
براعظم جنوبی ایشیا دنیا کا سب سے گنجان آبادی والا خطۂ زمین ہے۔ اس مردم خیز خطے کا اس معاملے میں صرف چین ہمسری کا دعویٰ کر سکتا ہے۔ دنیا کے ان دو خطوں میں دنیا کی نصف آبادی رہتی ہے۔
جنوبی ایشیا میں تاریخ کے مختلف ادوار میں کبھی کوئی بڑی سیاسی قوت ابھرتی اور اکثر سارے برصغیر کو متحد کر کے عالمی قوت کا روپ دھار لیتی تھی۔ سب سے آخر میں اس طرح کی سیاسی سلطنت کا قیام مغلیہ خاندان کے ہاتھوں عمل میںآیا۔ اس طرح کی کسی سیاسی مرکزیت کی عدم موجودگی میں درجنوں ریاستوں اور راجواڑوں کا ظہور عمل میں آتا۔ برصغیر میں تاج برطانیہ کی حکمرانی سے پہلے یہی صورت حال تھی۔
برصغیر کے سیاسی اتحاد و انقسام کے سلسلے کے علی الرغم یہ بات طے ہے کہ تاریخ میں پہلی بار آج سے چار سو سال قبل عوامی سطح پر بولی جانے والی ایک ایسی زبان برصغیر کے طول و عرض میں منظر پر آنا شروع ہوئی جسے بجا طور پر مختلف زبانوں کے اس خطۂ زمین میںرابطے کی زبان (Lingua Franca) قرار دیا جا سکا۔ اس زبان کو مختلف ناموں سے پکارا گیا اور آخر میںاردو کے نام سے جانی جانے لگی۔ یہ زبان بنگال کے مرشد آباد، حیدرآباد دکن، ٹیپو سلطان کے میسور، پٹنہ، عظیم آباد، لکھنؤ، دہلی، ممبئی، کراچی، کشمیر اور لاہور میں مقامی بولیوں اور زبانوں کے ساتھ ساتھ برصغیر کے طول و عرض میں بولی اور سیکھی جاتی رہی۔
گزشتہ ہزار سالہ تاریخ کے دوران میں مغربی و وسطی ایشیا اور جنوبی ایشیا میں انتہائی گہرے تہذیبی، لسانی اور روحانی روابط کا دور دورہ رہا۔ اس سے پہلے بھی برصغیر پر ان علاقوں کا زبردست عمل دخل رہا ہے۔ آریا بھی اسی علاقے سے آئے تھے اور ہندوستان میں آباد ہو کر اس کے مالک بن گئے۔ وہ اپنے ساتھ ایک قابل ذکر زبان بھی لائے۔ اس زبان کو سنسکرت کہتے ہیں۔ ہندوستان میںآباد ہونے والے آریائی ہندوئوں نے ہندوستان میں طبقاتیت اور ذات پات کی نہ صرف بنیاد ڈالی بلکہ اس پر مذہبی لبادہ بھی اوڑھا دیا۔ سنسکرت کو وہ مذہبی زبان کا درجہ دیتے ہیں۔ عام لوگوں جنہیں شودر اور ناپاک قرار دیا گیا تھا، کے لیے اس زبان کے ’’مقدس‘‘ الفاظ سننا بھی جرم تھا۔ اس طرح کے غیر انسانی اور طبقاتی طرزِ عمل کے نتیجے میں یہ زبان صرف اعلیٰ ذات کے ہندوئوں کے برہمنی طبقے میں فقط مذہبی تقریبات اور تعلیمات میں استعمال ہوتی رہی۔ عام لوگوں کی زبانوں کو پراکرت کے توہین آمیز نام سے پکارا جاتا تھا۔
