
پاک امریکا تعلقات کے حوالے سے بہت سی اور متضاد باتیں کہی جارہی ہیں۔ سرکاری سطح پر دعویٰ کیا جارہا ہے کہ دونوں ممالک کے تعلقات جتنے اچھے اس وقت ہیں ، کبھی نہیں رہے۔ حقیقت یہ ہے کہ دونوں ممالک محض خوشگوار تعلقات کا ڈھونگ رچا رہے ہیں۔ اگر سطح سے ذرا بھی نیچے جاکر دیکھا جائے تو تعلقات کی نوعیت سب پر بے نقاب ہو جاتی ہے۔
پاکستان میں جو سیاست دان خود کو جمہوریت کا سب سے بڑا علم بردار قرار دیتے ہیں ان کا یہ حال ہے کہ کوئی ان کی بات سننے کو تیار نہیں۔ ان کی لائی ہوئی جمہوریت بہت سے نئے سیاست دانوں کے لیے ذرا بھی قابل قبول دکھائی نہیں دیتی۔ ناقدین کہتے ہیں کہ پاکستان پر وہ لوگ حکومت کر رہے ہیں جن کی منظوری خود امریکی حکومت نے دی ہے۔ یہ سیٹ اب امریکا اور برطانیہ کا لایا ہوا ہے۔ پرویز مشرف نے اقتدار اس بنیاد پر چھوڑا تھا کہ ان کا مواخذہ نہیں ہوگا اور رخصتی پر گارڈ آف آنر بھی دیا جائے گا۔ ماحول کچھ ایسا تھا کہ صرف پاکستان پیپلز پارٹی پرویز مشرف کا احترام کرنے کے لیے آمادہ دکھائی دی کیونکہ اقتدار اسی کو مل رہا تھا۔
وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی نے، جن کے امریکی ہم منصب ہلیری کلنٹن سے خاصے خوشگوار تعلقات ہیں، کئی بار کہا ہے کہ حالیہ سیلاب میں امریکا نے بہت عمدہ کردار ادا کیا ہے اور پاکستانیوں کے دلوں میں نرم گوشہ پیدا کیا ہے۔ ان کی یہ بات امریکیوں اور بالخصوص ہلیری کلنٹن کے لیے بہت اچھی ہے۔ مگر یہ بات نہیں بھولی جاسکتی ہے کہ دونوں ممالک کے تعلقات نشیب و فراز کے مراحل سے گزرتے رہے ہیں۔ ایک وقت وہ بھی تھا کہ پرویز مشرف نے نائن الیون کے بعد صدر جارج واکر بش کی صرف ایک کال پر دہشت گردی کے خلاف جنگ میں امریکا اور یورپ کے ساتھ کھڑے ہونے کا فیصلہ کرلیا۔ انہوں نے طالبان کا ساتھ پلک جھپکتے میں چھوڑ دیا، حالانکہ وہ خود کہہ چکے تھے کہ طالبان ایک زمینی حقیقت ہیں جنہیں نظر انداز نہیں کیا جاسکتا۔
پاک امریکا تعلقات کو بہتر بنانے کے لیے کیے جانے والے اقدامات کی تاثیر ختم کرنے کے لیے شمالی وزیرستان پر امریکی ڈرون حملے کافی ہیں۔ ان حملوں میں بڑے پیمانے پر ہلاکتوں سے پاکستانی سخت مشتعل ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ امریکی ایک ہاتھ سے کھلا رہے ہیں اور دوسرے ہاتھ سے پیٹھ میں چھرا گھونپ رہے ہیں۔
وکی لیکس نے افغانستان اور عراق کے بارے میں جو لاکھوں خفیہ دستاویزات جاری کی ہیں ان کی روشنی میں یہ بات ثابت کی جاسکتی ہے کہ امریکیوں نے عراقیوں پر تشدد بھی کیا اور انہیں قتل بھی کرتے رہے۔ اب تک یہ کہا جارہا تھا کہ عراق کی شہری ہلاکتوں کا ریکارڈ دستیاب نہیں، مگر وکی لیکس نے ثابت کردیا کہ یہ بھی دروغ گوئی تھی۔ واشنگٹن میں امریکی حکام سے مذاکرات کرنے والے پاکستانی حکام کو یقین تھا کہ وکی لیکس کے انکشافات سے امریکی ضرور دباؤ میں ہوں گے اور ان سے چند ایک باتیں منوانا آسان ہو جائے گا مگر انہیں اندازہ نہیں کہ امریکا کی جانب سے دی جانے والی امداد دراصل پوسٹ ڈیٹیڈ چیک کی مانند ہے یعنی اس پر مستقبل کی تاریخ درج ہوتی ہے۔ اس کا مطلب یہ ہوا کہ اس چیک کو کسی بھی وقت منسوخ کیا جاسکتا ہے۔
شمالی وزیرستان میں فوجی آپریشن کے امریکی مطالبے میں اب شدت آگئی ہے۔ یہ بات مبصرین کے لیے بہت حیرت انگیز ہے۔ امریکا کو اچھی طرح اندازہ ہے کہ قبائلیوں سے نمٹنا کس درجے کی اولوالعزمی کا متقاضی ہے۔ جن لوگوں سے نیٹو کے تحت امریکی اور یورپی افواج نہ جیت سکیں وہ بھلا پاک فوج سے کیونکر ہار مانیں گے؟
واشنگٹن پوسٹ کے رپورٹر اور تجزیہ نگار باب وڈ ورڈ نے اپنی کتاب ’’اوباماز وار‘‘ میں لکھا ہے کہ امریکا نے پاکستان کے قبائلی علاقوں میں وہی پالیسی اختیار کرنا شروع کی ہے جو اس نے عراق میں اپنائی تھی۔ پاکستان میں امریکا کا ایک انڈر کور یونٹ موجود ہے جو کسی کو بھی قتل کرنے کی اجازت کا حامل ہے۔ مگر یہ بات کم لوگ سمجھتے ہیں کہ جن کا ارادہ مرنے کا ہو اور جو موت کو گلے لگانے کے لیے تیار ہوں ان کا کیا بگاڑا جاسکتا ہے؟ امریکی فوجی اور دیگر حکام اعلیٰ تعلیم یافتہ ہیں، انہیں جدید ترین طریقوں سے تربیت دی گئی ہے اور ان کے پاس وسائل بھی بہت ہیں۔ مگر جن کے دل موت کے خوف سے بیگانہ ہوں ان سے نمٹنا آسان نہیں ہوتا۔
افغانستان کو اگر عالمی طاقتوں کا قبرستان کہا جاتا ہے تو اس میں ایسا کچھ غلط بھی نہیں۔ منگول، مغل، برطانیہ، سوویت یونین سبھی نے یہاں ناکامی کا منہ دیکھا ہے اور اب امریکا بھی ناکامی کا منہ دیکھ رہا ہے۔ افغانستان وہ ملک ہے جہاں کم و بیش ۱۰۰ سال بعد وہ صورت حال واضح ہوتی ہے جسے کسی حد تک فتح قرار دیا جاسکتا ہے۔
(بشکریہ: ’’الجزیرہ ٹی وی‘‘ ۲۳؍ اکتوبر ۲۰۱۰ء)
Leave a Reply