ہمیں اس حقیقت کو فراموش نہیں کرنا چاہیے کہ جس وقت صیہونیت کمزور اور اپنے لیے ایک مستقل مملکت قائم کرنے کے لیے کوشاں تھی تو اس وقت وہ بھرپور طریقہ سے دہشت گردی کا مظاہرہ کرتی رہی ہے۔ ۱۹۴۴ء اور ۱۹۴۷ء کے درمیان کے عرصہ میں اس نے سیکڑوں بے قصور فلسطینیوں کا قتلِ عام کر دیا۔ حتیٰ کہ فلسطین میں موجود اس وقت کے برطانوی باشندوں کو بھی تہہ تیغ کر دیا۔ اس سے بھی خطرناک بات یہ ہوئی کہ ۱۹۴۸ء میں اسرائیلیوں کے ہاتھوں فلسطین میں اقوامِ متحدہ کے ثالث اور مندوب کونٹ برنا ڈوٹ کو بھی دھوکہ سے قتل کر دیا گیا۔ اقوامِ متحدہ کے مندوب کے خلاف یہ اقدام دراصل اقوامِ متحدہ کی اس تجویز کو مسترد کرتے ہوئے کیا گیا تھا‘ جس میں اس عالمی ادارہ نے القدس کو بین الاقوامی حیثیت دینے کا مشور دیا تھا۔ صیہونیت کی دہشت گردی اس حد کو پہنچ گئی کہ اس نے اسرائیلی وزیراعظم اسحاق رابین کو بھی قتل کرنے سے دریغ نہیں کیا۔ رابین کا قصور یہ تھا کہ وہ صیہونیوں کی دہشت گردی اور قتل کی سیاست کو عملی جامہ پہنانے سے معذرت کر رہا تھا۔ ان سارے حقائق کے باوجود اگر امریکا اسرائیل سے تعاون کرتا ہے اور تعاون پر اصرار کرتا ہے تو اس کی کیا توجیہہ کی جاسکتی ہے؟ اسرائیل کے ساتھ امریکی تعاون کی اس گرم جوشی کے پسِ پردہ اصل راز وہ صیہونی لابی ہے جس نے امریکا کو اپنے پنجہ میں جکڑ لیا ہے۔ صیہونی لابی کو امریکی نظامِ سیاست سے کھلواڑ کی وہ قدرت حاصل نہ ہوتی جو اس وقت حاصل ہے تو اسرائیل امریکا تعلقات کی وہ نوعیت نہ ہوتی اور تعلقات ویسے مستحکم نہ ہوتے جیسے اس وقت ہیں۔
اندرونِ امریکا صیہونیت کے ایسے افراد اور تنظیمیں کام کرتی ہیں‘ جو امریکا کی سیاستِ خارجہ کو اسرائیل موافق سمت دینے پر پورا زور صرف کرتی ہیں۔ امریکا میں صیہونی لابی کا لبِ لباب ان امریکی یہودیوں سے تشکیل پاتا ہے جو امریکی سیاست کو اسرائیلی مفادات کی جانب پھیرنے میں ہمہ تن مصروف رہتے ہیں۔ امریکا میں ان امریکی یہودیوں کی سرگرمیوں کا دائرہ کافی پھیلا ہوا ہے‘ وہ ایک طرف اسرائیل موافق امیدواروں کو بھاری اکثریت سے کامیابی دلانے کے لیے کوشاں رہتے ہیں تو دوسری طرف امریکا میں کام کرنے والی اسرائیل موافق تنظیموں کے لیے فنڈ اکٹھا کرتے ہیں۔ مختلف متموّل یہودیوں کے نام سفارشی خطوط لکھتے ہیں‘ امریکا میں سرگرم صیہونی لابی کی رکنیت کا استحقاق صرف امریکن یہودیوں کے لیے ہی نہیں ہے بلکہ غیراسرائیلی بھی اس کے رکن بن کر صیہونیت کے ہاتھ مضبوط کر سکتے ہیں۔ امریکا میں صیہونی لابی کی اہم تنظیموں میں سے ایک ’’ایباک‘‘ دوسری ’’کانفرنس برائے صدور یہودی تنظیمات‘‘ ہیں۔ امریکا میں کام کرنے والی بیشتر صیہونی تنظیموں کی نگرانی شدت پسند یہودی کرتے ہیں جو لیکوڈ پارٹی کی توسیع پسندانہ سیاست کی بھرپور تائید اور اوسلو معاہدہ کی سختی کے ساتھ مخالفت کرتے ہیں۔ یہ سارے شدت پسند یہودی امریکا میں اسرائیل کے لیے کام کرنے کی خاطر چوٹی کے صیہونی قائدین سے رہنمائی حاصل کرتے رہتے ہیں۔ امریکا میں سرگرم صیہونی لابی کی صفوں میں چوٹی کے عیسائی قائدین بھی شامل ہیں‘ جن میں درج ذیل حضرات سرِفہرست ہیں۔ جاری باویر‘ جیری فالویل‘ رالف ربیڈ‘ باٹ اوبرٹسون‘ ڈک ارمی ٹوم ڈیلاڈ‘ ان سب قائدین کا کہنا ہے کہ دنیا پر اسرائیل کے تسلط کی پیش گوئی انجیل میں کی گئی ہے۔ ایسے میں اسرائیل پر دبائو ڈالنا‘ اﷲ کے احکام اور اس کی مرضی کی خلاف ورزی کرنا ہے۔ ان کے علاوہ صیہونی لابی میں ان افراد کی بھی ایک بڑی تعداد ہے جو امریکا میں اسرائیلی مفادات کے تحفظ میں اہم کردار ادا کرتے ہیں جن میں سرفہرست وال اسٹریٹ جنرل کے نامہ نگار جون بولٹن‘ سابق وزیر تعلیم روبرٹ پارٹلی‘ اقوامِ متحدہ کے سابق امریکی سفیر جین کویباٹرک اور مشہور اسرائیل نواز جارج دیل ہیں۔
اسرائیل کے لیے امریکی تعاون میں اضافہ کرنے اور زیادہ سے زیادہ موثر بنانے کے لیے صیہونی لابی دو طرح کی حکمتِ عملی اپناتی ہیں۔ (۱)اسرائیل کے تعاون کے لیے صیہونی لابی واشنگٹن کے ایوانِ اقتدار پر اپنا اثر و رسوخ بھرپور طریقہ پر استعمال کرتی ہے نیز امریکی کانگریس پر مسلسل دبائو بنائے رکھتی ہے۔ امریکی پالیسی کے پیچھے چاہے جو بھی افراد ہوں‘ صیہونی لابی انہیں اسرائیل کے مفاد کے لیے استعمال کرنے میں کامیاب ہو جاتی ہے۔ دوسری حکمتِ عملی کے تحت صیہونی لابی اس بات کے لیے کوشاں رہتی ہے کہ عام امریکیوں کی نگاہ میں اسرائیل کے تعلق سے مثبت تاثر قائم کیا جائے۔ اس کے لیے صیہونی لابی اسرائیل سے متعلق داستانوں کا مسلسل پروپیگنڈہ کرتی رہتی ہے تاکہ اسرائیل کا مسئلہ ہر وقت لوگوں کے ذہنوں میں تازہ رہے اور ہردم سیاسی حلقوں میں موضوع بحث بنا رہے۔ اس پروپیگنڈہ کا مقصد یہ ہوتا ہے کہ لوگوں کو اسرائیل کے خلاف اظہارِ رائے یا اسرائیل پر تنقید کرنے کی کوئی راہ باقی نہ رہے۔ صیہونی چاہتے ہیں کہ امریکا اسرائیل کے تعاون کو اپنے لیے ضروری قرار دے۔
امریکی کانگریس پر اثرانداز ہونا صیہونی لابی کا ایک حربہ ہے جسے صیہونی لابی کی سرگرمیوں میں بنیادی حیثیت حاصل ہے۔ غور کرنے کی بات یہ ہے کہ اسقاطِ حمل‘ صحت عامہ جیسے مسائل پر پُرجوش انداز میں بحث کرنے والی امریکی کانگریس اس وقت جمود و تعطل کا شکار ہو جاتی ہے جب اسرائیل کی بات نکل پڑتی ہے‘ عام مسائل پر امریکی کانگریس کے ارکان ایک دورے کی آراء کو سخت تنقید کا نشانہ بناتے نظر آتے ہیں‘ لیکن جب بات اسرائیل کی چِھڑ جاتی ہے یا اسرائیل کا موضوع زیرِ بحث آتا ہے تو ایسا لگتا ہے جیسے انہیں سانپ سونگھ گیا ہو۔ اسرائیلی موضوعات پر نہ تنقید کی جرأت کی جاتی ہے اور نہ ہی آراء کی خلاف ورزی کی جاتی ہے۔ واضح رہے کہ صیہونی لابی کے امریکی کانگریس پر اثرانداز ہونے میں امریکی کانگریس کے ان صیہونی مسیحی ارکان کا بھی بڑا دخل ہے جنہیں امریکی کانگریس میں بنیادی اہمیت حاصل ہے۔ امریکی کانگریس کے اُن صیہونی مسیحی ارکان کی نگاہ میں اسرائیل کی تائید اور اسرائیلی مفادات کے تحفظ کو اولین حیثیت حاصل ہے۔ چنانچہ امریکی کانگریس کے رکن ڈیک ارمی بارہا اس کی صراحت کر چکے ہیں۔ علاوہ ازیں امریکی کانگریس اور امریکا کے دیگر سیاسی حلقوں میں ایسے بے شمار افراد ہیں جو امریکا کی سیاستِ خارجہ کے رخ کو اسرائیل کی جانب پھیرنے کی مسلسل کوشش کرتے رہتے ہیں۔ اسی طرح امریکی کانگریس کے اسرائیل موافق ملازمین بھی امریکی کانگریس میں صیہونی لابی کے اثر و رسوخ کا ایک اہم سرچشمہ ہیں۔ یہ وہ ملازمین ہیں جو اپنے اوقات کا بیشتر حصہ ایسے مسائل پر غور و خوض میں گزارتے ہیں جن سے اسرائیل کو تقویت پہنچتی ہے۔ امریکی کانگریس میں صیہونی لابی کے اثر و رسوخ کا ایک سبب یہ بھی ہے کہ صیہونی لابی اپنے مفادات کے لیے کام کرنے والوں کو بھرپور صلہ سے نوازتی ہے۔ چنانچہ الیکشن کے موقع پر اسرائیل موافق امیدواروں کا صیہونی لابی بھرپور مالی تعاون کرتی ہے۔ انتخابات میں کسی امیدوار کی کامیابی کا زیادہ انحصار اس بات پر ہوتا ہے کہ وہ اپنی انتخابی مہم پر کتنا مال صرفہ کرنے پر قدرت رکھتا ہے جو جتنا زیادہ پیسہ بہائے گا‘ کامیابی کے امکانات اس کے حق میں اسی قدر روشن ہوں گے۔ صیہونی لابی کی سرگرم تنظیم ’’ایباک‘‘ الیکشن کے موقع پر اسرائیل موافق امیدواروں کا بھرپور مالی تعاون کرتی ہے۔ ’’ایباک‘‘ میں من پسند امیدواروں کو کامیاب بنانے کی بھرپور صلاحیت پائی جاتی ہے۔ اس تنظیم میں اتنا پاور ہے کہ وہ اپنے مخالفین کو عبرتناک انجام سے دوچار کر سکتی ہے اور انہیں سخت سزا بھی دلوا سکتی ہے۔ اسرائیل کے تحفظ میں ’’ایباک‘‘ کی اہمیت کا اندازہ سابق اسرائیلی وزیراعظم شیرون کے اس جملہ سے لگایا جاسکتا ہے کہ ایک موقع پر شیرون نے کہا تھا کہ ’’اگر تم مجھ سے یہ دریافت کرو کہ تم اسرائیل کی کیسے مدد کر سکتے ہو تو میں جواب میں یہ کہوں گا کہ تم ایباک کا تعاون کرو‘‘۔ گویا شیرون کی نگاہ میں ایباک کا تعاون دراصل اسرائیل کا تعاون ہے۔ وائٹ ہائوس کے ایڈمنسٹریشن یا انتظامی اختیارات کے حامل طبقہ پر بھی صیہونی لابی کو مکمل کنٹرول حاصل ہے۔ شاید صدارتی انتخابات میں یہودیوں کے ووٹوں کو کلیدی حیثیت حاصل ہونا‘ اس کنٹرول کی اہم وجہ ہو۔ اگرچہ امریکا میں یہودیوں کی تعداد بہت کم ہے‘ وہ امریکی باشندوں میں ۳ فیصد سے بھی کم ہیں لیکن کم تعداد کے باوجود انتخابی مہم کے لیے فنڈز کی فراہمی اور انتخابی مہم کے دوران ان کی اہمیت کے پیشِ نظر اسی امیدوار کا پلڑا بھاری ہوتا ہے جس کے ساتھ یہودی مشنری سرگرم ہوتی ہے۔ واشنگٹن پوسٹ نے اپنے ایک شمارہ میں اس کی وضاحت کی تھی کہ کرسیٔ صدارت کے بیشتر امیدوار اپنی کامیابی کے لیے یہودی حامیوں پر انحصار کرتے ہیں‘ اس لیے کہ صدارتی انتخابات پر عائد ہونے والے اخراجات کا ۶۰ فیصد حصہ یہودی حامی فراہم کرتے ہیں۔ انتخابات کے دوران یہودی تعاون سے کامیاب ہونے والے امیدوار جب امریکی کانگریس میں رسائی حاصل کرتے ہیں اور امریکی ایڈمنسٹریشن کا اہم حصہ بن جاتے ہیں تو پھر اپنی ہر پالیسی میں یہودیوں سے وفاداری کرنا نہیں بھولتے‘ ان کا ہر اقدام اسرائیلی تحفظات کے ارد گرد گھومتا ہے۔ مثال کے طور پر صدر بل کلنٹن کے دور میں مشرقِ وسطیٰ سے متعلق امریکی سیاست کا انحصار امریکی کانگریس کے ان چند ارکان پر تھا جو اسرائیل کے سخت حامی تھے اور اسرائیل سے ان کے گہرے تعلقات تھے‘ جن میں مارٹن انڈیک کا نام سرفہرست ہے جو ’’ایباک‘‘ کے شعبۂ تحقیقات کا ذمہ دار اور ’’واشنگٹن فائونڈیشن برائے مطالعات مشرقِ وسطیٰ‘‘ کے بانیوں میں سے تھا‘ دوسرا شخص ڈینس رؤوس ہے جو ۲۰۰۱ء میں حکومت سے علیحدگی اختیار کر کے مذکورہ فائونڈیشن سے وابستہ ہو گیا تھا‘ تیسرا کلیدی شخص آرون میلر ہے جس نے ایک طویل عرصہ اسرائیل میں گزارا اور اب بھی اسرائیل کا دورہ کرتا رہتا ہے۔ یہ تو کلنٹن کے دور کی بات تھی‘ بش کے دورِ صدارت میں اسرائیل نواز ارکان کا دائرہ خوب پھیلا اور ان کے اثر و رسوخ میں بھی کافی اضافہ ہو چکا ہے۔ بش انتظامیہ میں ارکان درج ذیل ہیں جو اسرائیل کے سخت حامی ہیں۔ الیوت آبرامز‘ جان بولٹن‘ ڈوگلس اسمتھ‘ لویس لیبی‘ رچرڈ ہیرل‘ داویڈوار میلر وغیرہ۔
امریکی سیاست اور ایڈمنسٹریشن پر اثرانداز ہونے کے ساتھ ساتھ صیہونی لابی ذرائع ابلاغ پر اثرانداز ہونے کے لیے بھی پوری طرح کوشاں رہتی ہے۔ تحقیقاتی مراکز‘ تعلیمی اداروں اور ذرائع ابلاغ پر صیہونی لابی ہی کا کنٹرول ہے۔ چنانچہ ان اطلاعاتی مراکز پر قبضہ کے ذریعہ صیہونی لابی رائے عامہ کو اپنے حق میں ہموار کرتی ہے۔ ذرائع ابلاغ میں جہاں تک اخبارات کا تعلق ہے تو ملک کے بیشتر اخبارات یہودیوں کے کنٹرول میں ہیں۔ امریکا کے مشہور اخبار وال اسٹریٹ جنرل کے سابق مرحوم ایڈیٹر نے ایک موقع پر کہا تھا کہ شامیر شیرون وغیرہ کی جو بھی خواہش ہو‘ وہ میرے لیے قابلِ ترجیح ہے۔ وال اسٹریٹ جنرل کے علاوہ شکاگو سن ٹائمز‘ واشنگٹن ٹائمز اور ہفت روزہ میگزین نیوریبا بلاک‘ ویکلی اسٹانڈر وغیرہ سارے اخبارات یہودیوں کے حامی ہیں۔ ذرائع ابلاغ پر صیہونی تسلط کا اثر یہ ہے کہ فلسطین کے مقبوضہ علاقوں کی صورتحال پیش کرتے ہوئے ذرائع ابلاغ کو کافی دقت پیش آتی ہے۔ اسرائیلی تصرف کے بغیر کسی اطلاعاتی مواد کا پیش کرنا ناممکن ہے۔ نامہ نگاروں کو فلسطین کی صحیح صورتحال پیش کرنے میں بڑی دشواریوں کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ عالمی سطح پر نیوز ایجنسیوں کے مراسلہ نگاروں نے ان دشواریوں کا اظہار کیا ہے۔ چنانچہ CNN کے ایک عہدیدار کے مطابق کبھی کبھی ایک دن میں چھ ہزار کے قریب ایسے ای میل پیغامات ضائع کیے جاتے ہیں‘ جن میں اس بات کی شکایت ہوتی ہے کہ فلاں خبر یا واقعہ کے نقل کرنے میں جانبداری سے کام لیا گیا ہے۔ ان تمام باتوں سے اس بات کا اندازہ ہوتا ہے کہ امریکی ذرائع ابلاغ میں اسرائیلی سیاست کو کسی طرح ہدف تنقید نہیں بنایا جاتا۔ شاذ و نادر ہی ایسی صورتحال پیدا ہوتی ہے‘ جہاں اسرائیلی سیاست پر ناقدانہ اظہارِ خیال کیا جاتا ہو۔ اس سے یہ بھی پتا چلتا ہے کہ امریکی ذرائع ابلاغ اسرائیل امریکا تعلقات پر بھی اظہارِ خیال کو ممنوع سمجھتے ہیں۔
سیاسی ڈھانچہ کی تشکیل اور رائے عامہ کی ہمواری میں تحقیقاتی اداروں کا اہم رول ہوتا ہے‘ اس اہمیت کے پیشِ نظر صیہونی لابی نے ۱۹۸۵ء میں اپنا خاص تحقیقاتی مرکز قائم کیا جو WINP کے نام سے مشہور ہے‘ اس مرکز کے قیام میں مارٹن انڈک کا بھرپور تعاون رہا‘ یہ مرکز شروع سے اسرائیل کی تائید میں پروپیگنڈہ مہم چلاتا رہا ہے۔ مذکورہ مرکز مشرقِ وسطیٰ سے متعلق صحیح صورت حال پیش کرنے کے بجائے حقائق کو توڑ مروڑ کر پیش کرتا ہے۔ اسرائیل کی جانب سے اس مرکز کا مکمل تعاون کیا جاتا ہے۔ صیہونی لابی کا اثر و رسوخ صرف اس ایک مرکز تک محدود نہیں ہے بلکہ صیہونی لابی گزشتہ ۲۵ سالوں کے دوران امریکا کے کئی ایک تحقیقاتی مراکز تک رسائی حاصل کر چکی ہے‘ اس طرح کے چند امریکی تحقیقاتی مراکز کے نام حسبِ ذیل ہیں‘ امریکن انٹرپرائزز فائونڈیشن‘ یروکیفیز فائونڈیشن‘ سکیورٹی سنٹر وغیرہ۔ یہ سب تحقیقاتی ادارے اسرائیل سے بھرپور تعاون کرتے ہیں۔ ان اداروں کی تحقیقاتی رپورٹوں میں اسرائیل پر کسی طرح کی تنقید نہیں ہوتی۔ صیہونی لابی کی راہ میں بڑی رکاوٹ تحقیقاتی اکیڈمیاں ہیں۔ اکیڈمیوں کی آزادی ایک مسلمہ حقیقت ہے جس کے خلاف اسرائیل کسی طرح کے اقدام سے قاصر ہے۔ ان تحقیقاتی اکیڈمیوں میں کام کرنے والے چوٹی کے پروفیسرز کا منہ بند کرنا یا انہیں دھمکی دینا اسرائیل کے لیے دشوار گزار کام ہے۔ ان ساری دشواریوں کے باوجود اسرائیل کو اکیڈمیوں پر اثرانداز ہونے میں بھی مکمل طور پر ناکام نہیں کہا جاسکتا۔ ۲۰۰۲ء میں جب اسرائیلی فوج دوبارہ مغربی کنارہ پر قابض ہو گئی تھی اور اسرائیل کے خلاف ناقدانہ آوازیں اٹھنے لگیں تو اسرائیل متعدد اکیڈمی کی سطح کے اداروں کو اپنے مفادات کے لیے استعمال کرنے میں کامیاب ہوا۔ اس عرصہ میں اسرائیل نے متعدد ایسی اکیڈمیاں قائم کیں‘ جن میں اسرائیلی ترجمانوں کی ضیافت کی گرمی اور ان کے پروگرام رکھے گئے‘ اسی طرح تعلقاتِ عامہ کو استوار کرنے کے لیے مختلف یہودی گروپ تشکیل دیے گئے۔ ’’ایباک‘‘ نے یونیورسٹی کی تحقیقات میں اضافہ کے لیے مراکز قائم کیے ہیں جو اسرائیل سے ہمدردی رکھتے ہیں تاکہ آئندہ جب وہ مختلف اکیڈمیوں میں کام کریں تو اسرائیل مخالف تحقیقات سے احترا زکر سکیں۔ علاوہ ازیں صیہونی لابی نے ایک ایسا کمیشن قائم کیا ہے جو یونیورسٹی کے پروفیسرز کی تحریروں پر کڑی نظر رکھتا ہے۔ چنانچہ کمیشن کے تحت ۲۰۰۲ء میں مارٹن کرامر اور ڈینل بابیس نامی دو محققوں نے انٹرنیٹ پر ایک ایسی ویب سائٹ کا آغاز کیا جو اکیڈمیوں پر کڑی نظر رکھتا ہے۔ اس ویب سائٹ پر یونیورسٹیوں کے طلبہ سے درخواست کی گئی ہے کہ یونیورسٹی کے پروفیسروں کی جانب سے منظرِ عام پر آنے والی ہر اس تحریر کو اپنی تنقید کا نشانہ بنائیں جو اسرائیل دشمنی پر مشتمل ہو۔ حیرت ہے کہ امریکا کی مختلف یونیورسٹیوں کے کئی ایک پروفیسرز کو محض اسرائیل پر تنقید کی پاداش میں ملازمت سے سبکدوش کر دیا گیا۔ اس وقت امریکا میں صیہونی لابی امریکی کانگریس میں ایسا قانون پاس کرنے کے لیے کوشاں ہے جس کے تحت ہر اس کالج یا یونیورسٹی کو حکومتی امداد سے محروم کر دیا جائے جس نے اسرائیل مخالف مواد شائع کیا ہو‘ مختصر یہ کہ اسرائیل کو یونیورسٹیوں میں بھی تنقید سے بالاتر بنانے کے لیے صیہونی لابی ایڑی چوٹی کا زور لگا رہی ہے اور اپنی کوششوں میں اسے کامیابی بھی حاصل ہوئی۔ اسرائیل پر تنقید کرنے والوں کو خاموش کرنے کے لیے صیہونی لابی جس خطرناک حربہ کو استعمال کرتی ہے‘ وہ سامیت دشمنی کا حربہ ہے‘ ہر اس شخص پر سامیت دشمنی کا الزام لگایا جاتا ہے جو اسرائیل کے خلاف لب کشائی کرتا ہے اور امریکا میں اسرائیل کے بڑھتے ہوئے اثر و رسوخ پر اظہارِ خیال کرتا ہے۔ امریکا کے مذکورہ دونوں محقق پروفیسروں کی رپورٹ کے آخری حصہ میں فلسطینیوں کے تعلق سے امریکا کی خارجہ پالیسی پر صیہونی لابی کے اثر و رسوخ کو زیرِ بحث لایا گیا ہے‘ نیز عراق جنگ اور شام و ایران کے ساتھ امریکی کشیدگی پر اظہارِ خیال کیا گیا ہے۔ فلسطینیوں کے تعلق سے رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ صیہونی لابی کا امریکا پر مسلسل دبائو رہتا ہے‘ اسرائیلی دبائو کے اثرات امریکا کی جانبدارانہ پالیسی کی شکل میں ظاہر ہو رہے ہیں۔ ۱۱ ستمبر کے واقعات کے بعد جب اسرائیل پر امریکا کا دبائو بڑھنے لگا تو امریکا کی صیہونی لابی پوری طرح حرکت میں آگئی۔
(بشکریہ: روزنامہ ’’المنصف‘‘۔ حیدرآباد دکن۔ شمارہ۔ ۱۱ مئی ۲۰۰۶ء)
Leave a Reply