
۳۰ مارچ کو ترکی میں منعقد ہونے والے بلدیاتی انتخابات میں جسٹس اینڈ ڈیویلپمنٹ پارٹی (اے کے پارٹی) ایک بار پھر بھرپور کامیابی سے ہمکنار ہوئی ہے۔ ان انتخابات کو وزیراعظم رجب طیب اردوان کے لیے اعتماد کے ووٹ کی صورت میں دیکھا جارہا ہے۔ اے کے پارٹی کو ۶ء۴۵ فیصد ووٹ ملے۔ بلدیاتی انتخابات میں ٹرن آؤٹ تقریباً ۹۰ فیصد رہا۔ جو لوگ اے کے پارٹی کی بھرپور کامیابی کو سمجھنا اور اس کا تجزیہ کرنا چاہتے ہیں، انہیں ترکی میں انتخابات کی تاریخ اور تاریخی عوامل پر نظر ڈالنا چاہیے۔
موجودہ ترکی دراصل سلطنتِ عثمانیہ کے خاتمے کے بطن سے پیدا ہوا۔ تب کی عسکری قیادت اور اشرافیہ کے غیر عسکری عناصر نے مل کر جدید ترکی کے آئین کی بنیاد رکھی۔ جن لوگوں نے ملک کے لیے نیا رنگ روپ سوچا، ان کے ذہن میں مستقبل کے ملک کی ایک تصویر تھی۔ وہ شخصی آزادی کے تصور پر مبنی مغربی سیاسی نظریے کو قبول کرچکے تھے اور ترکی کو بھی اسی رنگ میں رنگا ہوا دیکھنا چاہتے تھے۔ اس مقصد کے حصول کو یقینی بنانے کے لیے انہوں نے ایک ایسے آئین کی بنیاد رکھی، جس میں تمام اختیارات کسی ایک شخصیت میں مرتکز کردیے گئے تھے۔ انہوں نے اختیارات کی موزوں تقسیم کا تصور رد کرتے ہوئے عصبیت پر مشتمل نظریے کو ریاست کا بنیادی نظریہ بنا ڈالا۔ جو نظریاتی بنیادیں ان کے تصور سے ٹکرا رہی تھیں، انہیں مسترد کردیا اور جو کچھ وہ نظر انداز نہیں کرسکتے تھے، اسے اپنے نظریے میں ضم کردیا۔
مغرب کے سیاسی تصورات سے غیر معمولی طور پر مرعوب اور مغلوب ترک اشرافیہ نے ملک کے لیے جو بنیاد منتخب کی تھی، وہی عشروں تک سہارا بنی رہی۔ آئین کی نوعیت ایسی تھی کہ چند شخصیات میں تمام اختیارات مرتکز کردیے گئے اور ریاست کے تمام اسٹیک ہولڈرز کو درخُورِ اعتنا سمجھنے کی زحمت گوارا نہیں کی گئی۔ آئین کے ڈھانچے کو تقویت بہم پہنچانے کے لیے اس سے مطابقت رکھنے والا معاشی نظام وضع کیا گیا۔ سیاسی اشرافیہ نے معاشی اشرافیہ کو جنم دیا، جو نظام کو سہارا دینے کا ذریعہ بنی۔
اردوان نے گزشتہ دور کی اشرافیہ کے خلاف اپنی جدوجہد کے آغاز میں جمہوریت کے استحکام کو اپنے کام کی بنیاد قرار دیا۔ ان کی جماعت (اے کے پارٹی) ایک سیاسی تحریک بن کر اُبھری جسے بیشتر ترکوں کی حمایت حاصل ہے۔ جو لوگ اے کے پارٹی کی سماجی بنیاد اور مجموعی نظریے کے حمایتی نہیں ہیں، انہوں نے بھی جمہوریت کو مستحکم کرنے کے حوالے سے اے کے پارٹی کی حمایت سے گریز نہیں کیا کیونکہ وہ اے کے پارٹی سے پہلے کے نظام کے ڈسے ہوئے تھے۔ وہ بھی چاہتے تھے کہ ترکی میں بنیادی اور جمہوری نوعیت کی تبدیلی آئے۔ اے کے پارٹی کی حمایت کرنے والوں میں بہت سے کرد عناصر بھی ہیں جو کرد نسل پرستانہ پالیسی پر یقین رکھتے ہیں۔
ترک عوام کے لیے رجب طیب اردوان ایک ایسے لیڈر کے روپ میں ابھرے جسے معاشرے کے بیشتر طبقات کی حمایت حاصل تھی۔ اردوان کی حمایت کرنے والوں میں اکثریت کوئی واضح تبدیلی چاہتی تھی۔ ۲۰۰۲ء کے عام انتخابات سے دنیا نے دیکھ لیا کہ اے کے پارٹی کو ملک کے تمام حصوں میں ووٹ ملے۔ اپوزیشن کی حمایت کرنے والوں کا تعلق مغربی ساحلی شہروں سے ہے۔ یہ لوگ متوسط اور اعلیٰ طبقے سے تعلق رکھتے ہیں۔
