
امریکی محکمہ دفاع نے اب مشرقی افریقا پر نظریں گاڑ رکھی ہیں۔ ایسٹ افریقا ریسپانس فورس دراصل امریکی تخلیق ہے۔
مشرقی اور وسطیٰ افریقا میں عدم استحکام بڑھتا ہی جارہا ہے۔ خوں ریزی میں بھی اضافہ ہو رہا ہے اور بے یقینی بھی بڑھ رہی ہے۔ اس خطے پر امریکا نے نظریں گاڑ رکھی ہیں۔ چند ہفتوں سے خبروں میں یہ خطہ نمایاں رہا ہے۔ ایک طرف تو واشنگٹن کی اتحادی (سوڈان کی) پیپلز لبریشن موومنٹ یا آرمی میں پھوٹ پڑچکی ہے۔ دھڑے بن گئے ہیں اور دوسری طرف وسط افریقی ریاست میں فرانسیسی اور افریقی دستوں کی تعیناتی میں اضافہ ہو رہا ہے۔ امریکا کو بھی اس خطے میں فعال ہونا پڑا ہے۔ امریکی عسکری موجودگی بھی پنپ رہی ہے۔
امریکی محکمہ دفاع نے حال ہی میں ایسٹ افریقا ریسپانس فورس کا اعلان کیا ہے۔ امریکی فوج کی افریقا کمانڈ کا یہ نیا یونٹ صورت حال کے مطابق عمل پذیر ہوگا۔
جنوبی صومالیہ میں ایک حالیہ ڈرون حملہ افریقا کے معاملات میں امریکا کی بڑھتی ہوئی مداخلت کا واضح اشارا ہے۔ فرانس کی سابق نوآبادی جبوتی حکومت نے (جس کے ہاں لیمونیئر کے فوجی اڈے پر چار ہزار امریکی فوجی موجود ہیں) ایک بیان میں کہا ہے کہ دہشت گردی کے خلاف جنگ میں اس طرح کے حملے بہت اہم ہیں۔ جنوبی صومالیہ پر ڈرون حملہ جبوتی میں امریکی فوجی اڈے سے کیا گیا۔ ایسٹ افریقا ریسپانس فورس کے قیام سے قبل امریکا اس خطے میں ’’کمبائنڈ جوائنٹ ٹاسک فورس ہارن آف افریقا‘‘ کے نام سے قائم یونٹ کے تحت کام کر رہا تھا۔ اس یونٹ کے سربراہ بریگیڈیئر جنرک وائن گرسبی کہتے ہیں کہ ان کی فورسز اس خطے میں الشباب گروپ کی دہشت گردی کا قلع قمع کرنے کے سلسلے میں حکومتوں کی معاونت کے لیے تعینات ہیں۔ الشباب نے صومالیہ میں امریکا کی اتحادی حکومت سے چھ سال تک جنگ لڑی ہے۔ ایک بیان میں بریگیڈیئر جنرل وائن گرسبی نے کہا کہ ہم اس خطے میں حکومتوں کو دہشت گردوں کے خلاف زیادہ سے زیادہ طاقتور بنانا چاہتے ہیں۔ سوال یہ ہے کہ اگر امریکا واقعی ایسا کرنا چاہتا ہے تو ہارن آف افریقا میں اتنی بڑی فورس رکھنے کی کیا ضرورت ہے جو صومالیہ پر بمباری اور کمانڈو حملے کرتا رہتا ہے۔
وائن گرسبی کا کہنا ہے کہ ہارن آف افریقا اور مشرقی افریقا میں امریکی فورسز کا تعینات کیا جانا اس خطے میں اسٹریٹجک حوالے سے آسانیاں اور نقل و حرکت کی آزادی پیدا کرتا ہے اور یہ کہ یہ امریکا اور اس کے مفادات کے تحفظ کے لیے ناگزیر ہے۔
امریکا کے سیاسی اور عسکری قائدین کو یہ تسلیم کرنا ہوگا کہ مشرقی اور وسطی افریقا میں اس قدر دلچسپی لینے کا بنیادی سبب یہ ہے کہ اس خطے میں تیل، گیس اور معدنیات کے وسیع ذخائر موجود ہیں۔
جنوبی سوڈان اور وسط افریقی ریاست میں امریکی کردار
