امریکا آج کل جنوبی امریکا کے ملک وینزویلا میں منتخب اور خود مختار حکومت کا تختہ الٹنے کی کوشش کر رہا ہے۔ ایسی کوششوں کے قلیل المیعاد، طویل المیعاد اور اوسط المیعاد نتائج کے حوالے سے تاریخ کا ریکارڈ ملا جُلا ہے۔ امریکا کم و بیش ۷۰ عشروں سے لاطینی امریکا اور کیربین (جزائرِ غرب الہند) کے خطے میں حکومتیں بدلنے کی کوششیں کرتا رہا ہے۔ کامیابیاں اور ناکامیاں ملی جُلی ہیں۔ امریکا نے وینزویلا میں بھی حکومتوں کا تختہ الٹنے کی کوششیں کم و بیش نصف صدی سے جاری رکھی ہیں۔
وینزویلا: ۱۹۵۰ء تا ۲۰۱۹ء نتائج اور تناظر
دوسری جنگ عظیم کے خاتمے کے بعد سے امریکا بین الاقوامی امور میں اپنی بالا دستی برقرار رکھنے کی خاطر لاطینی امریکا اور جزائر غرب الہند کے خطے میں حکومتوں کا تختہ الٹتا آیا ہے۔ اس حوالے سے کیوبا، برازیل، چلی، بولیویا، پیرو، گوئٹے مالا، نکارا گوا، پاناما، وینزویلا اور دوسرے بہت سے کمزور ممالک کو خاص طور پر نشانہ بنایا گیا۔
امریکی قیادت نے وینزویلا میں ۱۹۵۱ء سے ۱۹۵۸ء تک پیریز جمینیز کی فوجی آمریت کو سہارا دیا۔ ۱۹۵۸ء میں پیریز جمینیز کی فوجی آمریت کا تختہ پلٹ دیا گیا۔ عبوری مدت کے لیے منتخب حکومت قائم ہوئی۔ یہ حکومت بائیں بازو کے عناصر نے قائم کی تھی۔ امریکا نے جب دیکھا کہ بائیں بازو کے عناصر مضبوط ہوگئے ہیں تو اُس نے پالیسی تبدیل کی اور وینزویلا میں دائیں بازو کے سیاسی عناصر کو مضبوط کرنا شروع کیا۔ اور یوں کم و بیش چار عشروں تک سوشل اور کرسچین ڈیموکریٹس کو اقتدار سے ہم کنار رکھا گیا۔
امریکی حمایت سے قائم ہونے والی حکومتیں بدعنوانی سے آلودہ ہوتی گئیں اور ۱۹۹۰ء کے عشرے میں ان کی خرابی اس قدر بڑھ گئی کہ ملک سیاسی و معاشی بحرانوں سے دوچار ہوا اور پھر عوام نے انہیں ہٹاکر بائیں بازو کے استعمار مخالف عناصر کو اقتدار دیا۔ یوں ہیوگو شاویز کی حکومت قائم ہوئی۔ صدر ہیوگو شاویز نے انتخابی معرکوں میں امریکی حمایت یافتہ امیدواروں کو دو عشروں تک شدید ناکامی سے دوچار کیا۔
صدر مدورو کے انتخاب کے بعد واشنگٹن نے ایک بار پھر وینزویلا میں اپنی مرضی کی حکومت لانے کے لیے حکومت کا تختہ الٹنے کی بھرپور کوشش کی اور اس حوالے سے سیاسی مشینری کھل کر بروئے کار لائی گئی۔
وینزویلا میں امریکی مداخلت کے نتائج کا ریکارڈ ملا جلا رہا ہے۔ وسط مدتی فوجی بغاوت کے نتیجے میں قائم ہونے والی حکومت ایک عشرے سے کم چلی۔ اس کے بعد چار عشروں تک امریکا کی حمایت سے منتخب ہونے والی حکومتوں کا دور چلا۔ اس کے بعد بائیں بازو کے عناصر نے دو عشروں تک خود کو منوایا۔