کردوں کی سیاسی تحریک سمیت ملک بھر میں کم و بیش ۸۰ فیصد افراد نے اب اشرافیہ کے پروردہ قدیم نظام کو مسترد کردیا ہے۔ وہ ترکی کو ہر اعتبار سے آزاد ریاست کے طور پر دیکھنا چاہتے ہیں۔ حالیہ بلدیاتی انتخابات کے نتائج سے یہ اندازہ بخوبی لگایا جاسکتا ہے کہ اے کے پارٹی کو معاشرے کے تمام طبقات کی حمایت حاصل ہے اور اس کا سیاسی موقف تسلیم کرلیا گیا ہے۔ اے کے پارٹی ۱۲؍سال سے اقتدار میں ہے اور فی الحال اس کے اقتدار کے لیے کوئی بڑا خطرہ پیدا نہیں ہوا۔
لبرل معاشی پالیسیوں اور معاشی ڈھانچے میں متعارف کرائی جانے والی تبدیلیوں نے ترکی میں غیر معمولی تبدیلیوں کی راہ ہموار کرنے میں مرکزی کردار ادا کیا ہے۔ شہروں کی آبادی تیزی سے بڑھی ہے اور اس معاملے میں ترکی نے یورپ کی ہمسری کی ہے۔ دوسری طرف اشیا و خدمات کی تیز رفتار ترسیل ممکن بنائی جاسکی ہے جس کے نتیجے میں معیشت کو فروغ ملا ہے۔ تعلیم و صحت سے متعلق خدمات کی فراہمی کے حوالے سے اب ترکی بھی یورپ کے انتہائی ترقی یافتہ ممالک کے معیارات کو چُھونے والا ہے۔
پرانی سیاسی اشرافیہ نے سیاسی اصلاحات کا راستہ روکنے کی کوشش کی ہے اور دوسری طرف جمہوریت کے پروانے اب پرانی سیاسی اشرافیہ ہی کے وجود پر سوال اٹھا رہے ہیں۔ ترکی میں ہر سطح کے انتخابی نتائج اور ان کے بعد رونما ہونے والے حالات اس امر کی واضح نشاندہی کرتے ہیں کہ اب ترک عوام بہت کچھ بدلا ہوا دیکھنا چاہتے ہیں اور یہ کہ ریاست کے اہم ترین اداروں میں کھنچائو ہو رہا ہے۔
ترکی نے غیر معمولی ترقی کی ہے مگر اب تک مغربی میڈیا نے ترکی میں ہونے والی ترقی پر توجہ نہیں دی۔ اس کی توجہ صرف اس بات پر رہی ہے کہ کسی وزیر کے رویے کو نشانہ بنائے یا چند علاقوں میں پائی جانے والی معمولی سی بے چینی کو نمایاں کرکے پیش کرے۔ ترکی کے حوالے سے مغربی میڈیا میں ہر تجزیہ یک طرفہ اور جانبداری پر مشتمل ہوتا ہے۔
جب تک سوچ نہیں بدلے گی، تب تک ترکی میں رونما ہونے والی تبدیلیوں کو پوری ایمانداری اور غیر جانبداری سے پیش کرنا ممکن نہ ہوگا۔ مغرب کے تجزیہ کار ہر معاملے کو اپنے مخصوص نقطۂ نظر سے دیکھتے ہیں۔ اُنہیں بظاہر اس بات سے کچھ بھی غرض نہیں ہوتی کہ معاشرے کی بنیادیں کن خطوط پر استوار ہیں۔ وہ ہر معاملے کو مغرب کی لبرل ڈیموکریسی کے تناظر میں دیکھتے ہیں۔
“Understanding Turkish politics”.
(“Arab News”. May 3, 2014)
ترک صدارتی انتخابات
ترک الیکشن کمیشن نے صدارتی انتخابات کا شیڈول جاری کر دیا ہے، جس کے مطابق یہ الیکشن ۱۰؍اگست ۲۰۱۴ء کو ہوں گے۔ ۲۹ جون سے ۳ جولائی تک کاغذات نامزدگی جمع ہوں گے۔ بیرون ملک مقیم ترک باشندے ۳۱ جولائی سے ۳؍اگست تک ووٹ ڈال سکیں گے۔ واضح رہے کہ بیرون ملک مقیم ترک ووٹر کی تعداد ساڑھے ۲۷ لاکھ سے متجاوز ہے، جن میں سے ۲۳ لاکھ سے زائد ووٹرز صرف جرمنی میں مقیم ہیں۔ الیکشن کمیشن نے یہ بھی طے کیا ہے کہ اگر کسی ملک میں مقیم ترک ووٹر کی تعداد ۵۰۰ سے کم ہوگی تو وہاں ووٹنگ کا انتظام نہیں کیا جائے گا۔ اگر پہلے مرحلے میں کوئی امیدوار ۵۰ فیصد سے زائد ووٹ حاصل نہ کر سکا تو ۲۴؍اگست کو رن اَپ الیکشن ہوں گے۔ واضح رہے کہ ترکی میں صدر مملکت پہلی بار عوام کے براہ راست ووٹوں سے منتخب ہوگا۔
Leave a Reply