ ۲۰۱۹ء سے ۲۰۲۰ء تک یہ ۸ء۷ فیصد تک ہوگی اور کچھ سالوں بعد بھارت برطانیہ کو معاشی ترقی میں پیچھے چھوڑ دے گا اور دنیا کی پانچویں بڑی معاشی طاقت کہلائے گا۔

مودی نے اپنے مخصوص طرزِ حکومت اور کاروباری برادری پر بھرپور توجہ دے کر بھارت کی خارجہ پالیسی کو تبدیل کر دیا اور اس وقت بھارت صرف مغرب اور چین کے درمیان طاقت کا توازن بنے رہنے سے کہیں آگے بڑھ کر اب وہ دنیا بھر میں اہم اور طاقتور ملک کے طور پر ابھر رہا ہے۔ اس لیے بھارت نے الگ تھلگ رہنے کی پالیسی ترک کر دی ہے۔

مودی نے اقتدار میں آتے ہی تواتر سے کئی اہم فیصلے کیے۔مودی بھارت کے وہ پہلے وزیراعظم ہیں جنھوں نے اسرائیل کا دورہ کیا،بھارت کی پریڈ کے دن ’’آسیان‘‘ کے رہنماؤں کی میزبانی کی،دو ماہ کی قلیل مدت میں سعودی عرب اور ایران کا دورہ کیا،دولت مشترکہ سربراہی کانفرنس میں تقریباً ایک دہائی بعد بغیر کسی نمائندہ کے جس بھارتی وزیراعظم نے شرکت کی وہ مودی ہیں۔انہوں نے ذاتی طور پر یوگا کے عالمی دن کو فروغ دینے میں تعاون کیا۔اور اب یہ دن ہر سال ۱۵ جون کو منایا جاتا ہے اور وہ بھارت کے پہلے وزیراعظم ہیں جو شنگریلا مذاکرات میں اہم خطاب کریں گے۔

مودی کی ’’ایکٹ ایسٹ‘‘پالیسی اور بحری منصوبہ بندی

مودی نے اپنے دور اقتدار کے آغاز ہی میں خارجہ پالیسی کا نام “Look East” سے تبدیل کر کے ’’ایکٹ پالیسی‘‘ (Act East) رکھ دیا۔مودی کی اس وقت تمام تر توجہ ایشیائی ریاستوں کی طرف ہے اور ان کے ذریعے تجارت اور معیشت کو فروغ دے رہے ہیں اور وہ بہتر معیشت کو سیاسی طاقت اور سکیورٹی کے تعلقات بہتر بنانے کے لیے استعمال کررہے ہیں۔

سنگاپور اور ویتنام کے ساتھ بھارت کے تعلقات میں اچانک بہتری آئی، ۲۰۱۵ء میں بھارت اور سنگا پور نے ایک اہم دفاعی معاہدے پر دستخط کیے ساتھ ساتھ دفاعی وزرا کے درمیان دو طرفہ سالانہ مذاکرات کا بھی آغاز کیا۔بھارت نے ویتنام کو پیٹرول بوٹس، دفاعی اخراجات کے لیے۵۰۰ ملین ڈالر کے ساتھ ساتھ انسداد بحری قذاقی، سب میرین اور ائیرکرافٹ ٹریننگ بھی دینے پر رضامندی کا اظہار کیا ہے۔ ۲۰۱۸ء کی ایشین انڈیا کانفرنس کا ایک مشترکہ اعلامیہ نئی دہلی سے جاری ہوا، اس اعلامیہ پر عمل درآمدسے خطہ میں مضبوط بحری تعاون ممکن ہوسکے گا۔

مودی حکومت نے بحر ہند میں اپنے نئے کردار اور ذمے داریوں کو ترجیحی بنیادوں پر طے کیا۔ مودی بھارت کے پہلے وزیراعظم ہیں جنہوں نے بحر ہند کے مستقبل کی منصوبہ بندی کی، ۲۰۱۵ میں ’’ساگر‘‘ کے نام سے بحر ہند کے لیے سکیورٹی اور ترقیاتی پروگرام کا آغازکیا، ساگر ہندی میں سمندر اور جھیل کو کہتے ہیں۔ اس پروگرام کے پانچ مقاصد ہیں جن میں سکیورٹی معاشی تعاون، سمندری حفاظت کو یقینی بنانا، امن اور سلامتی، ہنگامی حالت کا جواب اور تما م ممالک کی طرف سے بین الاقوامی اصول اور معیارات کا احترام شامل ہے۔

