پاکستانی میڈیا میں نقب لگانے کا امریکی فیصلہ

ایک ایسے مرحلے پر کہ جب نظریہ سازش پوری آب و تاب کے ساتھ بیشتر معاملات میں کارفرما ہے ، امریکی صدر بارک اوباما نے افغانستان اور پاکستان میں دہشت گردی سے بہتر طور پر نمٹنے کے لیے ’’میسیج مشین‘‘ کی اوور ہالنگ کا فیصلہ کیا ہے۔ دہشت گردی کے خلاف جنگ میں طالبان اور القاعدہ کو اس اعتبار سے بالا دستی حاصل رہی ہے کہ وہ امریکا کے خلاف پروپیگنڈا کسی رکاوٹ اور تاخیر کے بغیر کرتے رہے ہیں۔ دوسری جانب امریکی حکام کو اپنا ہر پیغام پہلے واشنگٹن سے کلیئر کرانا پڑتا ہے۔ امریکی حکام دہشت گردوں کے خلاف اپنا پیغام زیادہ سے زیادہ لوگوں تک پہنچانے کے لیے ایس ایم ایس، معاشرتی روابط اور دیگر غیر روایتی میڈیا سے استفادے کا سوچ رہے ہیں۔ انہیں یقین ہے کہ اس صورت میں امریکی پیغام تیزی سے اور زیادہ لوگوں تک پہنچ سکے گا۔ دہشت گردوں کی جانب سے جو گمراہ کن باتیں پھیلائی جارہی ہیں ان کے تدارک کے لیے فوری جواب دینا ناگزیر ہے۔ کسی بھی معاملے پر محض تبصرہ جاری کرنے سے کہیں بڑھ کر اصل پیغام کو آگے بڑھانے پر کام ہو رہا ہے۔ پاکستان اور افغانستان کے لیے امریکا کے خصوصی نمائندے رچرڈ ہالبروک کے مشیر مواصلات وکرم سنگھ کا کہنا ہے کہ ہم چاہتے ہیں امریکا بے بنیاد خبروں کا ڈٹ کر سامنا کرے۔ کابل اور اسلام آباد میں امریکا کے مواصلاتی عملے میں نمایاں اضافہ کیا جارہا ہے گوکہ حتمی تعداد کا اب تک تعین نہیں کیا گیا۔

۲۰۱۰ء کے دوران پاکستان اور افغانستان میں مواصلات سے متعلق منصوبوں کے لیے امریکی دفتر خارجہ نے ۲۵ کروڑ روپے مختص کیے ہیں جبکہ محکمہ دفاع (پنٹاگون) اور دیگر محکموں نے بھی کچھ نہ کچھ مختص کر رکھا ہے۔ میڈیا کے امریکی ماہرین نے ’’امریکا نواز پروپیگنڈا‘‘ کی اصطلاح استعمال کرنے سے گریز کرتے ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ افغانستان اور پاکستان میں میڈیا سے وابستہ افراد کو شدت پسندوں کے خلاف میڈیا کی جنگ میں اگلے مورچوں پر رکھا جائے گا۔ ہالبروک کے سینئر مشیر ایشلے بومر کا کہنا ہے کہ ہم نے پاکستانیوں پر واضح کردیا ہے کہ ہم یہاں کوئی امریکی ریڈیو اسٹیشن قائم نہیں کرنا چاہتے بلکہ مقامی ریڈیو اسٹیشن قائم کریں گے جو مقامی لوگوں کے لیے ہوگا اور چلانے والے بھی مقامی ہی ہوں گے۔ ایک اور امریکی افسر کا کہنا ہے کہ ہم پروپیگنڈا نہیں چاہتے بلکہ چند ایک امور میں پائی جانے والی غلط فہمیوں کو دور کرنے کے خواہش مند ہیں۔ اس کا کہنا تھا کہ بعض معاملات میں ریکارڈ کی درستی ناگزیر ہے۔ ان تمام کوششوں کا بنیادی مقصد اس بات کو یقینی بنانا ہے کہ امریکی حکومت کی جانب سے جاری کی جانے والی معلومات اور بیانات جلد از جلد اور مقامی زبانوں میں عوام تک پہنچیں۔ امریکی حکومت اپنا موقف بیان کرنے کے لیے بین الاقوامی میڈیا کے ساتھ اب پاکستان میں مقامی میڈیا آئوٹ لیٹس، ریڈیو اور ٹی وی چینلز، ٹاک شو کے میزبانوں اور چھوٹے اخبارات تک بھی رسائی کو ترجیح دے رہا ہے۔ افغانستان میں بھی یہی کیا جارہا ہے۔ امریکی سفیر کارل آئکنبیری جب بھی کابل سے باہر مختلف منصوبوں کا جائزہ لینے جاتے ہیں تو ان کے ساتھ ہیلی کاپٹرز میں بڑی تعداد مقامی صحافیوں کی ہوتی ہے۔

