
کورونا وائرس کے ہاتھوں عالمی معیشت کو جو دھچکا لگا ہے اُس کے اثرات سے نمٹنے میں مدت لگے گی۔ لاک ڈاؤن نے دنیا بھر میں غیر معمولی معاشی مشکلات پیدا کی ہیں۔ امریکا سمیت ترقی یافتہ دنیا بھی مسائل سے دوچار ہے۔ امریکی معیشت کو پہنچنے والا نقصان بھی اتنا شدید ہے کہ ابھی سے کچھ ایسا کرنے کی بات کی جارہی ہے جس کے نتیجے میں کساد بازاری کو روکا جاسکے۔ ۱۹۳۰ء کے عشرے کی کساد بازاری کو یاد کرکے لوگ آج بھی کانپ اٹھتے ہیں۔ دوسری عالمی جنگ کے بعد امریکا کے سامنے مسابقت کے میدان میں صرف سابق سوویت یونین رہ گیا تھا۔ یورپی استعماری قوتوں کی کچھ کرنے کی صلاحیت ختم ہوچکی تھی۔ وہ مزید کچھ کرنے کے بجائے اپنی پوزیشن برقرار رکھنے پر متوجہ تھیں۔ برطانیہ نے ایسے میں کھل کر امریکا کا ساتھ دینے کا سوچا۔ فرانس اور دیگر ترقی یافتہ یورپی ممالک بھی امریکا کے ہم نوا ہوئے۔ ان میں سے کوئی بھی عالمی طاقت بننے کی پوزیشن میں نہ تھا۔ یہی سبب ہے کہ امریکا اور برطانیہ مل کر سابق سوویت یونین کے خلاف صف آرا رہے۔ سرد جنگ کے پچاس برسوں میں امریکا نے کئی بحران پیدا کیے اور کئی بحران بھگتے۔ سرد جنگ کے خاتمے کے بعد امریکا نے اپنی پوزیشن برقرار رکھنے کے لیے بہت کچھ کیا۔ کئی ممالک کو تاراج کیا گیا۔ مسلم دنیا سے امریکا کی دشمنی کھل کر سامنے آگئی۔ بات کچھ یوں ہے کہ سرد جنگ کے خاتمے کے بعد امریکا کے لیے ممکنہ خطرہ اگر تھا تو عالمِ اسلام۔ امریکا نہیں چاہتا تھا کہ پاکستان سمیت کوئی بھی مسلم ملک اتنا مستحکم ہو کہ کل کو امریکی مفادات کے لیے خطرے کی صورت میں اٹھ کھڑی ہونے والی کسی قوت کا ساتھ دینے کے قابل ہو۔ امریکا جانتا تھا کہ چین تیزی سے ابھر رہا ہے۔ ایسے میں لازم تھا کہ بند باندھا جاتا۔ نائن الیون اور ایسے ہی دوسرے واقعات کے ذریعے امریکا اور یورپ (بالخصوص برطانیہ) نے مل کر مسلم دنیا کو کنٹرول کیا۔ بیس برس کے دوران امریکا اور اس کے ہم نوا ممالک نے مسلم دنیا کا ناک میں دم کر رکھا ہے۔ اب چین مستحکم ہوکر سامنے آچکا ہے تو امریکی پالیسی سازوں کی راتوں کی نیندیں اڑی ہوئی ہیں۔ وہ اچھی طرح جانتے ہیں کہ چین کو کنٹرول کرنا بہت بڑا دردِ سر ہے۔ یہی سبب ہے کہ ایسا بہت کچھ کیا جارہا ہے جو بدحواسی کا نتیجہ معلوم ہوتا ہے۔ کورونا وائرس نے امریکا کی مشکلات دوچند کردی ہیں۔ واحد نام نہاد سپر پاور کو کساد بازاری سے بچانے کے سلسلے میں کسی بڑی ڈیل کا ذکر شروع ہو چکا ہے۔