اسلام کی نورانی تعلیمات کے نتیجے میں مغربی اور وسطی ایشیا میں قوموں کی تقدیر بدلنے والی انقلابی انسانی تہذیب فروغ پذیر تھی۔ اسلامی تہذیب کی انسان پروری نے اسے ہر ملک و ملت کے لیے دلکش بنا رکھا تھا۔ جو قوم اس تہذیب کو اپنا لیتی ہے، وہ اس کی بقا کے لیے سرگرم عمل ہو جاتی تھی اور جس قوم کے سامنے اس کی ایک جھلک بھی دکھائی دیتی تھی وہ اس سے بغلگیر ہونے کے لیے لپکتی تھی۔ انسانی معاشروں کو ظلم و ستم اور اوہام و خرافات کی غلاظتوں اور گندگیوں سے پاک کرنے کے لیے سیلِ رواں بن کر اسلام نے برصغیر کا رُخ کیا۔ برصغیر میں اس مہم کے علمبردار عرفاء و صوفیا بھی تھے جنہوں نے مبلغین کا فریضہ انجام دیا اور کشور کشائی کرنے والے فاتحین بھی تھے جن کی وجہ سے اہلِ اسلام کو یہاں سیاسی غلبہ حاصل ہوا۔ بعض ساحلی علاقوں میں مسلمان تاجر اشاعت اسلام کا باعث بنے۔ دیکھتے ہی دیکھتے سارے برصغیر پر اہل اسلام کی سیاسی سطوت و برتری کا پرچم لہرانے لگا۔ کثیر تعداد میں خلق خدا حلقۂ بگوش اسلام ہو گئی۔
برصغیر کے شمالی و مغربی خطے یعنی دریائے سندھ اور اس کے معاون دریائوں کی سرزمین پر عوام کی عظیم اکثریت نے قراقرم سے لے کر کراچی تک اسلام قبول کیا اور آجکل یہ سرزمین پاکستان کی صورت میں آزاد اور مقتدر مسلمان مملکت کے طور پر دنیا کے نقشے پر موجود ہے۔ برصغیر کے مشرق میں بھی کچھ تاخیر سے بنگال و آسام میں عوام کی اکثریت نے اسلام قبول کیا۔ یہاں بھی ان مسلمان اکثریتی علاقوں پر مشتمل خطہ زمین بنگلہ دیش کی صورت میں ایک آزاد اور مقتدر مسلمان ملک کے طور پر نقشہ جہاں پر موجود ہے۔ باقی ماندہ ہندوستان میں بھی مسلمان کروڑوں کی تعداد میں رہتے ہیں۔ وہاں پر بھی مسلمانوں نے اسلامی تہذیب و تمدن کے ایسے گہواروں کو پروان چڑھایا جو تاریخی طور پر بخارا و بغداد، شیراز و ثمرقند اور قاہرہ و نیشاپور کے ہمسر و برابر رہے ہیں۔ ان میں جون پور، لکھنؤ، دہلی، حیدرآباد، آگرہ، عظیم آباد اور پٹنہ شامل ہیں۔
ہزار سالہ زمانے پر محیط مسلم دور میں یہاں پر مقامی بولیوں اور زبانوں کے علاوہ دو زبانوں کا خوب خوب چلن رہا۔ ان میں سے ایک عربی تھی اس میں مسلمانوں کی مقدس کتاب قرآن پاک اور نبی پاکؐ کی احادیث و سنن کا مقدس ذخیرہ موجود ہے۔ برصغیر میں مسلمانوں کی آمد سے پہلے اس زبان وحی یعنی عربی کے زیر اثر ممالکِ عجم میں دری، فارسی زبان و جود میں آ چکی تھی۔ فارسی زبان صدیوں تک برصغیر میں مسلمانوں کے دورِ اقتدار میں سرکاری زبان کے طور پر رائج رہی۔ سنسکرت زبان پر برہمنی فسطائیت نے پہرے بٹھا رکھے تھے۔ عام ہندوستانی ہندوئوں پر بھی اس زبان کے دروازے بند تھے ویسے بھی مسلمان حکمرانوں اور ان کی رعایا میں اس برہمنی زبان کے ساتھ کسی طرح کا بھی تال میل تھا اور نہ کوئی کشش پائی جاتی تھی۔