وینزویلا کے تجربے سے بہت کچھ عیاں ہے۔ یہ بات تو طے ہے کہ امریکا اپنی طاقت کے ذریعے بہت کچھ منواتا ہے۔ کمزور ممالک میں سیاسی عناصر کو دانہ ڈال کر اپنے دام میں کرنا امریکا کا پرانا وتیرہ ہے۔ وینزویلا تیل کی دولت سے مالا مال ہے۔ اس قومی دولت پر بھی امریکا اپنے پٹھوؤں کو کنٹرول دلاتا ہے۔ مختلف طریقوں سے تحریص و ترغیب دے کر امریکا اپنی مرضی کی حکومتیں قائم کرتا ہے اور کام چلاتا رہتا ہے یعنی پورا ملک اُس کی مٹھی میں آجاتا ہے اور پھر معاملات صرف خرابی کی طرف جاتے ہیں۔
وینزویلا میں واضح امریکی حمایت سے قائم ہونے والی حکومتیں اب تک بہت کمزور اور نا اہل ثابت ہوئی ہیں۔ حکمراں طبقہ بہتر انداز سے حکمرانی کا اہل نہیں۔ تیل کی دولت پر اس کا گزارا ہے۔ اس طبقے کو عوام میں مقبولیت بھی کبھی حاصل نہیں رہی۔ حکومت چلانے کے لیے امریکا کی فوجی طاقت پر بھروسا کرنا پڑا ہے اور یہی اس طبقے کی سب سے بڑی کمزوری بھی ہے۔
علاقائی تناظر میں کٹھ پتلی حکومتوں کا قیام
امریکی استعماری ریاست خطے میں کٹھ پتلی حکومتوں کے قیام کو اپنے مذموم مقاصد کے حصول کے لیے بروئے کار لاتی ہے۔ اس حوالے سے نتائج متعلقہ ریاستوں کی قوم سازی سے متعلق صلاحیت و سکت کے تناظر میں متنوع ثابت ہوتے رہے ہیں۔ آسانی سے ہدف پذیر ہو جانے والی معیشت کے حامل چھوٹے ممالک میں کٹھ پتلی حکومت کا قیام امریکا کے لیے قدرے آسان رہا ہے۔ امریکا نے گوئٹے مالا میں جو فوجی بغاوت برپا کی وہ ۱۹۵۴ء سے اب تک برقرار رہی ہے۔ بہت سے چھوٹے ممالک میں عوامی سطح پر رونما ہونے والے ردعمل اور حکومتی تبدیلی کی کوششوں کو امریکی مشیروں اور امداد کی مدد سے کچلا جاتا رہا ہے۔ پاناما، گرینیڈا، ڈومینکن ری پبلک اور ہیٹی میں امریکی حاشیہ برداروں پر مشتمل کٹھ پتلی حکومتیں قائم ہوتی رہی ہیں۔ یہ تمام ممالک چھوٹے ہیں اس لیے امریکا کے لیے انہیں کنٹرول کرنا، ان ممالک پر براہِ راست حملہ کرکے تمام معاملات کو ہاتھ میں لینا اور اپنی مرضی کے مطابق معاملات چلانا کبھی دشوار نہیں رہا۔ ان تمام ممالک میں امریکا مختلف ادوار میں فوجی بغاوت کے ذریعے اپنی مرضی کی حکومتیں قائم کرنے میں کامیاب رہا ہے۔ اس حوالے سے نتائج ملے جلے رہے ہیں مگر یہ بات پورے یقین سے کہی جاسکتی ہے کہ امریکا نے اپنے مفادات کو تقویت بہم پہنچانے میں نمایاں حد تک کامیابی حاصل کی ہے۔