امریکا کے صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے دھمکی دی ہے کہ وہ یو ایس پوسٹل سروس کو مکمل ناکامی سے دوچار ہونے دیں گے۔ اگر ایسا ہوا تو ۲۴۵ سال پرانا ادارہ ختم نہیں ہوگا بلکہ ۶ لاکھ سے زائد افراد بے روزگار ہوں گے اور سب سے بڑھ کر یہ کہ ایک اچھے خاصے براعظم کے حجم کا ملک سب کو ایک لڑی میں پروئے رکھنے والی قوت سے محروم ہو جائے گا۔
معاشی بحران سے نمٹنے کی تیاریاں
دی یو ایس پوسٹل سروس صدر ڈونلڈ ٹرمپ کو اُن کے ایک پیش رَو فرینکلن ڈیلانو روزویلٹ سے جوڑتا ہے، جنہوں نے غیر معمولی نوعیت کے معاشی بحران کا سامنا کیا تھا۔ شدید معاشی بحران کے دوران فرینکلن روزویلٹ نے معاشی سرگرمیوں کو تیز کرنے کے لیے ایک کام یہ کیا کہ ملک بھر میں ڈاک خانے تعمیر کرائے اور جو پہلے سے موجود تھے اُن کی مرمت اور تزئین و آرائش پر توجہ دی۔ ۱۹۳۰ء کے عشرے میں اس کھاتے میں سوا لاکھ عمارتیں بنائی گئیں۔ ان میں سے بہت سے ڈاک خانے آج بھی دیہی علاقوں اور چھوٹے قصبوں میں موجود ہیں۔
۱۹۳۳ء سے ۱۹۴۱ء کے دوران امریکا بھر میں کم و بیش ۶ لاکھ ۵۰ ہزار میل طویل سڑکیں، ۷۸ ہزار پُل اور کئی سو ایئر پورٹ تعمیر کیے گئے۔ تب امریکا کی آبادی موجودہ آبادی کا ایک تہائی تھی۔
ملک کو شدید معاشی بحران کے چنگل سے نکالنے کے لیے ایف ڈی روزویلٹ نے جو کچھ بھی کیا وہ ’’نیو ڈیل‘‘ کی چھتری تلے تھا۔ صدر روز ویلٹ نے لاکھوں امریکیوں کو کام پر لگایا اور ملک سے افلاس ختم کرنے میں غیر معمولی کامیابی حاصل کی۔ ساتھ ہی ساتھ انہوں نے اس بات کو بھی یقینی بنایا کہ مزدوروں کو منافع میں حصہ ملے۔
۱۹۳۵ء کے دی ویگنر ایکٹ کے ذریعے امریکا میں محنت کشوں کے حقوق کو تحفظ فراہم کرنے کا سلسلہ شروع ہوا۔ اس ایکٹ کے ذریعے حکومت کو موقع ملا کہ یونین کی راہ مسدود کرنے والے آجروں کے خلاف کچھ کرے۔
۱۹۳۰ء کی دہائی کے دوران امریکا میں صرف ۱۰ فیصد محنت کش متعلقہ انجمنوں کے تحت کام کرتے تھے اور اُن کے حقوق کا تحفظ ممکن ہو پاتا تھا۔ ۱۹۵۰ء کی دہائی تک انجمنوں کے تحت کام کرنے والے امریکی محنت کشوں کی تعداد ۳۰ فیصد تک ہوگئی۔
اجتماعی سودا کاری نے امریکی محنت کشوں کے حالات بہتر بنانے میں مثالی کردار ادا کیا۔ انہیں بے روزگاری الاؤنس سمیت بہت سے حقوق ملنے لگے۔ بے روزگاری الاؤنس اب تک برقرار ہے۔ اس وقت امریکا میں بے روزگار افراد کی تعداد کم و بیش ۲ کروڑ ۶۰ لاکھ ہے۔ اگر محنت کشوں کی انجمنوں کا دور شروع نہ ہوا ہوتا تو آج امریکا میں اتنے سارے بے روزگار افراد دو وقت کی روٹی کو بھی ترس رہے ہوتے۔
ملک بھر میں معمر افراد کو سوشل سیکیورٹی کے سیٹ اپ کے تحت افلاس سے غیر معمولی تحفظ حاصل ہے۔ اگر یہ سیٹ اپ نہ ہوتا تو امریکا بھر میں ۶۵ سال سے زائد عمر کے افراد میں افلاس زدگان کا تناسب ۷ء۹ فیصد کے بجائے ۸ء۳۷ فیصد ہوتا۔
