
اردو کا مسئلہ ہمارے لیے محض زبان کا مسئلہ نہیں، نہ یہ محض کاروباری سوال ہے، اس کی اصل اہمیت اس کے علاوہ بھی ہے اور وہ یہ کہ یہ ہمارے لیے ایک تاریخی و تہذیبی مسئلہ بھی ہے اور ایک سطح پر آکر یہ ملّی اور دینی مسئلہ بھی بن جاتا ہے۔ اس کی تاریخی اہمیت تو یہ ہے کہ یہ زبان اس ملک کی قدیم بولیوں پر اسلامی تہذیب کے اثرات سے پیدا ہوئی ہے۔ اگر یہ اثرات نہ ہوتے تو اس زبان کی ترکیب، ساخت اور اس کی عام فضا بلکہ اس کا نام تک بھی مختلف ہوتا۔ یہ تاریخ کے اسلامی عوامل کی شرمندۂ احسان ہے اور یہی چیز اسے ہندی اور دوسری ملکی زبانوں سے جدا کرتی ہے اور یہ بھی اسلامی اثرات ہی کا نتیجہ ہے کہ یہ زبان مقامیت میں محدود نہیں رہی۔ سندھ اور غزنی اور پشاور اور پنجاب میں تشکیل کے بعد ہندو پاکستان کے گوشے گوشے میں اپنی مخصوص فضا کے ساتھ پھیل گئی اور اپنے مقامی اختلافات کے باوجود ایک مشترک فضا ہر جگہ پیدا کرتی گئی۔ بظاہر یہ معمولی بات ہے مگر غور کیا جائے تو یہ معمولی بات نہیں۔ جو زبان ملک کے مختلف علاقوں میں یکسانی اور وحدت پیدا کرتی گئی ہو اسے محض حادثہ نہیں کہا جاسکتا۔ یہ تو اسلامی اقدار کے تاریخی عمل اور ردعمل کا تاریخی نتیجہ تھا، جس کا پہلا خاصہ ہمیشہ یہ رہا ہے کہ وہ محدود قومیتوں کو مٹائے اور ایک وسیع تر معاشرہ کی تشکیل میں مدد دے۔
اُردو زبان کی اس تاریخی و تہذیبی اہمیت کو جو لوگ نظرانداز کرتے ہیں وہ حقائق کے منکر ہیں، اور میں تو کہوں گا کہ وہ معاندانہ تعصب کے مریض ہیں۔ اردو ڈیڑھ صدی سے برصغیر کی سیاسی تحریکوں کی ترجمان ہے، جب بھی ملک میں کوئی عظیم ہیجان پیدا ہوا، اس کی ترجمانی اردو ہی نے کی۔ جنگِ آزادی ۱۸۵۷ء سے لے کر مسلم لیگ کی تحریکِ پاکستان تک ملک گیر احساسات کی ترجمانی کا حق اردو ہی نے ادا کیا اور جہاں تک مسلمانوں کی ملک گیر سیاسی زندگی کا تعلق ہے اس کی واحد نمائندگی بلاشرکت غیرے اردو ہی نے کی۔ ہندوؤں سے علیحدہ سیاسی زندگی کا خیال بھی اردو کے مسئلے نے پیدا کیا۔ ۱۹۰۶ء میں مسلم لیگ کے پہلے وفد نے جو وائسرائے سے ملا تھا، اردو کے سوال کو اپنے مطالبات میں پہلی جگہ دی۔ اس کے بعد جب گاندھی نے ہندی کو مسلمانوں پر زبردستی ٹھونسنا چاہا تو یہ بھی اس لیے تھا کہ وہ اردو کے اس تعلق کو نظرانداز نہ کرسکتے تھے، جو اسے اسلامی سلطنت اور اسلامی اثرات سے وابستہ کیے ہوئے تھا۔ اس کا ایک اور ثبوت یہ ہے کہ مسلمانانِ ہند نے اپنی صدسالہ جدوجہد آزادی میں اردو کو اپنی قومی زندگی کے نشان کے طور پر اپنے قومی مطالبات میں شامل کیے رکھا اور اس مطالبے میں پشاور سے لے کر کوئٹہ تک اور کراچی سے لے کر چاٹگام اور راس کماری تک مسلمانوں کی پوری قوم شریک رہی۔ انہی وجوہ سے قائداعظم نے بھی اس زبان کے حقوق کا بار بار ذکر کیا اور شدید بیماری کے باوجود اس کی قومی حیثیت کا اعلان کرنے کے لیے ڈھاکا پہنچے۔
زبان کا اثر قومی کردار پر
