
کرۂ ارض کی پانچ ہزار سالہ مرقومہ تاریخ گواہ ہے کہ دنیا کی کسی بھی قوم نے اس وقت تک ترقی نہیں کی جب تک اس نے اپنی زبان کو ہر شعبہ میں ذریعہ اظہار نہیں بنایا۔ سب سے بڑی مثال یہ کہ حضرت آدمؑ سے لے کر نبی آخرالزماں حضرت محمدﷺ تک تمام انبیا نے اپنی ہی زبان کو جملہ مقاصد کے لیے استعمال کیا، کسی دوسری زبان کا کبھی سہارا نہیں لیا۔ وعظ و تبلیغ، تجارتی و اقتصادی اور جنگی محاذوں جیسے جو بھی امور پیش آئے انہوں نے اپنی زبان کا دامن نہیں چھوڑا۔ الہامی کتابیں بھی انہی کی زبان میں ہیں۔ یہاں تک کہ غیر الہامی مذاہب کے بانیوں نے بھی اپنی ہی زبانوں کو ترجیح دی۔ بعد ازاں الہامی اور غیر الہامی مذاہب کے پیروکاروں نے بھی انہی زبانوں میں اپنا مشن جاری رکھا۔ وہ غیروں کی زبان کی بیساکھیاں لے کر نہیں چلے۔ ان کا سارا مذہبی و سیاسی، دنیاوی، روحانی، تہذیبی و ثقافتی اور ادبی سرمایہ اپنی قومی یا مادری زبانوں میں ہے اور ان لوگوں نے اپنے اپنے دور میں ترقی کے مدارج طے کیے۔
اگر تاریخ کے جھروکے میں جھانکا جائے تو سب سے زیادہ شاندار اور درخشاں مثال امتِ مسلمہ کی ہے جس نے علم الادیان اور علم الابدان دونوں شعبوں میں وہ کارہائے نمایاں سرانجام دیے کہ جن کی مثال نہیں ملتی، وہ یکتائے عصر جہاں بھی گئے ایک داستان چھوڑ آئے۔ وہ ایسے آسمانِ ثریا پر پہنچے کہ زمانہ ان کی خاک پا کو بوسے دیتا نہیں تھکتا تھا۔ بقول حالی:
لگاؤ گے کھوج ان کا جا کر جہاں تم
نشاں اُن کے قدموں کے پاؤ گے واں تم
انہوں نے نہ صرف مذہب و سیاست کی سان پر چڑھا کر غلاموں اور گلہ بانوں کو اسرار شہنشاہی اور کل دنیا کو اندازِ حکمرانی سکھائے، بلکہ جملہ علوم و فنون، طب، حکمت، ریاضی، ہندسہ، فلسفہ، ہیئت، کیمیا، فلاحت، تجارت، عمارت اور ادب وغیرہ میں وہ نام پایا کہ فلک نے بھی اس پر ناز کیا۔ مگر دیکھنا یہ ہے کہ اس دور میں ان کی زبان پرائی نہیں بلکہ اپنی تھی، یہی وجہ ہے کہ وہ ہر لحاظ سے ترقی یافتہ نظر آتے ہیں۔ انہوں نے اپنی مشرقی زبانوں میں علوم و فنون کے ایسے دریچے وا کیے کہ وہ دوسروں کے لیے ایک رہنما ستارہ بن کر اُبھرے جن کی اہمیت ہر دور میں مسلّم رہی ہے اور رہے گی۔ علمِ کیمیا کا بانی اُموی شہزادہ خالد بن یزید ہے۔ بابائے کیمیا جابر بن حیان ہے تو سرجری کا ابوالآبا ابوالقاسم بن ابی العباس المعروف بہ الزہراوی ہے جس کی کتاب ’’التصریف لمن عجر عن التالیف‘‘ مسلم دنیا کی پہلی طبی قاموس (Medical Encyclopaedia) ہے۔ ابن الہیشم کی کتاب ’’کتاب المناظر‘‘ بصریات کے فن پر ایک عالمی سند ہے۔ اسپین کا علامہ ابنِ رشد ایک عظیم فلسفی، طبیب، فقیہ اور زراعت کا ماہر تھا۔ اسی طرح سے اسپین کے شہر عمالقہ کا ابن بیطار مسلم دنیا کا عظیم ترین ماہر نباتات تھا، جس نے ۱۴۰۰؍پودوں اور بیجوں کے خواص اپنی دو کتابوں ’’الجامع فی الادویۃ المفردہ‘‘ اور المغنی فی الادویۃ المفردہ‘‘ میں پیش کیے۔
ازبکستان کے شہر بخارا میں جنم لینے والے ابوعلی الحسین ابن عبداللہ العمروف بہ بوعلی سینا یا ابن سینا نے تو اپنی طبی مہارت کی بنا پر دنیا کو ورطۂ حیرت میں ڈال دیا، اس عظیم سپوت نے دس برس کی عمر میں قرآن پاک حفظ کیا، بارہ برس کی عمر میں فقہ اور حدیث پڑھی، چودہ برس کی عمر میں طب کی جانب متوجہ ہوا اور اٹھارہ برس کی عمر تک طب میں وہ کمال حاصل کیا کہ بڑے بڑے اطبا اس کے درس میں شریک ہونے لگے، اس نے طب کی بے شمار گتھیاں سلجھائیں۔ سو سے زائد کتابیں لکھیں۔ ’’القانون فی الطب‘‘ (۱۴ جلدیں) طب کی سب سے زیادہ مشہور کتاب ہے جس میں اور چیزوں کے ساتھ ساتھ ۷۶۰ ڈرگز اور درد کی ۱۵؍اقسام اور ان کے علاج پر بحث ہے۔ ’’الشفا‘‘ (۱۸ جلدیں) دوسری بڑی مشہور کتاب ہے، جو فلسفے کا انسائیکلوپیڈیا ہے۔ یہ دونوں کتابیں یورپ کی یونیورسٹیوں میں ایک عرصے تک شامل نصاب رہیں۔ ’القانون فی الطب‘ کو تو یورپ میں اتنی زیادہ پذیرائی ہوئی کہ انہوں نے “Cannon of Medicine” کے نام سے اس کا ترجمہ کیا اور ’’طب کی انجیل‘‘ The Bible of Medicine کہہ کر اسے طب کا حرفِ آخر سمجھ کر اس سے استفادہ کیا۔ اس کے علاوہ بوعلی سینا کی کتاب الانصاب (۲۰ جلدیں)، کتاب النجات (۳۰ جلدیں)، الحاصل والمحصول (۲۰ جلدیں)، کتاب المجموع والاجرام السماویہ، عیون الحکمۃ، کتاب القولنج، کتاب الادویہ القلیہ، اسباب الرعد (رسالہ: بادل کی گرج اور برق پر)، کتاب لسان العرب، کتاب الہدایہ اور مختصر اقلیدس زیادہ مشہور ہیں۔
