جارج اور ویل الفاظ کے ہیر پھیر اور سیاسی استعمال کے حوالے سے بے حد محتاط رہا کرتا تھا۔ اس کے دونوں کلاسِکس’’۱۹۸۴‘‘ اور ’’جانوروں کا باڑہ‘‘ میں بنیادی طور پر الفاظ ہی کا الجھائو ہے جو اک نئے اور اچھوتے انداز سے استعمال کیے گئے ہیں کہ وہ اپنے اندر ظالمانہ حقیقت کو پنہاں رکھتے ہیں۔
’’تمام جانور برابر ہیں‘‘ یہ وہ اصل بات ہے جس کا اظہار ’’جانوروں کا باڑہ‘‘ میں کیا گیا ہے مگر’’کچھ جانور دوسروں کے مقابلہ میں زیادہ برابر ہوتے ہیں۔‘‘ جملہ کا دوسرا حصہ پہلے حصہ سے پیدا ہونے والی امید اور امنگ کا سراسر انکار کرتا ہے۔ حالانکہ اس کے نتیجہ میں کسی قسم کے انقلابی احتجاج کے احساس کو بیدار کرنامقصود نہیں ہے جانور پریشان ہیں مگر جیسے جیسے کہانی آگے بڑھتی ہے اپنے حال پر راضی ہوجاتے ہیں اور وہ ظلم جو ان سے روا رکھا گیا تھا اس کو خاموشی سے سہ جاتے ہیں۔ اور ویل نے کئی دوسرے مضامیں بھی تحریر کئے ہیں۔ کچھ تو فہم و بصیرت سے بھرپور ہیں۔ زبان کے لحاظ سے کوئی یقیناً انہیں دیگر قارئین کے لیے مفید قرار دے گا بالخصوص معاشرتی علوم کے طلباء کے لیے۔
بہرحال آیئے مزاحمت کی زبان و محاروں کے سُرقہ کی مثال لیجیے جو آکل واقع ہورہا ہے۔ اس کا تعلق عالمگیریت اور ذخیٔرہ الفاظ و محاورات کی اس قسم سے ہے جو عالمگیری ‘ نو قدامت پرستی او رکچھ آزاد خیال حضرات استعمال کررہے ہیں۔
ہم ’’عالمگیریت‘‘ ،’’ضابطہ شکنی‘‘، ’’مارکیٹ‘‘، ’’آزادی‘‘ اور ’’نجکاری ‘‘ جیسے الفاظ سنتے رہتے ہیں۔ یہ ایک ایسی دنیا کے تصور کا احسا س بیدار کرتے ہیں جو سرحدوں کے بغیر ہے جہاں کسی کو ملکی ضابطہ کے تحت زرِمبادلہ حاصل کرنے کے لیے لمبی لمبی قطاروں میں کھڑا نہیں ہونا پڑے گا۔ ریاستی اختیار کے محدود ہونے اور عوام کے خود مختار ہونے کا دور۔ المختصر ایک نئی بے خوف دنیا کا سر چڑھتا جادو۔ عالمگیریت کے ساتھ جو مرکزی سحر انگیز لفظ ظاہر ہوا ہے وہ ’’نجکاری‘‘ اور سچائی ‘ بہرسُو‘ یہ ہے کہ ریاست کا ایک استبدادی بازو ہے جو قوی سے قوی تر ہوتا جارہا ہے جبکہ اس کا فلائی رُخ (جو بیروزگاروں اور پنشن یافتہ افراد کے لیے مراعات اور اسکول و اسپتال کی سہولت کو یقینی بناتا تھا) پس منظر میں چلا گیا ہے۔
لہٰذا جس طرح امریکا دنیا بھر کے لوگوں کو طرح طرح خفیہ انداز سے تنگ کررہا ہے اسی طرح تعلیم و صحت کو نجکاری کے عمل سے گزارنے کی حوصلہ افزائی کی جارہی ہے۔ ’’مارکیٹ‘‘ نے انہیں نکال باہر کیا ہے جن کا انیسویں صدی میں فلاحی ریاست کے حامیوں… جو سوشلسٹوں میں سے بھی نہیں تھے… نے خیال رکھا تھا۔ مارکیٹ کی انجام دہی جاری رکھنے کی خاطر مزدوروں کے ہڑتال کا حق (جو ایک طویل جدوجہد کے بعد حاصل ہوا تھا) چھین لیا گیا ہے۔ آزادی اور انتخاب تحریکِ صارفین کے ساتھ ہم معنی ہوچکے ہیں۔
