امریکی انتخابات کی مہم
بوسٹن‘ امریکا میں ڈیمو کریٹک نیشنل کنونشن میں کئی ڈیموکریٹس کو جان کیری کی تقریر سے غالباً مایوسی ہوئی ہے۔ (جان کیری آنے والے امریکی صدارتی انتخابات میں ڈیمو کریٹک پارٹی کے امیدوار ہیں)۔ بعض شرکا نے اس کنونشن کو ایسا ’’تماشا‘‘ قرار دیا جس کا آج کے سیاسی حقائق سے واسطہ نہیں ہے۔ جنگ عراق‘ دہشت گردی کے خلاف لڑائی‘ امریکا میں ۲۰ فیصد متمول طبقہ اور کم تر حیثیت والی آبادی کے درمیان خلیج۔ طبی نگہداشت اور دیگر سماجی پروگراموں کے بجٹ میں بش نظم و نسق کی جانب سے تخفیف آج کے اہم مسائل ہیں۔ جان کیری نے اپنے حریف صدر بش پر راست تنقید سے مبینہ طور پر گریز کیا۔ دوسری جانب بش کو خود ہوم لینڈ سکیورٹی ڈپارٹمنٹ کے چیف ٹام رِج کی تنقید کا سامنا ہوا۔ رِج نے نیویارک اور واشنگٹن پر دہشت گردوں کے امکانی حملہ کے اندیشہ کے تحت سخت حفاظتی انتظامات کا حکم دیا ہے۔ اب جبکہ انتخابی مہم شدت اختیار کرتی جارہی ہے‘ جان کیری کے مبہم رویہ نہ صرف عوام بلکہ سیاسی مبصرین‘ بے لاگ تجزیہ نگار اور ذرائع ابلاغ بھی تنقید کرنے لگے ہیں۔ یہ بھی اطلاع ہے کہ اوپینین پول میں کیری کی مقبولیت کم ہو گئی ہے۔ نیویارک میں ری پبلکن نیشنل کنونشن منعقد ہونے والا ہے۔ اس طرح داخلی کشیدگی بڑھ گئی ہے۔ اس شہر میں اپوزیشن نے زبردست احتجاج کے منصوبے بنائے ہیں حالانکہ میئر مائیکل یلمبرگ نے بش نظم و نسق کے خلاف اپوزیشن کی آواز کو دبانے کی کوشش کی ہے۔ اس سبب یلمبرگ کو بش حکومت کی کٹھ پتلی کا نام دیا جارہا ہے۔ اس طوفانی انتخابی مہم کے نتیجہ میں دیکھنا یہ ہے کہ آیا امریکا میں ’’حکومت کی تبدیلی‘‘ عمل میں آتی ہے؟ یہ تبدیلی اقوامِ عالم پر اپنے اثرات مرتب کرے گی بالخصوص جنگ عراق پر اور ان ممالک پر ’یہ امکانی تبدیلی‘ اثر انداز ہو گی جنہوں نے دہشت گردوں کو اسپانسرس یا سرپرست قرار دیا ہے۔ یہ سوال بھی پیدا ہوتا ہے کہ آیا کیری اور ان کے رفیق محض زبانی جمع خرچ تو نہیں کر رہے ہیں؟ وہ خارجہ پالیسی میں حقیقی معنی میں زبردست تبدیلی چاہتے ہیں یا بش کے جنگی ایجنڈہ کو جاری رکھنا چاہتے ہیں؟ بوسٹن کنونشن میں شریک بعض اہم ڈیموکریٹک قائدین کا خیال ہے کہ یہ ’’جنگ بازوں‘‘ کا کنونشن تھا جو عملاً بش ایجنڈہ کی حمایت کرتے ہیں لیکن منافقانہ چال چلتے ہوئے ڈیمو کریٹک ایجنڈہ پر عمل کا دعویٰ کرتے ہیں۔ باعتبار مجموعی ڈیموکریٹک پارٹی ’’شوبوائز‘‘ (Show boys) کی پارٹی بن کر رہ گئی ہے۔ جیمس رِج وے نے اخبار ویلیج وائس (مورخہ ۲۷ جولائی ۲۰۰۴ء) میں لکھا ہے کہ ’’(ڈیمو کریٹک قائدین کی) تقاریر سے‘‘ بش کے خلاف شدید تنقیدی ریمارکس حذف کر دیے گئے ہیں اور صرف رسمی تنقیدی ریمارکس رکھے گئے ہیں۔ بوسٹن کنونشن کی اولین رات ہی کو معلوم ہو گیا تھا کہ اس پارٹی کی کوئی اساس نہیں ہے۔ تقاریر ہیں‘ عمل نہیں ہے۔ بش سے نفرت کا اظہار کرنے والی اس پارٹی کے پاس صرف نعرے ہیں۔ وہ متوسط طبقہ کی بہبود کی حامی ہونے کا دم بھرتی ہے۔ ڈیوڈ بروکس نے نیویارک ٹائمز (مورخہ ۲۱ جولائی ۲۰۰۴ء) میں لکھا ہے کہ ڈیمو کریٹک کنونشن، ’’عقابوں کا جمِ غفیر‘‘ تھا۔ ’’جنرل جان شالیا شویلی نے فوج کی تعداد میں اضافہ کی بات کی۔ جو لیبرمین نے طاقتور اور مثالی بین الاقوامی نظام کی ضرورت پر زور دیا‘ جو بیڈن نے اپنی تقریر میں کہا کہ آزادی اور ریڈیکل بنیاد پرستی کے درمیان زندگی اور موت کی کشمکش میں ہمیں جینا ہے۔ (کیا یہ مسلمانوں پر بالواسطہ حملہ ہے؟) جنرل ویسلی کلارک نے کہا کہ نیوکلیئر اسلحہ کے خواہاں دہشت گردوں کے خلاف ہم ’’موت اور زندگی‘‘ کی لڑائی لڑ رہے ہیں ’’ایسی تقاریر تو بش کے ری پبلکن کیمپ میں بھی سنائی دیتی ہیں۔ بروکس نے نتیجہ اخذ کیا ہے کہ کیری نظم و نسق میں مستقبل کے امیدوار‘ سخت گیر موقف کے حامل درمیانی بازو سے تعلق رکھنے والے ہوں گے۔ یہ متمول طبقہ کے موقع پرست لوگ ہوں گے اور عوامی جمہوری ایجنڈہ کو فروغ دینے والے نہیں ہوں گے۔ سعودی عرب اور القاعدہ سے بش کے تعلق کو بے نقاب کرنے والی ایک فلم کا حوالہ دیتے ہوئے رِج وے نے لکھا ہے کہ ’’مائیکل مور کی فلم ’’فارن ہائٹ ۱۱/۹‘‘ کو دیکھنے کے بعد ہم ایسے امیدوار یا ایسی پارٹی کو ووٹ کیوں دیں جو عملاً مزید جنگ کا وعدہ کرتی ہے اور جو محنت کش طبقہ کی اقدار اور نئی معاملت پروگراموں پر تنقید کرتی ہے؟‘‘ سابق صدر امریکا فرنکلین ڈی روزیولٹ (آنجہانی) تو محنت کش طبقہ کے حامی تھے۔ نیویارک ٹائمز کے کالم نگار باب ہربرٹ نے ہنری آدم کے حوالے سے اس اخبار کی اشاعت (مورخہ ۲ اگست ۲۰۰۴ء) میں لکھا ہے کہ ’’عملی سیاست حقائق کو نظرانداز کرنے کا نام ہے‘‘۔ ڈیمو کریٹک کنونشن میں وعدوں اور طفل تسلیوں کی کوئی کمی نہیں تھی‘‘۔ امریکا کو درپیش حقائق اتنے سنگین ہیں کہ ان پر برسرِ عام بحث نہیں کی جاسکتی۔ پرجوش ہجوموں (رائے دہندوں) سے کوئی بھی لیڈر یہ کہنا نہیں چاہتا کہ ملک (معاشی) بحران سے دوچار ہے جس سے نکلنے میں کئی دہائیاں درکار ہوں گی۔ امیدوار ایک دوسرے سے سبقت لے جانے کی کوشش کرتے ہوئے عوام کو سبز باغ دکھا رہے ہیں۔ کیری کا میلان بش نظم و نسق کو خوش کرنے بظاہر ری پبلکن ایجنڈہ کی طرف معلوم ہوتا ہے جبکہ بش اور ڈیک چینی (نائب صدر امریکا) ڈیمو کریٹس کی ’’قنوطیت پسندی‘‘ پر تنقید کرتے ہیں۔ ہربرٹ نے لکھا ہے کہ ’الجھن اور سنگین مسائل کے ان حالات میں رائے دہندگان، بہتر ہے کہ اپنے گھروں میں رہیں‘‘۔ عراق کی حالت پر غور کیجیے۔ نہ بش جانتے ہیں اور نہ کیری جانتے ہیں کہ اس خوفناک مہم جوئی میں اب کیا کرنا ہے۔ اس مہم (جنگ) میں تو‘ اب تک زائد از ۹۰۰ امریکی اور ہزاروں بے قصور عراقی شہری ہلاک ہو چکے ہیں۔ اس جنگ کے سبب امریکا کا سرکاری خزانہ خالی ہو رہا ہے اور مشرقِ وسطیٰ میں مزید عدم استحکام پیدا ہو رہا ہے۔ عراق میں جمہوریت کی مقبولیت اور مشرقِ وسطیٰ میں جمہوریت کے پھیلائو کی امیدوں پر پانی پھر گیا ہے۔ دھماکوں‘ اغوا اور سرقلم کرنے کے خوفناک واقعات پیش آرہے ہیں۔ امریکی سپاہیوں کی واپسی کی حکمتِ عملی کو جیسے فراموش کر دیا گیا ہے۔ مسئلہ افغانستان کا تذکرہ (بش تو کجا) کیری بھی اب نہیں کر رہے ہیں۔ حال تک بھی امریکی عہدیدار یہ دعویٰ کر رہے تھے کہ فیصلہ کن فتح حاصل ہو گئی ہے۔ بش نظم و نسق یہ راگ الاپ رہا تھا کہ افغان خواتین کو طالبان کے چنگل سے آزادی دلا دی گئی ہے‘ کامیابی کے دعوے قبل از وقت ہیں۔ نہ صرف یہ کہ طالبان لیڈر ملا عمر اور القاعدہ لیڈر اسامہ بن لادن کا پتا نہیں چلا بلکہ اغوا اور ہلاکت کے اندیشوں کے تحت حکومت امریکا نے اپنے شہریوں کو افغانستان کا سفر کرنے کے خلاف وارننگ بھی دی ہے۔ ہربرٹ نے بطور طنز کہا ہے کہ یہ ’’قدرے کامیابی‘‘ ہے۔ افغانستان کے ایک بڑے حصہ پر جنگجوئوں اور باغیوں کا قبضہ ہے۔ صرف افیون کی پیداوار میں اضافہ ہو رہا ہے۔ ڈیمو کریٹک کنونشن میں اور بھی کئی بڑے نقائص دیکھے گئے جن کی روشن خیال ذرائع ابلاغ نے متفقہ طور پر مذمت کی ہے۔ روزگار کے مسئلہ پر اس کنونشن میں غور نہیں کیا گیا۔ لاکھوں عوام بے روزگار ہیں۔ ان کے لیے روزگار کے کافی مواقع نہیں ہیں لیکن صدارتی امیدوار اس حقیقت کو کبھی عوام کے سامنے نہیں لائیں گے۔ امریکی عوام کو آج منفعت بخش روزگار کی شدید ضرورت ہے۔ بیروزگاری کے انسداد کا کوئی جامع منصوبہ مرتب نہیں کیا گیا ہے۔ اس صورتحال سے کئی خاندان متاثر ہیں۔ جان کیری کی اس امید افزا تقریر کے باوجود کہ وہ دنیا بھر میں امریکا کی مقبولیت یا عظمتِ رفتہ کو بحال کریں گے‘ قومی معیشت میں سدھار اور عوامی بہبود جیسے زبردست مسائل حل طلب ہیں۔ آج امریکا کو صحیح قیادت کی ضرورت ہے۔ ہربرٹ لکھتے ہیں ’’ہم بدقسمتی سے خام خیالی اور جلد بازی کا عادی سماج بن گئے ہیں۔ ہمارے قائدین کو چاہیے کہ وہ حقیقت پسندی کا مظاہرہ کریں‘‘۔ موجودہ حالات میں جان کیری اور امیدوار نائب صدارت ایڈورڈس کا یہ تیقن کہ ’’امداد آرہی ہے‘‘ طفلانہ تسلی معلوم ہوتا ہے۔ آئندہ نومبر میں ہونے والے امریکی صدارتی انتخابات میں گزشتہ انتخابات کی مہم سے زیادہ شور شرابہ ہونے کا اندیشہ ہے۔ ری پبلکن قائد (فلوریڈا) و صدر نشین ٹیکنالوجی سب کمیٹی (اصلاحات کمیٹی ایوانِ نمائندگان) آدم پٹنام کا خیال ہے کہ آنے والے انتخابات بجائے خود شکست ہوں گے (امیدواروں کی کامیابی و ناکامی الگ بات ہے)۔ ۲۰۰۲ء میں امریکی کانگریس نے ’’ہلپ امریکا ووٹ ایکٹ‘‘ منظور کیا تھا۔ بعض رائے دہندوں کا خیال ہے کہ ’’کمپیوٹرائزڈ ووٹنگ مشینوں سے‘ صورتحال اور بھی بدتر ہو گئی ہے۔ شفافیت باقی نہیں رہی‘ اس سے تو پیپر بیلٹ سسٹم غنیمت تھا‘‘۔ لیکن بعض کا خیال ہے کہ پیپر بیلٹ سسٹم ایک صد سالہ قدیم ہے۔
