
ماریشس میں منعقدہ(۹ دسمبر۱۹۹۱ء) عالمی اردو کانفرنس میں اردو دنیا کے رفیع الشان ادیب اور دانشور ڈاکٹر جمیل جالبی کا کلیدی خطبہ
میرے لیے یہ انتہائی خوشی کی بات ہے کہ مجھے بحرِ ہندکے ایک نہایت حسین اور تاریخی ملک ماریشس کے زندہ اور خوش باش باسیوں سے ملنے اور خطاب کرنے کا آج موقع ملا ہے۔ آپ کے ملک آکر مجھے یوں محسوس ہوا کہ جیسے میں اپنے گھر آگیا ہوں اور جہاں کے لوگ اپنی محبت‘ اپنے خلوص اور اپنی مہمان نوازی سے میرے دل کے اندر اتر گئے ہیں۔ یہ ایک ایسی جگہ ہے جہاں لوگ ایک دوسرے سے محبت کرتے ہیں‘ جہاں زندگی کے چشمے اُبل رہے ہیں‘ جہاں کے منظر دل فریب اورجہاں کا حسن ساری دنیا میں بے مثال ہے۔ مجھے یقیناً آپ کی خوش بختی پر رشک آتا ہے اور دعا ہے کہ آپ اور آپ کی نسلیں یہاں ہمیشہ شاد اور آباد رہیں۔ آپ کی نسلیں دنیا کی مختلف او ربڑی تہذیبوں کی وارث ہیں اور آپ ان سب کے میل جول سے ایک ایسی انسانی تہذیب کو پروان چڑھارہے ہیں جن پر ساری دنیا کی نظریں لگی ہوئی ہیں اور اسی لیے وہ سب دنیا کی خوشیوں کو حاصل کرنے اور قدرتی مناظر سے لطف اٹھانے کے لیے دوردراز گوشوں سے ماریشس آتے ہیں۔ ان نسلوں میں ایشیا ویوروپ کے مختلف ممالک کے لوگ بھی شامل ہیں جو یہاں آئے تھے اور پھر یہیں کے ہورہے۔ آپ سب برصغیر کے مذاہب اور وہاں کی تہذیبوں کے وارث ہیں۔ علامہ اقبال نے اس رنگا رنگی میں اتحاد کا جو درس دنیا کی ساری قوموں کو دیا تھا وہی اصل راستہ ہے جس پر چل کر دنیا امن کا گہوارہ بن سکتی ہے۔ خواتین و حضرات وہ پیغام یہ تھا
مذہب نہیں سکھاتا آپس میں بیر رکھنا
برصغیر سے آنے والوں کی جو نسلیں یہاں آباد ہیں وہ بہت سی زبانیں بولنے کے ساتھ ساتھ ایک ایسی زبان بھی بولتی ہیں جس کے وہ سب مشترک وارث ہیں۔ ان سب باشندوں کے بولنے کی زبان کم و بیش ایک ہے جس کا نام ہندوستانی اور ایک نام اردو ہے۔
اردو ایک ایسی زبان ہے۔ جس نے برصغیر کی ساری بولیوں کا رس پیا ہے اور ان سب کے ملاپ سے ایک ایسا روپ دھارا ہے جو حسین بھی ہے‘ عام فہم اور آسان بھی۔ اس زبان میں امیر خسرو کے نغمے بھی شامل ہیں اور قلی قطب شاہ کی سریلی لے بھی‘ اس میں کبیر داس کی دل میں اُتر جانے والی شاعری بھی شامل ہے اور بابا گرونانک کے اشلوک اور دو ہے بھی۔ اس میں میر تقی میر اور غالب کی شاعری نے بھی رس گھولا ہے اور علامہ اقبال کی روح پرور شاعری نے بھی نئی جوت جگائی ہے۔ اس میں پنڈت برج نرائن چکبست اوررگھوپتی سہائے فراق نے بھی ایک نئی آواز کو جذب کیا ہے۔ اس میں فیض احمد فیض کی آواز بھی شامل ہے اور میرا جی‘ ن۔م۔ راشد اور اختر الایمان کی بھی۔ آپ اس عظیم زبان کی عظیم روایت کے عظیم وارث ہیں جس میں بھکتی کی لے بھی موجود ہے اور تصوف کی لہر بھی۔ اسی زبان کے ذریعے آج بھی آپ کا رشتہ پاکستان اور ہندوستان سے قائم ہے اور اسی رشتے کو مضبوط بنانے کے لیے آپ نے اس ’’عالمی اردو کانفرنس‘‘ کا اہتمام کرکے اپنے عظیم ورثے سے اپنی گہری محبت کا اظہار کیا ہے۔ آپ اس کانفرنس کے انعقاد پر یقیناً ہم سب کی مبارکباد کے مستحق ہیں۔