عمر خیام نے تقویم میں محمد بن ابوبکر الزہری اور ابوریحان محمد بن البیرونی نے جغرافیے میں کارہائے نمایاں سرانجام دیے۔ معلم اخلاق شیخ سعدی شیرازیؒ کی ’’گلستانِ سعدی‘‘ کو انگریزوں نے انگریزی میں ترجمہ کرکے اسے اپنی ہی کتاب بتایا اور اس سے استفادہ کیا۔ یوسف حسین کمبل پوش نے اپنے سفرنامہ ’’عجائبات فرنگ‘‘ میں بتایا ہے کہ اس نے اپنی سیاحت کے دوران میں یورپ میں کس قدر مسلمانوں کی کتابیں دیکھیں۔ اقبال نے اسی طرف اشارہ کیا ہے۔
مگر وہ علم کے موتی، کتابیں اپنے آبا کی
جو دیکھیں ان کو یورپ میں تو دل ہوتا ہے سیپارا
(بانگِ درا، ص ۱۸۰)
مسلم عروج کے دو سنہری دور نظر آتے ہیں ان میں پہلا دور اسپین میں مسلم حکومت کا ہے جہاں پر تہذیبی و ثقافتی ترقی کے ساتھ ساتھ علوم و فنون کے وہ معجزے رونما ہوئے کہ یورپ بھی اُن کی طرف کھینچا چلا آیا۔ وہاں کے نابغۂ روزگار سائنس دانوں نے سائنسی میدان میں حیرت انگیز انکشافات کا اضافہ کیا جس کے سامنے دنیا کو گھٹنے ٹیکنا پڑے۔ دوسرا دور برصغیر میں مسلم حکومت کا ہے، جس کے نظامِ تعلیم کے بارے میں لارڈ میکالے “Our Indian Muslims” (یہ کتاب آج بھی انڈیا آفس لائبریری، لندن میں موجود ہے) میں لکھتا ہے کہ یہاں ہر پانچ سو افراد کی آبادی میں ایک مدرسہ تھا، اس سے بہتر نظامِ تعلیم ہم نے کہیں نہیں دیکھا اور برصغیر کی معاشی و معاشرتی حالت کے بارے میں لکھتا ہے کہ یہاں ڈاکا زنی اور چوری نہیں تھی اور لوگ اس قدر خوشحال تھے کہ کوئی زکوٰۃ لینے والا نہ تھا۔
یہ مختصر سا جائزہ صرف اس لیے پیش کیا گیا ہے تاکہ اس سے یہ واضح ہوسکے کہ ماضی میں مسلمانوں نے جتنی بھی ترقی کی وہ غیروں کی زبان کی مختاج نہیں تھی بلکہ انہوں نے اپنی ہی زبان میں علوم و فنون کے ایسے جواہر پارے تراشے کہ انہیں ہر جگہ پذیرائی ہوئی اور دوسروں کو ان کی زبان کا محتاج ہونا پڑا، چنانچہ انہوں نے مسلمانوں کی زبانوں کو سیکھا اور پھر ان کی کتابوں کے تراجم اپنی زبانوں میں کیے۔ یوں وہ فریب خوردہ جہالت کے گھٹا ٹوپ اندھیروں سے باہر نکلے اور انہیں جینے کا سلیقہ اور قرینہ آیا۔
مگر اس کے برعکس ہمارے ہاں یہ بدقسمتی ہے کہ ہم نے اول روز سے ہی غیروں اور غیروں کی زبان کے سہارے چلنا شروع کیا ہے اور شاید یہ بات بھول گئے ہیں کہ:
زندگی اپنے پاؤں پہ خود چلا کرتی ہے دوست
دوسروں کے سہارے تو جنازے اٹھا کرتے ہیں
مگر صد افسوس! کہ اپنے پاؤں پر چلانے کی بجائے گزشتہ ۶۸ برس سے ہمیں ایک ہی سبق پڑھایا جارہا ہے کہ انگریزی سیکھے بغیر ترقی کرنا ممکن نہیں اور اب اس پر مستزاد یہ کہ انگریزی سائنس، ٹیکنالوجی اور کمپیوٹر کی زبان ہے لہٰذا انگریزی پڑھنا ضروری ہے۔ مگر کیا حقیقت یہی ہے؟ اس کا جواب بڑا سادہ سا ہے وہ یہ کہ انگریزی کو سائنس، ٹیکنالوجی اور کمپیوٹر کی زبان کس نے بنایا ہے؟ تو جواب یہ ہوگا کہ انسانوں نے بنایا ہے۔ کمپیوٹر میں بھی انسانوں نے ہی اسے فیڈ کیا ہے۔ اس طرح سے اردو کو ان شعبہ جات میں رائج کرکے مذکورہ عذر کو دور کیا جاسکتا ہے۔ یہاں پر ایک بات خاص طور پر قابل ذکر ہے کہ غیروں کی زبان میں علم تو حاصل کیا جاسکتا ہے یا ان کی زبان سے اپنی زبان میں تراجم کیے جاسکتے ہیں مگر تحقیق و تخلیق کے دروازے اپنی ہی زبان میں کھلتے ہیں، اسی میں اچھا ادب تخلیق ہوتا ہے کیونکہ ادب انسانوں کی تاریخ ہوتی ہے، لہٰذا اس میں ایک مخصوص خطے کے انسانوں کی تہذیب و ثقافت بھی دَر آتی ہے، الفاظ و محاورات اور ضرب الامثال کے پیچھے بھی ایک تہذیبی و ثقافتی پس منظر موجود ہوتا ہے جو تراجم یا غیروں کی زبان کے ذریعے ہر گز ممکن نہیں ہے، لہٰذا ادب اور علوم و فنون صرف اور صرف اپنی ہی زبان میں اپنی صحیح شناخت قائم رکھ سکتے ہیں اور انہیں پھلنے پھولنے کا جو موقع اپنی زبان میں ملتا ہے وہ کسی دوسری زبان میں ہر گز نہیں مل سکتا۔
