
آرتھو گرافی، قواعد اور صَرف و نحو کا حسن ہوتا ہے مگر الفاظ کے تلفظ اور ان کے املاء میں اغلاط اس کے حسن کو گہنا دیتے ہیں۔ کتب کی اشاعت اور ان کی تصحیح ایک بنیادی فریضہ اور ذمہ داری ہے مگر گرامر کی تدریس میں شین قاف درست کرنا تو بہت دور کی بات ہے، اس میں اغلاط درجہ بدرجہ ہر سال اسی طرح کی جارہی ہیں اور نہ ہی ان کا فرہنگ اور اغلاط نامہ کی نشان دہی کتب میں درج ہے۔ پنجاب ٹیکسٹ بک بورڈ کا کام کتب کی اِشاعت، ترسیل اور تصحیح بہ طریق احسن سرانجام دینا ہے۔ مگر ٹیکسٹ بک بورڈ کی تصحیح کے کام کی طرف توجہ بالکل دکھائی نہیں دیتی، جس سے نوآموز مستفید ہونے کے بجائے شکوک و شبہات میں مبتلا ہو رہے ہیں۔ جہاں تک استاد کی بنیادی ذمہ داری ہے، وہ بھی کماحقہٗ اس سے اجتناب کر رہا ہے اور اس طرح نصاب میں ’’ایک خلا‘‘ کا احساس پایا جاتا ہے۔ زبان کی تدریس و تعلیم ہر معاشرے کا بنیادی مسئلہ ہے۔ زبان کی تدریس کے لیے قواعد، صَرف و نحو سے واقفیت اور اس کے اسرار و رموز کی پہچان بھی ضروری امر ہے، مگر ہمارے ہاں تدریس زبان کی طرف وہ خاص دھیان اور توجہ دکھائی نہیں دیتی، جس کا ایک زبان تقاضا کرتی ہے۔ نصاب میں آئے روز تبدیلیاں نہ صرف اس کے بنیادی پہلوؤں سے دوری کا احساس پیدا کرتی ہیں بلکہ معیارِ تعلیم میں تشنگی کا احساس بھی پایا جاتا ہے۔ تعلیم میں یہ خلا اس لیے ہے کہ اربابِ تعلیم کی نصاب پر گرفت نہ ہونے کے برابر ہے۔ ہم ہر اس عمل کو فوراً اپنانے کی کوشش کرتے ہیں جس سے جدت اور انوکھے پن کا احساس ہو۔ یہ جانتے ہوئے کہ ہم اس ذمہ داری سے بالاستیعاب چشم پوشی کر رہے ہیں اور ساتھ ہی شرحِ خواندگی میں اضافے کا ڈھنڈورا بھی پیٹتے چلے جارہے ہیں جو ہماری بے حسی، عدم توجہی اور بے پروائی کا منہ بولتا ثبوت ہے۔ اس کا اندازہ اردو قواعد و انشا نہم دہم (۲۰۱۴۔۲۰۱۵ء) کے تسامحات سے کیا جاسکتا ہے، جو ہمارے لیے چشم کشا ہے۔
لفظوں کی ادائیگی
۱) معنیٰ کے بجائے معنی اور معنیٰ ہونا چاہیے۔ اس لفظ کے آخر میں الف مکسورہ ہے جو کہ غلط ہے مگر فارسی میں ہائے معروف ہوتا ہے (جیسے بروزن قاضی لہٰذا معنی کی جمع ہے معانی)۔
۲) ’’نیز یہ بھی یاد رہے‘‘ (ص نمبر۳) اسم اشارہ کی تعریف میں لکھا گیا ہے۔ اس کے بجائے ’’یہ بھی یاد رہے‘‘ یا ’’نیز یاد رہے‘‘ ہونا چاہیے۔ اس لیے کہ نیز فارسی لفظ ہے جس کے معنی ’’بھی‘‘ کے ہیں۔ اس طرح نیز کے ساتھ بھی کا استعمال نہیں ہونا چاہیے۔
۳) حاجی، حاج دونوں عربی الفاظ ہیں۔ مگر حاجی زیادہ مستعمل ہے، اس لیے حاجی کے ساتھ حاج لکھ کر جمع حجاج بنائی جاتی ہے۔ عبد کی جمع عباد اور عابد کی جمع عُباد بنتی ہے۔
ص نمبر۱۴: املا کے بجائے املاء ہونا چاہیے۔ اسی طرح بھروسہ کی بجائے بھروسا لکھنا چاہیے۔
اسماء کے بجائے اسما لکھا جانا چاہیے۔ یہ لفظ ص نمبر۲۶ پر دو مرتبہ غلط درج کیا گیا ہے۔ ہمزہ کے ساتھ یہ لفظ یعنی (اسماء) اس وقت استعمال ہوتا ہے جب یہ نام کے ساتھ آئے گا۔ مثلاً اسماء بنتِ ابو بکرؓ یہ لفظ عربی عورتوں کے ناموں کے ساتھ استعمال کیا جاتا ہے۔
