
مہینوں پُراُمید رہنے کے بعد ملائیشیا نے بالآخر گذشتہ ماہ یہ اعتراف کر لیا کہ آزاد تجارتی معاہدہ (Free Trade Agreement-FTA) پر اس کی امریکا کے ساتھ گفتگو کسی نتیجہ تک نہیں پہنچ پارہی ہے۔ ملائیشیا کی حکومت اس نو خیز تحریک سے دور رہی ہے جو امریکا کے ساتھ FTA کی مخالفت میں رفتہ رفتہ زور پکڑ رہی ہے۔ دوسرے ترقی پذیر ممالک کے ساتھ امریکیوں نے FTA کے حوالے سے آئندہ کے ٹارگیٹ کے طور پر ملائیشیا کو بھی اپنی فہرست میں شامل کر لیا ہے۔ اقتصادی طور سے جنوب مشرقی اس ایشیائی خطے کی خوشحالی کے روز افزوں امکانات کے پیشِ نظر امریکا کے منہ میں پانی آرہا ہے۔ تقریباً ایک سال کی بات چیت کے بعد ملائیشیا نے بالآخر یہ اعلان کر دیا کہ FTA پر دستخط معینہ وقت پر نہیں ہو سکیں گے۔ دنیا کے اطراف میں دوسری تمام بے ترتیبیوں کے ساتھ بش انتظامیہ صبر کا دامن ہاتھ سے چھوڑ بیٹھی ہے کیونکہ بش کے تجارتی اختیار کی آخری تاریخ جو کہ یکم جولائی ہے، قریب آتی جارہی ہے اور کوئی کارنامہ ایسا سامنے نہیں آرہا ہے جسے بش کے نام کیا جاسکے۔ اس اختیار کی وجہ سے بش اس بات پر قادر ہیں کہ وہ تجارتی معاہدات پر مذاکرات کر سکیں جسے کانگریس قبل اس کے کہ ڈیمو کریٹس یہاں چارج سنبھالیں ہیں جنہوں نے حالیہ انتخاب میں فتح حاصل کی ہے، بش کے فیصلے کو کبھی بدل نہیں سکتی۔ ایک بہت ہی اہم رکاوٹ جسے امریکی دور کرنے کی توقع رکھتے تھے، وہ ملائیشیا کی اقتصادی پالیسی ہے جس کا مقصد ملایا عوام میں معاشی خوشحالی کو جنم دینا ہے۔ یہ پالیسی ایک طویل المیعاد (بعض ناقدین کے دعوے کے مطابق کبھی ختم نہ ہونے والا) ایک مثبت اقدامی منصوبہ ہے اور جسے آنے والی حکومتوں نے ملایا عوام کی مدد کی خاطر ایک مثبت امتیاز کا نام دیتے ہوئے سراہا ہے۔ بیشتر رہنما یہ خیال کرتے ہیں کہ اگر اس پالیسی کو ٹھیک طریقے سے نافذ کیا گیا تو یہ مختلف نسلوں کے مابین امتیاز و تفریق کو ختم کر دے گا اور یہ اس اقدام سے مختلف نہیں ہے جو اپارتھیڈ کے بعد کی جنوبی افریقہ کی حکومت اٹھا رہی ہے یعنی کوٹا سسٹم کے ذریعہ جنوبی افریقہ کے مقامی باشندوں کی مدد کر رہی جو ایک مدت دراز سے اپارتھیڈ کے نظام کے تحت دبائے جاتے رہے ہیں۔ مسلمان مارکیٹوں میں نفوذ حاصل کرنے کی جو امریکا کی کوشش ہے، اس لحاظ سے ملائیشیا ایک بہت ہی اہم ملک ہے۔ بجا طور سے مسلمان اکثریت والے ممالک میں ملائیشیا صنعت کاری اور انفرااسٹرکچر کے پہلو سے سب سے زیادہ ترقی یافتہ ملک ہے۔ چنانچہ امریکا کو آزاد تجارتی معاہدہ FTA جسے یہ ترقی پذیر ممالک کے سامنے ان کی تمام مشکلات کے حل کے طور پر پیش کرتا ہے، اس کے ایک اوسط درجے کے حلیف کو ایک مضبوط حلیف میں تبدیل کر دے گا۔ مہاتیر دور کے بعد ملائیشیا نے اب تک بش کے حاشیہ بردار اور من پسند موجودہ ’’اتحاد‘‘ میں شریک ہونے میں کوئی دلچسپی نہیں دکھائی ہے۔ اس کی اصل وجہ تو اس طرح کے معاملے سے ملائیشیا کے عوام کی عدم دلچسپی ہے لیکن ایک وجہ امریکی اور یورپی حکومتوں کے تعلق سے ملائیشیا کی حکومت کا روایتی عدم اطمینان بھی ہے۔ ناقدین نے حکومت کو امریکا کے ساتھ آزاد تجارتی معاہدہ FTA کے نتائج کے حوالے سے بارہا متنبہ کیا ہے۔ بیشتر ممالک خاص طور سے لاطینی امریکا میں امریکا کے ساتھ آزاد تجارتی معاہدے کو خوش آمدید کہا گیا، یہ سمجھتے ہوئے کہ امریکی مصنوعات سے استفادہ کے لیے یہ ایک شارٹ کٹ طریقہ ہے اور انکل سام کے ساتھ اچھے تعلقات کی ضمانت بھی ہے لیکن ساتھ ہی وہ اس کے مضر اثرات کے مقابلے میں بہت ہی بے چارہ ثابت ہوئے۔ پھر ہوا یہ کہ بڑی امریکی کمپنیاں مقامی کمپنیوں کو نگل گئیں اور اس عمل میں لاکھوں لوگ ذریعۂ معاش سے محروم ہو گئے، جس میں کوئی مبالغہ نہیں ہے۔ جس طرح FTA نے یورپی یونین کو اپنی لپیٹ میں لیا، اُسی طرح امریکی FTA بھی کسی ملک کی معاشی و اقتصادی پالیسیوں کی گہرائی میں جا گھستا ہے اور نتیجتاً یہاں کے قوانین میں ایسے ترامیم متعارف کرواتا ہے جو امریکا کی بڑی کارپوریشنوں کے لیے ماحول کو سازگار بنا دیں۔ کاغذی سطح پر امریکا کے ساتھ FTA کا مطلب صرف کسی ملک کے ماحولیاتی تحفظ، مزدوروں کے حقوق اور اپنی صنعتوں کی نج کاری کے لیے عہد کرنا ہے لیکن اس کا بہت نمایاں اثر جو سامنے آتا ہے وہ یہ کہ وہ معیارات تشکیل دیے جاتے ہیں جو امریکی سرمایہ کاروں کے مفادات سے ہم آہنگ ہوں اور اس ملک کو اس بات پر مجبور کر دیا جاتا ہے کہ وہ امریکا کے حقوقِ وراثتِ علمی (Intellectual Property Rights) کا تحفظ کرے، خاص طور سے ادویات کے شعبے میں اور سستی ادویات کی مقامی صنعتوں پر پابندی لگائے جس کے نتیجے میں ادویات مہنگی ہو جائیں۔ امریکا کے ساتھ FTA کے بغیر بھی ملائیشیا کا شمار ان دس بڑے ممالک میں ہوتا ہے، امریکا کے ساتھ جن کی بڑے پیمانے پر تجارتی شراکت ہے۔ ان دونوں کے مابین تجارتی حجم ۴۴ ارب امریکی ڈالر ہے اور یہاں امریکی درآمدات انڈونیشیا اور بھارت جیسی بڑی معیشتوں سے بھی زیادہ ہے۔ ملائیشیا کے ساتھ آزاد تجارتی معاہدے کی تشکیل کے پیچھے بش انتظامیہ کا جو سیاسی محرک ہے وہ کچھ کم نمایاں نہیں، ایسی حالت میں جب کہ امریکا کے تجارتی نمائندے Rob Portman نے گذشتہ سال ایک قبل از مذاکرات ملاقات میں ملائیشیا کو ’’ایک ایسا تجارتی اتحادی قرار دیا جو خطے میں امن اور استحکام کے حوالے سے بہت کارآمد ہے۔۔۔ اور اسے ایک ایسا مسلم ملک اور رہنما قرار دیا جو تحمل و برداشت نیز تکثیری ثقافت کے تصور میں جان ڈال سکتا ہے‘‘۔ اس طرح کے بیانات ظاہر کرتے ہیں کہ امریکا ان مسلمان مارکیٹوں میں اپنے قدم جمانے کے لیے بے چین ہے جن کی بنیاد Non-oil مصنوعات پر ہے۔ اس کام کے آغاز کے لیے جنوب مشرقی ایشیاء ممالک سے بہتر اور کون سے ممالک ہو سکتے ہیں؟ جیسا کہ ایک ڈیمو کریٹ Gregory Meeks جنہوں نے ملیشیا کے ساتھ آزاد تجارتی معاہدے کے لیے لابنگ کی تھی کا کہنا ہے کہ ’’ملیشیا دنیا کے اس خطے میں امریکا کا شریک بننے کا پوری طرح اہل ہے جہاں امریکا اپنے دوستوں کی موجودگی کو یقینی بنانا چاہتا ہے۔ بہرحال ملائیشیا پہلا ملک نہیں ہے جو واشنگٹن کے ساتھ آزاد تجارتی معاہدہ کی گفتگو میں شریک ہوا ہے۔ اُردن اور اومان کی حکومتیں اس معاہدے پر پہلے ہی دستخط کر چکی ہیں اور اُردن میں اس معاہدے کے حوالے سے تازہ مطالعہ یہ بتاتا ہے کہ FTAs کے بڑے ہی خراب اثرات ظاہر ہونا شروع ہو گئے ہیں، ٹھیک اُسی طرح جس طرح لاطینی امریکا کے ممالک میں ظاہر ہوئے تھے۔ اگر ملائیشیا اور امریکا کے مابین حالیہ آزاد تجارتی معاہدہ کی تشکیل میں واقعتا ناکامی ہوتی ہے تو یہ تعجب کی کوئی بات نہ ہو گی بلکہ یہ محض ایک دوسری مثال ہو گی ان ممالک میں اس واقعے کے ظہور کا جسے لوگوں نے بین السطور پڑھ لیا ہے اور دوسرے ممالک میں ظاہر ہوئے اقتصادی اور معاشرتی بے ترتیبیوں سے نتیجہ اخذ کر لیا ہے، باوجود اس تعیش کے جو بش کی good books میں ایک FTA کے توسط سے درج ہے۔ ان ناکامیوں سے سبق لیتے ہوئے بہت سارے ممالک نے FTAs کو واشنگٹن کے جوہری بم کی اقتصادی شبیہ خیال کیا ہے۔ گذشتہ سال اکتوبر میں امریکا اور جنوبی افریقہ کے مابین FTA کے حوالے سے مذاکرات ختم ہو گئے جب جنوبی افریقہ نے اپنی مارکیٹوں تک مکمل رسائی فراہم کرنے کے امریکی مطالبات کو مسترد کر دیا۔ حتیٰ کہ جنوبی کوریا کی حکومت جو واشنگٹن کی قریبی اتحادی ہے نے خبردار کیاہے کہ امریکا کے ساتھ آزاد تجارتی معاہدہ میں ایک ارب ۵ کروڑ ڈالر کا نقصان متوقع ہے جو کہ جنوبی کوریا کی ادویاتی صنعت کو لاحق ہو گا، اگر اس معاہدے میں امریکا کی تجویز کو قبول کر لیا جاتا ہے۔ جنوبی کوریا کے ارکانِ پارلیمنٹ کے ایک گروہ نے اس امر کے اعلان کے لیے ایک مقدمہ دائر کر دیا ہے کہ امریکا کے ساتھ آزاد تجارتی معاہدہ کرنے کا صدر Roh Moo-Hyun کا اقدام سراسر غیرآئینی ہے۔ اس کے برعکس بہت سارے مسلم ممالک FTA’sکے مضر اثرا ت کے حوالے سے بہت زیادہ دلچسپی نہیں رکھتے ہیں۔ قربان جائیے عرب اور مسلم حکومتوں کی امریکا کے good books میں شامل ہونے کی چاہت پر اور ہر قیمت پر وہاں باقی رہنے کی تمنا پر۔ مسلم ممالک جو پہلے ہی سے FTA کے لیے واشنگٹن کے radar-screen پر ہیں یا اس کے لیے مذاکرات کر رہے ہیں وہ سعودی عرب، متحدہ عرب امارات، الجزائر، مصر، تیونیشیا اور قطر ہیں۔ سال ۲۰۰۰ء سے پہلے امریکا کے ریکارڈ میں صرف ۳ جامع FTAs پائے جاتے تھے یعنی کینیڈا، اسرائیل اور میکسیکو کے ساتھ۔ اس کے بعد سے امریکا آزاد تجارتی معاہدے جن مزید ممالک کے ساتھ طے کر چکا ہے، وہ آسٹریلیا، بحرین، چلی، اُردن، اومان، مراکش، سنگاپور، پیرو، کوسٹاریکا، ڈامینکن ریپبلک، ایل سلواڈور، گوئٹے مالا، ہونڈوراس اور نکاراگوا ہیں۔ امریکا کا مشرقِ وسطیٰ کے ممالک کے ساتھ آزاد تجارتی معاہدات کا محرک اسرائیل کو ان ممالک سے تسلیم کرانا بھی ہے۔ بہرحال امریکا کا پہلا آزاد تجارتی معاہدہ ۱۹۸۵ء میں اسرائیل ہی کے ساتھ ہوا تھا۔ اِسے سمجھنا زیادہ مشکل نہیں ہے کہ کیسے یہ تابعدار حکومتیں امریکا کی خواہش کے آگے جھک جاتی ہیں اور اسرائیل کا بائیکاٹ ختم کر دیتی ہیں، خصوصاً جب انہیں صدام کے انجام کا حوالہ دیا جاتا ہے اور لبنان پر بمباری کے لیے اسرائیل کی حمایت اور مدد میں واشنگٹن کا کردار نمایاں ہوتا ہے۔ یہ معاہدہ بحرین کے ساتھ ستمبر ۲۰۰۴ء میں ہوا اور ۲۰۰۶ء میں نافذ العمل ہوا جب بحرین نے یہ یقین دہانی کرا دی کہ وہ اسرائیلی مصنوعات کا بائیکاٹ نہیں کرے گا۔ مراکش کے حوالے سے معاملہ خاص طور سے بالکل واضح ہے۔ بینکاک میں قائم ایف ٹی اے واچ اور دیگر مختلف این جی اوز کی رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ امریکا کا مراکش کے ساتھ FTA کا اصل مقصد ایک معتدل مسلم حکومت کو وائٹ ہائوس کی ’’دہشت گردی کے خلاف جنگ‘‘ میں حمایت کے عوض انعام دینا تھا اور ایک دوست شمالی افریقی شاہی مملکت کو مزید شدت کے ساتھ اپنے زیرِ اثر لینا تھا اور یوں عرب دنیا اور افریقی ممالک کے مابین شگاف ڈالنا تھا۔ حال میں اقوامِ متحدہ کی وہ کمیٹی جو اقتصادی، معاشرتی اور ثقافتی حقوق کے حوالے سے ہے، نے امریکا مراکش آزاد تجارتی معاہدے کے اثرات کے بارے میں خبردار کیا ہے اور اس کی ادویات تک رسائی اور حقوق صحت میں مداخلت کو مضر بتایا ہے۔ اس کمیٹی نے رباط سے مطالبہ کیا ہے کہ وہ ان تجارتی قوانین کے اثرات کا جائزہ لے کہ یہ کس حد تک اقتصادی، معاشرتی اور ثقافتی حقوق پر اثرانداز ہو سکتے ہیں۔ ملائیشیا میں امریکا کی اُمید کو ۲۰۰۳ء میں ڈاکٹر مہاتیر محمد کے چلے جانے کے بعد سے تقویت ملی ہے اور اس وقت سے امریکی افسران کوالالمپور کو اس معاہدے کی مکمل افادیت کے حوالے سے دلائل پیش کرتے رہے ہیں جس سے ملائیشیا مبینہ طور سے لطف اندوز ہو سکتا ہے۔ اب انہیں یہ امید ہو چلی ہے کہ عبداﷲ بداوی اس معاہدے پر دستخط کرنے میں زیادہ دلچسپی کا مظاہرہ کریں گے۔ جس معاملے کو یہ درک نہیں کر سکے ہیں وہ ملائیشیا میں پائے جانے والے مختلف قومیتوں کے باہمی تعلقات ہیں جو کہ بہت ہی نازک ہیں۔ آنے والی حکومتوں کو انکل سام کو خوش کرنے اور ملایا آبادی کو خوش رکھنے کے مابین ایک متوازن پالیسی کی ضرورت ہو گی یعنی ایسی اقتصادی پالیسیوں کی ضرورت ہو گی جو دونوں کے حق میں جاری رہ سکیں۔ ملائیشیا کے قوانینِ تلافی کا مقصد ملایا قومیت کے لیے تجارت اور اقتصاد میں ایک مناسب حصے کو محفوظ رکھنا ہے اور بیرونی کمپنیوں کو کسی بھی حکومتی کنٹریکٹ کے لینے سے پہلے ایک مقامی پارٹنر کو ساتھ رکھنے کا پابند کرنا ہے۔ اس صورت حال سے ایف آئی اے کا کل مقصد فوت ہو جاتا ہے اور امریکی کمپنیوں کو ملک کی مارکیٹ کو اپنے مفاد میں سازگار بنانے کی کھلی چھوٹ نہیں ملتی ہے۔ لہٰذا یہ خبر کہ ملائیشیا کی حکومت واشنگٹن کے ساتھ آزاد تجارتی معاہدے سے متعلق سرد مہری کا مظاہرہ کر رہی ہے، خواہ اس کی وجہ کچھ بھی ہو، ملک میں اس معاہدے کے مخالف طبقوں کے لیے ایک اطمینان کی بات ہے۔ مہینوں سے اس معاہدے پر میڈیا میں مخالف آراء کا آنا بند ہو گیا ہے جو کہ ملیشیا کی روایتی روش رہی ہے جبکہ دوسری طرف حکومتی وزراء ان فوائد پر بڑے شد و مد سے روشنی ڈال رہے ہیں جو اس معاہدے کے نتیجے میں حاصل ہوں گے۔ عوامی گروپوں کی جانب سے جس اصل تشویش کا اظہار کیا جارہا ہے وہ کسانوں پر پڑنے والے اس معاہدے کے اثرات ہیں اور یہ ایسی حالت میں ہے جبکہ عبداﷲ بداوی کی حکومت جان توڑ کوشش کر رہی ہے کہ زراعت قومی آمدنی کے ایک کلیدی ذریعہ کے طور پر مینو فیکچرنگ پر برتری حاصل کر لے۔ تھائی لینڈ اور فلپائن کے برعکس ملائیشیا کی تحریکِ حزبِ اختلاف کی دشواری یہ ہے کہ اسے FTA کے حوالے سے زیادہ معلومات نہیں ہے، اس طرح کہ بہت سارے لوگ امریکا ملائیشیا FTA معاہدے کے مضمرات سے ناواقف ہیں۔ اپوزیشن اس صلاحیت اور ہنر سے عاری ہے جو اس معاہدے کے خلاف تحریک چلانے کے لیے درکار ہے۔ حزبِ اختلاف کا غیرمسلم دھڑا انتظار اور مشاہدے کی پالیسی پر عمل پیرا ہے اس امید پر کہ FTA کسی حد تک حکومت کی ملایا حامی اقتصادی پالیسیوں کا خاتمہ کر دے گا۔ انور ابراہیم جن کا مقابلہ امریکا حامی کچھ دوسرے حکومتی رہنمائوں سے ہے اور جو امریکا دوست اسلامی کیمپ کی قیادت کر رہے ہیں، FTA پر ایک مبہم اور ملا جلا ردِعمل ظاہر کر رہے ہیں۔ ان کی طرف سے FTA کی مخالفت میں کوئی واضح بیان سامنے نہیں آیا ہے اگرچہ ان کی پارٹی کے کچھ وفادار لوگ اور کارکنان نے FTA مخالف احتجاجی مظاہروں میں شرکت ضرور کی ہے۔ اسلامی پارٹی ’’پاس‘‘ کی اس بحث کے حوالے سے کوئی آواز اب تک سننے میں نہیں آئی ہے۔ کچھ عوامی گروہوں نے، جن میں چند این جی اوز کچھ مزدوروں کے گروہ اور حزبِ اختلاف کے چند انفرادی ارکان شامل ہیں، متوقع نتائج پر اپنے خدشات کا اظہار کیا ہے جو FTA پر دستخط کی صورت میں سامنے آئیں گے، خصوصاً اس حوالے سے کہ امریکا کے بڑے بڑے زراعتی صنعت کار داخلی مارکیٹ پر کس طرح اثرانداز ہوں گے۔ بہرحال دشواریوں کے باوجود شمالی صوبہ کیداہ میں چلنے والی تازہ دستخطی تحریک میں یہ مطالبہ کیا گیا ہے کہ حکومت امریکا کے ساتھ FTA مذاکرات ختم کرے اور اس تحریک کو ۲۰ ہزار ماہی گیروں اور کسانوں کی حمایت حاصل ہے۔ جبکہ ملائیشیا کے بیشتر مسلمان FTA کی مخالفت کرتے ہیں ابھی یہ دیکھا جانا باقی ہے کہ آیا موجودہ حکومت امریکی دبائو کے آگے جھکتی ہے یا نہیں۔
بعض لوگوں کا کہنا ہے کہ ملائیشیا مسلم ممالک کے ساتھ آزاد تجارتی معاہدے کا آغاز کر سکتا ہے تاکہ او آئی سی ممالک کی اقتصادیات کے مابین مضبوط رشتہ قائم ہو (واضح رہے کہ ملائیشیا کا واحد FTA پارٹنر پاکستان ہے، ایک ایسے پروگرام کے ساتھ جو سال ۲۰۰۶ء میں نافذ العمل ہوا) لیکن بیشتر مسلم حکومتوں سے ایسی اُمید رکھنا جنہیں واشنگٹن نے سیاسی و اقتصادی طور سے یرغمال بنا رکھا ہے ایک خیالی آرزو ہے۔ بہرحال یہ سمجھنا زیادہ مشکل نہیں ہے کہ امریکا کی ناراضی مول لینے اور ایک ترقی یافتہ مسلم ملک جو امریکا کا باج گزار نہ ہو، کی حیثیت سے آزاد روش اختیار کرنے کے مابین کس کا انتخاب کیا جائے۔ یاد رہے کہ امریکا کے ساتھ FTA معاہدے کے جو شرائط ہیں، وہ ملیشیا اور اس کے عوام کے مفاد کو پورا کرنے کے لیے نہیں ہیں بلکہ امریکا اور اس کے تجارتی مفادات کی تکمیل کی خاطر ہیں۔
(بشکریہ: ’’کریسنٹ انٹرنیشنل‘‘ ٹورانٹو۔ شمارہ: فروری ۲۰۰۷ء)
Leave a Reply