
مصر میں ہنگامی حالت جس کا اعادہ عام طور سے ۳سال بعد ہوتا ہے ایک بار پھر وزیراعظم احمد تطیف کی درخواست پر مصری پارلیمنٹ نے ان کے اعلان کے لیے منظوری دیدی ہے۔ اگرچہ اس بار بعض مصری حکام یہ کہہ رہے ہیں کہ اس کی مدت تقریباً ۲ سال ہوگی تاہم یہ معلوم پڑتا ہے کہ ۲۵ سالہ نظام حکومت غیر محدود مدت تک مسلط رہے گی۔ گزشتہ دنوں دہب کے مقامِ سیاحت پر دہشت گردانہ واقعات اور اسکندریہ میں فرقہ وارانہ تصادم حکومت کو ایک بار پھر ملک میں متنازعہ ایمرجنسی عائد کرنے کا مضبوط بہانہ فراہم کریں گے یہی وجہ ہے کہ مغرب نواز حکومت کے مخالفین نے پہلے ہی خبردار کردیا تھاکہ دہب کے واقع کو ایمرجنسی قانون کے تحت جابرانہ پالیسیوں کو جاری رکھنے کا ہرگز بہانا نہیں بنایاجانا چاہیے۔ ملک میں ایمرجنسی کا نفاذ ۱۹۸۱ء میں صدر انوار سادات کے قتل کے فوراً بعد ہی کردیا گیا تھا اس سے پہلے ایمرجنسی کا نفاذ ۱۹۶۷ء کی ۶ روزہ جنگ کے موقع پر سابق صدر جمال عبدالناصر نے کیا تھا کہ ہنگامی حالت کے اعلان سے حکومت اور سیکورٹی کے اداروں کو قانون میں تصرف کے خصوصی اختیارات مل جاتے ہیں۔ لیکن اسلامی اور سیکولر حزب مخالف نے تواتر کے ساتھ اس کی مذمت کی ہے اور اسے صدر حسنی مبارک کی حکومت کی جانب سے آزادی کا گلا گھونٹنے اور جمہوری قوانین کو پامال کرنے کا ایک ناپسندیدہ اقدام قرار دیا ہے۔ واضح رہے کہ صدر حسنی مبارک خود ایک سابق فوجی جنرل ہیں۔ ایمرجنسی کے قوانین کی بنیاد پر پولیس اور سیکورٹی اداروں کے اہل کاروں کو مشتبہ افراد کو حراست میں لینے اور بغیر مقدمہ چلائے انہیں غیرمعینہ مدت تک تحویل میں رکھنے کی اجازت مل جاتی ہے۔
حزب مخالف کی جماعتوں پر پابندی لگ جاتی ہے اور پبلک ریلیوں کا انعقاد قانوناً ممنوع قرار پاتا ہے۔ پابندیوں کے باوجود حزب مخالف کی جماعتوں نے حالیہ مہینوں میں باالخصوص گزشتہ سال کے قومی انتخابات سے قبل اپنے خیالات کا قدرے آزادانہ طریقے سے اظہار کیا ہے اور کلیدی مسائل پر حکومت کی پالیسیوں کو بھی چیلنج کیا ہے۔ بہرحال اب یہ بات واضح ہوچکی ہے کہ نام نہاد کھلی فضا کا شور بنیادی طور سے اس لیے مچایا گیا تھا تاکہ صدارتی اور پارلیمانی انتخابات میں ووٹ ڈالنے کے لیے لوگوں کو باہر نکالا جاسکے۔ اس مدت سے فائدہ اٹھاتے ہوئے حزب مخالف کی جماعتوں نے اپنے خیالات کا اظہار کیا اور ایمرجنسی کے مستقل طور سے خاتمے کا مطالبہ کیا تاکہ ملک میں بامعنی سیاسی اصلاحات کا آغاز ہوسکے۔ حکومت کے مخالفین اور حقوق انسانی کے علمبردار گروپوں کا یہ دیرنیہ خیال ہے کہ ایمرجنسی ایک حفاظتی آلہ ہے جس کو مخالفین کو روکنے اور مبارک کو کسی ناخوشگوار انجام اور مسائل سے محفوظ رکھنے کے لیے بھیانک طریقے سے استعمال کیا جاتا رہا ہے۔ دریں اثناء ایک بحران اور کھڑا ہوگیا ہے جبکہ دو ججوں کے خلاف قانونی چارہ جوئی کی گئی۔ اس بناء پر کہ ان کا یہ دعویٰ تھا کہ پارلیمانی انتخابات میں دھاندلی ہوئی ہے۔ اس سلسلے سے متعلق تنازعہ اس حد کو پہنچ گیا ہے کہ حقوق انسانی کے اہم اداروں نے مصر کی عدالتی کارروائی کے حوالے سے اپنی سنگین تشویش کا اظہار کیا ہے۔
واضح رہے کہ مصر عرب ممالک میں سب سے زیادہ طاقتور ترین ملک خیال کیا جاتا ہے۔ پارلیمانی انتخابات میں سب سے اہم حزب اختلاف اخوان المسلمون نے حکمران جماعت کے نامزد امیدواروں کے ساتھ دوبہ دو مقابلہ کیا تھا۔ حقیقت یہ ہے کہ طاقتور مگرممنوعہ اخوان المسلمون کے امیدواروں نے آزادا امیدوار کی حیثیت سے مقابلے میں شرکت کرتے ہوئے ۲۰ فیصد نشست جیت لی اور مبارک اوران کے حامیوں کے لیے خطرے کی گھنٹی ثابت ہوئی۔ یہ رپورٹ ہے کہ بہت سارے اضلاع میں انتخابات کے موقع پر حکمراں جماعت نے اخوان کی فتح کو روکنے کے لیے دھمکیوں اور ڈراوے سے کام لیا تھا۔ اخوان المسلمون نے‘ عرب دنیا کی سب سے پرانی سیاسی جماعت ہے جس کی عوامی مقبولیت بہت زیادہ ہے‘ ایسے وقت میں جبکہ بین الاقوامی فضا ایک تیز رفتار تبدیلی سے دوچار ہے مصر کی حزب اختلاف یہ توقع کررہی تھی کہ حکومت آزادی‘ جمہوریت اور سیاسی جوابدہی سے متعلق ان کے مطالبات کے لیے قدرے نرم رویے کا مظاہرہ کرے گی لیکن ایمرجنسی میں توسیع نے حزب مخالف کی امیدوں پر پانی پھیر دیا ہے اور بحران سے پُر اس خطے اور اس کے مادر خطوں میں مصر کے دوستوں کو مایوس کیا ہے۔
(اداریہ روزنامہ ’’ایران ڈیلی‘‘۔ شمارہ۔ ۷ مئی ۲۰۰۶ء)
Leave a Reply