امریکی کانگریس میں اب ری پبلکن ارکان کا غلبہ ہے۔ دوسری طرف دہشت گردوں کے امکانی حملوں کی خلاف سخت حفاظتی انتظامات کی اپیلیں کی جارہی ہیں۔ اس طرح موجودہ حکومت امریکا کے خلاف عوامی رائے کو متحرک کرنا مشکل نظر آتا ہے۔ ڈیوڈ بروکس نے بوسٹن ڈیمو کریٹک کنونشن کو ’’تباہ کن‘‘ قرار دیا ہے اور کہا ہے کہ کیری نے اپنی تقریر میں اصل مسائل سے گریز کیا ہے۔ بڑی شرم کی بات ہے کہ مسئلہ عراق کا ذکر نہیں کیا گیا۔ ’’عراق میں جمہوریت‘‘ کے مسئلہ سے بھی صرفِ نظر کیا گیا۔ ایسا معلوم ہوتا ہے کہ عراق سے امریکی سپاہیوں کی واپسی کا کوئی قابلِ عمل منصوبہ ہے ہی نہیں‘‘۔ کیری ہر ایک کو خوش کرنے کی کوشش کر رہے ہیں۔ کبھی وہ خود بھی عراق کے خلاف جنگ کے حامی تھے۔ اب ماضی کے پس منظر میں ویت نام کے تعلق سے کیری کے خیالات کو مزید کریدا جارہا ہے۔ وہ گزشتہ برسوں کے دوران حکومت امریکا کے ہر خارجہ پالیسی فیصلہ کے مخالف رہے۔ انہوں نے پہلی بار خلیجی جنگ کے خلاف ووٹ دیا تھا اور دفاعی بجٹ میں کمی کی وکالت کی تھی۔ انہوں نے ۱۹۸۰ء میں یورپ میں انٹر میڈیٹ رینج نیو کلیئر اسلحہ کی بھی مخالفت کی تھی اور نیوکلیئر اسلحہ کو منجمد یا ضائع کر دینے یا ان کی تیاری پر امتناع عائد کرنے کی تائید کی تھی۔ عراق میں جنگ کے فیصلہ کی حمایت اور پھر موجودہ قبضہ کے لیے مالیہ کی فراہمی میں مخالفت ان کے مبہم موقف کو ظاہر کرتے ہیں۔
جان کیری ’’قوتِ بازو‘‘ کے حامل اعتدال پسند دکھائی دیتے ہیں اور شاید فکری اعتبار سے اعتدال پسند نہ ہوں۔ جان کیری کے رفیق جان ایڈورڈس بھی ان کے ہم خیال معلوم ہوتے ہیں (ہیلی برٹن نے عام تباہی کے اسلحہ کے بارے میں امریکا کو گمراہ کرتے ہوئے جنگ میں ملوث کیا)۔ ایڈورڈس نے اپنی تقریر میں کیوں بخش دیا۔ بروکس نے لکھا ہے کہ ایڈورڈس نے ’’نئی دنیا میں ہر دشمن کو شکست دینے کی بات کی ہے۔ شام اور ایران سے تصادم کی بات کی ہے تاکہ یہ ممالک ایک جمہوری عراق کے ابھرنے میں مداخلت نہ کر سکیں۔ اب ذہن میں یہ سوال آسکتا ہے کہ آیا آنے والے امریکی صدارتی انتخابات‘ بش کے (۲۰۰۰ء کے) انتخاب کا اعادہ تو نہیں ہوں گے؟ اور کہیں یہ انتخابات‘ گزشتہ انتخابات سے بدتر تو نہیں ہوں گے؟ امریکا میں داخلی گڑ بڑ‘ حکومت کی تبدیلی سے زیادہ مسائل کی موجب ہو گی اور اس گڑ بڑ کے نتیجہ میں جنگ عراق‘ قابو سے باہر ہو جائے گی۔ امریکا کی جانب سے کم گریڈ کے نیوکلیئر اسلحہ کے استعمال سے یہ جنگ وسعت اختیار کر لے گی اور امریکی قیادت مزید الجھنوں سے دوچار ہو جائے گی۔
(بشکریہ: روزنامہ ’’المنصف‘‘۔ حیدرآباد دکن)