اسی طرح ابتداء، ارتقاء اور جمعیں لکھنا غلط ہے۔ اس کے بجائے ابتدا، ارتقا اور جمع الجمع لکھا جائے۔
ص نمبر۲۷: لاحقوں سے بننے والے مذکر و مؤنث کے ضمن میں گرھست سے گرھستن مؤنث بنایا گیا ہے۔ جبکہ گرھستی سے گرھستن ہونا چاہیے۔ لفظ گرھست بذاتِ خود مونث ہے جس کے معنی عیال داری، قبیل داری اور دنیا داری ہیں، جبکہ اس کے بجائے گرھستی مذکر ہے جس کے معنی عیال دار اور گھر والا کے ہیں۔ اس لیے گرھستی سے گرھستن لکھنا زیادہ بہتر ہوتا۔
اسی طرح دلھا سے دلھن درج ہے جو واضح ہے مگر اس میں ’’و‘‘ کا اضافہ ہونا چاہیے۔ مثلا دولھا اور دولھن جو کہ ہندی الفاظ ہیں۔
صفحہ نمبر۲۸،۲۹،۳۰: واحد جمع کے ابواب میں بھی اغلاط موجود ہیں۔
واحد جمع، قریب الفہم اور قریب القیاس ہونے چاہئیں۔ اس لیے عربی اسما کے جمع بناتے وقت اعراب کا خیال رکھا جانا چاہیے۔ مثلاً صرف ’’ملک‘‘ لکھ دینے سے مطلب واضح نہیں ہوتا۔ اس طرح یہ لفظ ’’مَلک‘‘، ’’مِلک‘‘ اور ’’مُلک‘‘ لکھا جائے تو بہتر ہے اور عِلم، عَلم، جُرم، جَرم، جِرم میں واضح فرق ہوتا ہے علی ہذا القیاس۔
اب کی جمع آبا لکھا ہے جسے آباء لکھا جائے کیونکہ ابْ، بمعنی باپ، ابّ بمعنی نرم اور سبز گھاس جبکہ اب (ہ) کے معنی ابھی اور اسی وقت کے ہیں، اس طرح بچوں کو صحیح تلفظ بتایا جائے۔
اسی طرح رائے کی جمع ’’آرا‘‘ لکھا ہے جو کہ غلط ہے۔ اس کے بجائے آراء ہونا چاہیے۔ اس لیے کہ آرا لوہے کا دانتے دار اوزار ہے۔ اس کا تلفظ بھی غلط ہے۔ قریہ کی جمع قری لکھا ہے جو کہ غلط ہے، اس لیے کہ یہ قریٰ ہونا چاہیے۔
امکان کی جمع امکَنَہ درج ہے جو کہ اردو میں غلط ہے جبکہ اس کی جمع امکانات ہونی چاہیے اور مکان کی جمع مکانات ہوتی ہے۔
مسلم کی جمع مسلمات لکھا ہے جو کہ غلط ہے۔ جبکہ مسلم کی جمع مسلمین ہوتی ہے اور ’’مسلمات‘‘ مسلمہ کی جمع ہے۔ (یعنی مسلمان عورت)
دُعا کی جمع دعوات اور ادعیہ لکھا ہے، جس میں دعوات غلط ہے۔ اس لیے کہ دعوت کی جمع دعوات اور دُعا کی جمع صرف ادعیہ لکھی جائے۔
سابقے اور لاحقے
کتاب میں دو مرتبہ ص نمبر۲۱ اور ۴۱ پر درج کیے گئے ہیں۔ ان میں سے سابقہ انگھڑ لکھا ہے جو غلط ہے۔ اس کے بجائے ’’انگڑ‘‘ ہونا چاہیے۔ یہ ہندی لفظ ہے اور بطور مرکب استعمال ہوتا ہے۔ جس کے معنی پرانا اسباب، فضول سامان اور کاٹھ کباڑ کے ہیں۔ اسی طرح اَنْ سے سابقہ انگنا لکھا ہے۔ یہ کوئی لفظ نہیں ہے جبکہ انگنیا درست لفظ ہے، جو ہندی زبان کا لفظ ہے اور آنگن کی تصغیر ہے یعنی چھوٹا آنگن۔ کم سے سابقہ کمخاب لکھا ہے جس کا درست تلفظ ’’کمخواب‘‘ ہونا چاہیے۔ دان سے لاحقہ بناتے وقت کاردان لکھا ہے، جبکہ اصل لفظ ’’کارداں‘‘ ہے جس کے معنی تجربہ کار، ہنرمند کے ہیں۔ کیونکہ ’’کارداں‘‘ فارسی کا لفظ ہے۔
عالم، شہید، وزیر، وارث کی جمع بناتے وقت ان کے بعد ہمزہ کا استعمال ضروری ہے مگر ایسا نہیں ہے۔ صحیح جمع اِس طرح ہیں: علماء، شہداء، وزراء، ورثاء۔
(بحوالہ: ماہنامہ ’’اخبارِ اُردو‘‘ اسلام آباد۔ نومبر۔دسمبر ۲۰۱۴ء)
جزاک اللہ!ان میں سے کچھ غلطیاں ابھی تک موجود ہیں۔