صدر روزویلٹ کی نیو ڈیل نے سیاسی اور معاشی طور پر انتہائی پریشان کن صورتِ حال سے دوچار ملک کو دوبارہ متحد کیا۔ اگر یہ ڈیل نہ ہوتی تو امریکا کے لیے دوبارہ اپنے پیروں پر کھڑا ہونا ممکن نہ ہوتا اور اگر ایسا نہ ہوا ہوتا تو امریکا دوسری جنگِ عظیم کے غیر معمولی اثرات سے کماحقہ نمٹنے میں کامیاب نہ ہو پاتا۔ دوسری جنگِ عظیم میں امریکا کی شکست دنیا بھر میں آزادی کی لہر کو شدید نقصان پہنچاتی۔
نئی ڈیل نے امریکا میں کاروباری طبقے کو مستحکم کرنے میں مرکزی کردار ادا کیا۔ محنت کشوں کو اجرت اور ریٹائرڈ ملازمین کو پنشن کی شکل میں جو کچھ ملا اُس سے اشیا و خدمات خریدی گئیں، معیارِ زندگی برقرار رکھنے اور پھر بلند کرنے میں مدد ملی۔ یوں معیشت کا پہیہ تیزی سے گھومنے لگا۔ نئی ڈیل کے تحت جو بنیادی ڈھانچا کھڑا کیا گیا اُسی کے توسط سے امریکا دوسری جنگِ عظیم کے بعد کی صورتِ حال میں پیداواری صلاحیت برقرار رکھنے کے قابل ہوسکا۔
نئی ڈیل کے اثرات مٹانے کا نتیجہ
کم و بیش چار عشروں کے دوران ایف ڈی روزویلٹ کے دور کی نئی ڈیل کے اثرات کم کرنے، بلکہ مٹانے پر زیادہ توجہ دی گئی ہے۔ سچ تو یہ ہے کہ اکیسویں صدی کا امریکا بہت سے معاملات میں ۹۰ سال پہلے کے امریکا جیسا دکھائی دے رہا ہے۔ آج انفرادی سطح پر آمدنی کا فرق وہی ہے، جو نئی ڈیل سے پہلے کے دور میں تھا۔ نجی شعبے میں یونین ازم صرف ۲ء۶ فیصد کی سطح پر ہے۔ ایف ڈی روزویلٹ اور ڈوائیٹ آئزن ہاور کے دور میں تعمیر کیے جانے والے بنیادی ڈھانچے کو مرمت کی ضرورت ہے۔ ۲۰۱۳ء میں دی امریکن سوسائٹی آف سول انجینئرز کے تخمینے کے مطابق پُلوں، سڑکوں اور سرنگوں کی مرمت کے لیے کم و بیش ۳۶۰۰؍ارب ڈالر درکار ہیں۔
کورونا وائرس کی روک تھام کے لیے نافذ کیے جانے والے لاک ڈاؤن کے نتیجے میں غیر معمولی بے روزگاری پھیلی ہے۔ بے روزگاری کے اعداد و شمار ۱۹۳۰ء کے عشرے کی کساد بازاری کے شروع ہونے سے پہلے کے اعداد و شمار سے خاصے ملتے جلتے ہیں۔ ایسے میں یہ بات کسی بھی سطح پر حیرت انگیز نہیں کہ کسی نئی ڈیل کے بارے میں سوچا جارہا ہے۔
نئی ڈیل کیوں نہیں ہو رہی؟
آزاد منڈی کی معیشت نے امریکی سیاست کو پوری طرح شکنجے میں کس رکھا ہے۔ یہ آزاد منڈی کی معیشت ہی ہے جو امریکا کو ۱۹۳۰ء کی دہائی کے دی گریٹ ڈپریشن کی سطح یا پھر اُس سے بدتر ڈپریشن کی طرف لے جاسکتی ہے۔ نوبیل انعام یافتہ معاشیات داں ملٹن فرائیڈ مین کی سرکردگی میں نئی ڈیل کے امکانات کو شدید تنقید کا نشانہ بنایا جارہا ہے۔