’’آزادی‘‘ اب واقعتاً وہ عام تصور ہے جو امریکا اور اس کے نمک خواروں کو عراق اور افغانستان بلکہ پوری دنیا پر حملہ کا پروانہ عطا کرتا ہے۔ اور کیا خوب انتخاب ہو جب معاملہ پیپسی یا کوکاکولا کی حد تک ٹھہرے مگر اس غریب ماں سے کبھی پوچھنے کی کوشش کی گئی ہے کہ کیا وہ اسکولوں میں سے کسی کا انتخاب کرسکتی ہے کہ جب ماہانہ آمدنی محض اتنی ہے کہ صرف روزانہ دال روٹی کی ضرورت ہی پوری ہوجائے۔المختصر یہ کہ مناسب آمدنی اور موافق حالات کی غیر موجودگی میں کسی معنی خیز انتخاب کی گنجائش نہیں۔
حال یہ ہے کہ آج کے استحصالی طبقہ اور ظالموں نے ہمدردی‘ صلہ رحمی اور حقوقِ انسانی کے میٹھے بول چرالیے ہیں جنہیں وہ اپنے مذموم مقاصد کے لیے استعمال کرتے ہیں۔ میں صرف اس پر بات کروں گا کہ کس طرح عالمگیریت کے الفاظ و محاورات کی رہزنی مکمل ناانصافی اور ہمارے معاشرے میں تعلیم کی طبقاتی تقسیم میں بدستور اضافہ کررہی ہے۔ مجھے نجکاری جو عالمگیریت کا ایک پوِتر منترہے ہی کے متعلق گفتگو کرنا مقصود ہے۔ نجکاری محض عالمگیریت ہی کا ماحصل نہیں کیونکہ پاکستان میں نجی طور پرچلنے والے دینی مدارس بھی ہیں اور اشرافیہ کے انگلش میڈیم اسکولز بھی۔ ریاست ان موخرالذکر تعلیمی اداروں کے حوالے سے اک گونہ معذرت خواہانہ رویہ رکھتی ہے عوامی نگاہ سے انہیں چھپانے کی کوشش کرتی رہتی ہے تاکہ تعلیمی رپورٹس ان کے تذکرہ سے خالی رہیں۔ اس پر طرّہ یہ کہ بہتری کی امید بھی رکھی جاتی ہے۔
۱۹۶۰ء کے اواخر میں طلبہ نے اس قسم کے اداروں کے خلاف احتجاج کیا اور جسٹس حمود الرحمن نے ایک رپورٹ مرتب کی جس میں انہوں نے اور ان کے ساتھیوں نے اعتراف کیا کہ پبلک اسکول (اشرافیہ قبیل کے) اس آئین کے خلاف ہیں جو تمام شہریوں کو مساوی حقوق کی ضمانت دیتا ہے۔ یہ کچھ کہہ دیئے جانے کے بعد بھی رپورٹ کے مرتبین اس حوالے سے کچھ نہیں کرسکے۔ مسلح افواج کے ادارے اسی دوران اس طرح کے اسکولوں کے فروغ میں کوشاں رہے اور اس حقیقت سے غافل رہے کہ وہ ریاست کے محافظ ہیں جن کے ذمہ آئین کی سربلندی و حفاظت ہے اس آئین کی جو ملک میں رہنے والے تمام افراد کے حصولِ تعلیم کے حق کو یکساں طور پر تسلیم کرتا ہے۔
عالمگیریت نے ملک کے معذرت خواہانہ رویہ کو بھی تبدیل کردیا ہے۔ سرکاری افسران NGO`s کے تحت عام طور پر منعقدہ سیمیناروں میں شرکت کرتے ہیں اور بڑی بے شرمی سے اعلان کرتے پھرتے ہیں کہ سرکار سب کچھ نہیں کرسکتی اور نجی شعبہ کو مدد کے لیے آگے بڑھنا چاہیے۔ ان کا یہ کہنا یقیناً بجا ہوتا اگر حکومت نے ایک بڑی رقم اس مد میں خرچ کی ہوتی اور مزید تعاون کے لیے دستِ سوال دراز کیا ہوتا۔ سچی بات تو یہ ہے کہ کل تعلیم پر پاکستان کے کُلGDP کا دو فیصد خرچ کیا جاتا ہے اورمتزاد یہ کہ حکومت یہ بوجھ بھی اپنے سر سے اتارنا چاہتی ہے۔ حکومت یہ سب کرنے میں حق بجانب ہوتی اگر نجی شعبہ کسی مفاد کے بغیر لوگوں کی مدد کررہا ہوتا۔ مگر حقیقت یہ ہے کہ نجی شعبہ نے تعلیم کو تجارت بنادیا اوراس تعلیم کو اپنے معمولی یا غیرمعمولی مفاد کے لیے فروخت کیا۔