ہم سب امن‘ محبت اور بھائی چارے کے جذبات کے سفیر ہیں جو آپ کے لیے یہاں اپنے ساتھ لائے ہیں۔ ہم سب آپ سب سے محبت کرتے ہیں اور آپ کے لیے وہ سب کچھ کرنے کے لیے تیار ہیں جس کی آپ ہم سے توقع رکھتے ہیں۔ اردو آپ کی‘ میری‘ پاکستان کی‘ ہندوستان کی سب کی مشترکہ میراث ہے اور آج بھی یہ زبان ساری دنیا کے ممالک میں تہذیبی رنگوں کا دھنک آمیز جادو جگارہی ہے۔ یہ زبان ہزاروں سال سے برصغیر پاک و ہند میں بولی جارہی ہے ۔ جب ایک زبان کے بولنے والے دوسری زبان کے بولنے والے سے ملتے ہیں تو اسی زبان میں اپنا مطلب بیان کرتے ہیں۔ اردو زبان آج بھی یہی کام اور یہی خدمات انجام دے رہی ہے۔
جب مسلمان برصغیر پاک و ہند میں آئے تو اپنی اپنی زبان بولتے آئے۔ کوئی عربی بولتا تھا‘ کوئی فارسی تو کوئی ترکی۔ یہاں آئے تو اپنی زبانوں کے الفاظ اس زبان میں ملا کر اپنی بات دوسروں تک پہنچانے کی کوشش کی جس میں صدیوں کا لمبا سفر طے کرکے اردو زبان ایک زندہ جیتی جاگتی زبان بن کر سامنے آگئی اور رفتہ رفتہ سرکار دربار کی زبان بن گئی جس کی مٹھاس‘ رس‘ پھیلاؤ‘ قوت ادائیگی اور توانائی نے سب کے دلوں کو موہ لیا اور اس میں ساری قومیں نغمہ سرائی کرنے لگیں اور یہ زبان سب کے دل‘ اظہار اور میل ملاپ کی زبان بن گئی۔ یہ اردو زبان مختلف تہذیبوں اور متعدد زبانوں کا ایک ایسا سنگم ہے جس میں ان تہذیبوں اور زبانوں کے ایک دو نہیں بلکہ متعدد دریاآکر گرتے ہیں۔ برصغیر پاک و ہند کی تہذیب سنتوں اور صوفیوں کی تہذیب ہے جو ہمیشہ محبت کا درس دیتے رہے ہیں۔ یہی محبت اردو زبان کی گھٹی میں پڑی ہے۔ اردو زبان ملاپ کی زبان ہے۔ میں لفظوں کے تعلق سے چند مثالوں سے اس ملاپ کی وہ صورت آپ کے سامنے پیش کرتا ہوں جس صورت نے برصغیر میں محبت کے ایک فطری روپ کو جنم دیا ہے اور الفاظ کے ایسے جوڑے اور تراکیب بنائے ہیں جو دلچسپ بھی ہیں اور اس ملاپ کا بھرپور اظہار بھی کرتے ہیں۔ ’’اعظم‘‘ عربی زبان کا لفظ ہے اور ’’مظفر‘‘ بھی۔ انہیں ملا کر اردو نے ہندوستان میں نئے شہر آباد کردیئے جنہیں آج اعظم گڑھ اور مظفر نگر کے نام سے جانتے ہیں۔ اسی طرح چند تراکیب اور سنیے جن میں ایک لفظ عربی کا ہے اور ایک برصغیر کی زبان کا مثلاً اللہ والا‘ امام باڑہ‘ انسانی سماج‘ ایمان دھرم‘ بدیسی طاقت‘ بھگوان قسم‘ پھٹے حال‘ جمع پونجی‘ چودہ طبق‘ حافظ جی‘ حلوہ پراٹھا‘ حلوہ مانڈا‘ خالہ ‘ ماسی ‘ خط پتر‘ دنگا فساد‘ دھن دولت‘ راجہ صاحب‘ رام رحیم‘ رام غلام‘ سماجی اقدار‘ صوفی سنت‘ ضلع جگت‘ عطر پھلیل‘ کفن چور‘ گیانی‘ ذیل سنگھ‘ لحاف گدے‘ محکمہ ڈاک‘ کٹ حجتی‘ راج محل‘ عجائب گھر‘ مرہم پٹی‘ مسخرہ پن‘ گھڑی ساز‘ چٹھی رساں‘ ڈاک خانہ‘ پھل دار ‘ تھانے دار‘ چوکی دار‘ اکڑ باز وغیرہ ایسی تراکیب ہیں جو اسی تہذیبی میل میلاپ کا ایک خوبصورت روپ ہیں جن میں ایک لفظ عربی یا فارسی ہے اور ایک لفظ خالص ہندوستانی النسل ہے۔ آپ ایسی عظیم میل ملاپ کی تہذیب اور زبان کے وارث ہیں۔ اسے اپنے خوبصورت عظیم ملک میں اسی طرح باقی و برقرار رکھیے تاکہ محبتوں کے ذریعے آپ ایسی تہذیب کو جنم دے سکیں جس سے پاکستان اور ہندوستان والے بھی روشنی حاصل کرسکیں۔ اردو زبان نے ہر زبان کے الفاظ اپنے اندر فراخدلی سے جذب کیے ہیں۔ اس میں سنسکرت اور پراکرتوں کے الفاظ بھی پیوست ہیں اور عربی‘ فارسی اور ترکی کے علاوہ بالکل غیر تہذیبوں مثلاً پرتگالی اور انگریزی زبان کے بھی۔ انگریزی زبان کے الفاظ سے آپ واقف ہیں جو اردو میں جذب ہوکر رفتہ رفتہ اس کا جزو بن گئے ہیں جیسے پینسل ‘اسٹیشن‘ ٹکٹ‘ گلاس‘ بلب وغیرہ۔ اسی طرح پرتگالی کے بہت سے الفاظ سولہویں صدی میں اردو زبان میں ایسے ہی شامل ہوتے گئے مثلاً بالٹی‘ میز‘ نیلام‘ گودام‘ صابون‘ کمرہ‘ کارتوس کو براوہ الفاظ ہیں جو پرتگالی سے آئے ہیں۔ اس طرح دیگر زبانوں کے الفاظ بھی اردو میں شامل ہیں۔
اردو زبان کی ایک اور خصوصیت یہ ہے کہ برصغیر پاک و ہند کی ساری زبانیں اس میں شامل ہیں او ریہ خود سب زبانوں میں شامل ہے۔ مثال کے طور پر ’’بھوجپوری زبان‘‘ کو لیجیے جو بنارس‘ مرزا پور‘ جون پور‘ غازی پور‘ بلیا‘ گورکھ پور‘ بستی اور اعظم گڑھ سے لے کر صوبہ بہار سارن اور چھوٹاناگپور تک آج بھی بولی جاتی ہے۔ جب اس زبان کے بولنے والے اسے بولتے ہیں تو بھوج پوری اردو زبان میں اور اردو بھوج پوری زبان میں شامل دکھائی دیتی ہے۔ مثلاً اس وقت مجھے ایک کہاوت یاد آرہی ہے۔ وہ کہاوت نہیں کہ کہاں راجابھوج اور کہاں گنگو تیلی تیلی‘ بلکہ ایک اور کہاوت جو میں نے اپنے بچپن میں سنی تھی ‘ جس کا مطلب یہ تھاکہ بھوج پور والے اپنی محبت سے دوسروں کے دل چرالیتے ہیں۔ کہاوت یہ ہے:
’’بھوج پور میں جائیو مت‘ جائیو تو کھائیومت‘کھائیو تو سوئیو مت‘ سوئیو تو ٹوہیومت ‘ ٹوہیوتورہیو مت۔‘‘
اب یہاں دیکھیے اس بھوج پور اور اردو میں لہجے کا فرق تو ہوسکتا ہے لیکن زبان یا ذخیرہ الفاظ کا کوئی فرق نہیں ہے۔ یہی صورت پنجابی‘ کھڑی بولی‘ ہریانی‘ بندیلی اور برصغیر کی زیادہ تر زبانوں کے ساتھ ہے۔ اسی لیے اردو زبان آپ سب کا یقیناً مشترک عظیم ورثہ ہے۔
