
اگر آپ پاکستان سے کوئی بات منوانا چاہتے ہیں تو اس کا ایک ہی طریقہ ہے۔۔ طاقت کی زبان میں بات کیجیے۔ اگر بات عسکری سطح پر کی جائے تو پاکستان سے مختلف فوائد بٹورے جاسکتے ہیں۔ ابھی چند ماہ پہلے تک حالت یہ تھی کہ پاکستان کے جرنیل اتنے ہی ’’تابکار‘‘ تھے جتنا کہوٹہ میں کوئی لیکیج ہوسکتا ہے!
پھر یہ ہوا کہ کراچی ایک بار پھر جنونیت کے گڑھے میں گرا، بھیڑ نے پھر منمنانا شروع کردیا۔ تمام امیدیں ہوا میں اڑ گئیں اور جرنیل ایک بار پھر پرانے فریم میں فٹ ہونے لگے۔
ذرا دیکھیے تو سہی کہ کراچی میں سیاست دانوں نے معاملات کو کس قدر بگاڑ دیا ہے۔ ان کامطالبہ یہ ہے کہ کراچی میں جو کچھ ہو رہا ہے اُس کا تقاضا یہ ہے کہ بِلاامتیاز کارروائی کی جائے۔ مگر صاحب ’’قومی مفاد‘‘ بھی تو کوئی چیز ہے۔ اور نام نہاد ’’قومی مفاد‘‘ میں ایکشن کو ٹالا جارہا ہے۔
یہ تو کتاب کی رو سے سب سے پرانا کھیل ہے۔ پہلے سیاست دانوں کو کھلی چھوٹ دو کہ جی بھر کے خرابیاں پیدا کریں۔ سیاست دانوں کو معاملات خراب کرنے ہی ہیں۔ اور جب سب کچھ ناقابل برداشت دکھائی دینے لگے تو آکر سب کچھ درست کرنے کے نام پر وہی پرانی کیفیت بحال کردو۔ یعنی سیاست اور سیاست دان برے ہیں۔۔ اور فوج اچھی ہے!
جس کسی کو معاملات کے تناظر کا بہتر علم نہ ہو اس کی نظر میں تو سب کچھ کیا نہیں جارہا بلکہ ہو رہا ہے۔ کسی نے سوچا ہوگا کہ ایبٹ آباد میں اسامہ بن لادن کمپاؤنڈ میں آپریشن ہوگا اور پھر کراچی میں مہران بیس پر حملہ کیا جائے گا۔ ان دونوں واقعات نے آرمی چیف جنرل اشفاق پرویز کیانی کی ساکھ داؤ پر لگادی اور ان پر ہر طرف سے تنقید کی جانے لگی۔
کراچی کا معاملہ یہ ہے کہ جب سیاست دان آگ سے کھیلتے ہیں تو کچھ کچھ جہنم کا نقشہ آنکھوں کے سامنے کھنچنے لگتا ہے۔ عام طورپر سیاست دان کمزور ہوتے ہیں۔ دعوے کرنا اور بات ہے، مگر سچ یہ ہے کہ بالعموم ان میں معاملات کو قابو میں رکھنے کی صلاحیت نہیں ہوتی۔ کراچی کے سیاست دان دھوکے باز اور تشدد کے شوقین ہیں۔ کراچی کا بحران تو ایک مدت سے اپنے جلوے بکھیرنے کو بے تاب تھا۔ مگر خیر، جو لوگ وردی والوں کے بارے میں کچھ جانتے ہیں انہیں اندازہ تھا کہ جو کچھ دکھائی دیا ہے اس سے ہٹ کر بھی اسکرپٹ میں کچھ نہ کچھ ضرور ہے۔ جنرل کیانی امریکی سینیٹر جان کیری سے افغانستان کے معاملات پر گفت و شنید کے لیے خلیجی ریاست گئے اور آٹھ گھنٹے بات چیت کی تاہم اس دورے یا بات چیت کے بارے میں پاکستان میں کسی نے کچھ بھی نہیں سنا۔ ہاں، جنرل کیانی کراچی پہنچے تو سب کچھ پتا چل گیا۔ فوج کہتی ہے کہ کراچی میں جو کچھ بھی کرنے کو کہا جائے گا، وہ کرے گی۔ سب نے فوج کے اس بیان کا خیر مقدم کیا!