اپنی زبان کے علاوہ کوئی اور زبان سیکھنا جرم اور گناہ تو نہیں ہے، مگر اپنی زبان کا ترک ایسا جرمِ عظیم ہے جو پوری قوم کو تنزل میں دھکیل دیتا ہے۔ اپنی زبان کو چھوڑ کر دوسروں کی زبان کے پیچھے اس قدر پڑ جانا کہ رات دن اسی کو منہ مروڑ کر بولنے کی کوشش کی جائے کہ جیسے ساری کامیابی اسی میں ہے، حالانکہ معاملہ اس کے اُلٹ ہے۔ کسی دوسری زبان کی تحصیل بطور ثانوی زبان ہونی چاہیے اور بطور ثانوی زبان ہی اسے اہمیت دینی چاہیے، جبکہ اپنی زبان کو اولین حیثیت دینی چاہیے۔ دنیا میں کتنے چھوٹے بڑے ملک ہیں جنہوں نے ہماری طرح انگریزی کا سہارا بھی نہیں لیا، ترقی بھی ہم سے زیادہ کی ہے اور اپنی زبان کا دامن بھی مضبوطی سے تھاما ہوا ہے، اپنی زبانوں میں پی ایچ ڈی تک کروا رہے ہیں۔ ان چھوٹے ملکوں میں آسٹریا، ہالینڈ، ڈنمارک، ناروے، سویڈن اور بڑے ملکوں میں جرمنی، جاپان اور چین شامل ہیں۔ انگریزی وہ بھی سیکھتے ہیں مگر ثانوی زبان کے طور پر اور حق بھی یہی ہے کہ اول ترجیح اپنی زبان کو دی جائے اور باقی زبانیں سیکھنے کا جی چاہے وہ سیکھتا چلا جائے اور اپنا علم بڑھاتا چلا جائے۔ اصل میں قومی زبان کا حق یہ ہوتا ہے کہ پوری قوم اسے بالاتفاق ذریعہ اظہار بنائے اور سرکاری سطح سے اسے ہر شعبے میں نافذ کیا جائے مگر ہمارے ہاں بدقسمتی سے یہ دونوں چیزیں ناپید ہیں، قوم مقامی زبانوں کی ترویج و اشاعت کا رونا روتی رہتی ہے اور حکومتی سطح پر انگریزی کو اہمیت دی جاتی ہے۔ من حیث المجموع ہم کسی ایک نتیجے پر نہیں پہنچ پاتے۔ یہی حال ہمارے تعلیمی اداروں کے نصاب کا ہے، جس میں طالب علموں کو ایک ہی وقت میں اردو، انگریزی، عربی، فارسی اور دیگر کئی زبانیں سکھانے کی کوشش کی جاتی ہے جس کا نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ بچہ کسی بھی زبان میں مہارت حاصل نہیں کرپاتا۔ انگریزی زبان کی تو اس طرح اجارہ داری ہے کہ اسے پڑھے بغیر کوئی چارا ہی نہیں، حالانکہ خود یورپ میں انگریزی لازمی نہیں ہے، مگر ہمارے ہاں طلبہ انگریزی سیکھنے کے ایچ پیچ میں پھنسے رہتے ہیں اور انہوں نے اپنی جو توانائیاں اور صلاحیتیں علم حاصل کرنے میں صَرف کرنی ہوتی ہیں وہ سب کی سب انگریزی سیکھنے میں کھو بیٹھتے ہیں اور انگریزی انہیں پھر بھی نہیں آتی۔ یہ بات پورے وثوق سے کہی جاسکتی ہے کہ اگر آج ابتدائی سطح سے لے کر اعلیٰ سطح کی تعلیم تک سارا نصاب قومی زبان میں کر دیا جائے تو وہ طلبہ جنہیں انگریزی سیکھنا خار معلوم ہوتی ہے وہ باآسانی اعلیٰ سطح تک تعلیم حاصل کرسکتے ہیں بجائے اس کے کہ ان کی ابتدائی تعلیم بھی ادھوری رہ جائے۔ اس سے سائنس کی تعلیم کی کمی بھی پوری ہو جائے گی اور خوشہ چینانِ علم جس شعبے میں چاہیں گے تحقیق و تدوین کرسکیں گے، ان کی جھجھک دور ہوگی، اعتماد پیدا ہوگا، دوسروں کے سہارے کی بجائے اپنے پاؤں پر چلیں گے اور ایسے ہزاروں طلبہ جو ہر سال انگریزی میں فیل ہو کر یا جب انگریزی نہیں آتی تو فیل ہونے کے خوف سے اسکول و کالج سے راہِ فرار اختیار کرلیتے ہیں۔ وہ بے چارے کمسنی ہی میں اس لیے مزدور بن جاتے ہیں کہ انہیں انگریزی نہیں آتی، اُن کی حالت اس انگریزیت کے ہاتھوں اس سے بڑھ کر کچھ اور نہیں ہوتی ’’انگریزی راج تن کو پکڑا نہ پیٹ کو اناج‘‘۔ ڈاکٹر محمد اشرف کمال اپنی کتاب ’’دھوپ کا شہر‘‘ کی ایک نظم ’روا رہے گا یہ ظلم کب تک‘ میں ایسے ہی ہونہاروں کے بارے میں فرماتے ہیں۔
بناؤ ایسا نظام کوئی
کہ پڑھ سکیں یہ اسکول جاکر
یہ پیارے پیارے ذہین بچے
یہ چاند جیسے حسین بچے
اگر یہ سب کچھ ہو جائے تو پھر اس رسمِ بد کا کیا بنے گا جو معاشرے میں اس قدر پھیل چکی ہے کہ اس کا گھاؤ روز بروز گہرا ہوتا چلا جارہا ہے۔ ہم اس بدعت میں اس قدر کھو گئے ہیں کہ اس سے نکلنا محال نظر آتا ہے۔ وہ بدعت یہ ہے کہ ہماری تحریر و تقریر میں انگریزی الفاظ کا بلاجواز استعمال ایک رواج بن چکا ہے۔ جس کا سبب صاف ظاہر ہے کہ انگریزی تعلیم ہے جس کی اشاعت و ترویج کے لیے ہمارے ملک میں کئی مغربی NGOs کام کر رہی ہیں، جن میں سے پاکستان میں اس وقت چار بڑی غیر ملکی ایجنسیاں تعلیمی میدان میں سرگرمِ عمل ہیں جنہیں پاکستانی بچوں کو تعلیم دینے کی بڑی فکر لاحق ہے اور وہ اس پر اربوں روپے صَرف کر رہی ہیں۔ ان میں DFID (ڈپارٹمنٹ فار انٹرنیشنل ڈیولپمنٹ، انگلینڈ) US AID (یو ایس ایجنسی فار انٹرنیشنل ڈیولپمنٹ، امریکا) AUS AID (آسٹریلین ایجنسی فار انٹرنیشنل ڈیولپمنٹ، NORAD (نارویجن ایجنسی فار ڈیولپمنٹ)۔ ان کے ذمے تعلیمی شعبے کے مختلف کام ہیں اور یہ ان کی انجام دہی کے لیے سرگرداں ہیں۔ سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ ایسا کیوں ہے، یورپ کو کیا مصیبت پڑی ہے کہ ہمارے نظامِ تعلیم پر اتنی خطیر رقم صَرف کرے۔ وہ اس لیے کہ اہل مغرب خوب جان چکے ہیں کہ اصل فتح عسکری میدان کی بجائے تعلیم کے ذریعے سے ہوتی ہے۔ بقول اکبر الہٰ آبادی:
’’دل بدل جاتے ہیں تعلیم بدل جانے سے‘‘
اس میں راز یہ ہے کہ جب کسی قوم کی زبان ذریعہ تعلیم بنائی جائے تو اس سے نہ صرف اس قوم کی زبان آتی ہے بلکہ اس قوم کی تہذیب و ثقافت بھی ساتھ ہی چلی آتی ہے اور بچے خود بخود اپنی مذہبی و تہذیبی اَقدار کو بھلا کر السلام علیکم کی بجائے Good Morning، کیسے ہو؟ کی جگہ How are You، اللہ کا شکر ہے کی جگہ Fine، اللہ حافظ کی جگہ Good By، ابو جیسے دلکش مشرقی پیار بھرے لفظ کی بجائے Daddy, Dad، وغیرہ وغیرہ کہتے ہیں۔ شلوار قمیص کی جگہ پینٹ شرٹ اور نکٹائی لے لیتی ہے۔ ہمارا کھانا پینا اور کھانے پینے کے اطوار تک مغربی ہو چکے ہیں۔ بقول اکبر الہ آبادی:
طفل میں خو آئے کیا ماں باپ کے اطوار کے
دودھ تو ڈبے کا ہے تعلیم ہے سرکار کی
علاوہ ازیں اور پتا نہیں کیا کیا تبدیلیاں رونما ہو چکی ہیں۔ رنگوں کے نام تو ہم اردو میں بھول ہی چکے ہیں بس اتنا معلوم ہے کہ انگریزی میں انہیں گرے، ریڈ، وائٹ، آف وائٹ، گرین، بلیک، یلو، ڈارک بلیو، سلور، گولڈن، پنک، روز پنک، پیرٹ، براؤن، اسکائی، فیروزی، پرپل وغیرہ کہتے ہیں۔ دوسری طرف دکانوں کے سارے نام ہی تقریباً انگریزی میں نظر آتے ہیں، ان میں بعض نام تو انگریزی اور اردو کے ملے جلے الفاظ پر مشتمل ہوتے ہیں اور بعض خالصتاً انگریزی میں ہوتے ہیں۔
انگریزی ناموں کا یہ سلسلہ صرف دکانوں تک ہی محدود نہیں بلکہ یہ ہر ہر شعبے میں لازم و ملزوم ہوچکا ہے اور ان کا بلاجواز اور اندھا دھند استعمال اردو کے دائرہ کار کو روز بروز تنگ اور انگریزی کے استعمال کو وسیع تر کرتا چلا جارہا ہے۔ تعلیمی اداروں، کارخانوں، شفاخانوں، چھوٹی بڑی فرموں، نجی و سرکاری کمپنیوں، دفاتر وغیرہ کے نام اور مصنوعات کے نام انگریزی میں رکھنے کا رواج ہو چکا ہے۔ اسپتالوں میں تمام تر شعبہ جات کے نام انگریزی میں لکھے جاتے ہیں، ادویات کے نام بھی انگریزی میں ہیں۔ غرض سوئی دھاگے، ماچس کی ڈبیہ اور پاپوش سے لے کر ایٹم بم تک نوے فیصد نام انگریزی میں رکھے جارہے ہیں۔ یہ وبا یہیں پر ختم نہیں ہوجاتی۔ ہم اپنی روز مرہ بول چال میں اچھے بھلے اور خوبصورت اردو الفاظ کو چھوڑ کر جان بوجھ کر، ارادتاً اور بطور فیشن انگریزی الفاظ استعمال کرتے ہیں اور اس طرح سے انگریزی الفاظ کے استعمال کی شرح تقریباً پچاس فیصد ہے اور بعض لوگ تو اتنے مہذب ہوتے ہیں کہ وہ دو تین الفاظ انگریزی کے اور ایک آدھا اردو یا اپنی زبان کا بولتے ہیں جس سے یہ شرح اور بھی بڑھ کر ستر پچھتر فیصد ہو جاتی ہے اور تو اور مساجد کے منبر شریف بھی انگریزی کے بے جا استعمال سے پاک نہیں رہے۔ ایک عام اَن پڑھ مولوی سے لے کر علمائے کرام تک اردو الفاظ ہونے کے باوجود بھی بڑے شوق سے انگریزی الفاظ استعمال کرتے ہیں۔ عصرِ حاضر میں اور پچھلی دہائیوں سے بہت سے شاعر اپنی نظموں کے نام انگریزی زبان میں رکھ رہے ہیں اور شعرا و ادبا کی ایک بڑی تعداد اپنی نظم و نثر میں بلاوجہ انگریزی الفاظ استعمال کررہی ہے جیسے کوئی طے شدہ منصوبہ ہو کہ زیادہ سے زیادہ انگریزی الفاظ کو اردو زبان میں داخل کرنا ہے۔ لمحۂ فکریہ ہے کہ اگر یہ انگریزی نواز رجحان بدستور اپنی منزل کی جانب رواں دواں رہا تو ہم بہت جلد اپنی قومی زبان کی اصل ساخت اور شناخت سے ہاتھ دھو بیٹھیں گے اور ساخت اور شناخت بھی وہ، جس کا ہماری دو بڑی مشرقی زبانوں عربی اور فارسی سے گہرا تعلق ہے۔ یہ تو سچ ہے کہ زبانیں اگر تعطل کا شکار ہو جائیں یا ان کے دائرہ کار پر ارادتاً کوئی پابندی عائد کردی جائے تو ایسی زبانیں دنیا میں زندہ نہیں رہتیں بلکہ مردہ ہو جاتی ہیں، مگر اپنی قومی شناخت، قومی زبان اور اپنی روایات سے یکسر منحرف ہو جانا کہاں کی دانائی ہے۔ ایسا کرنا زندہ ضمیر قوموں کا شعار نہیں، ہم سب کو زندہ رہنے کے لیے اور اپنی زبان کو زندہ رکھنے کے لیے اپنی شناخت کے تحفظ کی جنگ لڑنا ہوگی اور بانی پاکستان قائداعظم محمد علی جناح کے اس قول کی روشنی میں علاقائی اختلافات کو چھوڑ کر متحد ہونا ہوگا ’’پاکستان کی قومی زبان صرف اور صرف اردو ہوگی‘‘۔