اردو زبان محبت کی زبان ہے۔ اس کی وقعت کا اندازہ اس سے کیجیے کہ اس میں ہر مذہب کی کتابیں اور تراجم کثرت سے موجود ہیں اور بالخصوص اسلام اور ہندو مذہب کی تو بیشتر کتابیں موجود ہیں۔ اسلام کے متعلق اس زبان میں اتنا مذہبی ادب لکھاگیا ہے اور کتابوں کا ذخیرہ ہے کہ مسلمانوں کی ساری ضرورتوں کو پورا کرتا ہے۔ اسی طرح ہندو مذہب کی عظیم کتابیں مثلاً رامائن‘ مہابھارت اور گیتا کے متعدد تراجم موجود ہیں۔ علی جوادزیدی اور رام لعل نابھوی نے جو فہرستیں مرتب کی ہیں جن کے دیکھنے سے معلوم ہوتا ہے کہ صرف رامائن کے کم و بیش پونے تین سوترجمے اردو زبان میں ہوئے ہیں‘ نثر میں بھی اور نظم میں بھی۔ اسی طرح مہابھارت کے متعدد مستند ترجمے موجود ہیں اور اٹھارہ کے قریب گیتا کے ترجمے بھی موجود ہیں۔ ان کے علاوہ ہندو مذہب کے بارے میں ہر طرح کی کتابیں‘ جو بالخصوص انیسویں صدی میں لکھی گئی ہیں موجود ہیں۔ صرف مہرشی شیوبرت لال درمن نے جیسا کہ ڈاکٹر محمد انصار اللہ نے لکھا ہے کم و بیش چھوٹی بڑی تین ہزار کتابیں ہندو مذہب وفلسفہ وغیرہ کے بارے میں اردو میں لکھیں جن میں وید‘ اُپنشد اور دوسر ی مذہبی کتابوں کے اردو تراجم و تشریحات شامل ہیں۔ آپ ماریشس میں اس عظیم زبان کے عظیم وارث ہیں۔
اردو کے سماجی و ثقافتی ورثے میں وہ گیت بھی شامل ہیں جو آج بھی لکھے جارہے ہیں اور آج بھی مختلف تقریبات کے موقع پر گائے جاتے ہیں۔ یہ موقع کسی تیوہارکا ہو یا شادی بیاہ یا بچے کی پیدائش کا۔ ایسے موقع پر خوشی خوشی لڑکیاں بالیاں بڑی بوڑھیاں مل کر ڈھولک کی تھاپ پر مخصوص دھنوں میں سہاگ کے نغمے چھیڑتی ہیں اور ساری فضا کو مہکا دیتی ہیں۔ موسیقی میں ٹھمری اور دادرا کے جادو بھرے تیور سننے والوں کے دلوں میں اُتر جاتے ہیں۔ اردو غزل تو ہماری روز مرہ کی زندگی کا ایک لازمی حصہ بن گئی ہے۔ مشاعرے میں صرف غزل ہی مقبولِ عام ہے۔ یہی غزل اپنے مخصوص استادانہ اندازمیں جب گائی جاتی ہی تو سننے والوں کو عالم وجد میں لے آتی ہے۔ اس میں راگ راگنیوں کا کلاسیکی ڈھنگ بھی شامل ہوتا ہے اور جدید زندگی کے وہ سُر بھی جو ہر نسل کے ساتھ مخصوص ہوتے ہیں غزل کی گائیکی ہماری تہذیبی زندگی میں اسی لیے ایک ایسا خوبصورت‘ شاندار اور وجد آفرین اضافہ ہے کہ برصغیر کے ہر طبقے میں مقبول ہے۔ اس میں ایک طرف شاعری کا جادو ہے تو دوسری طرف موسیقی کا‘ دونوں جادو مل کر ایک نیا جادو جگاتے ہیں اور پھر یہ جادو سر چڑھ کر بولنے لگتا ہے اور ہم عالم وجد میں آجاتے ہیں۔ یہی صورت قوال کی ہے۔ قوالی صوفیانہ کلام کا ایک ایسا ڈھنگ اور روپ ہے جو ہمارے روحانی وجود کو بیدار کرتا ہے او رہمیں خدا اور اس کی پیدا کی ہوئی کائنات کا حصہ بنادیتا ہے یہ سب اردو کلچر اور اردو تہذیب کی دین ہے اردو کے تعلق سے آپ کے پاس ایک ایسا سماجی اور تہذیبی ورثہ ہے جسے آپ کو اور ہم سب کو اپنی حقیقی زندگی کا حصہ بنانا چاہیے اور اس زبان کو اختیار کرکے اور اس کی ترویج میں شریک ہوکر برصغیر کی تہذیب کے ورثے کو جدید زندگی سے ہم آہنگ کرنا چاہیے تاکہ جدید زندگی کو خوبصورت لباس پہنایا جاسکے اور اس کے ننگے پن کو چھپایا جاسکے۔ تہذیب کے ننگے پن کو لباس مہیا کرنا اردو کلچر کا ایک بنیادی کام رہا ہے۔