سترھویں صدی میں جب اردو برصغیر کی پہلی مقبول عام رابطے کی زبان کے طور پر اپنی تشکیل کے مراحل تیزی سے طے کر رہی تھی تو بیان شدہ حالات میں خزانہ الفاظ کے لیے فارسی اور عربی زبانوں کے بیش بہا ذخیرۂ الفاظ استعمال کرنے کی رسم چل پڑی اور یہی لسانی عمل اردو کے ساتھ ساتھ دوسری ترقی پذیر علاقائی زبانوں مثلاً پنجابی، سندھی، پشتو، بلوچی، گجراتی، مراٹھی، سرائیکی، راجستھانی، ہریانوی، بھوجپوری، کشمیری وغیرہ میں بھی جاری رہا۔ یہی وجہ ہے کہ اردو کے ساتھ ساتھ علاقائی زبانوں میں بھی فارسیت اور عربیت کی گہری چھاپ موجود ہے۔
بیسوی صدی عیسوی میں جدید برہمنی سیاسی فسطائیت اور قدیم برہمنی لسانی فسطائیت کے تقاضوں میں تضاد پیدا ہوا۔ مسلمانوں کے دور اقتدار کے خاتمے اور انگریز راج کے قائم ہونے سے برہمنی استعماری ذہنیت نے اب لسانی فسطائیت کا نیا کھیل شروع کیا۔ سنسکرت زبانوں کو سات پردوں کے پیچھے سنبھال کر رکھنے اور عام ہندوستانیوں کے لیے اسے شجرِ ممنوعہ قرار دینے نے جس لسانی تہذیبی حقیقت کو جنم دینے میں ایک عامل کے طور پر کام کیا تھا وہ اب برہمنوں اور اعلیٰ ذات ہندوئوں کے لیے یکسر ناقابلِ قبول تھی۔ اردو تقریباً سارے برصغیر میں رابطے کی زبان کے طور پر مقبول عام ہو چکی تھی۔ یہ جنوب میں ریاست میسور کی، شمال میں ریاست جموں و کشمیر کی اور مغرب میں برطانوی بلوچستان کی سرکاری زبان تھی۔ اردو کے ساتھ ساتھ بولی جانے والی علاقائی زبانیں بھی فارسیت اور عربیت سے مالا مال ہو چکی تھیں۔ شعرا اور ادیب بھی اسی طرز پر ان زبانوں میں اشعار کہتے اور مضامین لکھتے تھے۔ برہمنوں نے لسانی فسطائیت کے نئے کھیل میں اردو کو ہندوئوں اور مسلمانوں کی عوامی زبان ہونے کے باوجود اپنی زبان ماننے سے انکار کیا اور ایک مصنوعی زبان پر کام شروع کیا۔ اس سلسلے میں انہوں نے اردو سے فارسی اور عربی الفاظ کو نکال کر سنسکرت الفاظ و اصطلاحات استعمال کرنا شروع کیے اور اس نو ساختہ زبان کا نام ہندی رکھا۔ ستم ظریفی دیکھیے کہ اس نو ساختہ زبان کا نام ہندی بھی فارسی اور عربی ہے۔
برصغیر سے برطانوی راج کے خاتمے پر برطانوی ہندوستان کا دو ملکوں میں بٹوارا ہوا۔ ہندو اکثریتی بھارت نے مقبول عام اور رابطے کی عملی زبان اردو کے ساتھ بدترین تعصب کا مظاہرہ کیا اور سرکاری سطح پر فیصلہ ہوا کہ وہ اردو سے عربی اور فارسی الفاظ و اصطلاحات کا اخراج کریں گے اور ان کی جگہ سنسکرت کے الفاظ و اصطلاحات کو استعمال کر کے مصنوعی زبان ہندی کو وجود میں لائیں گے اور یہی زبان یعنی ہندی ہندوستان کی سرکاری زبان ہو گی۔ یہ لسانی فسطائیت دو قومی نظریے کی حقانیت کی بین دلیل ہے۔ اردو بولنے والے ہندو لوگوں نے صرف مذہبی جنونیت کی وجہ سے ملک کی سب سے زیادہ مقبولیت کی مالک زندہ و جاوید زبان کو اپنانے سے انکار کیا اور مصنوعی طور پر ایک نئی زبان کو بنانے کا بیڑا اٹھایا تاکہ اس میں برہمنی سنسکرت کی گہری چھاپ پیدا ہو سکے۔ گزشتہ ۶۰ سال میں برہمنوں نے بعض حوالوں سے اس کوشش میں کتنی بھی کامیابی کیوں نہ حاصل کی ہو مگر یہ بات روزِ روشن کی طرح عیاں ہے کہ بھارت میں آج بھی مقبول عام اور رابطے کی زبان عملاً اردو ہی ہے۔ تجارتی مقاصد کے لیے بننے والی ’’ہندی‘‘ فلموں اور ڈراموں کی زبان آج بھی اردو ہی ہوتی ہے۔ عوام کے پسندیدہ فلمی گیت اور گلوکاروں کی گائی غزلیں اردو زبان اور شاعری کی مقبولیت کا منہ بولتا ثبوت ہے۔ ان حقائق کے پیشِ نظر یہ بات کلّی طور پر صحیح ہے کہ اردو آج بھی تقریباً سارے جنوبی ایشیا میں رابطے کی زبان کے طور پر زندہ ہے اور دنیا کی دو سب سے زیادہ بولی اور سمجھی جانے والی زبانوں میں ایک چینی اور دوسری صرف اور صرف اردو ہے۔ چاہے اس کو ہندی ہی کیوں نہ کہا جاتا ہو۔
تقسیم سے پہلے ہی پاکستان کے تمام علاقوں میں اردو سیکھی اور بولی جاتی تھی۔ یہ بلوچستان، پنجاب، صوبہ سرحد اور جموں و کشمیر کی سرکاری زبان تھی۔ سندھ میں بھی اردو زبان سیکھی اور بولی جاتی تھی پاکستان کی ساری علاقائی زبانوں اور اردو میں انتہائی قربت پائی جاتی ہے۔ مدتوں سے اردو کو عملی طور پر پاکستان میں رابطے کی زبان کی حیثیت حاصل رہی ہے۔ پاکستان کی تمام علاقائی زبانوں اور اردو میں موجود یکسانیت کی بدولت یہ باہم قابلِ فہم (Mutually Intelligible) بھی ہیں اور کسی بھی علاقائی زبان بولنے والے کے لیے اردو کو سیکھنا اور اس میں مہارت حاصل کرنا نہایت آسان ہوتا ہے۔
اردو کی طرح پاکستان کی تمام علاقائی زبانوں میں فارسیت اور عربیت کی بھرپور آمیزش ہے اور خزانہ الفاظ کے طور پرانہی زبانوں کی طرف رجوع کیا جاتا ہے۔ اردو اور علاقائی زبانوں کی علمی، فنی اور سیاسی اصطلاحات بھی مشترک ہیں۔ بالعموم علاقائی زبان کا شاعر اور ادیب اردو کا بھی شاعر اور ادیب ہوتا ہے۔ اردو کو تو برہمنی مذہبی جنونیت کی وجہ سے بھارت میں عتاب کا شکار بننا پڑا مگر مملکت خداداد پاکستان میں اردو کو خاص پذیرائی حاصل ہوئی اور اسے قومی سرکاری زبان کا درجہ دیاگیا۔ اس زبان کو برصغیر میں مسلمانوں کی ہزار سالہ تاریخ کی شاندار اور قابلِ فخر وراثت گردانا جاتا ہے۔ آجکل پاکستانی عوام کی غالب اکثریت اپنی مادری زبان کے ساتھ اردو بھی جڑواں زبان کے طور پر بولتی ہے۔
