کبھی نہ بجھنے والی پیاس!

جنوبی ایشیا میں پینے کے صاف پانی کا حصول ایک بنیادی مسئلہ رہا ہے۔ اب بھی دریاؤں پر دباؤ غیر معمولی ہے۔ مقبوضہ کشمیر میں وولر جھیل میں پانی کی مقدار تیزی سے کم ہو رہی ہے۔ اس کا رقبہ بھی ۲۱۷ مربع کلومیٹر سے گھٹ کر اب صرف ۸۴ مربع میل رہ گیا ہے۔ جنوبی ایشیا کے بیشتر علاقوں کے برعکس مقبوضہ کشمیر میں دریا، جھیلیں اور چشمے زیادہ ہیں اور انہیں استعمال کرنے والے کم مگر اس کے باوجود مقبوضہ کشمیر میں بھی پینے کے صاف پانی کا حصول دشوار ہوتا جارہا ہے۔ اگر یقین نہیں آتا تو اس مقام کی طرف جائیے جہاں بگلیہار ڈیم بنایا جارہا ہے۔ آپ کو ایک سفید دیوار پورے علاقے کو باقی وادی سے الگ کرتی ہوئی ملے گی۔ یہ ڈیم ابھی آدھا مکمل ہوا ہے اور مقبوضہ جموں و کشمیر کے لیے ۴۵۰ میگا واٹ بجلی پیدا کر رہا ہے۔ جب یہ مکمل ہوگا اور پانی کو مکمل طور پر کنٹرول کرے گا تب مزید ۴۵۰ میگا واٹ بجلی پیدا کرے گا۔

بگلیہار کے مقام سے پانی پاکستان جاتا ہے۔ مگر پاکستان کا موقف ہے کہ بھارت ایک بار پھر، ڈیم کے ذریعے، اس کے حصے کے پانی پر ڈاکہ ڈالنا چاہتا ہے تاکہ فصلوں کے لیے کافی مقدار میں پانی دستیاب نہ ہو۔ پاکستان کی مضبوط ترین شخصیت آرمی چیف جنرل اشفاق پرویز کیانی بھی بھارت کے حوالے سے پانی کو زندگی اور موت کا معاملہ قرار دیتے ہیں۔

بھارتی مصنف بی جی ورگھیش کا کہنا ہے ’’پانی وہ تازہ ترین اشو ہے جو جہادیوں کو ایک نکتے پر لارہا ہے۔ جہادی نعرے لگا رہے ہیں کہ (بھارت سے پاکستان کی طرف) پانی بہنا چاہیے یا پھر خون بہے گا۔ کالعدم لشکر طیبہ نے بھارتی ڈیموں کو بموں سے اڑانے کی دھمکی بھی دی ہے۔ گزشتہ برس ایک پاکستانی انتہا پسند عبدالرحمٰن مکی نے جلسے سے خطاب میں دھمکی دی تھی کہ اگر بھارت نے پانی روکا تو خون کا دریا بہا دیا جائے گا۔‘‘

اس طرح کے بیانات میڈیا میں نمایاں جگہ پاتے ہیں۔ اپریل میں نوائے وقت کے ایک اداریے میں کہا گیا کہ بھارت پر واضح کردیا جائے کہ پانی کے مسئلے پر جنگ ہوسکتی ہے اور اس بار جنگ ایٹمی ہوگی۔

بھارت میں اس نوعیت کے بیانات کو یہ کہتے ہوئے نظر انداز کردیا جاتا ہے کہ مسائل سے گھرا ہوا پاکستان عوام کی توجہ ہٹانے کے لیے کوئی نہ کوئی مہم جوئی چاہتا ہے۔ اس بار پانی کا بہانہ تراشا جارہا ہے۔ بی جی ورگھیش کہتے ہیں ’’بھارت پانی کے معاملے میں کوئی بے ایمانی یا نا انصافی نہیں کر رہا۔ ہم پانی روک بھی نہیں سکتے۔ حقیقت یہ ہے کہ بھارت جموں و کشمیر کے علاقے سے اپنے حصے کا پانی پوری طرح نہیں لے پارہا۔ بگلیہار ڈیم کے ذریعے پانی روکا نہیں جائے گا۔ ویسے بھی ٹربائنز چلانے کے لیے پانی کو بہنا چاہیے۔ ہاں، اِتنا ضرور ہے کہ دریا کی روانی ذرا سست پڑ جائے گی۔ بہرحال پاکستان کو اس کے حصے کا پانی ملتا رہے گا۔‘‘