جنوبی سوڈان کی ریاست کے حالیہ مناقشوں میں امریکا کی ایسٹ افریقا ریسپانس فورس عمدگی سے استعمال کی گئی ہے۔ امریکی سفارتی عملے کے انخلا اور معاشی مفادات کے تحفظ کے لیے ایک دستہ حال ہی میں وہاں تعینات کیا گیا۔ ایک اہم بات یوگنڈا کی پیپلز ڈیفنس فورس کے دستوں کی تعیناتی بھی ہے۔ یوگنڈا کی حکومت امریکا کی قریبی اتحادی ہے۔ چند برسوں کے دوران اس نے فوجی تربیت کی سہولت کے علاوہ غیر معمولی عسکری امداد بھی پائی ہے۔ ساتھ ہی ساتھ ہتھیاروں کی خریداری کے معاملے میں بھی اسے امریکا سے براہِ راست مدد ملی ہے۔
۲۳ جنوری کو جنوبی سوڈان میں پیپلز لبریشن آرمی اور پیپلز لبریشن موومنٹ کے درمیان جنگ بندی کا معاہدہ ہوا جس میں اس بات پر بھی زور دیا گیا کہ یوگنڈا کی پیپلز ڈیفنس فورس کو نکالا جائے۔ پیپلز لبریشن آرمی کا کہنا ہے کہ اب تک یوگنڈا کے فوجی نہ صرف یہ کہ تعینات ہیں، بلکہ انہوں نے یونٹی، جونگلائی اور لیکز کی ریاستوں میں زمینی و فضائی کارروائیاں بھی کی ہیں۔
۷ فروری کو اپوزیشن کے عسکریت پسندوں نے یوگنڈا کے ایک ہیلی کاپٹر کے گنر کو مار گرایا تھا۔ ’’سوڈان ٹربیون‘‘ کے ایک مضمون کے مطابق باغیوں کے ترجمان بریگیڈیئر جنرل لل روائی کوانگ نے بتایا کہ ایک ہیلی کاپٹر کے گنر کو گولیاں لگیں اور وہ ہیلی کاپٹر سے گر گیا۔ حملے میں استعمال ہونے والے تین ہیلی کاپٹروں میں سے ایک کو شدید نقصان پہنچا۔ یہ گنر یوگنڈا کا فوجی تھا۔ اس کی جیب سے ملنے والے پاسپورٹ اور دیگر دستاویزات کے مطابق اس کا نام جونا ابوڈوکو الفریڈ، ملٹری آئی ڈی نمبر۲۱۸۸۳ اور پاسپورٹ نمبر۱۱۱۸۰ تھا۔ وہ ملٹری رینک کا لانس کارپورل تھا۔ دستاویزات سے یہ بھی معلوم ہوا کہ اس کا تعلق یوگنڈا کے علاقے بالے سے تھا اور اس نے ۱۹۹۷ء میں فوج میں شمولیت اختیار کی تھی۔
وسط افریقی ریاست میں عبوری صدر مچل جوٹوڈیا اور سیلیکا کی مخلوط حکومت کے مستعفی ہونے کے بعد سے حالات قابو سے باہر رہے ہیں۔ عدم استحکام دور کرنے کے نام پر امریکا نے فرانس اور افریقا کی فوجوں کو نقل و حمل کی سہولتیں فراہم کی ہیں۔ کیتھرین سامبا پینزا کی حکومت اب تک معاملات کو کنٹرول کرنے کی پوزیشن میں نہیں آسکی ہے۔ فوج میں موجود مسلم مخالف عناصر اور مسلم مخالف عیسائی ملیشیا نے ملک کے مختلف حصوں میں مسلم آبادیوں پر حملے جاری رکھے ہیں جن میں اب تک سیکڑوں ہلاکتیں واقع ہوچکی ہیں۔
۹ دسمبر ۲۰۱۳ء کو امریکی محکمہ دفاع کے اسسٹنٹ پریس سیکرٹری کارل ووگ نے بتایا تھا کہ وسط افریقی ریاست کے ایک وزیر لی ڈرائن نے استدعا کی تھی کہ ملک میں فرقہ وارانہ کشیدگی روکنے اور بعض علاقوں کو تحفظ فراہم کرنے کے لیے افواج کی تعیناتی میں مدد کی جائے، اِس لیے امریکا نے فرانسیسی اور افریقی فوجیوں کو نقل و حرکت کے حوالے سے سہولت فراہم کی۔ ’’اسٹارز اینڈ اسٹرپز‘‘ نے ۲۲ جنوری ۲۰۱۴ء کی اشاعت میں امریکی محکمہ دفاع کا یہ بیان نقل کیا ہے کہ ’’وسط افریقی ریاست میں کسی بڑے انسانی المیے کے رونما ہونے کو روکنے اور انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں کی روک تھام کے لیے ہمیں متحرک ہونا پڑا۔ خطے کی سلامتی اور امریکی مفادات کا تحفظ یقینی بنانے کے لیے ایسا کرنا ناگزیر تھا۔‘‘