پاکستان میں زبانوں کے حوالے سے نہ کوئی تنازعہ ہے اور نہ کوئی دستوری پیچیدگی ہے۔ ۱۹۷۳ء کے اسلامی جمہوریہ پاکستان کے متفقہ دستور میں یہ بات ہمیشہ کے لیے طے پا چکی ہے کہ اردو پاکستان کی قومی سا لمیت کی زبان ہے اور اسی زبان کو انگریزی کی جگہ سرکاری دفتری زبان اور ذریعۂ تعلیم کے طور پر استعمال ہوتا ہے۔ اس کے ساتھ ہی یہ بھی طے پا چکا ہے کہ ہر علاقے میں وہاں کی علاقائی زبان بھی اردو کے ساتھ ساتھ سرکاری زبان کے طور پر استعمال ہوا کرے گی۔ اردو کی طرح بلوچی، بلتی، بروہی، پشتو، پنجابی، کشمیری، سرائیکی، سندھی، شینا، ہندکو اور تھری زبانیں اور بولیاں بھی جنوبی ایشیا کی عظیم اسلامی تہذیب کی بیش بہا وراثت کا قابلِ قدر اثاثہ ہیں۔ ان تمام زبانوں اور بولیوں کے عروج و زوال کا عمل آپس میں جڑا ہوا ہے۔ ہماری لسانی تہذیب و وراثت کو صرف اور صرف انگریزی کے بے جا تسلط سے خطرہ ہے۔ یہ تسلط صرف ہمارے حکمران طبقات کی قومی بے حسی، حب الوطنی کے فقدان، قومی تفاخر سے تہی دامنی، عوام سے برتر و مختلف دکھائی دینے والی اشرافیہ ذہنیت اور مغرب کی بے لگام غلامی کا شرمناک نتیجہ ہے۔
پاکستان میں انگریزی زبان کے نامطلوب استعمال اور تسلط کے خاتمے کا مطالبہ کسی بھی فہمیدہ اور سنجیدہ فرد کے لیے کوئی انوکھی بات نہیں ہونی چاہیے۔ دنیا کے تمام ممالک میں اپنی ملکی زبان یا زبانوں میں سارا کاروبار مملکت اور تعلیم و تربیت کا سلسلہ چلایا جاتا ہے۔ جرمن، جاپان، فرانس، اٹلی اور کینڈنیوی ممالک کی حیران کن اور ہمہ گیر دنیاوی ترقی انگریزی کی مرہون منت نہیں ہے۔ یہ کمال ان ممالک نے اپنی ملکی زبانوں کے ذریعے سے حاصل کیا ہے۔ تیسری دنیا کے جن ممالک نے قابلِ تقلید ترقی کی ہے ان میں جنوبی کوریا، تائیوان اور عظیم جمہوریہ چین سرفہرست ہیں۔ ان ممالک نے صرف اور صرف اپنی زبانوں کے بَل بوتے پر ہی یہ ترقی کی ہے۔ یہ بات قابلِ ذکر ہے کہ چین میں بہت ساری زبانیں بولی جاتی ہیں۔ تاہم مینڈرینی چینی زبان وہاں پر ہماری اردو کی طرح رابطے کی زبان کے طور پر استعمال ہوتی رہی ہے۔ انقلاب کے بعد اسی زبان کو سرکاری زبان کے طور پر رائج کیا گیا اور اکثر چینی عوام اپنی علاقائی زبان کے ساتھ ساتھ میڈرینی چینی بھی بولتے ہیں۔ چین کی ترقی ملکی زبان کے استعمال سے ہی عمل میں آئی۔