بھارتی مبصرین کا کہنا ہے کہ پاکستان کو آبی وسائل کی تقسیم کے حوالے سے سندھ طاس معاہدے کی شکل میں ایک واضح تحفظ حاصل ہے۔ ۱۹۶۰ء میں طے پانے والے اس معاہدے کے تحت پاکستان کو اس کے حصے کا پانی ملتا ہے۔ یہ معاہدہ دریائے سندھ کے پانی کی تقسیم کے حوالے سے ہے۔ معاہدے کا اطلاق جموں و کشمیر سے نکلنے والے ان واٹرکورسز پر بھی ہوتا ہے جو آگے جاکر دریائے سندھ میں شامل ہو جاتے ہیں۔

اگر بھارت سندھ طاس معاہدے پر پوری طرح عمل کرے تو پھر وہ کسی بھی اعتبار سے کوئی نا انصافی کرنے کی پوزیشن میں آ ہی نہیں سکتا۔ بھارت کے مبصرین بگلیہار ڈیم کو اشتراکِ عمل کی صورت میں دیکھتے ہیں، دھمکی کے طور پر نہیں۔ جب پاکستان نے ڈیم کے ڈیزائن پر اعتراض کیا تو بھارت نے بین الاقوامی ثالثی قبول کی جو سندھ طاس معاہدے کی تاریخ میں اس نوعیت کا پہلا واقعہ تھا۔ غیر ملکی ماہرین نے ڈیم کے ڈیزائن میں چند ایک معمولی تبدیلیوں کا حکم دیا مگر ساتھ ہی یہ بھی کہا کہ اس ڈیم سے پاکستان کو کوئی خطرہ لاحق نہیں۔ اور یوں گزشتہ سال دونوں حکومتوں نے اس تنازع کو ختم کردیا۔

عالمی بینک میں آبی امور کے سابق ماہر اور پاکستان کے موجودہ مشیر جان برسکو کہتے ہیں ’’بگلیہار ڈیم سے پاکستان کے لیے پانی کی فراہمی میں کمی واقع ہوتی ہے اور اس حوالے سے پاکستان کے تحفظات ایسے نہیں کہ آسانی سے نظر انداز کردیئے جائیں۔ پاکستان کو اصل خوف یہ لاحق ہے کہ بھارت کہیں دریائے سندھ کے مآخذ پر ہی قابض نہ ہو جائے۔ بھارتی بیورو کریٹس آبی معاملات سے متعلق کچھ مواد خفیہ رکھ کر اس خوف کو مزید مستحکم کر رہے ہیں‘‘۔

بگلیہار ڈیم کا جائزہ لینے والے سری نگر کے ماہر ارضیات بشیر احمد کہتے ہیں ’’بھارت کا ارادہ واضح طور پر یہ ہے کہ دریائے سندھ کے ہر مآخذ پر قبضہ کرکے مستقبل میں پاکستان کو پانی کے معاملے میں صرف اپنا دست نگر بنادیا جائے۔ یہ ایک آبی بم ہے۔‘‘ فروری میں امریکی سینیٹ نے بھی ایک ایسی ہی رپورٹ جاری کی تھی جس میں خدشہ ظاہر کیا گیا تھا کہ بھارت کی جانب سے کئی ڈیموں کی تعمیر پاکستان کے لیے فصلوں کی بُوائی اور افزائش کے موسم میں پانی کے حصول کو ناکام بنادے گی۔

بھارتی معیشت کے لیے فروغ کے لیے مزید توانائی درکار ہے۔ اضافی توانائی کے حصول کے لیے مقبوضہ جموں و کشمیر میں مزید ڈیم تعمیر کئے جائیں گے۔ بھارت خاموشی سے اس علاقے میں اربوں روپے کی سرمایہ کاری کر رہا ہے۔ امریکی سینیٹ کی رپورٹ میں پن بجلی کے ۳۳ منصوبوں کی نشاندہی کی گئی ہے۔ عمر عبداللہ کہتے ہیں کہ صرف آٹھ سال میں ڈیموں سے مزید ۳ ہزار میگا واٹ بجلی ملنے لگے گی۔ سری نگر میں بعض تجزیہ نگاروں کا کہنا ہے کہ جموں و کشمیر میں کم و بیش ۶۰ ہائیڈرو پروجیکٹس دستاویزات میں موجود ہیں۔