امریکی حکومت نے افغانستان میں کسانوں کی رہنمائی کے لیے ریڈیو پروگرامنگ کے فنڈز بھی جاری کیے ہیں۔ ان پروگراموں کے ذریعے کسی بھی فصل کی تیاری کے حوالے سے کسانوں کی بھرپور رہنمائی کی جاتی ہے۔

امریکا نے تبادلوں کے پروگرام کے لیے بھی فنڈ مختص کیے ہیں۔ اس پروگرام کا بنیادی مقصد عوامی سطح پر رابطوں کو بہتر بنانا ہے۔ اسی پروگرام کے تحت پاکستانی صحافیوں کے ایک وفد نے حال ہی میں امریکا کا دورہ کیا ہے۔

امریکا نے افغانستان میں کرپشن روکنے کے لیے موبائل فون کو بھی عمدگی سے استعمال کیا ہے۔ پولیس کی تنخواہیں موبائل فون کے ذریعے ادا کرنے کی صورت میں کرپشن پر قابو پانے میں خاصی مدد ملی ہے۔ افغان پولیس اہلکاروں نے تسلیم کیا ہے کہ اب انہیں پہلے کے مقابلے میں ۳۰ فیصد زائد رقم مل رہی ہے۔
امریکی محکمہ دفاع نے بتایا ہے کہ پاکستان میں ایک سوشل نیٹ ورکنگ سسٹم کے لیے فنڈز فراہم کیے گئے ہیں۔ گزشتہ سال پہلے دو کروڑ چارلیس لاکھ (موبائل فون) پیغامات کے لیے ادائیگی کی گئی۔ مزید
۱۲ ؍کروڑ پیغامات بھیجے جاچکے ہیں۔ روزانہ ۸ ہزار افراد اس سوشل نیٹ ورکنگ سسٹم کے لیے سائن اپ کر رہے ہیں۔ بومر کا کہنا ہے کہ امریکا مقامی لوگوں کو شدت پسندوں کے خلاف رائے کے اظہار کا موزوں فورم دینا چاہتا ہے۔

امریکا میں ایسے میڈیا ماہرین کی کمی نہیں جو میڈیا کے حوالے سے امریکا کے بدلی ہوئی سوچ کی کامیابی کے بارے میں شکوک رکھتے ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ امریکا نے پہلے بھی اپنی ساکھ بہتر کرنے کے حوالے سے متعدد اقدامات کیے ہیں تاہم ان سے کوئی فائدہ نہیں پہنچا۔ پبلک ڈپلومیسی کنسلٹنٹ میٹ آرم اسٹرانگ کا کہنا ہے کہ ’’یہ تصور اور ادراک کی جنگ ہے۔ امریکا غیر فعال یا کم فعال ہونے کے باعث اس جنگ میں ہار رہا ہے۔ اگر لوگوں کو پتا ہی نہ ہو کہ آپ جیت رہے ہیں تو سمجھ لیجئے کہ آپ نہیں جیت رہے۔‘‘

بروکنگز انسٹی ٹیوشن کی فیلو وینڈا فیلبیب برائون کا کہنا ہے کہ افغانستان اور پاکستان میں امریکا کے بارے میں شدید منفی جذبات اور تصورات پائے جاتے ہیں۔ امریکی پالیسیوں نے خاصا ابہام پیدا کیا ہے جس کے باعث اب ان ممالک میں امریکا کا امیج درست نہیں کیا جاسکتا۔ وینڈا مزید کہتی ہیں کہ امریکا نے گزشتہ سال پاکستان کو سالانہ ڈیڑھ ارب ڈالر کی امداد دینے کا اعلان کیا۔ اس خبر کے پیش منظر میں پاکستانی میڈیا اور عوام کو امریکا کے بارے میں مثبت رائے کا اظہار کرنا چاہیے تھا۔ مگر جو کچھ ہوا وہ اس کے برعکس تھا۔ امریکی امداد کو شک کی نگاہ ہی سے دیکھا گیا۔ رچرڈ ہالبروک کے مشیر وکرم سنگھ کا کہنا ہے کہ امریکا کو اس معاملے میں ہمت ہارنے کی ضرورت نہیں۔ اگر امریکا اپنی سوچ بدلے گا تو دوسروں کو بھی بدلنی پڑے گی۔ اگر وہ دوستی کی طرف بڑھے گا تو دوسرے بھی دوستی کو ترجیح دیں گے۔

(بحوالہ: ’’رائٹرز‘‘۔ ۵ مارچ ۲۰۱۰ء)

Be the first to comment

Leave a Reply

Your email address will not be published.


*