
کنزرویٹو پارٹی ایک مخلوط حکومت کے ذریعہ طویل عرصے کے بعد اقتدار میں آگئی ہے اور ڈیوڈ کیمرون برطانیہ کی ایک کمزور حکومت کے تیرہویں وزیراعظم بن گئے ہیں جن کی حکومت کا انحصار ان کے اتحادیوں پر رہے گا۔ جب وہ خوش ہوں گے تو حکومت مضبوط رہے گی اور جب وہ ناراض ہوں گے تو حکومت جانے کا تاثر رہے گا۔ لیبر پارٹی انتخابی نتائج سے فائدہ اٹھا کر جوڑ توڑ کی حکومت قائم کرنا چاہتی تھی، مگر لیبر پارٹی کو اس وقت ناکامی ہوئی۔ جب لبرل ڈیموکریٹک پارٹی کے لیڈر نے نتائج کے روز ہی کہہ دیا کہ وہ کنزرویٹو پارٹی کا حق حکمرانی تسلیم کرتے ہیں۔ اگر غور سے دیکھا جائے تو معلق پارلیمنٹ کا نقشہ دلچسپی سے خالی نہیں۔ ۲۰۰۵ء کے الیکن میں کنزرویٹو پارٹی نے ۱۹۸ نشستیں حاصل کی تھیں۔ اس مرتبہ اس نے ۱ء۳۶ فیصد ووٹ لے کر ۳۰۶ نشستیں حاصل کی ہیں، جب کہ لیبر پارٹی نے ۲۵۸ نشستیں جیتی ہیں۔ ۲۰۰۵ء کے الیکشن میں اس کی ۳۵۶ نشستیں تھیں۔ لبرل ڈیمو کریٹک پارٹی جس نے ۲۰۰۵ء میں ۶۲ نشستیں حاصل کی تھیں، موجودہ انتخاب میں وہ ۵۷ نشستیں حاصل کر سکی ہے۔ اس کے علاوہ چھوٹی جماعتوں کو بھی نمائندگی ملی ہے۔ ان میں ڈیمو کریٹک یونینسٹ پارٹی نے ۸، اسکائش نیشنل پارٹی نے ۶، سن فین کے ۵، پلیڈر پارٹی نے ۳، سوشل ڈیموکریٹک اینڈ لیبر پارٹی نے ۳، گرین پارٹی نے ایک، الائنس پارٹی نے ایک اور ایک چھوٹی پارٹی نے ایک نشست حاصل کی ہے۔ موجودہ انتخابات میں ۶۳۸,۵۳,۶۶,۲ ووٹ ڈالے گئے، جب کہ ٹرن آئوٹ ۱ء۶۵ فیصد رہا۔ کنزرویٹو پارٹی نے ۶۴۷,۰۶,۰۷,۱ ووٹ حاصل کیے، جبکہ لیبر پارٹی نے ۰ء۲۹ فیصد کے ساتھ ۳۵۸,۰۴,۸۶، لبرل ڈیمو کریٹک نے ۲۳ فیصد کے ساتھ ۳۵۸,۰۴,۶۶ ووٹ حاصل کیے۔ دونوں کے تناسب اور ڈالے گئے ووٹوں کے اعداد و شمار کا تجزیہ کیا جائے تو لبرل ڈیمو کریٹک پارٹی جو لیبر پارٹی کے ووٹوں سے چھ فیصد کم ہے۔ مستقبل میں اس نے دونوں جماعتوں کے لیے خطرے کی گھنٹی بجا دی ہے۔ اگر سیاست دانوں نے ذمہ داری کا مظاہرہ نہ کیا تو مڈٹرم انتخابات کو کوئی نہیں روک سکے گا۔ اس منظر نامے کو دیکھا جائے تو ۱۹۷۴ء کے پارلیمانی انتخابات کا نقشہ سامنے آ گیا ہے۔ فروری ۱۹۷۴ء میں ہونے والے انتخابات میں کنزرویٹو پارٹی نے ۲۹۷ نشستیں حاصل کی تھیں، جب کہ لیبر پارٹی کو ۳۰۱ نشستیں ملی تھیں اور لبرل ڈیموکریٹک پارٹی کو ۱۴ نشستیں ملی تھیں، اس طرح دونوں حریف اور مختلف نظریات رکھنے والی جماعتوں کے لیے حکومت بنانا ممکن نہ تھا۔ یوں برطانوی عوام کو ایک سال میں دوسری مرتبہ اکتوبر ۱۹۷۴ء کو انتخابات میں جانا پڑا اور لیبر پارٹی نے اپنی پالیسی کو تبدیل کرتے ہوئے ایشیائی باشندوں کو مراعات دینے اور امیگریشن قوانین کو تبدیل کرنے کا عندیہ دیا، جس کی وجہ سے لیبر پارٹی اکتوبر ۷۴ کے انتخابات میں ۳۴۹ نشستیں حاصل کرنے میں کامیاب ہو گئی، جبکہ کنزرویٹو پارٹی کو انتخاب میں ۳۰ نشستوں کا خسارہ ہوا اور وہ ۲۷۷ نشستیں جیت سکی۔ ماضی کے اس منظر نامے کو سامنے رکھا جائے تو طویل عرصے کے بعد حکومت سازی اور حکومت کو مستحکم بنیادوں پر قائم رکھنا مشکل ترین عمل نظرآتا ہے، جس کی بنیادی وجہ یہ ہے کہ دونوں جماعتوں کو حکومت قائم رکھنے کی کوئی نہ کوئی قیمت تو ادا کرنا پڑے گی۔ سیاست میں یہ اچھی بات ہے کہ کسی کے حقِ حکمرانی کو تسلیم کر لیا جائے لیکن برطانوی عوام سیاسی جماعتوں کو ان کے امیدواروں سے زیادہ پارٹی کی کارکردگی اور اس کے منشور کی بنیاد ہی پر ووٹ دیتے ہیں، بنیادی طور پر کنزرویٹو پارٹی اور لبرل ڈیمو کریٹک پارٹی دو مختلف نظریات رکھنے والی جماعتیں ہیں۔
کنزرویٹو پارٹی امیگریشن قوانین کو ۱۹۹۰ء کی سطح پر لانا چاہتی ہے۔ جبکہ لبرل ڈیمو کریٹک پارٹی کا موقف ہے کہ اس کی بجائے نیشنل بارڈر فورس بنائی جائے اور چیک اور سیکوریٹی کا نیا سخت نظام رائج کیا جائے۔ کنزرویٹو پارٹی کا منشور بتاتا ہے کہ وہ ایسے افراد ہی کو برطانیہ میں پناہ دیں گے جن کے پاس اتنا پیسہ ہو کہ برطانوی معیشت پر بوجھ نہ پڑے، جب کہ لبرل ڈیمو کریٹک پارٹی پوائنٹ بیس امیگریشن اسکیم کی حامی ہے جو چاہتی ہے کہ دیکھا جائے کہ اس کے ملک کو کس طرح کے افراد کی ضرورت ہے۔ یورپی یونین کے بارے میں جو پالیسی ہے اس کو بھی کنزرویٹو پارٹی ریویو کا ارادہ رکھتی ہے۔ جب کہ لبرل ڈیمو کریٹک یورپی یونین کے فیصلوں کو من و عن تسلیم کرنے کی حامی ہے۔ امیگریشن کے عمل کو روکنے کے لیے کنزرویٹو پارٹی گرفتاریوں، نظربندیوثں اور دوسرے سخت قوانین نافذ کرنے کی حامی ہے، جبکہ سیاسی پناہ لینے والوں کو کام کرنے کی اجازت دینا لبرل ڈیمو کریٹس کا اہم نکتہ ہے۔ کنزرویٹو پارٹی تعلیم کی غرض سے آکر رہنے والے طالب علموں کے خلاف کریک ڈائون کا ارادہ رکھتی ہے، جبکہ لبرل ڈیمو کریٹک پارٹی کا کہنا ہے کہ دس سال سے ایسے طالب علم جو کسی جرائم پیشہ سرگرمیوں میں ملوث نہیں یا ایسے ہی اور لوگ جو یہاں رہ رہے ہیں ان کو شہریت دی جائے۔ ایسے ہی اور بے شمار بنیادی نکات ہیں جن پر کنزرویٹو اور لبرل ڈیموکریٹک مختلف نظریات رکھتے ہیں۔ کنزرویٹو پارٹی کی اقتصادی پالیسیاں بڑی محدود ہیں اور وہ دنیا بھر کو دی جانے والی امداد کو ختم کر کے اپنے عوام پر خرچ کرنا چاہتی ہے۔ عوام پر ٹیکس لگانے کے قوانین پر بھی دونوں کی رائے مختلف ہے۔ برطانوی بینکوں کے قوانین کو تبدیل کرنے کے بارے میں دونوں کے خیالات مختلف ہیں۔ دہشت گردی کے خلاف جنگ میں کنزرویٹو پارٹی کی پالیسی خاص طور پر طالبان کے بارے میں مختلف ہے۔ وہ اچھے طالبان اور برے طالبان کو الگ الگ کرنے کی حامی ہے، اچھے طالبان کی اصلاح اور انہیں اپنے ملک کی سیاست میں کردار ادا کرنے کی حامی ہے،جبکہ لبرل ڈیمو کریٹک پارٹی فوری طور پر اسٹراٹیجک سیکوریٹی اور ڈیفنس پالیسی پر ریویو چاہتی ہے۔ اس طرح ڈیفنس کے ایک درجن کے قریب معاملات ہیں جو ایک دوسرے سے مختلف ہیں۔ سب سے اہم مسئلہ خارجہ امور ہے۔ لیبر پارٹی جس نے ۱۲ سال کے دورِ اقتدار میں اچھے کام بھی کیے لیکن خارجہ پالیسی میں ناکامی کی وجہ سے عوام میں اس اس کا گراف مسلسل گرتا گیا، جس کا نتیجہ موجودہ انتخاب میں لیبر پارٹی کی عبرتناک شکست ہے، خاص طور پر یورپی یونین کے ساتھ آئندہ کوئی معاہدہ کرتے ہوئے ریفرنڈم کا ارادہ رکھتے ہیںجس سے برطانیہ کے اختیارات یورپی یونین کو منتقل ہوتے ہوں، جب کہ لبرل ڈیمو کریٹک پارٹی، گریٹ یورپین سیکوریٹی اور ڈیفنس کی حامی ہے۔ کنزرویٹو پارٹی ایک ایسا بل لانے کا بھی ارادہ رکھتی ہے جس میں زیادہ سے زیادہ اختیارات برطانوی پارلیمنٹ کے پاس رہیں، جب کہ لبرل ڈیمو کریٹک پارٹی فوری نہیں مرحلہ وار یورو کو برطانیہ میں متعارف کرانے کا ارادہ رکھتی ہے۔ حقیقت کی نظر سے دیکھا جائے تو دونوں پارٹیوں میں حکومت سازی کا جو مرحلہ طے ہوا ہے، محض شراکت اقتدار کے لیے نہیں بلکہ دونوں جماعتوں کو کچھ لو اور کچھ دو کی پالیسی پر عمل کرنا ہو گا۔
