
اس بات کو زیادہ سے زیادہ پچاس سال بھی نہیں ہوئے کہ اردو دیکھتے ہی دیکھتے براعظموں میں جنگل کی آگ کی طرح پھیل گئی۔ یہ عمل خاص طور پر برطانیہ میں ظہور پذیر ہوا۔ لندن کو اردو کا تیسرا چوتھا مرکز کہا جانے لگا۔ خوش فہمی کی حد نہیں ہوتی۔ ایسا حقیقت میں جھانکے بغیر یا کوئی سروے کیے بغیر مشہور ہو گیا تھا۔ اس بات کو اس امر سے بھی تقویت پہنچی کہ یورپین مارکیٹ میں شرکت کے بعد اردو برطانیہ کے کئی شہروں کے اسکولوں میں باقاعدہ اردو لٹریچر کے تقرر کے بعد جماعت میں مادری زبان کے طور پر پڑھائی جانے لگی تھی۔ اس میں بھی شک نہیں کہ کسی دور افتادہ جگہ پر ایک اردو بولنے والا ملا تو دوسری جگہ سو دو سو تو کہیں ہزاروں اردو بولنے والے موجود تھے۔ بنا بریں اردو کے خیرخواہوں میں برسوں پہلے کی یونیسکو رپورٹ کو کسی تازہ خبر کی طرح خوب ہوا ملی کہ اردو دنیا کی تیسری بڑی زبان ہے۔ سچی بات یہ ہے کہ دنیا کے بیشتر حصوں پر انگریز راج دوسری جنگِ عظیم کے بعد رفتہ رفتہ ختم ہو گیا۔ مگر حیرت ہے کہ انگریزی زبان کا راج بڑھ گیا۔ اس وقت بھی انگریزی بلاشرکتِ غیرے دنیا کی سب سے بڑی زیادہ بولی جانے والی زبان ہے۔ چینی کا دوسرا نمبر (بلحاظِ آبادی پہلا) اور ہندی کا تیسرا درجہ ہے۔ بعض حلقوں میں اردو کا چھٹا اور بعض رپورٹوں میں چودھواں نمبر ہے۔ اس طرح گراف نیچے جانے کی وجوہات جاننے کی کوشش کی جانی چاہیے۔
برطانیہ میں نائن الیون کے بعد دوسرے ملکوں کی طرح سیاسی منظر بدلا تو اس سے کہیں پہلے اردو کا سماجی و لسانی منظر متاثر ہو چکا تھا۔ یہاں یہ ذکر کر دیا جائے کہ پاکستان کے مختلف علاقوں سے آمد و آبادکاروں کی نئی نسل اپنی ’’مادری‘‘ زبان اردو کے بجائے پنجابی، پوٹھواری، سندھی اور پشتو بتانے لگی۔ پہلے کی طرح مختلف مقامی محکموں کے افسران اردو سیکھنے کی کوشش ترک کر چکے تھے۔ بازاروں میں دکانوں کے اردو سائن بورڈوں کی جگہ انگریزی آگئی تھی۔ دراصل نئی نسل کو انگریزی سے غیریت نہیں رہی تھی اور ملکی حالات کا اثر بھی تھا کہ قومی زبان اب مادری زبان لکھوانے لگے۔ پھر جن اسکولوں میں اردو پڑھائی جارہی تھی، وہاں کلاسوں میں والدین کی عدم دلچسپی کے باعث اردو پڑھنے والے طلبہ کی تعداد میں کمی ہونے لگی۔ اس کا اثر تدریس و تعلیم کے میدان میں بھی پڑا۔ اساتذہ کا نیا تقرر رک گیا بلکہ بتدریج چھانٹی ہونے لگی۔