یہاں تک میں نے جو کچھ عرض کیا ہے اس کا تعلق اردو کی تاریخی حیثیت سے تھا۔ اب میں خاص طور سے اس کی اس اہمیت کا ذکر کرتا ہوں، جس کا تعلق ہمارے مستقبل سے ہے۔ یہ حقیقت ناقابلِ تردید ہے کہ پاکستان اسلام کی دعوت پر قائم ہوا ہے اور اب اس ملک کا سب سے بڑا مسئلہ یہ ہے کہ اس ملک میں اسلام کی دعوت کو زندہ کس طرح رکھا جائے اور اس دعوت کو زندہ رکھنے کے لیے پاکستان میں ایک باشعور اور بامقصد اسلامی معاشرہ کی تشکیل کس طرح ہو، اور اب یہ کہ اس اسلامی معاشرہ کی تشکیل میں اردو کا کیا مقام ہے اور اس میں اسے موثر کردار ادا کرنے کے قابل کس طرح بنایا جائے، میں ان لوگوں سے متفق نہیں ہوں جو زبان کو محض ایک کاروباری ادارہ سمجھتے ہیں۔ زبان اخلاق و سیرت کی تخلیق میں ایک فعال اور مؤثر وسیلہ ہے اور اقوام کے مزاج اور ان کی روحانی زندگی کا عکس ہوتی ہے، یہ کس طرح ہو سکتا ہے کہ ایک زبان صرف بازار کے نرخوں کے اتار چڑھاؤ اور روزانہ کے حادثات کی روداد تو لکھے لیکن اس قوم کی روحانی زندگی اور اس کی ملّی شخصیت کے اظہار میں کوئی حصہ نہ لے۔ اگر پاکستان میں سچ مچ کوئی قوم بستی ہے اور میری دانست میں سچ مچ ایک قوم یہاں موجود ہے۔ اگر ایسا نہ ہوتا تو ہم الگ قوم کی اساس پر ایک الگ ملک کا مطالبہ کرنے میں حق بجانب نہ ہوتے اور نہ یہ مطالبہ منظور کیا جاتا پس اگر یہ قوم آج بھی وہی قوم ہے جو تحریکِ پاکستان کے وقت موجود تھی تو اس قوم کا ایک الگ منفرد معاشرہ بھی ہونا چاہیے اور اس معاشرے کی روحانی زندگی کے اظہار کے لیے ایک مشترک زبان کی بھی ضرورت ہے اور وہ زبان بالاتفاق اردو ہے۔
بعض لوگ اسلام اور ملت کے حوالے سے اردو کا تذکرہ پسند نہیں کرتے کیونکہ ان کا خیال ہے کہ پاکستان کے لیے اسلام ضروری نہیں لہٰذا اردو کے لیے ضروری نہیں کہ وہ اسلامی اقدار کی ترجمان ہو۔ ان کے نزدیک تحریکِ پاکستان کا اسلامی نعرہ ایک وقتی چیز تھی، اب نہ وہ وقت رہا نہ وہ نعرہ ضروری ہے۔ میں اس خیال کے خلاف شدید احتجاج کرتا ہوں پاکستان آج بھی اسلام کا قلعہ ہے اور اس قلعے کے تحفظ کے جتنے وسیلے ہیں ان میں اردو کو قومی ترین وسیلہ بننا چاہیے۔ میں اُردو ادب کا طالب علم نہیں ہوں لیکن اتنا جانتا ہوں کہ اردو کا ابتدائی ادب صوفیانہ اور مذہبی تھا۔ صوفیوں اور عالموں نے اسلام کو دینی اور صوفیانہ مسائل سے آگاہ کرنے کے لیے اردو میں نظمیں لکھیں، رسالے لکھے۔ یہ زبان سب سے پہلے دینی جذبوں کے کام آئی۔ دینی اور روحانی آرزوؤں کی ترجمان بن کر عوام کے لیے امید کا پیغام بنی، پھر رفتہ رفتہ شعر کی زبان بن کر اونچے طبقوں میں پہنچی، اور میں نے سنا ہے کہ اس ادب کی فہرست انجمن ترقی اردو پاکستان نے چھاپ بھی دی ہے۔ اس کو دیکھ کر کسے انکار ہوسکتا ہے کہ اردو کا ہماری ملّی زندگی سے گہرا تعلق ہے اور اسے آج بھی ملّی زندگی کا ترجمان بننا چاہیے۔