آپ نے یہاں اردو تدریس کا اچھا اہتمام کیا ہے۔ آپ کی حکومت اس کام میں آپ کی بہت مدد کرتی ہے۔ اردو تدریس کے لیے ضروری ہے کہ آپ دو چار ایسے استاد پاکستان اور ہندوستان سے بلوائیں جو آپ کے سب استادوں کی تربیت کریں تاکہ اردو تدریس کا معیار بلند سے بلند ہوجائے۔ اردو تدریس اور اس کے نصاب میں آپ سماجی اور تہذیبی اسباق شامل کریں تاکہ دونوں کام ایک ساتھ ہوجائیں۔ اس میں مسلمان اور ہندو دونوں سے تہذیبوں کو ایک ساتھ رکھا جائے تاکہ آپ ایک دوسرے قریب آئیں اور مل جل کر محبت کی فضا میں اتحاد کی جوت جگاسکیں۔ یہ آپ کی ضرورت بھی ہے اور آپ کا عظیم ورثہ بھی۔
ضرورت اس بات کی بھی ہے کہ جہاں اردو تعلیم کا انتظام ہے وہاں ہر اسکول میں ایک اردو لائبریری بھی قائم کی جائے اور وہاں آپ برصغیر پاک و ہند کی اچھی اچھی کتابیں جمع کریں تاکہ بچے انہیں پڑھیں اور اپنے عظیم ورثے کا شعور حاصل کریں۔ ایک بڑی اردو لائبریری شہر میں ہونی چاہیے جہاں اردو کی سب کتابیں جمع کی جائیں۔ یہ کام آپ آج سے شروع کریں گے تو آنے والے زمانے میں یہ پروان چڑھ کر چھتنار سیاہ دار درخت بن جائے گا۔ اس میں اردو زبان میں لکھی گئی بچوں کی کتابیں خاص طور پر جمع کی جائیں۔ میں اس سلسلے میں آپ کی پوری مدد کرنے کے لیے تیار ہوں۔ آپ لائبریری قائم کیجیے۔ میں پاکستان سے آپ کو اس کے لیے کتابیں فراہم کرنے اور کرانے کی پوری کوشش کروں گا ۔ یہ کوئی بہت مشکل کام نہیں۔ آپ مضبوط بنیادوں پر ایک ادارہ قائم کردیجیے۔ یہ چند سالوں میں کتابوں سے بھرجائے گا اس موقع پر ایک بات میں آپ سے اور کہنا چاہتا ہوں۔ آپ بچوں کی نئی نسل کو لکھنے کی طرف مائل کیجیے۔ جب اچھی اردو و تدریس کا انتظام ہوگا اور بچوں کو لکھنے کی مشق کرائی جائے گی تو وہ خود لکھنے کی طرف مائل ہوں گے۔ پھر آپ دیکھیں گے کہ وہ ہر طرح کی کتابیں رفتہ رفتہ خو دلکھنے لگیں گے۔ یہاں آکر مجھے یوں محسوس ہوا کہ آپ کے ملک میں کہانیاں بکھری پڑی ہیں اور اس انتظار میں ہیں کہ کوئی آئے اور انہیں بیان کردے۔ آپ اپنی کہانی خود سب سے بہتر بیان کرسکتے ہیں۔ اس طرح آپ کا یہ رنگ ساری دنیا میں پھیلے گا۔ پاکستان اور ہندوستان میں بھی پہنچے گا اور آپ اپنے اس عظیم ورثے کے خود ترجمان بن جائیں گے۔
ایسی اور بہت سی باتیں ہیں جو آپ سے آج کی جاسکتی ہیں‘ لیکن آج کی نشست میں اتنا ہی کافی ہے۔ اس وقت مجھے کبیرداس کا ایک دوہا یاد آرہا ہے جسے آپ بھی سن لیجیے اور مجھے اجازت دیجیے ۔
نہائے دھوئے کیا بھیا جومَن میل نہ جائے
میں سدا جل میں رہے دھوئے باس نہ جائے
(بشکریہ: سہ ماہی ’’سفیرِ اردو‘‘ لیوٹن‘ یو کے)
Leave a Reply