اب پاکستان اور بھارت کے درمیان کشن گنگا ڈیم کے حوالے سے تنازع چل رہا ہے۔ پاکستان بھی آزاد کشمیر میں دریائے نیلم پر ڈیم تعمیر کرنا چاہتا ہے۔ اگر بھارت کشن گنگا ڈیم مکمل کرتا ہے تو پاکستان کو کم پانی ملے گا اور منصوبے کے مطابق ۹۶۰ میگا واٹ بجلی پیدا نہیں کی جاسکے گی۔

پاکستان کا دعویٰ ہے کہ بھارت کی طرف سے کم پانی ملنے کی صورت میں کم و بیش ۶ لاکھ افراد متاثر ہوں گے۔ کشن گنگا کے معاملے پر بھی پاکستان نے دی ہیگ میں عالمی عدالتِ انصاف سے رجوع کیا تاکہ ثالثی ممکن ہو۔ ستمبر میں بھارت کو عالمی عدالتِ انصاف کی طرف سے حکم دیا گیا کہ معاملات کا جائزہ لئے جانے تک تعمیر روک دے۔ مگر بھارت بظاہر اچھی پوزیشن میں ہے کیونکہ سندھ طاس معاہدے کے تحت اسے یہ ڈیم تعمیر کرنے کی اجازت حاصل ہے۔ اور بہت ممکن ہے کہ وہ ۲۰۱۸ء کے بجائے ۲۰۱۶ء میں اِسے مکمل کرلے۔

جموں و کشمیر سے نکلنے والے دریائی پانی کے حصول میں کمی کی شکایت صرف پاکستان ہی کو نہیں ہے۔ پاکستان کا بنیادی مسئلہ یہ ہے کہ وہ، مصر کی طرح، صرف ایک دریا پر منحصر ہے۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ دریائے نیل کے مقابلے میں دریائے سندھ تقریباً دگنا ہے مگر پھر بھی معیشت کے لیے مشکلات تو ہیں۔ پاکستان کے پانچ کروڑ ۴۰ لاکھ ایکڑ زرعی اراضی میں سے ۸۰ فیصد کو دریائے سندھ سے پانی ملتا ہے۔ برطانوی دور کی تعمیر کردہ نہروں سے پانی کی تقسیم عمل میں لائی جاتی ہے۔ اس کے نتیجے میں خام قومی پیداوار میں ۲۱ فیصد کی حد تک کردار ادا کرنے والی زرعی پیداوار حاصل ہوتی ہے۔ پاکستان کے ۱۸ کروڑ عوام میں سے دو تہائی اب بھی دیہی معیشت سے وابستہ ہیں۔ ملک بھر میں پانی کی قلت اب نمایاں ہوتی جارہی ہے۔

عالمی سطح پر ہر شخص کو سالانہ ۸۲۰۹ مکعب میٹر تک پینے کا صاف پانی ملتا ہے۔ ہر بھارتی کے لیے یہ مقدار ۱۷۰۳ مکعب میٹر ہے۔ ہر بھارتی شہری کو ملنے والے ۱۷۰۳ مکعب میٹر سالانہ کے مقابلے میں ہر پاکستانی کو ملنے والا ایک ہزار مکعب میٹر پانی سے بھی کم ہے۔ پاکستان میں پینے کے صاف پانی کے حصول کا سب سے بڑا ذریعہ مون سون کی بارشیں ہیں۔ دو برسوں کے دوران مون سون کی بارشوں سے آنے والے سیلاب سے اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ دریا اثاثہ بھی ہیں اور تباہی کا ذریعہ بھی۔