میں جانتا ہوں کہ اردو کے اس اسلامی نقش کو مٹانے کے لیے کئی مرتبہ کوشش ہوئی اور آج بھی ہے۔ جب انگریز آئے تو انہوں نے اردو سے فارسی عربی کے اثرات مٹانے کی کوشش کی۔ پھر ہندوستان میں متحدہ قومیت کا فتنہ اٹھا تو ایک بار پھر سلاست اور سادگی کے بہانے سے، اس کو ہندی کے قریب کرنے کی کوشش کی گئی اور تحریکِ پاکستان سے کچھ پہلے ہم نے یہ بھی دیکھا کہ اردو کے اخلاقی مزاج کو ختم کرنے کے لیے اردو میں ایک نئی اخلاقیات داخل کرنے کی کوشش کی گئی جو مسلمانوں کے معاشرتی، اخلاقی تصورات کے سخت مخالف تھی۔ یہ سرگرمی محض اتفاقی نہ تھی بلکہ ایک سوچے سمجھے منصوبے کے تحت تھی۔ مقصد اس کا یہ تھا کہ مسلمان نوجوان اپنے اخلاقی تصورات سے برگشتہ ہوں اور مغرب کے لادین، نفس پرستانہ حیوانی تصورات اور ترغیبات سے مسحور ہو کر اپنے معاشرتی اخلاق کے دشمن بن جائیں۔ بدقسمتی سے یہ کوششیں کامیاب بھی ہوئیں اور زیادہ افسوس یہ ہے کہ اس کے لیے اردو ادب کو وسیلہ بنایا گیا۔ میں اس اردو ادب کو اپنا ادب تسلیم نہیں کرتا جس کی روح حیوانی اور جس کی ساری فضا مغربی ہے، یہ ادب درحقیقت مغربی ادب ہے جس کے لیے پاکستان کی ایک زبان استعمال ہوئی ہے۔ میں اردو کو محض اردو کی خاطر نہیں مانتا میں تو اسے اس لیے مانتا ہوں کہ وہ اسلامی ماحول کے اندر سے پیدا ہوئی ہے اور میری دانست میں اس کا اصلی مزاج اسلامی و اخلاقی ہے۔ مجھے جو چیز اردو کے قریب لے جارہی ہے وہ اس کا اسلامی، اخلاقی اقدار اور اسلامی تہذیب تصورات کا ملّی پس منظر ہے جسے ہمراہ لے کر عربی، فارسی اثرات سے پلی ہوئی یہ زبان ترقی کرتی رہی۔ اگر ایسا نہ ہوتا تو ہندو اور گاندھی اس کی مخالفت کیوں کرتے۔
اسلامی ورثہ کی محافظ
میں نہایت بے خوفی سے یہ اعلان کرنا چاہتا ہوں کہ ہم اردو کو اردو کے طور پر نہیں اسلامی ورثے کے محافظ کے طور پر مانتے ہیں۔ اور اب بھی اسے مسلمانانِ پاکستان کے ملی اور اسلامی جذبوں کا عکس بننا چاہیے۔ اس کے ادب کو لادین تصورات سے پاک کر دینا چاہیے اور اس میں ان امنگوں کے چہرے روشن کرنے چاہئییں جو پاکستان میں ایک مثالی اسلامی معاشرہ بنانے کے لیے ضروری ہیں۔ لہٰذا میری پُرزور درخواست ہے کہ مسلمانانِ پاکستان کو اب ادب پر کڑی نظر رکھنی چاہیے کیونکہ اردو ادب کے موجودہ سرمائے کو میں بڑے شک کی نظر سے دیکھتا ہوں اور اس کا ایک بڑا حصہ ایسا ہے جو ہمارے اور ہمارے بچوں کے ایمان پر ڈاکہ ڈالنے کے مترادف ہے اور اس ڈاکہ زنی میں بیرونی قوتیں تو قدرتاً سرگرم ہیں، خود ملکی عناصر بھی برابر کے شریک ہیں۔ اُردو اور علاقائی زبانوں کے جھگڑے کا اکثر ذکر سننے میں آتا ہے۔ مگر میں ایسے تذکروں پر تعجب کیا کرتا ہوں۔ ہم لوگوں نے اپنی ساری عمر پنجابی ماحول میں گزاری ہے اور اپنے پنجابی ہونے پر ہم فخر بھی کرتے رہے۔ مگر ایک لمحہ بھی ایسا نہیں آیا جب ہمیں اپنے پنجابی ہونے اور اردو سے محبت کرنے میں کوئی تضاد نظر آیا ہو، وجہ یہ ہے کہ ہم ہمیشہ ذاتی معاملات پر قومی اور وسیع تر ملّی مفاد کی روشنی میں نظر ڈالتے رہے۔
اب جب میں بعض لوگوں کے بدلے ہوئے خیالات دیکھتا ہوں تو حیران ہوتا ہوں، مجھ سے ایک اچھے خاصے تعلیم یافتہ شخص نے ایک دن یہ کہا کہ عربی ایک غیر ملکی زبان ہے، اس پر بچے وقت کیوں ضائع کرتے ہیں۔ یہ دراصل اس ذہنیت کا نتیجہ ہے جو بیرونی نظریات کے مبلغوں نے ادب کے توسط سے یہاں پیدا کی ہے، ور نہ مسلمان کی نظر میں اصل شے اسلامی عقیدہ ہے، یہ بیرونی اور غیر بیرونی کی بحث مغربی فکر کی پیدا کردہ ہے۔