NGO`s نے عالمگیریت کا دیا ہوا تصور ہاتھوں ہاتھ لیا اور ’’امداد باہمی‘‘ ،’’پسے ہوئے طبقہ کو اختیارات کی منتقلی کا عمل‘‘ ’’محروموں کو تعلیم کی فراہمی ‘‘جیسے خوبصورت نعروں کا خوب فائدہ اٹھایا اور عالمگیریت کے فلسفہ کے مطابق ان امور پر اٹھنے والے اخراجات پر مراعات کی ان NGO`s کی جانب سے ’’انتخاب‘‘ مہیا کیے جانے کے بعد (فنڈز کی فراہمی میں) قابلِ ذکر تحفیف ہوئی ہے۔ یہ NGO`s وہ لوگ چلارہے تھے جو کبھی اشتراکی ہوا کرتے تھے۔ اب عالمگیریت کے رعب و دبدبے سے مرعوب ہورہے ہیں… ’’امداد باہمی‘‘ ،’’ہمیں حکومت سے کوئی غرض نہیں‘‘ ’’حکومت ناکام ہوچکی ہے‘‘ ’’ریاست لاتعلق ہوتی جارہی ہے‘‘ وغیرہ (ان حضرات کے عمومی نعرے ہیں۔) ان کی یہ اس مرعوبیت سے لوگوں کو نقصان پہنچ رہا ہے نہ کہ بقول ان کے وہ لوگوں کی مدد کررہے ہیں۔
جلد ہی نجی شعبہ نے تمام گلی محلوں میں بلکہ مضافات اور چھوٹے شہروں میں بھی نام نہاد انگلش میڈیم اسکول قائم کرلیے۔ انہوں نے لوگوں کو سہانے سپنے دکھائے۔ سپنا ’’بابو صاحب‘‘ بننے کا‘ سپنا قمیض پتلون پہننے والے ’’باعزت‘‘ لوگوں کے ساتھ بیٹھنے کا‘ سپنا عزت و مرتبت کا اور سپنا خوش خوراکی اور بنگلہ کا ۔ ان سپنوں کے پورا ہونے کے لیے فرد کو انگلش کی ضرورت ہوئی وہ زبان پاکستان کے طبقہ اشرافیہ (شہروں میں بسنے والے) اور عالمگیریت کی زبان ٹھہری ہے۔ تب والدین نے یہ سوچا اگر وہ زیادہ محنت کریں (جس میں روزانہ ۱۲ گھنٹے بھی ناکافی ہے) اور اپنا پیٹ کاٹیں تو وہ ان اسکولوں کی فیسیںبرداشت کرسکتے ہیں۔
دوسری جانب وہ بچے جو ان اسکولوں میں ان نوجوان استانیوں ہی سے پڑھ رہے ہیں جن کا تعلق انہی کے معاشرتی گروہ سے ہے اورجو خود اس قابل بھی نہیں کہ انگلشن بول سکیں ان خواتین کو اپنے گھروں سے باہر کام کے لیے نکلنے کے جرأت مندانہ اقدام کے حوالے سے پبلک میں خوفزدہ کیا جاتا ہے کم و بیش یہی معاملہ گھروں پر بھی ہوتا ہے بلکہ اسکول کے درشت رو مالکان یا سربراہان ان خواتین سے دھونس و دھمکی سے ۶۰۰۰ روپے تنخواہ ماہانہ معاہدہ پر دستخط لیتے ہیں اور دیتے صرف ۲۰۰۰ روپے ماہانہ ہیں۔ محنت کشوں کے قوانین ان خواتین کو کوئی تحفظ فراہم نہیں کرتے اور نہ ہی ان لوگوں کی کوئی یونین ہوتی ہے کہ اس ظالمانہ استحصال کے خلاف صدائے احتجاج بلند کرسکیں۔’’مارکیٹ‘‘ اس قسم کی سرگرمیوں کے خلاف ہے اور ’’مارکیٹ‘‘ کو اس سفید پوش قحط گیری کا کوئی خیال نہیں۔ ظاہر ہے کہ یہ ناقص تعلیم یافتہ اور قحط زدہ افراد ان معصوم بچوں کوانگلش نہیں پڑھا سکتے اور کم از کم میں انہیں الزام نہیں دوں گا۔