بھارت چونکہ پانی کے مآخذ یعنی اوپری حصے پر متصرف ہے اس لیے پاکستان کی شکایات برقرار رہیں گی۔ دونوں ممالک کے درمیان آبی وسائل کی تقسیم تنازعات کو جنم دیتی رہے گی۔ چین سے ملحق سرحد پر بھارت کو چین سے چند ایک شکایات ہوسکتی ہیں جہاں چین پانی کے مآخذ پر متصرف ہے اور بھارتی علاقہ نشیب میں ہے۔ چین اور بھارت کے درمیان اروناچل پردیش کے معاملے پر پہلے ہی تنازع موجود ہے۔ چین اس علاقے کو بھارتی ریاست تسلیم کرنے سے انکار کرتے ہوئے ملکیت کا دعویدار ہے۔ دونوں ممالک کے درمیان دریائی پانی کی تقسیم کے حوالے سے بھی اختلافات ہیں جو بڑے تنازعات کا سبب بن سکتے ہیں۔ چین نے حال ہی میں ایشیائی ترقیاتی بینک کی جانب سے اروناچل پردیش میں ڈیم تعمیر کرنے کی کوشش کی راہ میں رکاوٹ کھڑی کی ہے۔ اس کا سبب یہ ہے کہ تبت سے نکل کر بھارت میں داخل ہونے والا دریائے برہم پتر (جسے چین میں سانگ پو) کہا جاتا ہے، اروناچل پردیش سے زیادہ دور نہیں۔

بھارتی سیاست دان، انسانی حقوق کے کارکن، بلاگرز اور صحافی کہتے ہیں کہ چین کی آبادی عالمی آبادی کا بیس فیصد ہے جبکہ اسے دستیاب پینے کا صاف پانی عالمی سپلائی کا صرف آٹھ فیصد ہے۔ اور یوں چین چاہتا ہے کہ برہم پتر کا پانی اپنے وسطی اور مشرقی علاقوں میں زرعی مقاصد کے لیے استعمال کرے۔ یہ معاملہ اس حد تک شدت اختیار کرگیا کہ بھارتی وزیراعظم من موہن سنگھ کو ۴؍ اگست کو یہ بیان جاری کرنا پڑا کہ چینی قیادت نے یقین دلایا ہے کہ ایسا کوئی بھی منصوبہ شروع نہیں کیا جائے گا جس کا مقصد دریا کا رخ تبدیل کرنا ہو۔ ماہرین کہتے ہیں کہ چین کے بارے میں کچھ زیادہ ہی خدشات پال لئے گئے ہیں۔ اب تک ایسا کوئی اشارہ نہیں ملا جس سے یہ اندازہ ہو کہ چینی حکومت بھارت کے حصے کا پانی روکنا چاہتی ہے۔

چین میں پانی کی قلت ہر دور میں رہی ہے۔ چوتھی صدی عیسوی سے مغربی چین سے پانی مشرقی چین لے جانے کے منصوبے سامنے آتے رہے ہیں۔ ماؤ زے تنگ نے بھی اس اسکیم کو آگے بڑھایا۔ مگر اب تک انجینئرنگ کی سطح پر ایسی کوئی بھی بات ممکن دکھائی نہیں دیتی۔ اگر چینی انجینئر تبت کے علاقے سے پانی مشرقی یا وسطی چین لے جانا چاہیں تو انہیں آبی راستے بنانے کے لیے ایٹمی دھماکے کرنا پڑیں گے۔ اس حوالے سے بھارتی خدشات بھی اسی طرح ہوا میں اُڑ جائیں گے جس طور پاکستانی خدشات ہوا میں تحلیل ہوتے رہے ہیں۔

ہمیشہ سے پیاسا خطہ:

جنوبی ایشیا کی آبادی ڈیڑھ ارب ہے اور اس میں سالانہ ایک اعشاریہ سات فیصد کی رفتار سے اضافہ ہو رہا ہے۔ پینے کے صاف پانی کی قلت کو کنٹرول کرنا دن بہ دن مشکل سے مشکل تر ہوتا جائے گا۔ جنوبی ایشیا کی آبادی میں ہر سال ڈھائی کروڑ افراد کا اضافہ ہو جاتا ہے۔ یہ گویا ہر سال شمالی کوریا کی پوری آبادی کو خطے پر پھینکنے کے مترادف ہے۔ ایشیائی ممالک کی ترقی نے خوراک کی قلت کو نمایاں کردیا ہے۔ ایشیا میں بیشتر لوگ گوشت کھاتے ہیں۔ جانوروں کی افزائش کے لیے بڑی مقدار میں پانی کی فراہمی ناگزیر ہے۔ توانائی فراہم کرنے والی صنعت کو پانی کی وافر ضرورت ہوتی ہے۔ ایسے میں دریائی پانی پر دباؤ میں تیزی سے اضافہ ہو رہا ہے۔ پانی کے زیر زمین ذخائر بھی تیزی سے گھٹتے جارہے ہیں۔ اس کمی کو پورا کرنے کے لیے سمندری پانی کو میٹھا بنانے کا سستا طریقہ تلاش کرنا ہوگا۔ ہمالیائی سلسلے میں گلیشیئر پگھلتے جارہے ہیں۔ ہالینڈ کے ماہرین نے بتایا کہ اکیسویں صدی کے وسط تک گلیشیئر سے ملنے والے پانی میں ۸ فیصد تک کمی واقع ہوچکی ہوگی۔ یہ بھی ہوسکتا ہے کہ گلیشیئرز کے پگھلنے سے قدرتی ڈیم بنیں اور پانی رک جائے۔ اور جب اچانک پانی بہے تو سیلاب آ جائے۔

ممبئی کے تھنک ٹینک دی اسٹریٹجک فور سائٹ گروپ کے سربراہ سندیپ واس لیکر کا کہنا ہے کہ مغربی چین سے مشرق وسطیٰ تک پورا خطہ پینے کے صاف پانی کی شدید قلت سے دوچار ہے اور وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ صورت حال بد سے بدتر ہوتی جائے گی۔ آبادی بڑھ رہی ہے، پانی کی رسد گھٹ رہی ہے اور موسم بھی تیزی سے تبدیل ہو رہا ہے۔ دو عشروں میں پانی کی فراہمی میں ۲۰ فیصد کمی واقع ہوچکی ہوگی۔ یہ تبدیلی خطرناک تنازعات کو جنم دے گی۔

سب سے زیادہ تشویشناک بات یہ ہے کہ مون سون کے پیٹرن میں تبدیلی آ رہی ہے۔ بھارت کے ماہرین موسمیات نے ۱۹۰۱ سے ۲۰۰۴ء تک مون سون کی بارش کا جائزہ لیا تو انکشاف ہوا کہ مون سون کے موسم کے عروج کے دنوں میں بھی بعض علاقوں میں شدید خشک سالی پائی گئی ہے اور ایسے علاقوں کی تعداد بھی بڑھ رہی ہے۔ پورے خطے کی زراعت کا مدار مون سون پر ہے۔

جنوبی ایشیا میں دریائی پانی تیزی سے خطرناک حد تک آلودہ بھی ہوتا جارہا ہے۔ برطانوی جریدے لانسیٹ نے بتایا ہے کہ گزشتہ برس ۷ کروڑ ۷۰ لاکھ سے زائد بنگلہ دیشی شدید آلودہ بلکہ زہریلا پانی پینے پر مجبور ہوئے۔ یہ تاریخ کی سب سے بڑی ماس پوئزننگ تھی۔ زمین میں زیادہ گہرائی سے پانی نکالنے کے نتیجے میں آلودہ پانی ملتا ہے۔ اب یہ پانی فصلوں کو بھی دیا جارہا ہے یعنی خوراک میں بھی زہر داخل ہو رہا ہے۔

جنوبی ایشیا کے بیشتر دریاؤں میں اب انسانی اور حیوانی فضلہ بھی داخل ہو رہا ہے۔ اس کے نتیجے میں ہر سال صرف بھارت میں لاکھوں بچے موت کا شکار ہو جاتے ہیں۔ وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ یہ صورت حال سنگین تر ہوتی جارہی ہے کیونکہ گندے پانی کی نکاسی کا بہتر انتظام اب تک ممکن نہیں ہوسکا ہے۔ بنگلہ دیش، بھارت اور پاکستان میں زیر زمین پانی کے ذخائر سے غیر معمولی استفادہ عام ہے۔ جب دریاؤں میں پانی برائے نام رہ جاتا ہے تب لوگ ٹیوب ویل اور واٹر پمپ کے ذریعے زیر زمین ذخائر سے خاصا پانی نکالتے ہیں۔ ڈھاکہ میں آبی امور کے ماہر نٹ اوبرہیج مین کہتے ہیں ’’جب دریائے گنگا بنگلہ دیش میں داخل ہوتا ہے تب اس کا بہاؤ اس قدر کم ہوتا ہے کہ کوئی بھی شخص اسے آسانی سے چلتے ہوئے عبور کرسکتا ہے۔ بنگلہ دیش میں داخل ہونے پر دریائے گنگا کو پدما کا نام دیا جاتا ہے۔ سمندر تک پہنچتے پہنچے یہ دریا اس قدر کمزور ہوچکا ہوتا ہے کہ سمندری پانی میں داخل ہوکر بڑے رقبے پر سیم اور تھور کی کیفیت پیدا کردیتا ہے‘‘۔

