
بین الاقوامی بحری تجارت کے سنگم پر واقع ہالینڈ کے عام شہری کو اوسطاًچار پانچ بین الاقوامی زبانوں پر عبور ہوتا ہے لیکن پورے ہالینڈ میں کوئی ایک سائن بورڈ تو دکھا دیجیے جو ان کی مادری زبان ڈچ میں نہ ہو۔ قاعدہ ہے کہ ہر قوم کو اپنی زبان سے انس ہوتا ہے۔ غیر ملکی زبانیں کتنی ہی اہم کیوں نہ ہوں، قومیں اپنی زبان کو ہی ترجیح دیتی ہیں، ٹھیک اسی طرح جس طرح دوسرں کے بچے کتنے ہی خوبصورت کیوں نہ ہوں والدین کو اپنی اولاد ہی سب سے پیاری ہوتی ہے۔ لیکن ہمارے اشرافیہ کی سوچ قدرے مختلف ہے۔ یار لوگوں کو تو اچھا نہیں لگا لیکن سچی بات ہے مجھے پڑھ کر بہت خوشگوار حیرت ہوئی۔ جسٹس جواد ایس خواجہ نے سپریم کورٹ کا ایک حالیہ فیصلہ اردو زبان میں لکھوا کر گویا بھولی بسری یاد تازہ کردی۔
ہمارے ہاں ایک دستور ہوا کرتا ہے جسے آئینِ پاکستان کہتے ہیں۔ سن ۱۹۷۳ عیسوی تھا، مہینہ ٹھیک سے یاد نہیں۔ پاکستان بھر سے ہر سیاسی مکتبہ فکر سے تعلق رکھنے والے تمام اہم سیاسی رہنماؤں نے مل کر فیصلہ کیا تھا کہ اس مسکین قوم کے کروڑوں لوگوں کو بھی باقی تمام ملکوں اور قوموں کی طرح اپنی زبان بولنے کی اجازت دے دینی چاہیے۔ اُس وقت بھی ایسے افلاطون یقیناً بہت سے ہوں گے جن کا کہنا یہ ہو گا کہ دنیا تو تخلیق ہی انگریزی زبان کی وجہ سے ہوئی ہے اور پاکستا ن تو بنایا ہی انگریزوں نے اس لیے تھا کہ اس کے حکمران طبقے انگریزی زبان کی حفاظت کریں گے۔ اس وقت بھی یہ دلائل یقیناً پوری آب و تاب کے ساتھ پیش کیے گئے ہوں گے کہ پاکستان کے سارے مسائل کی جڑ یہ ہے کہ اس کے متوسط اور غریب لوگ فر فر انگریزی نہیں بول سکتے، ان کے بچے انگریزی زبان میں تعلیم حاصل نہیں کرتے۔ اگر اشرافیہ کی طرح متوسط اور غریب لوگ بھی انگریزی میں ہی دن رات تکلم فرمایا کرتے تو پاکستان کب کی ایک عالمی طاقت بن چکا ہوتا۔ یقیناً بہت مزاحمت ہوئی ہوگی لیکن آئین سازی میں شامل تمام سیاسی قوتوں کا بہرحال ایک اتفاق رائے ہو گیا کہ پندرہ سال کے اندر اندر پاکستان کی قومی زبان اردوکو سرکاری زبان بنانے کے لیے اقدامات کیے جائیں گے۔ ان پندرہ سالوں کے دوران البتہ انگریزی سرکاری زبان کے طور پر جاری رکھے جانے کی رعایت بھی دی گئی۔ آئینی تقاضے کے مطابق ۱۹۸۸ء تک قیام ِ پاکستان کے اس ادھورے مشن کو مکمل ہو جانا تھا۔
روایت بہت منہ زور ہوتی ہے۔ اس کی خلاف ورزی کرنے کے بارے میں کمزور دل حضرات سوچ بھی نہیں سکتے۔ اس پر مستزاد یہ کہ لوگ عموماً گھسے پٹے رستوں پر چل کر ہی کامیاب ہونے کو ترجیح دیتے ہیں۔ پاکستان کے بالائی طبقات کے تاریخی بانجھ پن کے ماحول میں انگریزی زبان اور مغربی ثقافت سے التفات ایک روایت ہے، جس سے روگردانی کی جرأت کوئی مجنون کر سکتا ہے یا پھر کوئی عظیم انسان۔ معلوم نہیں پاکستان کے عدالتی نظام پر قابض مغربی تعلیم یافتہ اور انگریزی زدہ مافیا جسٹس خواجہ کے اس اقدام کے ’’نقصانات‘‘ کا کتنا تخمینہ لگائے بیٹھا ہو کیونکہ اگر عدالتی نظام کو بدیسی زبان انگریزی سے اردومیں تبدیل کر دیا گیا تو اعلیٰ عدالتوں کی نوکریوں اور مقدمات پر ان کی اجارہ داری (جس کی ایک بڑی وجہ انگریزی زبان ہے ) کیونکر قائم رہ پائے گی۔ روایت، وابستہ مفادات اور ناہموار مواقع کے ہتھیاروں سے لیس انگریزی زبان کے دھارے کے آگے بند باندھنا احساسِ کمتری کی شکار ہماری اشرافیہ کے بس کی بات نہیں۔ جسٹس خواجہ کا اقدام قابلِ ستائش ہے لیکن ان کے ایک فیصلے کے بعد مزید فیصلے قومی زبان اردو میں پڑھنے کو آنکھیں ترس گئی ہیں۔ انگریزی زبان کو کامیابی کی کنجی سمجھنے والے حکمران طبقے کی کج خیالی پر صرف افسوس ہی کیا جا سکتا ہے۔