ہونڈراس کے کیس میں امریکا نے لبرل ڈیموکریٹک حکومت کو بہت مختصر مدت میں پلٹ دیا۔ ہونڈراس کی فوج بہت چھوٹی ہے۔ جب امریکا نے سرپرستی پر آمادگی ظاہر کی تو ہونڈراس کی فوج نے منتخب حکومت کا تختہ الٹنے میں دیر نہیں لگائی۔ صدر مینوئل زلایا نے غیر مسلح عوامی مقبولیت پر انحصار کیا اور اقتدار سے محروم ہوئے۔ یہ فوجی بغاوت کم و بیش ایک عشرے تک کسی الجھن کے بغیر قائم رہی اور ایسا لگتا ہے کہ آئندہ بھی ایسا ہی ہوتا رہے گا۔
۱۹۳۷ء سے ۱۹۴۱ء تک پاپولر فرنٹ اور ۱۹۷۰ء سے ۱۹۷۳ء تک سوشل ڈیموکریٹس کی حکومت کے سوا جنوبی امریکا کا ملک چلی بیسویں صدی کے بیشتر حصے میں امریکا کی قائم کردہ کٹھ پتلی حکومتوں کا حامل رہا ہے۔ ۱۹۷۳ء میں امریکا نے ایک بار پھر چلی میں منتخب حکومت کا تختہ الٹا اور اپنے حاشیہ بردار جنرل پنوشے کو اقتدار سونپا۔ پنوشے کا اقتدار کم و بیش ۱۷ سال برقرار رہا۔ پنوشے کا اقتدار ختم ہونے پر ایک ایسی منتخب حکومت قائم ہوئی، جس نے امریکا کے دیے ہوئے ایجنڈے پر عمل جاری رکھا۔ قومی اور سماجی سطح کی بہت سی اصلاحات کو رول بیک کرلیا گیا۔ کم و بیش نصف صدی تک چلی مکمل طور پر امریکا کے دائرۂ اثر میں رہا۔
۱۹۷۰ء سے ۱۹۷۳ء کے دوران چلی کا نظم و نسق سنبھالنے والی سوشل ڈیموکریٹک حکومت نے نہ تو عوام کو عسکری اعتبار سے مضبوط کرنے پر توجہ دی اور نہ ہی ایسے اقتصادی روابط استوار کرنے کی کوشش کی، جو ملک کو جمہوریت کی راہ پر زیادہ دیر تک گامزن رکھ سکے۔ ایسے میں یہ بات زیادہ حیرت انگیز نہیں کہ چلی کی حکومت نے حال ہی میں امریکا کی طرف سے وینزویلا کے صدر مدورو کا تختہ الٹنے کی کال کو بظاہر بخوشی سنا ہے۔
کٹھ پتلی حکومت بنانے کا متضاد عمل
ایسا نہیں ہے کہ امریکا کو ہر ملک میں بھرپور کامیابی نصیب ہوئی۔ کیوبا کی مثال بہت واضح ہے۔ ایک عشرے تک قائم رہنے والی باٹسٹا آمریت کو عوام کی مدد سے بائیں بازو کے عناصر نے بہت عمدگی سے پچھاڑا اور اس کے بعد سے اب تک یعنی کم و بیش ۶ عشروں کے دوران کیوبا میں امریکا کی حمایت یافتہ حکومت قائم نہیں کی جاسکی ہے۔ فیڈل کاسٹرو کیوبا پر امریکا کے حملے کی راہ روکنے میں اس لیے کامیاب رہے کہ انہوں نے اس حوالے سے تمام ضروری تیاریاں کیں۔ کیوبا میں کام کرنے والے ایسے تمام امریکی اور یورپی کاروباری اداروں کو سرکاری تحویل میں لے لیا گیا، جو منافع خوری پر یقین رکھتے تھے اور کیوبن عوام کا خون چوس رہے تھے۔ عوام کو لازمی عسکری تربیت دی گئی تاکہ امریکا یا اس کے کسی ہم نوا کے حملے کا ڈٹ کر سامنا کیا جاسکے۔ فیڈل کاسٹرو نے ملک کو زیادہ سے زیادہ مستحکم رکھنے کے لیے سابق سوویت یونین، چین اور آخر میں وینزویلا سے اسٹریٹجک تعلقات استوار کیے۔