نئی ڈیل کے تحت آزاد منڈی کی معیشت کی ورک فورس سے لاکھوں نوجوانوں کو نکال کر ڈاک خانوں، پُلوں اور سڑکوں کی تعمیر جیسے ’’فضول‘‘ کاموں میں لگادیا گیا تھا۔ یہ تمام منصوبے چونکہ سرمایہ داروں کے بینک اکاؤنٹس مستحکم نہیں بناتے اس لیے آج فضول سمجھے جاتے ہیں۔
ہر عام گلی بھول جایے
امریکا کے سیاسی و معاشی نظام میں وال اسٹریٹ (اسٹاک مارکیٹ) کے سوا ہر گلی کو بھلایا جاچکا ہے۔ معاملات معیشت سے شروع ہوکر معیشت پر ختم ہوتے ہیں۔ کنزیومر اِزم نے پورے امریکی معاشرے کو دبوچ رکھا ہے۔ لوگ زیادہ سے زیادہ کمانے اور زیادہ سے زیادہ خرچ کرنے کی ذہنیت کے پنجرے میں بند ہوچکے ہیں۔ زندگی کا صرف ایک مقصد رہ گیا ہے … خوب کمایے اور جو کچھ بھی کمایے وہ خرچ کر ڈالیے۔
آزاد منڈی کی معیشت اپنی اصل میں انتہا پسند اور بے رحم ہے۔ اس کی عمر بھی زیادہ ہے کیونکہ یہ سخت جان ہے۔ اس نے ۲۰۰۸ء کی کساد بازاری کے دوران لیہمین برادرز کی تباہی کو بھی بہت خوبصورتی سے چھپالیا، اور کچھ اور رنگ دے دیا۔
امریکی مرکزی بینک ’’دی یو ایس فیڈرل ریزرو‘‘ نے سینکڑوں ارب ڈالر سسٹم میں ڈال کر مالیاتی بحران ٹالا۔ کئی بینکوں کو بیلنس شیٹس درست کرنے کے لیے خطیر رقوم دی گئیں۔ ایک محتاط اندازے کے مطابق اس حوالے سے کم از کم ۵۰۰؍ارب ڈالر خرچ کیے گئے۔ اب دی ٹربلڈ ایسیٹ ریلیف پروگرام (ٹی اے آر پی) کے ذریعے صدر ڈونلڈ ٹرمپ بینکوں اور بڑے کاروباری اداروں کو مکمل تباہی سے بچانے کی منصوبہ سازی کر رہے ہیں۔ تھوڑا بہت کیش صارفین کو بھی دیا جارہا ہے۔ یعنی یہ کہ مجموعی طور پر کوئی بڑی تبدیلی رونما نہیں ہوگی۔
اسٹیمیولس فنڈ کے نام پر ڈھائی ہزار ارب ڈالر مختص کرنا دراصل عالمی معیشت کو ایک مقام پر روک دینے کے لیے تھا۔ سوچا یہ گیا کہ جب ملک دوبارہ کھلے گا تب اچھا زمانہ پلٹ آئے گا۔
۲۰۱۷ء میں ٹیکسوں میں کی جانے والی کٹوتیوں کے باعث امریکی حکومت معاشی سرگرمیوں کے بھرپور عمل کے دوران پہلے ہی بجٹ میں کم و بیش ایک ہزار ارب ڈالر کے خسارے سے دوچار تھی۔ اب حکومت کو بجٹ میں کم و بیش چار ہزار ارب ڈالر کے خلا کا سامنا کرنا پڑے گا۔ چھوٹے کاروباری اداروں کو چلتا رکھنے، وفاقی اور ریاستی حکومتوں کے اداروں کے استحکام اور بے روزگاروں کو فاقوں سے بچانے کے لیے مزید ہزاروں ارب ڈالر درکار ہوں گے۔
اس صورتِ حال میں لازم ہے کہ یو ایس پوسٹل سروس کو مکمل ناکامی یا تباہی سے بچایا جائے۔ ٹرمپ انتظامیہ کو معاشی بحران سے بہ طریق احسن نمٹنے کے لیے بہت کچھ کرنا ہے۔ امریکی معیشت کو مکمل تباہی سے بچانے کے لیے جو کچھ کرنا ہے وہ موجودہ امریکی حکومت کو فرینکلن روزویلٹ سے سیکھنا چاہیے۔
(ترجمہ: محمد ابراہیم خان)
“US: High time for a new deal”. (“theglobalist.com”. April 29, 2020)
Leave a Reply