
شام پر امریکا کے فضائی حملے بشارالاسد حکومت کے مخالف جنگجووں کو داعش سے جُڑنے یا الگ اتحاد بنانے کے لیے جلتی پر تیل کا کام کررہے ہیں۔ برطانوی روزنامہ ’’گارجین‘‘ نے حال ہی میں شام کی باغی فوج اور دیگر مسلح گروپس کے ارکان کے انٹرویو کیے، اس میں یہ بات سامنے آئی کہ باغی فوج اور دیگر اسلامی گروپس کے جنگجو داعش میں شمولیت اختیار کررہے ہیں۔ یہ اتحاد شام اور عراق کے علاقوں پر اپنا قبضہ بڑھا رہا ہے اور انہوں نے چند ماہ کے دوران چھ غیرملکی مغویوں کے سر بھی قلم کیے ہیں۔
کچھ مسلح جتھوں نے داعش کی باقاعدہ اطاعت تسلیم کرلی ہے اور دیگر جنگی معاہدے یا اتحاد کررہے ہیں۔ امریکا اور اس کے اتحادیوں کی بمباری کے خلاف لوگوں میں نفرت بڑھی ہے، جس کا نتیجہ یہ نکلا کہ داعش کی مقبولیت میں اضافہ ہوا۔
ابو طلحہ نے چند ماہ پہلے ہی باغی فوج سے علیحدگی اختیار کی ہے اور اب وہ النصرہ فرنٹ اور دیگر مسلح گروپس کے جنگجوؤں سے بات کررہے ہیں تاکہ انہیں بھی ایک پلیٹ فارم پر جمع کیا جاسکے۔ ابوطلحہ کہتے ہیں کہ داعش ایک مقناطیس کی طرح ہے، جو بڑی تعداد میں مسلمانوں کو اپنی جانب کھینچ رہی ہے۔
حمص کے قریب باغی فوج سے الگ ہونے والے چھ سو جنگجووں پر مشتمل گروپ کے رکن اسام مراد کا کہنا ہے کہ داعش کے خلاف امریکا نے جنگی مہم شروع کر رکھی ہے، اب یہ سوال پیدا ہی نہیں ہوتا کہ ان کا گروپ داعش کے خلاف ہتھیار اٹھائے۔
ابوزید نے شام کی سرکاری فوج چھوڑی اور اب ادلب کے قریب باغی فوج کی کمان سنبھال رکھی ہے۔ وہ کہتے ہیں لوگ حیران ہیں کہ جب بشارالاسد کی فوج ان پر گولیاں برسا رہی تھی تو امریکا اور اس کے اتحادی انہیں بچانے کیوں نہیں آئے، لیکن داعش نے کچھ علاقوں پر قبضہ کیا تو امریکا اور اس کے اتحادی دوڑے چلے آئے۔ ابوزید کا کہنا تھا جنگجو گروپس اپنی سرزمین کا قبضہ ختم کرانے کے لیے داعش سے لڑ رہے تھے، لیکن اب صورت حال یہ ہے کہ ان گروپس کا اگر داعش سے اتحاد نہیں تو صلح ضرور ہوگئی ہے۔
اسکائپ اور فون پر انٹرویو کے دوران شام میں برسرِ پیکار جنگجووں نے ’’گارجین‘‘ کو بتایا کہ امریکا کی مہم جوئی کے باعث بشارالاسد کے مخالف گروپس اور جنگجووں کا رویہ تبدیل ہو رہا ہے، اب وہ داعش کے حامی ہیں۔ دمشق کے شمالی علاقے ہما میں باغی فوج سے تعلق رکھنے والے جنگجو عمر ولید اس صورت حال سے خوفزدہ ہیں۔ وہ کہتے ہیں امریکی سرکار سے مایوس بہت سے لوگ آخر کار داعش میں شامل ہو جائیں گے۔ سماجی رابطے کی ویب گاہوں پر نظر ڈالی جائے تو آپ دیکھیں گے کہ بڑی تعداد میں لوگ اور قائدین داعش کے حمایتی بن رہے ہیں۔ عمر ولید کا کہنا تھا بشار الاسد حکومت کے خلاف تین برس سے جاری جنگ کے دوران امریکا نے ہمیں اسلحہ فراہم نہیں کیا۔ اب داعش کے خلاف امریکا کا اسلحہ یہاں پہنچ رہا ہے۔