امریکا نے ۱۹۶۴ء میں برازیل میں فوجی بغاوت کا اہتمام کیا اور پھر دو عشروں تک وہاں کٹھ پتلی حکومتیں ہی کام کرتی رہیں۔ اس کے بعد حکمراں طبقے نے منہ کا ذائقہ بدلنے کے لیے منتخب حکومتوں کا ایک دور چلایا۔ نیو لبرل ڈیموکریٹک معاشی پالیسیوں کی ۲۰ سالہ ناکامیوں نے سماجی اصلاحات کا نعرہ لگانے والی ورکر پارٹی کو غربت مٹانے کے حوالے سے پروگرام شروع کرنے کی تحریک دی۔
کم وبیش ڈیڑھ عشرے تک برازیل میں سماجی اصلاحات کا عمل جاری رہا اور خارجہ پالیسی بھی بہت حد تک خود مختار رہی۔ اس کے بعد ورکر پارٹی نے کموڈٹیز پر منحصر معیشت اور فوج و عدلیہ کے دباؤ کے آگے ہتھیار ڈال دیے۔ اس کے بعد امریکا کی سرپرستی میں دو حکومتیں قائم ہوئیں جنہیں وال اسٹریٹ اور پینٹاگون کی حمایت حاصل تھی اور انہی کی ہدایات پر یہ عمل پیرا بھی رہیں۔
امریکا نے بولیویا میں بھی کئی بار مداخلت کی ہے۔ وہاں فوجی بغاوتوں کی راہ ہموار کی ہے اور ۱۹۵۴ء، ۱۹۷۰ء اور ۲۰۰۱ء میں قائم ہونے والی مختصر المیعاد منتخب حکومت کے مقابل کٹھ پتلی حکومتیں قائم کی ہیں۔
۲۰۰۵ء میں عوامی بیداری کی لہر اٹھی تو آزادانہ انتخابات کی راہ ہموار ہوئی اور کوکا کاشت کاروں کی تحریک کے راہنما ایوو موریلز کو اقتدار میں آنے کا موقع ملا۔ ۲۰۰۵ء سے اب تک ایوو موریلز نے استعمار مخالف اعتدال پسند لبرل حکومت کی قیادت کی ہے۔ امریکا نے برازیل میں ایوو موریلز کی حکومت کا تختہ الٹنے کی کئی کوششیں کی ہیں مگر ہر بار ناکامی کا منہ دیکھنا پڑا ہے۔ اس کا بنیادی سبب یہ ہے کہ ایوو موریلز نے کسانوں اور شہری محنت کشوں کے اتحادوں کو منظم کرکے متحرک کیا ہے۔ ان میں کان کنی سے وابستہ افراد اور کوکا کے کاشت کار بھی شامل ہیں۔ انہوں نے فوج کی حمایت حاصل کرنے میں بھی بہت حد تک کامیابی حاصل کی ہے۔ ایوو موریلز نے امریکا کی آنکھ کا تارا سمجھے جانے والے امدادی اداروں کو نکالا، تیل اور گیس کی پیداوار کے شعبے پر کنٹرول کو مستحکم کیا اور زرعی کاروباری اداروں سے تعلقات کو وسعت اور استحکام بخشا۔ قدرے آزاد خارجہ پالیسی، مخلوط معیشت، بلند شرح نمو اور اعتدال پسند اصلاحات نے کٹھ پتلی حکومت قائم کرنے سے متعلق امریکی کوششوں کو ناکامی سے دوچار کیا ہے۔