بحر ہند میں بھارت نے چین کے بڑھتے ہوئے اثر ورسوخ کو روکنے کی کوششیں شروع کیں۔چین کے اثر کوکم کرنے کے لیے بھارت نے خاص طور پر انفرااسٹرکچر کی تعمیر اور خطے کے ممالک سے باہمی روابط بڑھانے شروع کیے۔ بنیادی ڈھانچے کی تعمیرکے مندرجہ ذیل مقاصد ہیں، بھارت اپنے پڑوسی ممالک میں زلزلے،طوفان یا کسی بھی سانحے کی صورت میں مدد کر سکے،جزائر پر مبنی ریاستوں سے دفاعی تعاون کے ذریعے بحری تحفظ کو یقینی بنانا۔ان اقدامات سے بحر ہند کے جنوبی مغربی اور مشرقی حصوںمیں سفارتکاری اور سیاسی اثرورسوخ کو بڑھانے میں مدد ملی۔اس کے علاوہ اپنے تزویراتی شراکت دار امریکا،جاپان اور آسٹریلیا کے ساتھ رابطے بڑھانابھی ترجیحات میں شامل ہے۔

بھارت اور ’’انڈو پیسفک‘‘

’’انڈو پیسفک‘‘کی اصطلاح کچھ سالوں سے مسلسل سننے میں آرہی ہے۔اتفاق سے اس سال امریکا، آسڑیلیا، جاپان اور بھارت کے درمیان نئے سرے سے سکیورٹی پالیسی مذاکرات شروع ہوئے ہیں۔اس ضمن میں نئی دہلی نے سرکاری طور پر اپنی ’’ایکٹ ایسٹ‘‘ پالیسی کو بھارت کی بنیادی پالیسی کے طور پر نمایاں کیا ہے اور اسے ’’انڈو پیسفک‘‘ کے ساتھ نتھی کیا ہے لیکن اس کے طریقہ کار اور ذمہ داریوں میں ابھی بہت ابہام موجود ہے۔ پہلا یہ کہ’’انڈو پیسفک‘‘ کی جغرافیائی حدود مختلف تعریفوں کے مطابق مشرقی بھارت سے لے کر مغربی بحرالکاہل تک پھیلی ہوئی ہیں۔ لیکن اس پالیسی میں بحر ہند کے بڑے حصے خلیج فارس کو نظر انداز کیا گیا ہے، جہاں سات ملین سے زیادہ بھارتی رہائش پذیر ہیں اور اس کے علاوہ بھارت کے توانائی اور سرمایہ کاری کے معاملے میں بھی اس خطے پر انحصار کرتا ہے۔اس کے ساتھ ساتھ بھارت جزائر پر مبنی ریاستوں کی اہمیت کو بھی نظرانداز کر رہا ہے۔ اس وقت بھارت کی تمام تر توجہ خارجہ اور سکیورٹی امور کی جانب ہے۔

دوسرا یہ کہ’’انڈو پیسفک‘‘کے مغربی حصے اور بحر ہند کے حوالے سے بھارت کی پالیسیوں اور ترجیحات کے درمیان کوئی واضح فرق موجود نہیں ہے۔بھارت سے یہ امید نہیں کی جاسکتی کہ وہ خطے میں سکیورٹی دینے کے حوالے سے تیز ردعمل دے سکے گا۔صرف بحر لکاہل میں بھارت کے پاس چینی سمندری فوج کا مقابلہ کرنے کی صلاحیت ہے۔

تیسرا یہ کہ بھارت اپنے سب سے اہم مقصد بتانے سے ہچکچارہا ہے کہ وہ ’’انڈو پیسفک‘‘کہ بحری راستوں اور ہوائی راستوں میں آزادانہ نقل و حرکت چاہتا ہے،اور اس طرح پالیسیاں واضح نہ کرنے کا عمل چین کی پالیسی رہی ہے۔ بھارت نے ۲۰۱۷ء میں ’’کواڈ‘‘ (چار ملکی اتحاد) کے سینئر نمائندہ عہدیداروں سے ملاقات کے بعد جو بیان جاری کیا اس میں بحری اور سمندری راستوں پر آزادانہ نقل و حرکت، ان کی سکیورٹی کا تذکرہ تک نہیں تھا، حالانکہ ماضی میں بھارت اپنے اس بیانیہ کی پذیرائی کرتا رہا ہے۔

امریکا اور چین

مودی نے اگست ۲۰۱۶ء سے موخر شدہ باہمی فوجی رسائی کے منصوبے پرحال ہی میں دستخط کر کے امریکا کے ساتھ اپنے تعلقات مضبوط کرلیے(ا س کے کچھ ہی عرصے بعدبھارت امریکا کا دفاعی شراکت دار بن گیا)۔ حیرت انگیز طور پر مودی نے چین کے ساتھ تعلقات کے حوالے سے بھی حیران کن اقدامات کیے ہیں۔۷۳ دنوں سے جاری ڈوکلا م کی سرحد پر کشیدگی کو کم کرنے کے لیے مودی نے چین کے صدر سے ایک غیر رسمی ملاقات کی اور بات چیت کے ذریعے مسئلے کو حل کر کے سرحدی کشیدگی کو کم کیا۔

(ترجمہ: سمیہ اختر)

“Understanding Modi’s vision for the Indo-Pecific”. (“iiss.org”. May 14, 2018)

Be the first to comment

Leave a Reply

Your email address will not be published.


*