مگر پتا نہیں کہ ہم کس احساسِ کمتری اور غلط فہمی میں مبتلا ہیں کہ اردو زبان کو بطور سرکاری اور دفتری زبان نافذ کرنے میں ٹال مٹول سے کام لے رہے ہیں۔ حالانکہ ایسا نہیں ہونا چاہیے۔ اردو زبان کے دامن میں کس چیز کی کمی ہے یہ علما کا اظہار بیاں، صوفیا کا ذریعہ ابلاغ اور صحافیوں کی آلۂ کار ہے۔شعرا و اُدبا کا سرمایۂ حیات ہے۔ حسینوں کا ناز ہے وہ بولیں تو ان کے منہ سے پھول جھڑتے ہیں اور جی چاہتا ہے کہ ’’وہ کہیں اور سنا کرے کوئی‘‘۔ مائیں بڑے پیار سے اپنے بچوں کو یہ زبان سکھاتی ہیں۔ اس میں ادبی، سیاسی، قومی، معاشی، معاشرتی، طبی، جغرافیائی، سائنسی اور مذہبی علوم کے انبار لگے ہوئے ہیں۔ اس میں قرآن پاک کے تراجم، بے شمار تفاسیر اور احادیث شائع ہوچکی ہیں۔ گویا یہ نہ صرف پاکستانیوں بلکہ مسلمانوں کی ایک معتبر اور ثقہ بند زبان ہے۔ پاکستانی اور ہندوستانی پوری دنیا میں پھیل چکے ہیں۔ پاکستان کی تبلیغی جماعت پوری دنیا میں جاتی ہے جو تبلیغ کے ساتھ ساتھ اردو کی ترویج کا بھی سبب بنتی ہے۔ اس کی وسعت اور مقبولیت کا اندازہ اس سے بھی لگایا جاسکتا ہے کہ پاکستان، بنگلہ دیش، کشمیر، افغانستان اور بھارت کے کروڑوں انسان اردو بولتے، لکھتے، پڑھتے اور سمجھتے ہیں۔ ان ملکوں سے اردو میں لاکھوں کتابیں چھپتی ہیں۔ بہت سے اخبارات، ماہنامے اور سالنامے شائع ہوتے ہیں۔ پاکستان اور انڈیا میں اس کے فروغ کے لیے بہت سے ادارے سرگرم عمل ہیں۔ ادارہ فروغ قومی زبان اسلام آباد، انجمن ترقی اردو پاکستان، مجلس ترقی ادب، اردو لغت بورڈ کراچی، اردو سائنس بورڈ لاہور، نیشنل بک فاؤنڈیشن اسلام آباد، مختلف جامعات کے شعبہ ہائے اردو اور ادارہ ہائے تالیف و ترجمہ، مختلف علمی و ادبی انجمنیں، حلقے اور تحقیقی و اشاعتی ادارے اپنے اپنے دائرہ کار میں مصروفِ عمل ہیں۔ ان اداروں کے زیر اہتمام دفتری، طبی، سائنسی، فنی، زرعی، مالیاتی، موسمی اصطلاحات کے تراجم بھی ہوچکے ہیں۔ یہاں جدید برقی ذرائع مواصلات (میڈیا) کا تذکرہ بھی ضروری ہے جو پوری دنیا میں اردو زبان پھیلا رہا ہے اس کے ذریعے اردو زبان ملک ملک،بستی بستی، قریہ قریہ اور گھر گھر پہنچ رہی ہے۔ کون سی جگہ ہے جہاں اردو زبان نہیں ہے، یہ تو پاکستان کی قومی زبان ہے اور پاکستان ان شاء اللہ قیامت تک قائم رہے گا اور اس کی زبان بھی قائم رہے گی۔ بھارت میں سرکاری سطح پر اردو سے اغماض برتنے کے باوجود ان کو یہ زبان اتنی پیاری ہے کہ ان کے سارے ڈرامے، فلمیں اور گانے اردو میں ہیں۔
پاکستان کے ہمسایہ ممالک ترکی، ایران اور چین میں بھی اردو کی تعلیم جامعات میں دی جاتی ہے۔ سعودی عرب، خلیج کی ریاستوں اور یورپی ممالک برطانیہ، امریکا، جرمنی، فرانس اور کینیڈا میں لاکھوں افراد کی زبان اردو ہے اور وہاں اس میں کتابیں، روزنامے اور رسالے بھی چھپ رہے ہیں۔ یونیسکو کی رپورٹ کے مطابق انگریزی اور چینی دو بڑی زبانیں ہیں، جبکہ اردو دنیا کی تیسری بڑی زبان ہے۔ اقوام متحدہ کی ہر رپورٹ کا ترجمہ اس میں شائع ہوتا ہے۔ یہ تو کسی طرح سے بھی کمتر نہیں ہے۔ اردو ادب کے عظیم سپوتوں غالب، اقبال اور فیض شناشی پر پاکستان کے علاوہ بھارت، ایران، ترکی، اٹلی، فرانس، چین، جاپان، امریکا، کینیڈا، برطانیہ، سعودی عرب اور دیگر کئی چھوٹے بڑے ممالک میں کام ہو رہا ہے۔ ان کے ناموں پر اکادمیاں کھل چکی ہیں۔ ان کی برسیاں منائی جاتی ہیں۔ یوں اردو زبان پھیلتی جارہی ہے۔ تعطل کا شکار نہیں ہے، متحرک اور رواں دواں ہے، یہ تو ایک ندی کی طرح مسلسل بہتی جارہی ہے۔ اس کا دامن وسیع سے وسیع تر ہوتا جارہا ہے۔