اردو صحافت ہی نہیں، اخبار بینی یعنی ریڈر شپ میں کوئی خاص اضافہ نہ ہوا۔ چھان بین کی جائے تو یقیناً کمی کے آثار نکلیں گے۔ گو اب اردو کے اخبار اکثر مقامات پر دستیاب ہیں۔ تصنیف و تالیف کا کام جاری ہے۔ مصنف خود دام خرچ کر کے کتابیں چھپوا رہے ہیں۔ یہ بھی تحصیلِ لاحاصل کے درجے میں ڈالنے کے لائق ہے کہ زبان کو اس بنا پر کوئی ترقی نہیں ملی۔ کسی نوعیت کے منفعت کے بغیر کتاب شائع ہوتی ہے، بٹتی ہے۔ بس! ایک زمینی سوال یہ اٹھتا ہے کہ اشاعت کے بعد کتاب پڑھی بھی جاتی ہے؟ یہاں کی کتابوں پر پاک و ہند رسالوں میں تبصرے چھپ جاتے ہیں۔ اﷲ اﷲ خیر سلّا۔ ادبی ذوق اور مشاعرے بڑی عمر کے لوگوں تک سمٹ گئے ہیں۔ نوجوانوں کو اس سے کوئی سروکار نہیں۔ اپنے کلچر اور زبان میں دلچسپی بڑھانے کے لیے (اب) کوئی انجمن یا ادارہ کام نہیں کر رہا۔ نجی اور کمرشل ٹی وی پر نوعمروں / نوجوانوں کے شوز میں کچے پکے شعر پڑھنے کے مقابلے ہوتے ہیں۔ یہ شعری مذاق بگاڑنے کی کوشش کہلانے کی مستحق ہے۔ برطانیہ میں ہنوز چند اچھے اور اعلیٰ درجے کے شاعر زندہ ہیں لیکن نئے لوگ / نسل ان سے کچھ سیکھ رہے ہیں یا نہیں؟ یہ بھی ایک سوالیہ نشان ہے۔ انگریزی میں لکھنے، شعر کہنے والے آگے ہیں۔ جہاں تک نثر نگاری کا تعلق ہے، نثرنگاروں کی تعداد کم ہو رہی ہے۔ اچھی صحافت کے لیے اچھے نثرنگاروں کی ضرورت ہے۔ اچھے اور مقبول روزنامے میں بھی زبان و املا کی نت نئی غلطیاں دیکھنے میں آتی ہیں۔ رپورٹنگ کا مزاج و انداز دیسی ہے اور یہاں کے صحافتی معیار و اصولوں سے مطابقت نہیں رکھتا، جسے اپنانے کی ضرورت ہے۔ یہی غنیمت ہے کہ یہاں دوچار اردو اخبار رسالے شائع ہوتے ہیں۔
برطانیہ کے جن گھروں میں اردو بولی، پڑھی اور لکھی جاتی تھی، وہاں نئی پود اردو بول لے تو دورانِ گفتگو والدین سے لقمہ لیتی ہے کہ انتیس، تیس، چونتیس اور سڑسٹھ اور اڑسٹھ کو انگریزی میں کیا کہتے ہیں؟ ورنہ ان کو کچھ سمجھ میں نہیں آتا۔
پاکستان اور ہندوستان میں برٹش کونسل اور امریکی سفارت خانے اپنے ثقافتی ونگ کے ذریعے مقامی لوگوں، بالخصوص نوجوانوں سے تال میل کے لیے سرگرمیاں اپنے دور رس مقاصد و اغراض کے لیے جاری رکھے ہوئے ہیں۔ کیا ہمارے سفارت خانے اور ہائی کمیشن تقلید میں ایسے سنٹر / مرکز قائم کر کے نئی نسل کو اپنی تہذیب و تمدن اور زبان و ادب کی جانب راغب کر کے ملک و قوم کی خدمت اور مستقبل کے رابطوں کے لیے پل تعمیر نہیں کر سکتے؟
یہ حقیقت ہے کہ یہاں رہ بس جانے والے میاں بیوی جو اپنے لیے اور بچوں کی بہتری کے لیے دن رات کام کرتے اور کماتے ہیں، ان کے پاس اس کام کے لیے یعنی بچوں کو اردو سکھانے، پڑھانے یا محض بولنے کے لیے مثال قائم کرنے کا کوئی وقت نہیں۔ ان کو دوش دینا غیرمناسب ہو گا۔ یہ تو اندرونِ ملک منتخب نمائندوں اور محکمۂ خارجہ کی حکمتِ عملی کا حصہ ہونا چاہیے جو ہمارے پالیسی سازوں کا فرض ہے۔
(بشکریہ: ماہنامہ ’’اخبارِ اُردو‘‘ اسلام آباد۔ نومبر،دسمبر ۲۰۱۴ء)
Leave a Reply