اسی دوران جب یہ سب کچھ ہورہا تھا نجی کاروباری طبقہ نے امیروں کے لیے شاہانہ اسکول اور کالج قائم کیے وہ جانتے تھے کہ پبلک اسکولوں اور کانونٹ اسکولوں میں جتنی فیسیں وصول کی جاتی ہیں وہ اس سے بہت زیادہ ٹیوشن و دیگر فیسیں وصول سکتے ہیں۔ زیادہ فسیوں کے نتیجہ میں اوسط درمیانی طبقہ تعلیم سے محرومی کا شکار ہوا اور یہی اس کلب کا ہر فرد چاہتا تھا جہاں صرف امیر کی پہنچ تھی۔ مزید براں یہ کلب کالج اور یونیورسٹی کی سطح تک وسعت اختیار کرگیا۔ یہ سب کچھ آغاز ہی میں نہیں ہوگیا تھا بلکہ یہ سب نجی کاروبار کے اقتصادی معاملات میں عدم مداخلت ہی کا کیا دھر اتھا جو ’’مارکیٹ‘‘ اور تعلیمی تجارت کی نجکاری میں آزادی کے نام سے متعارف ہوئی۔ لہٰذا طبقاتی کشاکش بڑھ کر یونیورسٹی کی سطح تک پہنچ گئی۔
مطلب یہ کہ اوسط اور بلکہ بالائی اوسط طبقہ سے تعلق رکھنے والے والدین کو اپنے بچوں کی تعلیم کے لیے گرانقدر قربانیاں دینی پڑیں جو شاید پہلے کبھی نہ دی ہوں یعنی اس قبیلہ کے طاقتور ترین گروہ۔ فوج اور آزمودہ کار افسر شاہی۔ اپنی ملازمتوں سے چپکے رہے اگر نہ رہتے تو ان کے بچے بھی ان نمائشوں کالجوں سے نکال باہر پھینکے جاتے اور ساتھ میں اس کا یہ مطلب بھی ہوا کہ وہ جو اپنی ملازمتوں سے مدتِ ملازمت پوری ہونے کے باعث چپکے نہ رہ سکے اور ان کے پاس ’’ٹھیک ٹھاک منافع پر بکنے والے پلاٹ نہیں تھے یا کسی بینک کو لوٹ نہیں سکتے تھے انہیں مایوسی میں مقابلہ سے باہر ہونا پڑا۔ یہ کچھ اس نئے دبائو کی شکلیں ہیں جسے عالمگیریائی پالیسیوں نے پوری طرح تقویت دی ہے۔ دریں اثناء کالج او ریونیورسٹیاں دو دو کمروں میں قائم کی گئیں اور بھاری بھرکم فیسوں کے عوض بغیر کوئی علم یا مہارتیں پیدا کیے ڈگریاں نوازی گئیں۔ یونیورسٹیوں کے ان مذموم مقاصد کے استعمال کا دور مکمل عروج پر ہے۔
کاروباری ذہنیت نے اس کا بھرپور فائدہ اٹھایا اور تعلیم مزید محدود‘ مخصوص ‘ لگی بندھی‘ منافع پرور اور بے گانہ ہوتی گئی۔ اس تعلیم نے پاکستانی طلباء کو برگشتہ کیا انسانیت سے‘ غریب اور ترکھان اور محروم افراد سے ‘ اور بے گانہ کیا اپنے ثقافتی اور لسانی ورثہ سے۔ تعلیم کے تاجر امیر سے امیر تر اور مزید طاقتور ہوتے چلے گئے۔ کیونکہ اس میں یہ حقیقت بھی گھُلی ہوئی ہے کہ فوج اور نجکاری کے عمل نے حکومت نواز عدم جوابدہی کے نکتۂ نظر کے واضح امتیاز کی مکمل حوصلہ افزائی کی کسی بھی حال میں نجی حیثیت میں کاروباری حضرات بھی اپنے منافع کی قوت کے حوالے سے کسی قسم کی پوچھ گچھ کو پسند نہیں فرماتے۔ لہٰذا مجموعی لحاظ سے تعلیم کی نجکاری ہمارے معاشرے کا زوال پذیر اقدام ہے۔