اگر لسانی سطح پر اس کا تقابلی جائزہ لیا جائے تو یہ انگریزی اور دوسری مغربی زبانوں سے کہیں زیادہ آسان ہے۔ اس کا خمیر عربی زبان سے اٹھا ہے، عربی چونکہ دنیا کی سب سے زیادہ سائنسی اور تکنیکی زبان ہے اس کا ایک اصول سیکھ لینے سے بہت سی چیزوں کے سیکھنے میں آسانی پیدا ہو جاتی ہے۔ اردو میں بھی بہت سے قاعدے کلیے ایسے مل جاتے ہیں جن کی تفہیم سے آسانی در آسانی پیدا ہوتی چلی جاتی ہے، جیسے ایک لفظ کے اعراب معلوم ہونے سے اس کے وزن پر آنے والے باقی الفاظ کے اعراب وہی ہوتے ہیں۔ اردو میں سب مصادر کے آخر پر ’’نا‘‘ آتا ہے، جبکہ انگریزی کے مصدر کی کوئی بھی علامت نہیں، محض سرکھپائی ہے۔ اس کے علاوہ اور بھی بہت سے قاعدے ہیں جو عربی اور فارسی سے تھوڑی کوشش سے ہاتھ لگ جاتے ہیں، جن سے اردو زبان سیکھنے میں بہت آسانی ہو جاتی ہے۔اردو لکھنے میں جگہ کم گھیرتی ہے اور الفاظ کی ساخت میں کم ہجے استعمال ہوتے ہیں اور انگریزی کی نسبت الفاظ بھی آسان اور بھلے معلوم ہوتے ہیں۔ جیسے اردو میں ’ملک‘ کے لیے تین ہجے اور انگریزی میں ‘Country’ کے لیے سات ہجے (Spelling)، اسی طرح سے علم (تین ہجے) Knowledge (نو ہجے)، تعلیم (پانچ ہجے) Education (نو ہجے) ، ابلاغ (پانچ ہجے) Communication (تیرہ ہجے)، بشریاتی (سات ہجے) Anthroplological (پندرہ ہجے)، سو (دو ہجے) Hundred (ساتھ ہجے) وغیرہ۔ اس طرح سے دیگر کئی مثالیں ہیں جن کی طوالت کے خوف سے یہاں گنجائش نہیں ہے۔
مختصر نویسی کے حوالے سے اگر دیکھا جائے تو بھی اردو زبان زیادہ آسان ہے، اس کو مختصر کرکے خطِ شکستہ میں یا سکیڑ کر لکھیں تو تھوڑی کوشش سے سمجھ میں آجاتی ہے جبکہ انگلش میں مختصر لکھے ہوئے الفاظ کو سمجھنے کے لیے الفاظ کی مکمل ساخت میں جھانکنا پڑتا ہے۔ اردو خوش نویسی اور خطاطی کے اعلیٰ نمونے اپنی بے مثال خوبصورتی اور دلکشی کی بنا پر دنیا کے عجائبات کی زینت ہیں، انگریزی اس شرف سے محروم ہے۔
اردو اپنے صوتیاتی و اعرابی اور اشتقاقی نظام اور گرامر کے لحاظ سے بھی انگریزی سے کہیں زیادہ آسان ہے۔ انگلش کے الفاظ پر اعراب نہیں لگائے جاتے، حروفِ علت ہی اعراب کا کام دیتے ہیں جس سے تلفظ کو سمجھنے میں خاصی دشواری پیش آتی ہے اور نہ ہی اسے مبتدی پڑھ سکتا ہے۔ جبکہ اردو میں اعراب کا باقاعدہ اور منظم نظام موجود ہے جو بہت آسان اور سہل ہے کہ مبتدی کے لیے بھی اگر الفاظ پر اعراب لگا دیے جائیں تو وہ آسانی سے الفاظ کی درست ادائیگی سے روشناس ہو جاتا ہے۔ انگلش میں ایک لفظ سے جب مزید الفاظِ ترکیب پاکر بنتے ہیں تو ہر بار بنیادی لفظ کا تلفظ بدل جاتا ہے۔ مثال کے لیے صرف Use اور House سے بننے والے الفاظ انگریزی لغات میں ملاحظہ کیے جاسکتے ہیں ان کا تلفظ نو نو، دس دس بار بدلتا نظر آتا ہے۔ مگر اردو میں ایسا نہیں ہے، ایک لفظ کو سو بار بھی کسی دوسرے لفظ سے ملا کر پڑھیں تو بنیادی لفظ کا تلفظ یکساں رہتا ہے۔
اگر سوجھ بوجھ کے لحاظ سے دیکھا جائے تو اردو پاکستان کی قومی اور رابطے کی زبان ہے، جسے پاکستان کا ایک اَن پڑھ آدمی بھی باآسانی بول اور سمجھ سکتا ہے۔ اس کا اندازہ وادی قلاش کے باشندوں سے بخوبی لگایا جاسکتا ہے۔ جبکہ انگریزی پر ایک عرصے تک دیدہ ریزی کرنے سے ایک اچھے بھلے اور باشعور پڑھے لکھے آدمی کو بھی ایک بامعنی جملہ بولنا نہیں آتا۔ تاہم ایک شیرخوار اور پوپلے بچے کی طرح توتلا توتلا کر ادھورے لفظ بولنا ضرور آجاتے ہیں اور ٹوٹی پھوٹی انگریزی (Broken English) لکھنی بھی آجاتی ہے۔ وائے! جو زیست اللہ اللہ کرنے میں گزارنی تھی، تحقیق و تدوین کرنی تھی، نئی نئی دنیائیں دریافت کرنی تھیں، ترقی کی منازل طے کرنی تھیں، وہ A.B.C… کے لامتناہی چکر میں پڑ کر گزار دی اور اسی اثناء میں غیروں نے ہمیں ہر ہر شعبے میں ایسی مات دی کہ زندہ ہی درگور ہوگئے اور اس انگریزی کی عاشقی میں پڑ کر کسی کام کے نہ رہے۔ بقول اکبر الہ آبادی:
عاشقی کا ہو بُرا اس نے بگاڑے سارے کام
ہم تو اے بی میں رہے، اغیار بی اے ہوگئے
مدت مدید تک اے بی کے جال میں پھنسے رہتے ہیں پانچ پانچ چھ چھ سال تک انگلش پاس نہیں ہوتی۔ انگلش نہ آنے کے سبب طالب علم ہڑتالیں کرتے ہیں، اخباروں میں خبریں چھپتی ہیں، مگر اس سے نجات نہیں ملتی۔ قوم تباہ ہوتی جارہی ہے۔