یہی حال پاکستان میں دریائے سندھ کا ہے۔ نہری نظام کا بہتر نظم و نسق نہ ہونے کے باعث سیم اور تھور کی وباء پھیلتی جارہی ہے۔ ڈیلٹا کے علاقے میں ایک تھوڑا سا ریگستان تھا جسے برطانوی دور میں انجینئر نے نہروں کے ذریعے ختم کیا۔ اگر توجہ نہ دی گئی تو یہ ریگستان پھر ابھر آئے گا۔

پانی کی بچت کریں یا دوسرے سے چھین لیں:

جنوبی ایشیا کی حکومتیں آبی قلت سے دو طریقوں سے نمٹ سکتی ہیں۔ پہلا طریقہ تو یہ ہے کہ صاف پانی کو استعمال کرنے کے معاملے میں احتیاط اور کفایت شعاری کا مظاہرہ کیا جائے۔ غیر ضروری طور پر پانی استعمال ہی نہ کیا جائے اور دوسرا طریقہ یہ ہے کہ ایک دوسرے کو پانی سے محروم کرنے کی حکمت عملی اپنائی جائے۔ یہ طریقہ تنازعات کو جنم دے گا جو بڑھ کر جنگ کی شکل بھی اختیار کرسکتے ہیں۔ بعض ممالک میں اندرونی طور پر آبی تنازعات پائے جاتے ہیں۔ پاکستان میں پنجاب سب سے بڑا صوبہ ہے اور اس پر چھوٹے صوبے پانی چرانے کا الزام عائد کرتے رہے ہیں۔ اگر آبی وسائل کو بہتر ڈھنگ سے استعمال کیا جائے اور زرعی مقاصد کے لیے ضروری مقدار میں پانی فراہم کیا جائے تو بہتر نتائج سامنے آسکتے ہیں۔ پاکستان کو مزید ڈیمز بنانے کی شدید ضرورت ہے تاکہ وہ بارشوں کے پانی کو جمع کرسکے اور بجلی بھی پیدا کر سکے۔ چین اس کے لیے پہلے ہی مدد دے رہا ہے۔

حقیقت یہ ہے کہ دریائے سندھ میں سال بھر میں جس قدر پانی ہوتا ہے اس کا صرف ۳۰ دن کا حصہ ڈیمز بناکر ذخیرہ کیا جاسکتا ہے۔ اس کے مقابلے میں دوسری طرف امریکی ریاست کولو راڈو میں ڈیم بھرنے کے لیے ایک ہزار دن کا پانی درکار ہوتا ہے۔ دریائے سندھ کے پانی کا صرف ۱۰ فیصد بجلی پیدا کرنے کے کام آتا ہے۔ اس معاملے میں زیادہ اچھی منصوبہ بندی اور بہتر انجینئرنگ کی ضرورت ہے تاکہ پانی کا ضیاع بھی روکا جائے اور اس سے زیادہ سے زیادہ استفادہ بھی کیا جائے۔

