برطانوی مسلمانوں پر عتاب

برطانیہ سے موصول ہونے والی اور برطانوی اخبارات میں شائع ہونے والی رپورٹوں نیز مضامین کے مطالعہ سے اگر کوئی نتیجہ اخذ کیا جاسکتا ہے تو یہ کہ ٹونی بلیئر کے ملک کی صورتحال اس وقت بالکل ویسی ہے جیسی ’’نائن الیون‘‘ کے بعد جارج بش کے امریکا کی تھی۔ مسلمانوں کے خلاف نفرت کی لہر نے پورے برطانیہ کو دبوچ لیا ہے اور اسی لہر کے زیرِ اثر ہر مکتبِ فکر اپنے زاویۂ نگاہ سے سوچ رہا ہے۔ کسی کا خیال ہے کہ مدارس میں دی جانے والی تعلیم اور مساجد میں دورانِ خطبہ استعمال کیے جانے والے الفاظ کا تنقیدی جائزہ لینے کی ضرورت ہے تاکہ یہ معلوم کیا جاسکے کہ کون سے الفاظ نوجوان ذہنوں پر کس طرح اثرانداز ہو رہے ہیں تو کوئی مسلمانوں سے اس بات کی ضمانت چاہتا ہے کہ ان میں اب کوئی حسیب میر حسین‘ شہزاد تنویر اور محمد صدیق خان نہیں ہے۔ بہت سے ایسے بھی ہیں جن کا بہ اصرار مطالبہ ہے کہ مسلمان اپنی آبادیوں اور کالونیوں میں انتہا پسند نوجوانوں کی شناخت کریں اور انہیں پولیس کے حوالے کرنے میں ذرہ برابر بھی تامل نہ کریں۔ اس طرح مختلف مطالبات کی چو طرفہ یلغار کے ذریعہ پورے ملک میں مسلمانوں کے خلاف شک و شبہ کا ایسا ماحول پیدا کر دیا گیا ہے کہ جس کے سبب بہت ممکن ہے کہ برطانوی مسلمان احساسِ جرم میں مبتلا ہو جائیں اور ہم مذہب و ہم ملت ہونے کے باوجود ایک دوسرے کو مشکوک نگاہوں سے دیکھنے لگیں۔ یہ صورتحال انتہائی تکلیف دہ اور افسوسناک ہے‘ بالخصوص اس لیے کہ برطانوی مسلم تنظیم اور اداروں کے ذمہ داران نفرت اور جبر کے اس ماحول میں اپنی بات کھل کر کہنے کی بجائے دفاعی اور احتیاطی رُخ اختیار کرنے پر مجبور ہیں۔ برطانیہ میں مسلمانوں کی آبادی کم و بیش ۲۰ لاکھ افراد پر مشتمل ہے اور یہ لوگ برسہابرس سے اس ملک میں سکونت اختیار کیے ہوئے ہیں۔ اتنی طویل مدت سے مسلمانوں کی جانب سے تشدد کا کبھی کوئی مظاہرہ نہیں ہوا بلکہ حقیقت یہ ہے کہ برطانیہ کی ترقی میں ممد و معاون ثابت ہونے والے یہ لوگ دیگر ہم وطنوں کے ساتھ مل جل کر پُرامن زندگی گزارتے ہیں جس پر برطانیہ کا حکمراں طبقہ ناز کرتا ہے اور ساری دنیا سے اپنے ’’ملٹی کلچر ازم‘‘ کی داد وصول کرنا چاہتا ہے۔ چونکہ برطانوی معاشرے کو مسلمانوں سے کبھی کوئی تکلیف نہیں پہنچی‘ اس لیے اس معاشرے کا فرض ہے کہ وہ پوری مسلم آبادی پر شک کرنے کے بجائے یہ سوچے کہ ۲۰ لاکھ میں سے صرف ۴ افراد تشدد کی راہ پر گئے‘ بقیہ ۹ لاکھ ۹۹ ہزار ۹ سو چھیانوے افراد اب بھی برطانوی معاشرے کا پُرامن سرمایہ ہیں۔ اگر ان کے خلاف نفرت اور شک و شبہ کا مظاہرہ کیا گیا تو مستقبل میں یہ چار افراد چالیس اور چار سو میں تبدیل ہو کر مملکتِ برطانیہ کو شدید تباہی سے دوچار کر سکتے ہیں۔

جہاں تک ٹونی بلیئر کا سوال ہے‘ اُن کی عقل پر پردے پڑے ہوئے ہیں۔ چنانچہ اس پر اظہارِ افسوس کے علاوہ اور کچھ نہیں کیا جاسکتا۔ وہ نیویارک‘ واشنگٹن کے بعد لندن پر ہونے والے حملوں کو افغانستان‘ عراق اور فلسطین کا ردِعمل نہیں سمجھتے بلکہ یہ دلیل پیش کرتے ہیں کہ نیویارک اور واشنگٹن پر ہونے والے حملے افغانستان اور عراق جنگ سے قبل ہوئے تھے۔ امریکا اور اب برطانیہ پر ہونے والے حملوں کو اُن دو ملکوں کی خارجہ پالیسی نیز دہشت گردی کے خلاف جنگ کا لازمی ردِعمل قرار نہیں دیا جاسکتا۔ خدا بہتر جانتا ہے کہ یہ کوڑھ مغزی ہے یا تجاہلِ عارفانہ البتہ ایک بات طے ہے کہ جب تک جارج بش اور ٹونی بلیئر جیسے لوگ عقل کے ناخن نہیں لیں گے‘ حالات قابو میں نہیں آئیں گے۔ کسی ۱۹ سالہ نوجوان کو اپنی جان ہلاکت میں ڈالنے کا شوق نہیں چراتا اور کوئی نوجوان یہ نہیں چاہتا کہ اپنی آٹھ ماہ کی بچی کو چھوڑ کر سر سے کفن باندھ کر گھر سے نکلے۔ اس کے باوجود یہ حقیقت ہے کہ یہ نوجوان اپنے گھر بار کی فکر اور اچھے خاصے مستقبل کے امکانات کو بالائے طاق رکھ کر ایک خاص مشن پر روانہ ہوئے اور جانِ عزیز قربان کر دی۔ جارج بش اور ٹونی بلیئر کو معلوم ہونا چاہیے کہ جان لینا تو بہت آسان ہے لیکن جان دینا بے حد مشکل۔ یہ نوجوان جو تعلیم یافتہ اور اچھے خاصے گھرانوں کے چشم و چراغ ہیں‘ آخر اتنی آسانی سے اپنی جان کا نذرانہ کیوں پیش کر رہے ہیں۔ ایسی کون سی بات ہے جو انہیں ذہنی طور پر مضطرب رکھتی ہے اور کسی جنگجو تنظیم کے ساتھ وابستہ ہونے پر آمادہ کر دیتی ہے؟

امنِ عالمِ بقائے باہمی کے فلسفے میں مضمر ہے۔ اگر آپ اس فلسفے کو فراموش کر کے دوسروں کی زندگی اجیرن کرتے ہیں تو دوسرے دہشت گردی کا جواز تلاش کر کے آپ کی زندگی اجیرن کر دیں گے۔ کاش بش اور بلیئر اس نکتے کو سمجھ پاتے۔

(اداریہ روزنامہ ’’انقلاب‘‘۔ ممبئی)

Be the first to comment

Leave a Reply

Your email address will not be published.


*