یہی تو صلہ ہے اپنی قومی زبان پر غیر زبان کو ترجیح دینے کا کہ پہلے ہم غیروں کی زبان کے محتاج ہوئے پھر کوڑی کوڑی کے انہی کے دستِ نگر ہو کے رہ گئے۔ تاریخ عالم گواہ ہے کہ جہاں کسی قوم کی زبان آتی ہے وہاں اُس کی تہذیب و ثقافت بھی چلی آتی ہے۔ صرف برصغیر کی ایک مثال لے لیجیے، جب یہاں مغل حکمران آئے تو ان کی فارسی زبان اور ایرانی رسم و رواج بھی عوام و خواص کے رگ وریشے میں نفوذ کرگئے۔ یہاں تک کہ تعمیرات بھی انہی کے طریق پر ہوئیں۔ جن کے نقوش آج بھی پرانے گھروں، درباروں، مزاروں اور مساجد کے در و دیوار سے ہویدا ہیں۔ زبان بدلنے سے جو تبدیلیاں رونما ہوتی ہیں ان سے اقبال بخوبی آگاہ تھے۔ خصوصاً انگریزی زبان کے آنے سے جو کچھ ہونے والا تھا اُس کو تو اُن کی دوررس نگاہ نے خوب بھانپ لیا تھا، اسی لیے تو بے ساختہ پکار اٹھے:
لڑکیاں پڑھ رہی ہیں انگریزی
ڈھونڈ لی قوم نے فلاح کی راہ
روشِ مغربی ہے مدنظر
وضع مشرق کو جانتے ہیں گناہ
یہ ڈراما دکھائے گا کیا سین؟
پردہ اٹھنے کی منتظر ہے نگاہ
گویا ہمارے مصور پاکستان ہمیں یہ درس دے رہے ہیں کہ انگریزی پڑھنے سے ہمارے دو بڑے نقصانات ہوں گے۔ ایک یہ کہ ہماری قوم فلاح نہیں پائے گی جس کا صاف مطلب یہ ہے کہ کامیاب اور خوشحال نہیں ہوگی اور دوسری طرف وضعِ مشرق یعنی اسلامی رسومات سے اس قدر دور ہو جائے گی کہ انہیں گناہ سمجھے گی، آج کے پاکستان میں یہی کچھ ہوچکا ہے۔
اس پس منظر میں نتیجہ خیز بات یہی نظر آتی ہے کہ وطنِ عزیز میں فوری طور پر نفاذِ اردو کا ایک جامع منصوبہ تیار کیا جائے تاکہ قوم انگلش کے تکلیف دہ جھنجھٹ سے نجات پاسکے۔ ان منطقی حقائق و دلائل کے علاوہ کچھ آئینی حقائق کو بیان کر دینا بھی بے جا نہ ہوگا۔ ۱۹۷۳ء کے آئین کے آرٹیکل ۲۵۱ کے الفاظ حسب ذیل ہیں:
٭ پاکستان کی قومی زبان اردو ہے اور دستور کے یومِ آغاز سے پندرہ برس کے اندر اس کو سرکاری اور دیگر اغراض کے لیے استعمال کرنے کے انتظامات کیے جائیں گے۔
٭ قومی زبان کو متاثر کیے بغیر کوئی صوبائی اسمبلی قانون کے ذریعے قومی زبان کے علاوہ کسی صوبائی زبان کی تعلیم، ترقی اور اس کے استعمال کے لیے اقدامات تجویز کر سکے گی۔
٭ انگریزی زبان اس وقت تک استعمال کی جاسکے گی جب تک اس کے اردو میں تبدیل کرنے کے انتظامات نہ ہو جائیں۔
آئین کے اس تقاضے کو پورا کرنے کے لیے ادارہ فروغ قومی زبان (مقتدرہ قومی زبان)، اکادمی ادبیات پاکستان، ترقی اردو بورڈ کراچی، پاکستان اردو اکیڈمی اور اردو سائنس بورڈ نے کئی سالوں کی محنتِ شاقہ سے ہر قسم کی انگریزی اصطلاحات کو اردو کے سانچے میں ڈھال دیا ہے اور اردو سائنس بورڈ نے تو نصاب سے متعلقہ کتب کے تراجم بھی اردو میں کیے ہوئے ہیں، لہٰذا اب مسئلہ صرف اردو کے نفاذ کا ہے۔
بانی پاکستان قائداعظم محمد علی جناح نے ۲۱ مارچ ۱۹۲۸ء کو ڈھاکا میں جلسہ عام سے خطاب کرتے ہوئے فرمایا:
’’میں واضح الفاظ میں بتا دینا چاہتا ہوں کہ پاکستان کی سرکاری زبان صرف اور صرف اردو ہوگی۔ جو شخص اس سلسلے میں آپ کو غلط راہ پر ڈالتا ہے وہ پاکستان کا پکا دشمن ہے، ایک مشترکہ قومی زبان کے بغیر کوئی قوم نہ تو پوری طرح متحد رہ سکتی ہے اور نہ ہی کوئی کام کرسکتی ہے‘‘۔
اردو میں جو سب شریک ہونے کے نہیں
اس ملک کے کام ٹھیک ہونے کے نہیں
آخر میں مَیں چند معروضات پیش کرنا چاہوں گا۔ ممکن ہے کہ یہ معروضات اربابِ بست و کشاد کی توجہ کا مرکز بنیں اور کوئی محب قوم و وطن انہیں عملی جامہ پہنادے یا قوم اردو کے نفاذ کے لیے اٹھ کھڑی ہو۔
۱۔ ابتدائی سطح سے لے کر اعلیٰ سطح تک تعلیم مکمل طور پر قومی زبان میں ہونی چاہیے۔ کسی دوسری زبان کی تدریس کی پاکستانی مدارس میں ثانوی حیثیت ہونی چاہیے، یعنی تعلیم اپنی قومی زبان ’’اردو‘‘ میں ہو، باقی جتنی زبانیں کوئی چاہے اپنی مرضی سے سیکھے۔
۲۔ طب، انجینئرنگ، سائنس، ٹیکنالوجی اور کمپیوٹر وغیرہ جیسی جدید تعلیم اردو میں ہونی چاہیے تاکہ ہمارے طلبہ مذکورہ تعلیم تک باآسانی رسائی حاصل کرسکیں اور جو کوئی انگریزی سے گھبراتا ہو وہ بھی اس تعلیم سے مالامال ہوسکے۔
۳۔ اگر اردو زبان کو زندہ رکھنا ہے تو پھر اسے لازمی طور پرسائنس، ٹیکنالوجی اور کمپیوٹر کی زبان بنانا ہوگا، کیونکہ مستقبل قریب میں صرف وہی زبان زندہ رہ سکے گی جو جدید علوم کی ترجمان ہوگی۔