ذوالفقار مرزا نے میڈیا پر آکر خطرناک اور حساس الزامات عائد کیے۔ ساتھ ہی انہوں نے پر اسرار طور پر جرنیلوں کو دیوتا بناکر پیش کیا۔ میڈیا کو اچانک راتوں رات ان تمام فائلوں تک رسائی حاصل ہوگئی جن کا تعلق ذوالفقار مرزا کے عائد کیے ہوئے الزامات سے تھا۔
مگر ٹھہریے، کیا متحدہ قومی موومنٹ فوج کی منظور نظر نہیں رہی؟ جنرل پرویز مشرف کے پورے دور میں متحدہ کو غیرمعمولی فوقیت دی جاتی رہی۔ اور اب کراچی میں طاقت کا توازن بحال کرنے کی بھرپور کوششیں کی جارہی ہیں۔
بالکل درست۔ فوج کا منظور نظر اگر کوئی ہے تو وہ صرف فوج ہے۔ مگر خیر، ایک مدت سے فوج (دہشت گردی سے نمٹنے اور دیگر امور کے حوالے سے) مشکل میں ہے۔
موجودہ عسکری قیادت ساکھ درست کرنے کے معاملے میں خاصی ماہر دکھائی دیتی ہے۔ پرویز مشرف کے دور میں فوج کو جو نقصان پہنچا اس کا داغ ان کے رخصت ہونے کے ایک سال کے اندر دھو دیا گیا۔ ڈرون حملوں اور ریمنڈ ڈیوس کیس کو عوامی سطح پر اچھال کر امریکا کو ایک ہاتھ کی دوری پر رکھنے کا اہتمام کیا گیا اور دوسری طرف، نجی سطح پر، امریکیوں سے نصف ہم آغوش رہنا بھی گوارا کیا گیا۔ سی آئی اے اور آئی ایس آئی کے درمیان جنگ میں عوامی جذبات کو دفاعی لائن کے طور پر کھڑا کیا گیا۔
اور پھر ۲ مئی کا ایبٹ آباد آپریشن ہوا۔ امریکیوں نے ایک بار پھر پاکستانیوں کے لیے ہزیمت کا سامان کیا۔ ایبٹ آباد آپریشن کے بعد پی این ایس مہران کا واقعہ رونما ہوا جس میں عسکریت پسندوں نے فوج کی ساکھ پر ضرب لگائی۔ اب تو عوام کے ساتھ ساتھ خود فوج میں سے بھی سوالات اٹھائے جانے لگے۔ اور یہ سب کچھ فوجی قیادت کے لیے انتہائی پریشان کن تھا۔ سلیم شہزاد کے قتل نے میڈیا کو مزید مشتعل کردیا۔
اور ابھی ان تمام واقعات کو پون برس ہی گزرا ہے کہ ایک بار پھر فوج سے کہا جارہا ہے کہ کراچی میں معاملات درست کرے۔ سیدھی سی بات ہے کہ جب سیاسی عسکریت پسندی سے عوام کی جان پر بن آئے گی اور کاروباری طبقے کو ڈرایا جانے لگے گا تو یہ دونوں اُنہی کی طرف دیکھیں گے جن سے حالات بہتر بنانے کی امید ہوگی۔ اور پھر اچانک ہی سیاست دانوں کی رہی سہی ساکھ بھی مٹی میں مل جاتی ہے یا ملا دی جاتی ہے۔ اچانک یہ بات سامنے آتی ہے کہ ایم کیو ایم ملک توڑنا چاہتی ہے اور پاکستان پیپلز پارٹی اپنی حکومت برقرار رکھنے کے لیے کسی سے بھی ہاتھ ملانے کے لیے تیار ہوسکتی ہے۔ پاکستان ایک بار پھر ایسے جہاز کی شکل اختیار کرلیتا ہے جس کے سفر کی کوئی سمت مقرر نہیں اور کوئی ناخدا یا کپتان بھی نہیں۔ مگر ٹھہریے، زلفی مرزا فوج کے ہاتھوں میں کیوں کھیلیں گے اور مٹھی بھر کیچڑ ہر طرف اچھال کر اُس کے گندے کھیل میں معاونت کیوں کریں گے؟