امریکا اور برطانیہ سے اپنی مرعوبیت میں وہ بھول ہی جاتے ہیں کہ دنیا میں انگریزی زبان بولنے والی قوموں کے علاوہ دیگر قومیں بھی عالمی طاقتوں کے درجے پر فائز ہوئیں۔ جرمنی، فرانس، روس، چین، جاپان اس لیے عالمی طاقتیں نہیں بنے کہ ان کی اشرافیہ کو انگریزی زبان میں ’’مہارت‘‘ تھی، یا ان کے بچے انگریزی اسکولوں میں تعلیم پاتے تھے۔ آپ ان ملکوں میں چلے جائیں آپ انگریزی کا ایک لفظ دیکھنے کو ترس جائیں گے۔ ان عالمی طاقتوں سمیت دنیا کے ہر ملک میں تعلیمی اداروں، سرکاری و نجی دفتروں، عدالتوں، سائنس و ٹیکنالوجی کے اداروں میں اپنی اپنی قومی زبانیں رائج ہیں۔ وہاں تو کوئی نہیں کہتا کہ اپنی زبان کی بات کرنے والوں کو انگریزی سے دشمنی ہے یا یہ کہ اپنی مادری یا قومی زبان کا استعمال پسماندگی کی نشانی ہے۔
کیا اس بات کے لیے کسی شہادت کی ضرورت ہے کہ جو تفہیم اور سہولت انسان کو اپنی مادری یا قومی زبان میں ہو سکتی ہے کسی بدیسی زبان میں اس کا تصور بھی نہیں کیا جا سکتا بھلے ساری عمر ہی کیوں نہ سیکھی جائے؟ پھر انسان کی تخلیقی صلاحیتیں جس طرح اپنی زبان میں بروئے کار آتی ہیں کسی اور زبان میں کیسے آسکتی ہیں؟ وجہ سادہ سی ہے کہ اپنی زبان انسان کی سرشت میں ہوتی ہے، اس کے خمیر میں ہوتی ہے۔ ہزاروں سالوں کے ثقافتی ارتقا کے نتیجے میں لکھے جانے والے انسان کے ثقافتی ڈی این اے میں اس کی اپنی زبان کی کوڈنگ ہوئی ہوتی ہے۔ اس کوڈنگ کے اوپر کسی بدیسی زبان کی جتنی مرضی ملمع کاری کرلی جائے، بات بنتی نہیں۔
اگر غیر ملکی زبان پر عبور ممکن ہوتا تو پاکستان کی اشرافیہ سے بھی انگریزی زبان کے عالمی شہرت یافتہ ادیب اور شاعرپیدا ہوتے، کوئی ایک ایسا نام بتا دیجیے۔ ہماری اشرافیہ کے پاس لے دے کر بھارت کی دلیل ہی رہ جاتی ہے لیکن بھارتی قوم اردو کی جڑواں بہن ہندی اور اُس کے ساتھ دیگر مقامی زبانوں کو سنبھال کر چل رہی ہے۔ نریندر مودی کی قوم پرست حکومت، ہندی کو بھارت کی سرکاری زبان کے طور پر رائج کرنے کے اقدامات اٹھا رہی ہے۔ وہاں اعلی سرکاری ملازمتوں کے مقابلے کے امتحان میں انگریزی زبان میں مہارت کی شرط کو ختم کرنے کی بات ہورہی ہے۔
اردو زبان کو سرکاری زبان بنانے کے لیے سرکاری اور رسمی زبان میں فارسی الفاظ اور اصطلاحات کو سہل اردو متبادل الفاظ اور اصطلاحات سے تبدیل کرنا بھی ازحد ضروری ہے۔ عدالتی اردو میں آج بھی مغل دربار میں رائج فارسی زبان کی جھلک نظر آتی ہے۔ اسی طرح اردو زبان کومختلف قومیتوں کے مسئلے کا بھی سامنا ہے۔ اگرچہ اردو ایک ایسی زبان ہے جوبرصغیر کے شمالی حصوں میں وجود میں آئی اور جنوبی ایشیا اور خلیج عرب کے علاوہ دنیا کے کسی دوسرے ملک میں بولی، پڑھی یا سمجھی نہیں جاتی۔ ہمارے ہاں بہت سے لوگ اس زبان کو قومی زبان کے طور پر قبول کرنے سے کتراتے ہیں۔ کچھ قوم پرست راہنمائوں کی اپنی مادری زبانوں کے ساتھ بہت حوالوں سے شراکت داری رکھنے والی اردو زبان کی، قومی زبان کے طور پر مخالفت بھی سمجھ سے باہر ہے۔ کسی کو اچھا لگے یا بُرا، لیکن یہ ایک حقیقت ہے کہ قومی زبان کے طور پر کوئی اور مقامی زبان اردو کا مقابلہ کرنے کی سکت نہیں رکھتی۔ انگریزی کو ایک بین الاقوامی زبان کے طور پر ضرور سیکھنا چاہیے، نہ صرف انگریزی بلکہ اس کے ساتھ چینی، جرمن، فرانسیسی، ہسپانوی، جاپانی اور دیگر زبانیں بھی سیکھی جانی چاہئیں لیکن ہمارے دفتروں، عدالتوں اور تعلیمی اداروں میں بنیادی زبان تو ہماری اپنی ہونی چاہیے۔
(بشکریہ: روزنامہ ’’جنگ‘‘ کراچی۔ ۲۸ نومبر ۲۰۱۴ء)
Leave a Reply