۴۔ اگر ہم نے اردو کے نفاذ کی طرف توجہ نہ دی تو پھر ہم اپنا بہت بڑا تہذیبی و ثقافتی، ادبی اور مذہبی سرمایہ جو اردو زبان میں تخلیق ہوچکا ہے اس کی اصل سے دور ہو جائیں گے اور تراجم کا سہارا لیں گے جبکہ ایک یونانی ضرب المثل ہے کہ ترجمہ بھنی ہوئی اسٹرابری کی طرح ہوتا ہے، یعنی اس میں کوئی چاشنی نہیں رہتی۔ پہلے ہی انگریزی میں تراجم کا سلسلہ شروع ہو چکا ہے جو کوئی بُرا عمل نہیں ہے ، کیونکہ بین الاقوامی سطح پر اس کی ضرورت ہے لیکن اگر ترجمہ اپنی ہی زبان سے اپنے ہی سمجھنے کے لیے غیروں کی زبان میں کیا جائے تو یہ ایک عیب بن جاتا ہے۔ اس سے ایک طرف تو اپنی زبان کی شناخت ختم ہو جاتی ہے اور دوسری طرف قوم تراجم کی زلفِ گرہ گیر میں الجھ کر رہ جاتی ہے، پہلے بھی ہم اپنے بزرگوں کی عربی و فارسی تخلیقات کا اردو میں ترجمے کا سلسلہ جاری رکھے ہوئے ہیں۔ ابھی اس سے ہم نے چنداں فراغت نہیں پائی تو انگریزی میں شروع کر دیا ہے، کل کو کسی اور زبان چینی وغیرہ میں شروع کر دیں گے اور اسی ہیر پھیر میں پڑے رہیں گے تو کیا یہ تماشا اچھا رہے گا، یا اسے ابھی سے ختم کرنے کی کوشش کرنی چاہیے؟
۵۔ قوم کو مجموعی طور پرعزمِ صمیم کرلینا چاہیے کہ جہاں اظہارِ خیال کے لیے اردو کے الفاظ موجود ہوں وہاں انگریزی کے الفاظ ہر گز استعمال نہ کیے جائیں۔ دوسری طرف جہاں اردو کے مناسب الفاظ و محاورات اور اصطلاحات نہ ہوں وہاں انگریزی الفاظ کی بھرمار سے بچنے کے لیے عربی و فارسی جیسی وسیع دامن زبانوں سے مدد لینی چاہیے تاکہ اردو جس نے ایک عرصے تک عربی و فارسی کا دودھ پیا ہے اس کی رضاعت کی ساکھ بھی بحال رہے۔ تاہم اگر ضرورت پڑے تو انگریزی سمیت کسی بھی زبان سے مدد لی جاسکتی ہے۔ مگر صرف انگریزی ہی سے کیوں؟
۶۔ اصلاحِ زبان کے لیے زبان و ادب کے ماہرین کی ایک کمیٹی بنائی جائے جو مختلف شعبوں جیسے صنعت و حرفت، تجارت، معاشیات، سیاسیات، اخلاقیات، دینیات، سائنس اور ٹیکنالوجی وغیرہ کے ماہرین کی رائے سے زبان کی جدید خطوط پر اصلاح و تسہیل کرے اور دیگر زبانوں سے لیے گئے مشکل الفاظ کی تسہیل کرکے انہیں مورد بنائے تاکہ زبان کا دائرہ کار وسیع ہو۔ اورجو الفاظ پہلے ہی مناسب ہوں یا موزوں سمجھے جائیں انہیں اسی طرح قبول کرلیا جائے۔
۷۔ اردو زبان میں تحقیق و تدوین کے لیے موثر اقدامات کیے جائیں اور اردو دان طبقے اور اردو تعلیم کی حوصلہ افزائی کی جائے۔
۸۔ اردو زبان کو بطور لازمی مضمون تمام تعلیمی اداروں میں ہر سطح پر لازمی قرار دیا جائے۔
۹۔ تمام تر سرکاری و نیم سرکاری خط و کتابت اردو میں ہونی چاہیے، نیز حکمران طبقے اور سیاست دانوں کو اپنی تقاریر اور اظہارِ خیال اردو میں کرنا چاہیے اور اسی پر فخر کرنا چاہیے کہ وہ اپنی زبان بول رہے ہیں۔
۱۰۔ اخبارات و دیگر ذرائع ابلاغ کو اردو زبان کی اشاعت و ترویج میں اہم کردار ادا کرنا چاہیے۔
۱۱۔ بطور مسلمان ہمیں اردو کے حروفِ تہجی میں شامل ۲۹ عربی حروف اور اردو کا رسم الخط قرآنی رسم الخط کے قریب ہونے کے سبب اردو زبان کے تحفظ کے لیے اقدامات کرنے چاہئیں۔
۱۲۔ جہاں میں صرف وہی قومیں زندہ رہتی ہیں جن کی اپنی قومی و لسانی شناخت ہوتی ہے اور جو قوم اپنا لسانی تشخص کھو بیٹھتی ہے وہ اپنا قومی وقار بھی کھو دیتی ہے۔ لہٰذا اردو کو سرکاری اور دفتری زبان کے لحاظ سے مکمل طور پر نافذ کرنا پاکستان کے بیس بائیس کروڑ عوام کا اسلامی جمہوریہ پاکستان میں جمہوری اور قانونی استحقاق بھی ہے۔ یقین نہ آئے تو اردو کے حق میں رائے دہی کرا کے دیکھ لیں۔ لہٰذا ضروری ہے کہ عوام کی خواہشات و جذبات کا احترام کرتے ہوئے اور ملک و قوم کے اجتماعی مفادات کو مدنظر رکھتے ہوئے اردو کو فوری طور پر نافذ کیا جائے۔
(بشکریہ: ماہنامہ ’’اخبارِ اردو‘‘ اسلام آباد۔ اپریل،مئی ۲۰۱۶ء)
بہت عمدہ مضمون ہےاردو زبان مافی الضمیر کے اظہار کا بہترین ذریعہ ہے اگر کوئی زبان اپنا وجود باقی نہ رکھ سکےتواس کے بولنے والے بھی اپنا وجود کھو دیتےہیں۔ اردو زبان بولنے والوں کی تعداد دنیا میں بڑھ رہی ہے جواس چیزکی جانب اشارہ ہے کہ موجودہ دور میں اگر دیگر زبانوں کومسائل کا سامنا ہے تو ہماری زبان ان مسائل کا حل اپنےدامن میں رکھتی ہے
ما شاء اللہ