
اس میں کوئی شک نہیں کہ امریکی غیر معمولی، بلکہ خطرناک حد تک خود پسند ہیں۔ امریکیوں کا مجموعی قومی رویہ بھی کچھ ایسا ہے کہ ان کی خود پسندی نمایاں ہوکر سامنے آتی ہے۔ کسی ایسے فرد کا تصور کیجیے جو سب کچھ اپنی مرضی کے مطابق چاہتا ہو۔ وہ اپنی مرضی کی چیز حاصل تو کرلیتا ہے مگر اس امر پر غور نہیں کرتا کہ ایسا کرنے میں دوسروں کو اس نے کیا تکلیف پہنچائی۔ ہر انسان کی کچھ حدود ہوتی ہیں۔ ان حدود کا احترام نہ کرتے ہوئے جو کچھ بھی کیا جائے گا وہ خرابی پر منتج ہوگا۔ حقیقی خود پسند وہ ہوتا ہے جو اپنی مرضی کے مطابق کچھ بھی کرنا اور حاصل کرنا چاہتا ہو مگر کوئی ذمہ داری قبول کرنے سے صاف انکار کرتا ہو۔ اس وقت امریکی قوم کا یہی حال ہے۔ وہ اپنی مرضی کے مطابق جینا چاہتی ہے مگر اس خواہش کی تکمیل کتنی اقوام کو پریشان کر رہی ہے اس کا احساس اور اندازہ امریکی قوم کو نہیں۔
آج امریکی قوم خود پسندی کے مرض میں خطرناک حد تک مبتلا ہے۔ وہ چاہتی ہے کہ صرف خوشیاں پائے، آرام اور سکون سے زندگی بسر کرے۔ آنے والی نسلوں کے حوالے سے اپنی ذمہ داری کا احساس کرنے والوں کی شدید کمی ہے۔ غیر معمولی صرف نے امریکیوں کی زندگی میں بہت کچھ بگاڑ کر رکھ دیا ہے۔ کنزیومر ازم کی لعنت نے امریکیوں کو ادھار پر زندہ رہنا سکھا دیا ہے۔ بیشتر امریکی چاہتے ہیں کہ قربانی دینے کے بجائے ادھار کو اپنالیں۔ اگر کوئی چیز خریدنا ممکن نہ ہو تو خریداری کو مستقبل پر رکھنے کے بجائے کریڈٹ کارڈز کے ذریعے یا اقساط پر حاصل کرنے کی کوشش کی جاتی ہے۔
امریکیوں نے اب مستقبل کی تیاری کرنے کے بارے میں سوچنا بھی چھوڑ دیا ہے۔ تعلیم، تحقیق اور انفرا اسٹرکچر میں امریکی حکومت اور نجی اداروں کی سرمایہ کاری تیزی سے گھٹ رہی ہے۔ عام امریکی یہ سمجھتا ہے کہ اس کا ملک دنیا کا بہترین ملک ہے اور امریکی معیشت کا کوئی جواب نہیں۔ غیر معمولی خود پسندی نے امریکیوں کو مختلف حوالوں سے خام سوچ کا حامل بنادیا ہے۔ وہ حقائق پر نظر ڈالے بغیر بہت سے امور میں ایسے فیصلے کرلیتے ہیں جنہیں کسی بھی اعتبار سے دانش مندانہ قرار نہیں دیا جاسکتا۔ جین ٹوینگ اور کیتھ کیمبل نے اپنی کتاب ’’دی نارسسزم ایپیڈیمک‘‘ میں لکھا ہے کہ امریکیوں نے ۱۹۶۰ء کے عشرے میں یہ سوچنا شروع کیا کہ معاشرے کے تمام بندھن جھوٹے ہیں لہٰذا انہیں توڑ کر اپنی تمام صلاحیتوں کو بروئے کار لانا ہوگا۔ اپنی صلاحیت اور سکت کے مطابق کچھ کر دکھانے اور غیر معمولی طرز کی زندگی بسر کرنے کے لیے امریکیوں نے جو سفر پانچ عشروں پہلے شروع کیا تھا وہ اب پوری قوم کو ایک خطرناک منزل پر چھوڑ گیا ہے۔ اس تحریک میں بظاہر خود پسندی نہیں تھی مگر پھر ۱۹۷۰ء کے عشرے میں امریکیوں نے اپنے آپ کو بہت کچھ سمجھنا شروع کردیا۔ ان کی نفسیاتی ساخت تبدیل ہوئی اور یہ سوچ پروان چڑھی کہ ان سے بہتر دنیا میں کوئی نہیں۔ یہ خود پسندی ان میں غیر معمولی اعتماد پیدا کرنے کا بھی سبب بنی۔ انہوں نے سوچنا شروع کیا کہ وہ دنیا میں سب سے انوکھے ہیں اور ان سے بہتر کوئی نہیں۔ ٹیکنالوجی کے میدان میں پیش رفت نے انہیں مزید خود پسند اور خود سر کردیا۔ بات صرف اعتماد تک رہتی تو ٹھیک تھا مگر معاملہ اس سے کہیں آگے نکل گیا۔ ۱۹۷۰ء کے عشرے میں امریکیوں نے ایک ایسے راستے پر اپنے نئے سفر کا آغاز کیا جو انہیں بربادی کی طرف اب تک لے جارہا ہے۔ یہ راستہ خود پسندی کے بعد خود غرضی اور سفاکی کا تھا۔ خود پسندی نے شدت اختیار کی تو خود سری بھی امریکیوں میں در آئی۔ اس کے بعد وہ کسی کی بات سمجھنے کے قابل نہ رہے۔ یہی صفت ان کی خارجہ پالیسی میں بھی در آئی۔ سمجھنا تو بہت دور کی بات ہے، امریکیوں نے تو باقی دنیا کی بات سننا بھی چھوڑ دیا۔