ابو طلحہٰ کہتے ہیں مارچ ۲۰۱۱ء میں جیل سے رہائی کے بعد انہوں نے فری سیرین آرمی ’’باغی فوج‘‘ میں شمولیت اختیار کی اور دمشق کے مشرقی علاقے غوطہ میں انصار الحق کی کمان سنبھالی۔ جلد باغی فوج کا فریب ان پر کھل گیا۔ انہیں یقین ہوچلا تھا کہ فری سیرین آرمی میدان جنگ میں کمزور اور غیرملکی خفیہ ایجنسیوں کی آلہ کار ہے۔ ایک محاذ پر اُس کی بریگیڈ کے چار جنگجو شدید زخمی ہوئے تو وہ باغی فوج کو چھوڑ کر داعش سے جاملا۔ ابوطلحہٰ نے کہا: ’’اس دن کے بعد، میں نے تہیہ کرلیا کہ آئندہ فری سیرین آرمی کے جھنڈے تلے ایک سیکنڈ کے لیے بھی نہیں لڑوں گا۔ میں نے اپنے اردگرد نظر دوڑائی تو مجھے داعش کے جنگجووں سے بہتر کوئی نظر نہ آیا۔ میں نے اپنے ساتھیوں کو بتایا کہ میں داعش میں شامل ہو رہا ہوں، وہ اس بات کے لیے آزاد ہیں کہ میرے ساتھ آئیں یا اپنے لیے راستے کا انتخاب خود کریں‘‘۔
ابوطلحہ کا کہنا تھا کہ اس کی بریگیڈ کے ۲۰۰ سے زیادہ جنگجووں نے داعش کی اطاعت تسلیم کی، اس وجہ سے اُنہیں باغی فوج کے دیگر گروپس اور شہریوں کی مخالفت کا سامنا بھی کرنا پڑا۔ اسی دوران امریکا اور اس کے اتحادیوں نے شام پر فضائی حملے شروع کردیے۔
ابوطلحہٰ بتاتے ہیں کہ انہوں نے دیکھا کہ جو لوگ داعش میں شمولیت پر انہیں کوس رہے تھے اور حملے کررہے تھے، وہ لوگ اپنی وفاداریاں تبدیل کرکے داعش میں شامل ہوگئے۔ ان میں شام کی باغی فوج کے کچھ کمانڈر اور دیگر جہادی گروپس کے ارکان بھی شامل تھے۔ اب تو عام لوگ بھی داعش کا مطالبہ کررہے ہیں۔
ابوطلحہٰ کا دعویٰ ہے کہ بہت کم لوگوں نے ہی داعش میں شمولیت کا اظہار کھل کر کیا۔ ادلب، حلب، درعا، قلمون اور دمشق کے جنوب میں کئی مسلح گروپس نے خفیہ طور پر داعش کی اطاعت قبول کی ہے۔ اس کے علاوہ شام میں کئی مسلح جتھوں کے رہنما ہمارے ساتھ رابطے میں ہیں تاکہ ایک ہو کر امریکا کی جارحیت کا مقابلہ کیا جائے۔ لیکن ابو طلحہٰ کے ان دعووں کی آزاد ذرائع سے تصدیق نہیں ہوسکی۔
مراد کا تعلق حمص کے قریب باغی فوج کے چھ سو جنگجووں پر مشتمل الرباط بریگیڈ سے ہے، وہ بتاتے ہیں کہ تین ماہ پہلے امریکا کی مدد سے چلنے والی تحریکِ حزم نے داعش کے خلاف اتحاد میں شمولیت کی پیشکش کی تھی، جس کے بدلے جدید اسلحہ اور گولہ بارود فراہم کیا جاتا لیکن یہ پیشکش مسترد کر دی گئی۔
مراد کا کہنا ہے کہ ہمیں اسلحہ ہی نہیں، خوراک کی بھی اشد ضرورت ہے، اس کے باوجود یہ پرکشش پیشکش مسترد کی گئی۔ امریکا کی فضائی کارروائیوں کے بعد یہ ممکن ہی نہیں کہ ان کا گروپ آئی ایس آئی ایس سے لڑسکے گا۔
مراد اور اُس کے ساتھی داعش کے جنگجووں کی حمص آمد کا انتظار کرتے رہے۔ وہ کہتے ہیں کہ داعش حمص کے نواحی علاقوں تک پہنچی تو ان کا گروپ اگلے محاذوں پر مقابلہ کرے گا۔ مراد سمجھتے ہیں کہ امریکا کی قیادت میں بننے والا فوجی اتحاد داعش کے خلاف نہیں، اسلام کے خلاف ہے۔