اس کے ساتھ ہی کچھ دوسرے الفاظ کو ملاحظہ فرمایئے جو بظاہر تو بہت دلفریب نظر آتے ہیں مگر کافی حد تک منفی ہیں۔ اس تعلیم کے عمل میں پیشہ واریت اور کارکردگی کی اقدار بالفعل متو قع ہوتی ہیں۔ ایک معلم کو ان جدید خطوط پر پڑھانا ہے جو اس نے سیکھے ہیں لیکن صرف پیشہ وارانہ اور باصلاحیت انداز میں۔ اس کا یہ مطلب ہے کہ اسے سبق کی منصوبہ بندی کرنا ہے جس میں اس بات کا تذکرہ ہوگا کہ وہ کیا کرے گا یا کرے گی اور اس کا کام کئی ایک نگراں چیک کریں گے۔ پس یقینی ہے وہ معلم خود کو غلاموں کی طرح محسوس کرے اور کوئی نئی چیز نہ کرے۔ نتیجتاً ہماری آزاد مارکیٹ کی اقدار نے معلم کو محنت کش‘ طلباء کو صارفین اورپرنسپل حضرات کو منیجرز میں تبدیل کردیا ۔ اس ماحول میں منشی پریم چند کے مقام کا کوئی معلم موجود نہیں جنہوں نے کبھی اسباق کی منصوبہ بندی کی اور نہ کبھی ہیڈ ماسٹر کی پسند کا پہلے سے تیار کردہ غیر دلچسپ سبق پڑھایا۔ ہماری ’’شفافیت‘‘ اور ’’کارکردگی‘‘ کی زبان میں ہم نے اسکول اساتذہ کو ایک ایسے ظلم کی طرف دھکیلا ہے جیسا پہلے کبھی نہیں تھا۔
ایک بار پھر یاد دلاتے ہوئے کہ یہ عہد روشن خیالی کے تعارف کے بعد سے محبت و ہمدردی کی زبان (والفاظ) کے سُرقہ کا ہے اس زبان کی لوگوں میں خصوصاً تعلیم یافتہ حضرات میں بڑی قیمت ہے اور اس سے صرفِ نظر ممکن نہیں۔ لہٰذا حقوق انسانی کے نظریہ سے تو کوئی انکاری نہیں۔ کوئی بڑی آسانی سے ایک مختلف تعریف پر ضرور یقین کرسکتا ہے۔ مساوات کے عقیدہ کا کوئی کھُل کر انکار تو نہیں کرے گا۔ مگر کوئی بڑے آرام سے ایسی شرائط ضرور عائد کرے گا جسے ایک عام آدمی کا پورا کرنا ممکن نہیں۔
ایک ایسا دور جس میں معصوم شہریوں کے قتل کو ’’ایک اضافی نقصان‘‘ کہا جائے ‘ قانونی اختیار اور انسانی حقوق کے تعطل کو ’’دہشت گردی کے خلاف جنگ‘‘ کا نام دیا جائے اور بڑی جدوجہد کے بعد حاصل ہونے والی آزادی سے محروم کرنے کو ’’تحفظ‘‘ کے عنوان سے پکارا جائے‘ میں اس امر پر متعجب نہیں ہوں کہ امیر غریب کو ’’عالمگیریت‘‘ کے نام سے بے آبرو کررہا ہے او رمیں یقیناً اس فعل پر بھی حیران نہیں ہوں کہ ہماری حکومتیں تعلیم اور صحت کی فراہمی سے پیچھے ہٹ رہی ہیں’’تحفظ‘‘ کے نام سے۔ جس بات سے میں انگشت بدنداں ہوں وہ یہ ہے کہ کئی ایک NGO`s کئی سارے ذہین نوجوان حضرات ‘ بہتری تعلیم اور میڈیا سے متعلق عظیم شخصیات اور بہت سارے ایسے لوگ جن کی دوسرے لوگ کسی نہ کسی وجہ سے عزت کیا کرتے ہیں عالمگیریت کی اس گمراہ کن زبان اور ذخیرہ الفاظ و محاورات سے بے وقوف بن رہے ہیں اس ترکیب نے انہیں آزاد مارکیٹ کے نتائج سے چشم پوشی پر مجبور کردیا ہے۔
یا تو یہ بہت افسوسناک ہے… یا پھر میں ہی پرانے وقتوں کا ہوتا جارہا ہوں…!
(بشکریہ: روزنامہ ’’ڈان‘‘۔ کراچی)
Leave a Reply