سعودی عرب پر امریکی شکنجہ

ایک اطلاع کے مطابق امریکا کی ایک کمپنی نے کینٹر فٹز جیرالڈ نے مسلم دنیا میں امریکا کے قریب ترین حلیف خیال کیے جانے والے سعودی عرب کے خلاف مقدمہ قائم کیا ہے اور سات بلین (ارب) امریکی ڈالر کے ہرجانے کا مطالبہ کیا ہے۔ یہ خبر نیویارک ٹائمز کے حوالے سے معاصر انڈین ایکسپریس (۵ ستمبر ۲۰۰۴ء) میں شائع ہوئی ہے۔ مذکورہ امریکی کمپنی کا کہنا ہے کہ گیارہ ستمبر کے حملے میں اس کے ۶۵۸ ملازمین کی موت ہو گئی تھی۔ اس نے سعودی عرب پر الزام عائد کیا ہے کہ اس نے گیارہ ستمبر کے حملے میں ملوث القاعدہ کے کارکنوں اور اس کے سربراہ اسامہ بن لادن کو مادی امداد پہنچائی تھی۔ کمپنی نے جو نالش کی ہے اس میں کہا گیا ہے کہ سعودی عرب نے ’’عالمی دہشت گردوں‘‘ کی تائید و حمایت کرنے کے ساتھ ساتھ ان کی مالی مدد بھی کی ہے۔ کمپنی نے یہ مقدمہ مین ہٹن (امریکا) کی ایک وفاقی عدالت میں دائر کیا ہے‘ جس میں کہا گیا ہے کہ سعودی عرب کے چار اعلیٰ عہدیداروں نے ان اداروں اور تنظیموں کی مسلسل سات برس تک نہ صرف سرپرستی کی ہے بلکہ بعض اداروں اور تنظیموں کے ساتھ وہ وابستہ رہے ہیں اور ان کی تشکیل و تنظیم میں انہوں نے بھی کلیدی کردار ادا کیا ہے جو القاعدہ کو فنڈ فراہم کرتی رہی ہیں اور یہ سلسلہ گیارہ ستمبر کے حملے سے پہلے تک جاری رہا ہے‘ مذکورہ کمپنی نے جن اعلیٰ سعودی حکام کے نام لیے ہیں ان میں سعودی عرب کے وزیرِ داخلہ شہزادہ نائف بن عبدالعزیز‘ وزیر شہزادہ سلطان بن عبدالعزیز‘ ریاض کے گورنر شہزادہ دفاع سلمان بن عبدالعزیز اور انٹیلی جینس کے سابق سربراہ شہزادہ ترکی الفیصل کے نام شامل ہیں۔

یہ پہلا موقع نہیں ہے جب سعودی عرب پر عالمی دہشت گردوں کی حمایت اور پشت پناہی کا الزام لگایا گیا ہو بلکہ اس سے پہلے بھی سعودی حکومت کو اس کے لیے موردِ الزام ٹھہرایا جاچکا ہے۔ سعودی حکومت پر الزام عائد کرنے کا مطلب صاف ظاہر ہے کہ سعودی عرب کے شاہی گھرانہ کو موردِ الزام ٹھہرایا جارہا ہے‘ اس سے پہلے شہزادہ بندر بن سلطان کا نام بھی اس سلسلہ میں لیا جاچکا ہے اور شاہی گھرانے کی بعض شہزادیوں کے نام بھی لیے گئے ہیں۔ بعض امریکی رپورٹوں میں کہا گیا ہے کہ سعودی عرب کے اعلیٰ حکام نے جن میں بیشتر شاہی گھرانے کے افراد شامل ہیں‘ ایسی فلاحی تنظیموں اور اداروں کی نہ صرف امداد کی ہے بلکہ اس نیٹ ورک کو پھیلانے اور مستحکم کرنے میں بڑھ چڑھ کر حصہ لیا ہے جن کا القاعدہ سے تعلق تھا‘ اسی طرح القاعدہ کو بالواسطہ طور پر فنڈ فراہم کیا جاتا رہا ہے۔ امریکا نے ایسی درجنوں تنظیموں اور اداروں کو ممنوع قرار دیتے ہوئے انہیں اس فہرست میں شامل کر لیا ہے جن کے بارے میں اس کا کہنا ہے کہ وہ یا تو براہِ راست ’’دہشت گردانہ‘‘ سرگرمیوں میں ملوث ہیں یا ’’دہشت گردوں‘‘ کی اخلاقی و مادی حمایت کرتے ہیں‘ ان کے اثاثے منجمد کر دیے گئے۔ امریکا میں ان کی سرگرمیوں پر پابندی عائد کر دی گئی ہے یہاں تک کہ ان سے تعلق رکھنے والے افراد کو ہراساں کیا گیا۔ یہی نہیں بلکہ ان سے ہمدردی رکھنے والوں کو بھی کڑی نگرانی کی جانے لگی۔ ان تمام تنظیموں اور اداروں کے بارے میں امریکا یہ بتاتا رہا ہے کہ ان تمام کا کسی نہ کسی طریقے سے سعودی عرب سے تعلق رہا ہے‘ اس حوالے سے سعودی عرب پر یہ دبائو بھی ڈالا گیا ہے کہ وہ ان کے خلاف قدم اٹھائے۔

ان تمام کارروائیوں کا مقصد قریب ترین حلیف کو پوری طرح اپنے شکنجہ میں کسنا اور جکڑنا ہے‘ اب تک سفارتی اور دوسرے طریقوں سے دبائو ڈالا جاتا رہا تھا‘ اب ایک نیا طریقہ اختیار کیا گیا ہے‘ اس طرح سعودی عرب کا شاہی گھرانہ شکوک و شبہادت کے دائرے میں آگیا ہے‘ اس طرح کی کارروائیوں سے وہ دو حصوں میں تقسیم ہو کر الگ تھلگ ہو جائیں گے‘ اس سے وہ لوگ بھی رفاہی کاموں سے رُک جائیں گے جو اس کا ارادہ رکھتے تھے یا کرتے رہے تھے۔ اس کی خبریں بھی دی جاتی رہی ہیں کہ سعودی شاہی گھرانے میں اختلافات بڑھ رہے ہیں اور کشمکش کی صورت حال پیدا ہو گئی ہے۔ مذکورہ کمپنی نے مقدمہ امریکی عدالت میں دائر کیا ہے‘ ظاہر ہے قانونی کارروائی امریکا میں چلے گی وہاں کی رائے عامہ کا جو حال ہے وہ سب کو معلوم ہے اس لیے فیصلہ کیا ہو گا اس کا بھی اندازہ کیا جاسکتا ہے۔

(بشکریہ: سہ روزہ ’’دعوت‘‘۔ نئی دہلی)

Be the first to comment

Leave a Reply

Your email address will not be published.


*