یہ پاکستان ہے۔ اِس میں سازش کا نظریہ کار فرما رہتا ہے اور رال ٹپکاتی زبانیں منہ سے باہر لٹکتی رہتی ہیں۔ مگر خیر، ہر معاملے کو بہت زیادہ پوشیدہ رکھنے کی ضرورت نہیں ہوتی۔ ذوالفقارمرزا قوم پرستوں پر حاوی ہونے کی غرض سے ایم کیو ایم پر ضرب لگانے کی ایک مدت سے تیاری کر رہے تھے۔ آصف زرداری نے انہیں کچھ ڈھیل دی تھی۔ بے نظیر بھٹو کے تجربے سے آصف زرداری نے یہ ضرور سیکھا تھا کہ ایم کیو ایم کو حکومت سے باہر رکھو اور جلد یا بدیر کچھ نہ کچھ ایسا غلط ہونے لگتا ہے جو حکومت کے لیے مشکلات کا باعث بن جاتا ہے۔
جب آصف زرداری نے ذوالفقار مرزا کو کنٹرول کرنے کی کوشش کی تو ان کے تحفظات بڑھ گئے۔ انہیں سیاسی کیریئر کے حوالے سے جس boost کی ضرورت تھی وہ ایم کیو ایم پر الزامات عائد کرکے انہوں نے حاصل کرلیا۔ سندھ کے نئے، مشتعل ہیرو نے جو الزامات عائد کیے وہ سندھ ہی نہیں، ملک بھر میں سیاسی ہلچل کا باعث بنے ہیں۔
مگر ذرا غور سے دیکھیے کہ پس منظر میں کون ہے۔ وہی بلی کی مونچھیں۔ یہ بھی غنیمت ہے کیونکہ پاکستان ایک ایسا ملک ہے جس میں امکانات ہمیشہ اچھے نہیں ہوتے اور نتائج ہمیشہ سنگین ہوتے ہیں۔
آپ سوچیں گے کہانی اچھی ہے مگر ثبوت کیا ہے؟ ثبوت کی پروا کسے ہے۔ جب شیطان سے جنگ ہو رہی ہو تو ثبوت کون مانگتا ہے؟ آپ نقطے ملاتے جائیے۔ دوسرے بھی نقطوں کو اپنے طور پر ملاتے جائیں گے۔ حقیقت تبدیل نہیں ہوگی۔ واپسی کا عمل جاری ہے۔
کیا پاکستان میں ایسا ہی ہوتا رہے گا؟ عوام کی بالا دستی کبھی قائم نہیں ہوگی؟ وردی والے لڑکوں کو دیکھ کر یہ خیال آتا ہے کہ سوال صرف زیر تصرف وسائل کا نہیں بلکہ ان کے پاس تراکیب اور ہتھکنڈے بھی بہت ہیں۔ اور اسی لیے وہ کامیاب رہتے ہیں۔ یہ اپنے آپ پر یقین اور ادارے کی شکل میں بہتر یادداشت کا معاملہ ہے۔ یہ کھیل کو دوسروں سے بہتر سمجھنے کا کیس ہے۔ جس طرح کھیلوں میں بعض ٹیمیں جیتنے کا ہنر جانتی ہیں اور بظاہر کم اچھا کھیل کر بھی جیت جاتی ہیں بالکل اسی طرح ٹیم آرمی بھی جیتنا جانتی ہے۔
اب رہا یہ سوال کہ اس کھیل میں پاکستان جیتتا ہے یا ہارتا ہے، اس پر یہاں بحث مقصود نہیں کیونکہ یہ بالکل الگ معاملہ ہے۔
(بشکریہ: روزنامہ ’’ڈان‘‘ کراچی۔ ۹ ستمبر ۲۰۱۱ء)
Leave a Reply