پاکستان ایک مملکت اور پاکستانی ایک قوم ہیں۔ ان کے باہمی رابطے کے لیے ایک زبان کی ضرورت ہے۔ یہ بھی عجیب منطق ہے کہ ایک مشترک زبان کے ہوتے ہوئے ہم اس سے تو کام نہ لیں۔ اور دس بارہ زبانوں کا تعصب ابھار کر یہ توقع رکھیں کہ اس کے انتشار کے اندر سے ایک قوم کا تصور خود بخود ابھر آئے گا۔ تعجب ہے کہ بعض پڑھے لکھے اس منطق میں گرفتار ہو جاتے ہیں۔ میں تو صرف یہ جانتا ہوں کہ زبانیں جتنی بھی ہوں، ہوا کریں پھیلیں اور پھولیں۔ لیکن قوم کی ایک مجموعی زبان بھی ہونی چاہیے جو رابطے کے کام آئے اور وحدت کا اظہار بھی کرے، اگر ہمارے لوگ زیادہ تعلیم یافتہ ہوگئے ہیں اور اس چھوٹی سی بات کو بھی نہیں سمجھتے کہ مشترک قومی زبان کا ہونا ایک نعمت ہے تو پھر قوم اور قومیت کا ذکر ہی چھوڑیے اور سیاسی انتشار کے ساتھ ساتھ لسانی انتشار میں مبتلا ہو کر پاکستان میں بلقان کا تجربہ کرکے دیکھیے جہاں ہر سو میل کے بعد ایک نئی ریاست شروع ہو جاتی ہے اور ہر بڑی جنگ کے موقع پر باہر کے حملہ آور ایک ایک کرکے ان پر قبضہ کرکے، ان سے وہ سلوک کرتے ہیں جو فاتح مفتوحوں سے کیا کرتے ہیں۔ اسلام اور اردو کو غنیمت خیال کیجیے، اس نعمت کی قدر کیجیے اور ان دونوں کے بارے میں ناشکری نہ کیجیے۔ بہرحال ملک کا مطالبہ ہے کہ قومی زبانوں کو تعلیم، دفتر اور عدالت میں رائج کیا جائے میں اس مطالبہ کی پُرزور حمایت کرتا ہوں۔
بعض کم ہمت لوگ یہ کہتے سُنے گئے ہیں کہ ہم سارے انگریزی سرمائے کا ترجمہ کس طرح کریں گے۔ یہ کم ہمتی دراصل بے خبری سے نکلی ہے۔ میرے خیال میں سب کتابوں کے ترجمہ کی ضرورت نہیں ہوا کرتی، صرف چند کتابوں کے ترجمے کر لیجیے ان کے بعد اپنے ملک میں تحقیق و تجربہ شروع کیجیے اور مستقل کتابیں اپنے ماحول کے مطابق لکھوایے۔ بلکہ صحیح یہ ہے کہ ذریعہ تعلیم بدلتے ہی خود بخود تصنیف کا بازار گرم ہو جائے گا اور یہ سب اعتراض رفع ہو جائیں گے۔ پھر یہ بھی ہے کہ یہ تجربہ صرف ہم تک محدود نہیں بلکہ دنیا بھر میں سب قومیں اپنی ہی زبان کو ذریعہ تعلیم بنا رہی ہیں۔ پس جب دنیا کی ہر قوم یہ تجربہ کر رہی ہے تو پاکستان کے لوگ اس میں تکلیف کیوں محسوس کر رہے ہیں۔ میرا خیال ہے کہ یہ محض بہانہ ہے۔ شاید کچھ لوگ کینیڈا اور نیوزی لینڈ کی طرح انگریزی کو پاکستان کی قومی زبان بنانا چاہتے ہیں۔ مگر میں علی الاعلان کہہ دینا چاہتا ہوں کہ انگریزی کو اس ملک میں یہ درجہ کبھی حاصل نہیں ہوسکتا اور اس ملک کے لوگ ایسے اقدام کو قومی غیرت کے خلاف سمجھتے ہیں۔ یوں انگریزی سے فائدہ اٹھانے میں کوئی مضائقہ نہیں۔ ۲۲ برس گزرنے پر بھی یہ حیلے بہانے جو اس سلسلے میں ہو رہے ہیں میں تو اسے کم ہمتی نہیں بعض مذموم مفادات کی سازش ہی سمجھتا ہوں۔ اب وقت آگیا ہے کہ حکومت لیت و لعل کو تَرک کردے ورنہ ڈر یہ ہے کہ عوام اس مسئلہ کا آزاد حل تلاش کرنے پر مجبور ہو جائیں گے۔
(بشکریہ: ماہنامہ ’’سیارہ‘‘۔ جون ۱۹۷۰ء)
Leave a Reply