امریکا اور فرانس کی مداخلت نے وسط افریقی ریاست کے حالات مزید خراب کر دیے ہیں۔ لاکھوں مسلمان بے گھر ہوچکے ہیں۔ ہزاروں نے چاڈ اور دیگر پڑوسی ممالک میں پناہ لی ہے۔ ملک میں مذہبی اور سیاسی قوت کی بنیاد پر تفریق غیر معمولی حد تک بڑھ گئی ہے۔ اب صورت حال کا کنٹرول کرنے کا حل یہ بتایا جارہا ہے کہ یورپی یونین کی افواج تعینات کی جائیں۔ اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل نے یورپی افواج تعینات کرنے کی منظوری دے دی ہے مگر پورے یقین سے نہیں کہا جاسکتا کہ ایسا کرنے سے وسط افریقی ریاست میں امن بحال ہوجائے گا۔
اثر و رسوخ بڑھانے اور وسائل کو تحفظ دینے کے لیے افواج کا اجتماع
وسط افریقی ریاست اور جنوبی سوڈان میں تیل، گیس اور معدنیات کے وسیع ذخائر ہیں۔ ان پر کنٹرول کے لیے امریکا اور یورپ مل کر مداخلت کی پالیسی اپنائے ہوئے ہیں۔ اس حوالے سے کشمکش دن بہ دن سنگین تر ہوتی جارہی ہے۔ چین کی بڑھتی ہوئی سرمایہ کاری اور اثر و رسوخ نے بھی امریکا اور یورپ کو شدید پریشانی سے دوچار کیا ہے۔ وہ کسی صورت یہ نہیں چاہتے کہ افریقا ہاتھ سے نکل جائے۔ افریقا کے اس خطے میں ہیرے اور سونے کے علاوہ یورینیم کے ذخائر بھی ہیں، جن کی طرف سبھی للچائی نظروں سے دیکھ رہے ہیں۔ متعلقہ ریاستوں میں حالات خراب کیے جارہے ہیں تاکہ انسانی المیے کو رونما ہونے سے روکنے کا بہانہ بناکر مداخلت کی جائے اور قدرتی وسائل پر قبضہ یقینی بنایا جاسکے۔ انسانی المیے کا ڈھول اس لیے پیٹا جاتا ہے کہ کوئی اس معاملے میں بحث و تمحیص بھی نہ کرسکے۔ جب سیاسی اعتبار سے بحث کی کوئی گنجائش ہی نہ رہے گی تو امریکا اور اس کے اتحادی اپنی مرضی کے کھیل کھیلتے رہیں گے۔ اس وقت مشرق وسطیٰ، افریقا اور وسطی ایشیا میں امریکی مداخلت کو کسی بھی معقول فورم پر بحث کا موضوع نہیں بنایا جارہا۔ امریکا نے انسانی المیوں کو رونما ہونے سے روکنے کے نام پر جو کچھ کیا ہے، وہ اس قدر بھیانک ہے کہ محض تصور کرنے سے رونگٹے کھڑے ہو جاتے ہیں مگر پروپیگنڈا اس قدر شدید ہے کہ حقائق دنیا کی نظروں سے پوشیدہ رہتے ہیں اور کوئی بھی انسانی المیوں کو رونما ہونے سے روکنے کے نام پر کی جانی والی کارروائیوں کی کوکھ سے پیدا ہونے والے المیوں کے بارے میں سوچنے کی زحمت گوارا نہیں کرتا۔ متعدد خطوں میں امریکی مداخلت سے لاکھوں، بلکہ کروڑوں افراد کی زندگی اجیرن ہوچکی ہے۔ ان خطوں میں شدید عدم استحکام پایا جاتا ہے اور یہ سب کچھ امریکی پالیسیوں کا پیدا کردہ ہے مگر پھر بھی حالات کے درست ہونے کی کوئی صورت دکھائی نہیں دیتی۔ امریکا میں استعماریت اور جنگ مخالف قوتوں کو اس صورت حال کے خلاف آواز اٹھانی چاہیے تاکہ امریکی پالیسیوں کے نتیجے میں رونما ہونے والی خرابیوں پر قابو پانے کی راہ نکالی جاسکے۔ انسانی المیوں کو روکنے کے نام پر کی جانے والی مداخلت اب بند کی جانی چاہیے۔
(“US military intervention in Africa: The East African response force, A creation of the Pentagon”… “globalresearch.ca”. Feb. 11, 2014)
Leave a Reply