بھارت کی غیرمحسوس فاقہ زدگی

بھارتی حکومت کا کہنا ہے کہ ۴۶ فیصد بھارتی بچے جن کی عمر ۳ سال سے کم ہے، نامناسب غذائیت کے شکار ہیں۔ بھارتی حکومت نے اس صورتِ حال کو خاموش ہنگامی حالات سے موسوم کیا ہے۔ گردو غبار سے بھرا مدھ پردیش نامی بھارتی صوبہ میں جہاں گذشتہ ۵ برسوں سے مون سون کی بارش بہت تھوڑی رہی ہے، صورتِ حال انتہائی خراب ہے اور ۶۰ فیصد بچے نامناسب عذائیت کے نتیجے میں موت کے دہانے پر پہنچ چکے ہیں۔ یہ بات اقوامِ متحدہ کی بچوں سے متعلق تنظیم UNICEF کی ترجمان میتل اوسدیا نے اے ایف پی کو بتایا۔ نامناسب غذائیت کی یہ صورتِ حال بھارت کی پھلتی پھولتی معیشت کے باوجود ہے جو گذشتہ چار برسوں سے ۵ء۸ فیصد کی اوسط شرحِ نمو کے ساتھ برسرِ ترقی ہے۔ ’’یہ بھارت کے لیے باعثِ شرم و ننگ ہے کہ کھربوں ڈالر پر مشتمل اپنی معیشت رکھتے ہوئے اپنے ۵۰ فیصد بچوں کو بھوک میں مبتلا رکھے ہوئے ہے‘‘۔

UNICEF کا کہنا ہے کہ صحت کے شعبے میں حکومتی سرمایہ کاری غیراطمینان بخش اور ناکافی ہے۔ بچوں کی اموات کی تعداد، کم وزنی کے شکار بچے اور صحت کی بنیادی سہولتوں سے متعلق اعداد و شمار ظاہر کرتے ہیں کہ گذشتہ سات برسوں میں یہاں ان شعبوں میں کوئی نمایاں پیش رفت نہیں ہوئی اور نہ ہی حالات میں کوئی سدھار پیدا ہوا ہے۔ یہ صورتِ حال اس کے باوجود ہے کہ بھارت نے اس بھوک مری سے چھٹکارا حاصل کر لیا ہے جو اس کی تاریخ کو طاعون زدہ کیے ہوئے تھا لیکن ہر گھر کی سطح پر غذائی تحفظ کو یقینی بنانے کا ہدف ہنوز پورا نہیں ہوا ہے۔ کروڑوں لوگ صرف دال، چاول اور گندم پر گزارا کرتے ہیں۔ نالوں کا خراب نظام، غذائیت کی کمی اور بیماریوں سے بچائو کے لیے بے قاعدہ ٹیکوں کے نظام نے انھیں انفیکشن کے لیے بہت سازگار بنا دیا ہے۔ اس سارے سلسلے میں بچے سب سے زیادہ مصائب کے شکار ہوتے ہیں۔ ’’آنگن وادی‘‘ یا گائوں میں بچوں کی صحت کی نگہداشت کے مراکز ۶ سال سے کم بچوں کی دیکھ بھال پر مامور ہیں اور یہ نامناسب غذائیت کے خلاف حکومت کی پہلی دفاعی لائن ہے۔ بھارت کی سپریم کورٹ نے حکم دیا ہے کہ ۶ سال سے کم عمر کے بچوں کو دوپہر کا کھانا مفت دیا جائے۔ لیکن شہریوں کی جانب سے ۶ سال سے کم عمر کے بچوں کے حقوق کے تحفظ کے اقدامات کو رقوم کی کمی، اسٹاف کی کمی اور بدعنوانی کا سامنا ہے۔ اس لیے کہ اس مد میں جو غذا فراہم کی جاتی ہے وہ اکثر قلیل ہوتی ہے اور کبھی تو نہ ہونے کے برابر ہوتی ہے کیونکہ اس مد کی رقوم بدعنوان اہل کاروں کی جیب میں چلی جاتی ہیں۔ امدادی کارکنوں کا کہنا ہے کہ اس مد میں حکومت فی بچے کے لیے صرف دو روپے (5 cents) رقم دیتی ہے جو کہ انتہائی حقیر رقم ہے۔ جو بچے شدید نامناسب غذائیت کے شکار ہیں، ان کے لیے حکومت نے ہنگامی بنیادوں پر غذا فراہم کرنے کے مراکز قائم کیے ہیں لیکن ان کی تعداد ناکافی ہے۔ بھارت میں ایک تہائی کے قریب بچے کم وزن پیدا ہوتے ہیں جس کا مطلب یہ ہے کہ ان کی مائیں بھی کم وزنی اور نامناسب غذائیت کی شکار ہیں۔ اس کو بچوں کے ماہر ڈاکٹر پرساد نے بھی نوٹ کیا ہے کہ بہت ساری مائوں کو اپنے بچوں کو دودھ پلانے کا وقت نہیں ملتا کیونکہ وہ کھیتوں میں یا مزدوری کے کاموں میں یا دوسروں کے گھر ماسی کا کام انجام دینے کے لیے یا کارخانوں میں کام کے لیے گھر سے باہر ان کی مصروفیت ہوتی ہے۔ بعض بدقسمت بچے اپنی پیدائش کے وقت ہی یا پیدائش کے فوراً بعد اپنی ماں سے محروم ہو جاتے ہیں۔ ماں کی اموات کا تناسب اس طرح ہے کہ ایک لاکھ بچے جنم دینے والی مائوں میں سے ۵۴۰ مائیں موت سے دوچار ہو جاتی ہیں اور اس کی اصل وجہ یہ ہے کہ ان کو وقت پر مناسب علاج کی سہولت میسر نہیں ہو پاتی۔ جبکہ بھارت کی آبادی کا ۴۰ فیصد حصہ ۱۸ سال سے کم عمر کا ہے۔ ایسی صورت میں نامناسب غذائیت بھارت کے مستقبل کے لیے تشویش کا پہلو رکھتی ہے۔ بعض جائزوں کے مطابق وسیع پیمانے پر نامناسب غذائیت ممکنہ اقتصادی ترقی میں ۲ سے چار فیصد کمی کا باعث ہوتی ہے۔

(www.presstv.ir، ۲۶ مئی ۲۰۰۷ء)

Be the first to comment

Leave a Reply

Your email address will not be published.


*