دریائی پانی کے استعمال کے حوالے سے حکومتوں کے درمیان تعاون کا دائرہ وسیع ہو رہا ہے۔ بھوٹان آبی وسائل سے بجلی پیدا کرکے اس کا بڑا حصہ بھارت کو فراہم کرتا ہے جس سے اس کی معیشت پر مثبت اثرات مرتب ہوتے ہیں۔ نیپال سے دریائے گنگا کا ۴۰ فیصد پانی حاصل ہوتا ہے۔ بھارت چاہتا ہے کہ نیپال بھی ڈیم بناکر بجلی پیدا کرے۔ بھارتی ماہرین نیپال کے اشتراک سے ۴۰ میگا واٹ بجلی پیدا کرنے کے منصوبوں کو آخری شکل دے رہے ہیں۔ والسیکر کا کہنا ہے کہ دو عشروں کے دوران خطے میں آبی سرحدوں پر کم و بیش ۶۰ سے ۸۰ نئے ڈیم بنائے جائیں گے۔ بھارت اور بنگلہ دیش کے درمیان بھی اس حوالے سے بات چیت ہو رہی ہے۔ دونوں ممالک مشترکہ دریاؤں پر درجنوں ڈیم تعمیر کرنے کا ارادہ رکھتے ہیں۔ بھارتی وزیر اعظم من موہن سنگھ نے ستمبر میں دریائے ٹیسٹا پر ڈیم تعمیر کرنے کے منصوبے کو حتمی شکل دینے کے لیے ڈھاکہ کا دورہ کیا۔ ایک بھارتی لیڈر کے بیانات کے باعث معاہدے پر دستخط نہ ہوسکے۔ اب یہ معاہدہ تکمیل کے نزدیک ہے۔ ویسے بنگلہ دیش کو آبی وسائل کی تقسیم کے حوالے سے بھارت سے شکایات رہی ہیں مگر پھر بھی وہ معاہدہ کرنا چاہتا ہے کیونکہ ایسا کرنا اس کی مجبوری ہے۔ دریائے گنگا کے پانی کی تقسیم کے معاہدے کا فائدہ اٹھاتے ہوئے بھارت نے خشک موسم میں پانی روکنے کا سلسلہ اب تک ترک نہیں کیا۔

آبی وسائل کی تقسیم کے معاملے میں چین بھی بھارت اور دیگر ممالک سے تعاون کا خواہاں دکھائی دیتا ہے۔ سیلاب کے موسم میں چین نے سانگ پو (برہم پترا) سے متعلق روزانہ بھارت اور بنگلہ دیش کو الگ الگ دو دو رپورٹیں جاری کیں۔ یہ اس بات کا اشارہ تھا کہ چین کی حکومت آبی وسائل کے حوالے سے اشتراکِ عمل چاہتی ہے۔ اگر یہ دوستی مکمل ہو جائے تو ترقی کے بہت سے امکانات کھل سکتے ہیں۔

بی جی ورگھیش کا کہنا ہے کہ سانگ پو سے آنے والے ریلوں کو اگر ۱۰۰ کلومیٹر کی ٹنل کے ذریعے آسام پہنچایا جائے تو سالانہ ۵۴ ہزار میگا واٹ بجلی حاصل کی جاسکتی ہے۔ اس بجلی کی مدد سے شمال مشرقی بھارت اور بنگلہ دیش ہی نہیں بلکہ میانمار اور اس سے آگے بھی بجلی کی رسد ممکن ہوسکتی ہے۔ اس نوعیت کا کوئی بھی منصوبہ علاقائی سطح پر غیر معمولی اشتراکِ عمل کی راہ ہموار کرسکتا ہے۔

مگر یہ ساری باتیں صرف باتیں ہی ہیں۔ ماہرین کہتے ہیں کہ جنوبی ایشیا کے ممالک میں جس قدر اختلافات پائے جاتے ہیں ان کے نتیجے میں آبی وسائل پر صرف تنازعات ہی پیدا ہوتے رہیں گے۔ CIA نے خبردار کیا ہے کہ ’’دریائی پانی کے مسئلہ پر ہند و پاک تنازع میں اضافہ ہوسکتا ہے‘‘ جبکہ خطہ میں دیگر تنازعات بڑھنے کے امکانات کم ہیں۔ بنگلہ دیش کے ماہر میجر جنرل منیرالزماں کا کہنا ہے کہ ’’بھارت اب تک آبی وسائل کے معاملے میں ہمہ جہت مذاکرات سے گریزاں رہا ہے۔ اس سے اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ اگر جنوبی ایشیا میں اب کسی بڑے مناقشے نے سر اٹھایا تو وہ پانی کے مسئلے سے متعلق ہوگا‘‘۔

(بشکریہ: ’’دی اکنامسٹ‘‘لندن۔ ۱۹ ؍نومبر ۲۰۱۱ء)

Be the first to comment

Leave a Reply

Your email address will not be published.


*