دیگر اسلامی ملیشیا کے ارکان بھی داعش کا حصہ بن رہے ہیں۔ شام کے شمال مغربی شہر ادلب میں جیش المجاہدین، الشام بریگیڈ، احرار الشام بریگیڈ اور النصرہ فرنٹ ۲۰۱۴ء سے پہلے داعش کے مدمقابل تھے، اب وہ سب اتحاد کی باتیں کررہے ہیں۔ ادلب میں باغی فوج کے ترجمان علی سعید کا کہنا ہے کہ ایک ہفتے کے دوران النصرہ فرنٹ کے ایک ہزار سے زیادہ جنگجووں نے داعش میں شمولیت اختیار کی۔
ابو طلحہٰ کہتے ہیں کہ النصرہ فرنٹ کے قائدین سے اس معاملے پر بات کی گئی کہ وہ داعش کا ساتھ دینے کا اعلان کریں تاکہ بشارالاسد اور دیگر ظالم حکمرانوں کو شکست دینے کے لیے ایک قوت بن سکیں۔ لیکن النصرہ فرنٹ کے بعض سینئر رہنما اتحاد کے لیے کسی مناسب وقت کا انتظار کررہے ہیں۔ وہ اُن خطرات کے بارے میں مزید محتاط ہوگئے ہیں جو مسلمانوں کے خلاف امریکا کی نئی صلیبی جنگ کے بعد سامنے آئیں گے۔
شہری ہوں یا جنگجو، ’’گارجین‘‘ کو انٹرویو دینے والے ان افراد کا رجحان داعش کی جانب نظر آیا۔ ابوطلحہٰ کا اس بارے میں کہنا ہے کہ آئی ایس آئی ایس کی حمایت میں اضافے کی وجہ سماجی بہبود کے اقدامات اور لوگوں کو تحفظ کا احساس دلانا ہے۔
انہوں نے بتایا کہ رقہ شہر میں عوام کو مفت کھانا فراہم کرنے کے لیے ۵۷ ہوٹل کھولے گئے ہیں، جہاں روزانہ تین وقت کا کھانا مفت دیاجاتا ہے، تاکہ کوئی چور، لٹیرا یہ بہانہ نہ کرسکے کہ اس نے اپنے بچوں کا پیٹ بھرنے کے لیے چوری کی۔ اس کے علاوہ رقہ کے شہریوں کو مفت ایندھن بھی فراہم کیا جارہا ہے۔ شرعی قوانین پر عمل درآمد کے باعث رقہ اور داعش کے زیر انتظام دیگر علاقوں میں جرائم کی شرح تیزی سے گری ہے۔
دمشق کے قریبی شہر غوطہ میں النصرہ فرنٹ بڑی قوت ہے، لیکن اِس شہر کے رہنے والوں کا کہنا ہے کہ داعش کے چند سو جنگجو بھی یہ محاذ فتح کرسکتے ہیں۔ ایک ہوٹل کے ملازم فاضل علی کو اس بات کا پختہ یقین ہے کہ جس دن داعش والوں نے غوطہ کی طرف بڑھنے کا اعلان کیا تو تمام مخالفت کے باوجود سب مسلح جتھے اور جنگجو آئی ایس آئی ایس کے ساتھ ہوں گے۔ فاضل علی کہتے ہیں ہم اس دن کا انتظار نہیں کرسکتے جب داعش غوطہ میں ہوں۔
ابوطلحٰہ کا کہنا ہے کہ داعش کے پاس نئے جنگجووں کے لیے بڑی تعداد میں اسلحہ نہیں۔ الجزائر، مراکش اور یمن کے جنگجو بڑی تعداد میں داعش میں شامل ہورہے ہیں۔ جلد ہی اسلامک اسٹیٹ کے جنگجو غزہ اور پھر ایران میں ہوں گے۔ لوگوں کو اس بات کا احساس ہے کہ داعش سنیوں کا تحفظ کررہی ہے۔
ابو طلحٰہ بتاتے ہیں کہ داعش کی حمایت میں اضافہ ہونا ہی تھا۔ لوگوں کا دم گھٹنے لگا ہے اور وہ مزید برداشت نہیں کرسکتے۔ یہ بالکل ایسا ہی ہے کہ جب آپ کسی بلی کو تنگ کرتے ہیں تو وہ پنجے مارتی ہے۔ امریکا اور اس کے اتحادی مسلمانوں کا خون بہا رہے ہیں اور قتل عام کررہے ہیں۔ ہم کیوں اس پر خاموش رہیں؟
(مترجم: سیف اﷲ خان)
“US air strikes in Syria driving anti-Assad groups to support Isis”.
(“The Guardian”. November 23, 2014)
Leave a Reply