کنزرویٹو پارٹی جو ۱۹۹۷ء کے بعد اقتدار میں آئی ہے، انتہائی کمزور ہے۔ ۱۹۷۹ء کے انتخابات میں کنزرویٹو پارٹی جیتی تھی تو اس نے ۳۳۹ نشستیں حاصل کی تھیں، جس کی وجہ سے مارگریٹ تھیچر ایک مضبوط حکومت کی وزیراعظم تھیںاور انہوں نے برطانوی شہریوں کے لیے جو اقدامات بھی کیے اس کو دیکھتے ہوئے ۱۹۸۳ء کے انتخابات میں ۳۹۷ نشستیں ملی تھیں، جب کہ ۱۹۹۲ء کے انتخابات میں کنزرویٹو پارٹی نے ۳۳۶ نشستیں جیتی تھیں۔ برطانیہ میں ۱۹۴۵ء کے بعد ایک مرتبہ مخلوط حکومت کا تجربہ رہا جو کامیاب نہ ہوا۔ لبرل ڈیموکریٹک پارٹی سے مل کر مخلوط حکومت بنانا کنزرویٹو پارٹی کے لیے دھچکا تو ہے ہی ایشیائی باشندوں کا پارلیمنٹ میں پہنچ جانا بھی بہت اچھی خبر ہے۔ اس مرتبہ سات پاکستانی بھی برطانوی پارلیمنٹ میں پہنچ گئے ہیں۔ لیبر پارٹی کے گزشتہ ۱۲ سالہ دور میں ایشیائی اور خاص طور پر پاکستانی کمیونٹی کو ابھرنے کا موقع ملا۔ تین مسلمان خواتین کا پارلیمنٹ میں پہنچ جانا اہم خبر ہے۔ شبانہ محمود، یاسمین قریشی اور بنگلہ دیش کی روشن آراء علی مسلمان ہیں، جبکہ چوتھی ایشیائی کامیاب ہونے والی خاتون کنزرویٹو پارٹی کے ٹکٹ پر کامیاب ہوئی ہیں۔ اس سے پہلے کبھی کوئی ایشیائی خاتون پارلیمنٹ میں نہیں پہنچ سکی۔ برمنگھم مسلمان کمیونٹی کا گڑھ ہے، یہاں سے جان گیلوے کی رسپکٹ پارٹی سے سلمیٰ یعقوب اعوان نے بھی حصہ لیا تھا جو اپنے نظریات میں خاصی لبرل ہیں اور ان کا نام افغان اور عراق جنگ کی مخالفت کی وجہ سے نمایاں ہے۔ گرین پارٹی پہلی مرتبہ پارلیمنٹ میں پہنچی ہے۔ مریم خان بھی برمنگھم کی ابھرتی ہوئی سیاست دان ہیں۔ اس بار لیبر پارٹی کے ٹکٹ پر ناکامی کے باوجود خاصی پرامید ہیں۔ ان کے والد افضل خان مانچسٹر کے میئر رہے ہیں۔ اگر برطانیہ کی موجودہ سیاست کو دیکھا جائے تو اس وقت برطانیہ کو ون پارٹی کی ضرورت تھی لیکن عوام کا فیصلہ کسی ایک پارٹی کے حق میں نہ آنا اس رویے کو نمایاں کرتا ہے کہ وہ سیاسی جماعتوں اور سیاست دانوں سے نالاں ہیں۔ بے روزگاری، معاشی عدم استحکام، دہشت گردی اور شہریوں کو بہت سی سہولتوں کی عدم دستیابی حکومت کے لیے بھاری چیلنج ہیں۔ جن کا مقابلہ کرنے کے لیے ’’کچھ دو اور کچھ لو‘‘ کا اصول ہی موجودہ سیاست کا اہم مقصد ہے۔ دونوں بڑی جماعتوں کو مڈٹرم انتخاب سے بچنے کے لیے قیمت ادا کرنا پڑے گی اور کچھ نہ کچھ قربان کرنا پڑے گا۔
(بشکریہ: روزنامہ ’’منصف‘‘ حیدرآباد دکن)
Leave a Reply