عالم اسلام میں علوم وفنون اور معاشی ترقی میں سب سے آگے ممالک میں انڈونیشیا، ملائیشیا، ترکی اور کسی حد تک ایران کا نام لیا جا سکتا ہے۔ ان ممالک نے بھی اپنی ملکی زبان کے بَل بوتے پر ترقی کی ہے۔ انڈونیشیا زمینی پھیلائو اور آبادی کے لحاظ سے عالمِ اسلام کا سب سے بڑا ملک ہے۔ ۲۵ کروڑ آبادی اور وسیع رقبے پر پھیلے ہوئے تین ہزار جزائر پر مشتمل مجمع جزائر سے عبارت اس ملک میں بہت ساری زبانیں بولی جاتی ہیں۔ بھاسا انڈونیشیا میں رابطے کی زبان ہے اور وہاں کے باشندے مقامی زبان کے ساتھ ساتھ اسے جڑواں زبان کے طور پر بولتے ہیں۔ وہاں پر بھاسا انڈونیشیا کو قومی وحدت کی زبان بھی کہا جاتا ہے۔ پاکستان میں اردو کی طرح انڈونیشیا میں بھی قومی سرکاری زبان اور مقامی زبانیں باہم قابلِ فہم (Mutually Intelligible) ہیں۔ انڈونیشیا میں آزادی کے ساتھ ہی ۱۹۴۸ء میں بھاسا انڈونیشیا کو قومی سرکاری زبان کی حیثیت سے مکمل طور پر نافذ کیا گیا۔ ملائیشیا کی قومی سرکاری زبان یعنی بھاسا ملایا اور بھاسا انڈونیشیا دراصل ایک ہی زبان کے دو لہجے ہیں۔ملائیشیا نے ۱۹۶۸ء میں انگریزی کی جگہ ملایا زبان کو سرکاری زبان کے طور پر اپنایا۔ برونائی دارالسلام کی چھوٹی شاہی مملکت کی زبان بھی بھاسا ملایا ہے۔ ترکی میں ترکی زبان ہی سرکاری دفتری زبان اور تعلیمی اداروں کی زبان ہے۔ ایران کی معاشی اور فنی ترقی کے ساتھ ساتھ سیاسی میدان میں منفرد اور بے نظیر پیش رفت اور قابل رشک قومی تفاخر کا ایک اہم عامل اپنی ملکی زبان پر اعتماد ہے۔ ایران ایک کثیر لسانی ملک ہے مگر فارسی قومی سرکاری زبان کے طور پر صدیوں سے استعمال ہو رہی ہے۔ مقامی زبانوں کے بولنے والے گیلکی، مازندرانی، لوری، آزری، اہوازی، عربی، کردی اور بلوچی فارسی کو جڑواں زبان کے طور پر بولتے ہیں۔
کون نہیں جانتا کہ جنوبی ایشیا میں معاشی اور سماجی ترقی میں سب سے آگے سری لنکا ہے۔ اگر سری لنکا کو گزشتہ تین دہائیوں سے خانہ جنگی کا سامنا نہ ہوتا تو نہ جانے وہ کتنا آگے جا چکا ہوتا۔ وہاں بھی آزادی کے بعد ۱۹۶۷ء میں قومی سنہالی زبان کو فوراًسرکاری اور تعلیمی زبان کے طور پر رائج کیا گیا۔
پاکستان میں انگریزی زبان کو دفتری اور تعلیمی زبان کے طور پر مسلط رکھنے کا عہد غلامی کے سلسلے کا خاتمہ صرف حب الوطنی، قومی تفاخر اور اپنے عظیم تہذیبی ورثے سے قلبی تعلق کا تقاضا ہی نہیں ہے بلکہ بنیادی طور پر انسانی حقوق کا مسئلہ بھی ہے۔ یہ پاکستان کے عوام اور خاص طور پر محروم طبقات کو قوم کی مجموعی ذہانت کو ذبح کرنے والی لسانی جارحیت سے نجات دلانے کا سوال ہے۔ انگریزی زبان کا دفتری اور تعلیمی زبان کے طور پر مسلط رہنے کی عوام دشمن روایت پاکستان میں علم کے حقیقی پھیلائو میں سب سے بڑی رکاوٹ ہے۔ انگریزی جیسی بالکل اجنبی زبان میں مہارت حاصل کرنے کی صلاحیت کم لوگوں میں ہوتی ہے۔ ان کم لوگوں میں تھوڑے لوگوں کو اجنبی زبان میں مہارت حاصل کرنے کے مواقع میسر ہوتے ہیں۔ اس لیے عوام کی فکری صلاحیتوں کو جِلا بخشنے اور انہیں دریائے علم و فن کے شناور بنانے کے لیے ضروری ہے کہ یا انہیں ان کی مادری زبان میں تعلیم دی جائے یا پھر ایسی ملکی زبان میں جو وہ مادری زبان کی طرح آسانی سے سیکھ سکتے ہوں۔
ہمارے ہاں انگریزی سیکھنے کو اولین ترجیح اس لیے حاصل ہو گئی ہے کیونکہ تمام اعلیٰ دفتری کارروائی اور اعلیٰ تعلیم کا ذریعہ انگریزی کو رکھا گیا ہے۔ اگر آئینی اور عقلی تقاضوں کے مطابق دفتری کارروائی اور ذریعۂ تعلیم کی زبان کے طور پر انگریزی کا خاتمہ کیا جائے اور اس کی جگہ ملکی زبانوں کو رائج کیا جائے تو انگریزی سیکھنے کا بخار بھی اتر جائے گا۔ جب لوگ جانتے ہوں کہ اقتدار کے ایوانوں، نوکر شاہی کی غلام گردشوں اور اعلیٰ تعلیم کے اداروں کی زبان صرف اور صرف انگریزی ہے تو ان کا ترقی کرنے کے لیے صرف اور صرف انگریزی زبان سیکھنے میں لگ جانا قابلِ فہم ہے۔ جب انگریزی زبان کا غاصبانہ قبضہ ختم کیا جائے اور پاکستانی زبانوں کو ان کا غصب شدہ مقام واپس دلایا جائے تو لوگ دیگر غیرت مند اور عوام دوست ممالک کی طرح اپنی زبانوں پر بھروسہ کرتے ہوئے علم و فن کی بلندیوں تک پہنچنے میں لگ جائیں گے۔
یہ بات انتہائی شرمناک ہے کہ ہمارے حکمران طبقے پر انگریزی زبان کا جادو کچھ اس طرح اثر کر گیا ہے کہ اس معاملے میں ان کی سوچنے کی صلاحیت ہی مفلوج ہو کر رہ گئی ہے۔ ہمارے یہاں مہنگے ترین اسکولوں میں بچوں کو بھیجنے کے رجحان کی وجہ ان اسکولوں میں دی جانے والی معیاری انگریزی تعلیم ہے جیسا کہ بیان ہو چکا ہے کہ موجودہ حالات میں انگریزی زبان میں مہارت کا حصول ترقی کے لیے اولین ضرورت سمجھا جاتا ہے۔ اب اس ناپسندیدہ رجحان کا علاج اس صورت میں ہو سکتا ہے کہ ہم قومی غفلت اور آئین شکنی کے مسلسل ارتکاب سے باز آ کر پاکستانی زبانوں کو انگریزی کی جگہ رائج کرنے کا بندوبست کریں۔ افسوس کہ مغرب کی بے لگام ذہنی غلامی میں مبتلا حکمران طبقے نے اس کا علاج یہ تجویز کیا ہے کہ سرکاری اسکولوں کو بھی انگریزی میڈیم بنایا جائے اور وہاں پر بھی پہلی ترجیح انگریزی سیکھنے اور سکھانے کو دی جائے۔
میرؔ کیا سادہ ہیں بیمار ہوئے جس کے سبب
اسی عطار کے لونڈے سے دوا لیتے ہیں
(بشکریہ: ماہنامہ ’’پیام‘‘ اسلام آباد۔ مئی ۲۰۰۹)
Leave a Reply