یونیورسٹی آف مشیگن کے سینٹر فار گروپ ڈائنامکس کی پروفیسر سارہ کونرتھ کا کہنا ہے کہ امریکی نوجوانوں میں بدلتے ہوئے رویوں اور بالخصوص خود پسندی کے بارے میں ماہرین نفسیات بہت پہلے سے باشعور اور ہوشیار ہوگئے تھے۔ ۱۹۷۰ء کے عشرے سے اب تک رائے عامہ کے جائزوں کے ذریعے امریکیوں کی خود پسندی کا جائزہ لیا جارہا ہے۔ سارہ کا کہنا ہے کہ امریکی میڈیا کا مکمل موڈ خود پسندی کا ہے۔ اب تک امریکیوں کو یہی باور کرانے کی کوشش کی جارہی ہے کہ ان سے بڑھ کر اور ان سے بہتر کوئی نہیں۔ مسئلہ صرف ٹوئٹر یا فیس بک کا نہیں بلکہ ٹی وی چینلوں اور اخبارات و جرائد کا بھی ہے۔ ہر مقام پر عام امریکی کو بتایا جاتا ہے کہ وہ دنیا میں سب سے انوکھی مخلوق ہے اور اس سے زیادہ ذہانت کسی میں نہیں پائی جاتی۔ اس میں خود پسندی پمپ کی جاتی ہے، ہر قدم پر اسے احساس دلایا جاتا ہے کہ اگر وہ اپنے آپ کو باقی دنیا سے بہتر اور برتر نہیں سمجھے گا تو یہ اس کی غلطی اور سادہ لوحی ہوگی۔ الیکٹرانک میڈیا کے ذریعے امریکیوں کو ہر طرح سے یہ یقین دلایا جاتا ہے کہ اگر انہوں نے خود کو مزید بلند زندگی کے لیے تیار نہ کیا تو یہ ان کی حماقت ہوگی۔ ٹی وی کلچر لوگوں میں منفی رجحانات کو جنم دے رہا ہے۔
امریکیوں کو بڑھتی ہوئی خود پسندی نے سب سے زیادہ نقصان پہنچایا ہے۔ وہ ہر قدم پر دنیا کی نظروں میں برے ٹھہرتے ہیں مگر پھر بھی اپنی روش تبدیل نہیں کرتے۔ امریکیوں کو یہ یقین دلایا گیا تھا کہ وہ فوق البشر نوعیت کی کامیابیاں بھی حاصل کرسکتے ہیں۔ اب امریکیوں کی نئی نسل کو اندازہ ہو رہا ہے کہ جو کچھ باور کرایا گیا تھا وہ سب کا سب درست نہ تھا۔ بہت سی باتیں ان کے ذہنوں میں صرف ٹھونس دی گئی تھیں۔ نئی نسل کی سب سے بڑی خامی یہ ہے کہ یہ سارے مزے خود لوٹنا چاہتی ہے۔ ٹیکسوں کی صورت میں آنے والی نسلوں کے لیے سرمایہ کاری کی جاتی ہے۔ آج کے امریکی چاہتے ہیں کہ انہیں ساری خوشیاں ملیں اور زندگی کی ہر آسائش ان کے دامن میں گرے مگر اس کے جواب میں وہ کوئی بڑی قربانی دینے کے لیے تیار نہیں۔ حقیقت پسندانہ سوچ اپنانے کے بجائے وہ صرف ادھار کی زندگی گزارنے کی خواہش کو پروان چڑھا رہے ہیں۔
خود پسندی جس قدر بڑھتی جاتی ہے، امریکی قانون ساز (منتخب نمائندے) اسی قدر معاملات کو بگاڑتے جاتے ہیں۔ ان کی سوچ صرف یہ ہے کہ کسی نہ کسی طور لوگوں کو خود پسندی سے مخمور رکھا جائے۔ لوگ حقیقت کا سامنا کریں گے تو ان میں بہت سی تبدیلیاں بھی رونما ہوں گی۔ یہی مخصوص گروپوں کے مفادات کو تحفظ فراہم کرنے کا معاملہ ہے۔ بہتر زندگی اور امن کی خاطر امریکیوں کو خود پسندی کے خول سے باہر نکلنا ہوگا۔ بلکہ بہتر تو یہی ہے کہ وہ اب اس خول کو توڑ دیں۔ یہ بھرم بھی ختم کرنا ہوگا کہ کچھ بھی ادا کیے بغیر امریکیوں کو سبھی کچھ مل سکتا ہے۔ اس دنیا میں ہر چیز کی کوئی نہ کوئی قیمت ضرور ہوتی ہے۔ امریکی اپنی خود پسندی کے ہاتھوں مجبور ہوکر یک طرفہ کارروائیاں کرتے آئے ہیں۔ خارجہ پالیسی اور عسکری مہم جوئی کے میدان میں انہوں نے بہت سے ایسے کام بھی کیے ہیں جو کسی بھی اعتبار سے پسندیدہ قرار نہیں دیے جاسکتے۔ اب امریکی پالیسی سازوں کو سوچنا ہوگا کہ ایسا کیا کیا جائے جس سے خود پسندی کا خول ٹوٹے اور حقیقت کی دنیا میں جینے کا شعور پیدا ہو۔
(بشکریہ: ’’نیوز ویک پاکستان‘‘۔ ۲۹ جولائی ۲۰۱۱ء)
Leave a Reply