ارجنٹائن کے کیس میں ایسا نہیں ہوا۔ ۱۹۷۶ء میں امریکا نے ایک ایسی فوجی بغاوت کی راہ ہموار کی، جس کے نتیجے میں فوج نے ۳۰ ہزار شہریوں کو موت کے گھاٹ اتارا۔ ارجنٹائن کی فوج کو برطانوی فوج نے Malvinas کی جنگ میں شکست سے دوچار کیا اور یوں فوج ۷ سال اقتدار میں رہنے کے بعد پسپائی اختیار کرنے پر مجبور ہوئی۔
اقتدار سے فوج کے نکل جانے کے بعد قائم ہونے والی کٹھ پتلی حکومت نے ایک عشرے تک ریاستی وسائل کی بندر بانٹ کی اور ۲۰۰۱ء میں خاتمے پر آئی۔ اس حکومت کو ختم کرنے میں عوامی انقلاب نے کلیدی کردار ادا کیا۔ خیر، بائیں بازو کے انقلابی اتحاد میں زیادہ دم نہ تھا۔ اس کی جگہ اعتدال پسند اور بائیں بازو کی طرف جھکاؤ رکھنے والی حکومتیں قائم ہوئیں جنہوں نے ۲۰۰۳ء سے ۲۰۱۵ء کا دور گزارا۔ ترقی پسند سوشل ویلفیئر اور نیو لبرل حکومتیں بھی آئیں کہ بحران کے خاتمے کی راہ ہموار کریں مگر انہیں امریکا کی حمایت سے بننے والی کٹھ پتلی حکومتوں نے نکال باہر کیا اور اصلاحات کے عمل کو رول بیک کیا، معیشت کو ایک بار پھر سرکاری تحویل سے نکالا اور ریاست کو امریکی بینکر اور سٹے بازوں کا حاشیہ بردار بنادیا۔ یہ ۲۰۱۵ء کی بات ہے۔
دو سال اقتدار میں رہنے کے بعد اس کٹھ پتلی انتظامیہ نے بھی سنگین غلطیاں کیں۔ معیشت کا زوال شروع ہوا۔ ریاستی مشینری نے جبر و استبداد کا نیا سلسلہ شروع کیا اور عوام نے بڑے پیمانے پر احتجاج کی ٹھانی۔ امریکی حمایت یافتہ کٹھ پتلی حکومت کا اقتدار ایک بار پھر خطرے میں ہے۔ سڑکوں پر اور گلیوں میں عوام کا احتجاج جاری ہے۔ دوسری طرف پینٹاگون کوئی سبق سیکھنے کے بجائے موجودہ کٹھ پتلی حکومت کو ختم کرکے نئے حاشیہ بردار لانے کے لیے خنجر تیز کر رہا ہے۔
خلاصہ
بڑے ممالک میں امریکا اپنی مرضی کی حکومت قائم کرنے میں زیادہ کامیاب نہیں رہا۔ سبب اس کا یہ ہے کہ بڑے ممالک میں ادارے بھی مضبوط ہوتے ہیں اور خاص طور پر فوج کو کنٹرول کرنا آسان نہیں ہوتا۔ برازیل اور چلی میں امریکا نے منتخب یا مخالف حکومتوں کی بساط لپیٹنے میں کامیابی ضرور حاصل کی ہے مگر وہ اپنی مرضی کی حکومتیں قائم کرنے میں بھی زیادہ کامیاب نہیں رہا۔ چھوٹے ممالک میں تو امریکا فوجی بغاوت یا براہِ راست حملوں کے ذریعے اپنی مرضی کی حکومتیں قائم کرنے کی روش پر گامزن ہے تاہم بڑے ممالک کے حوالے سے اس نے ہمہ جہت حکمتِ عملی اپنا رکھی ہے۔ ان ممالک کو اپنے بس میں کرنے کے لیے امریکا ابلاغ عامہ کے ذرائع سے بھی کام لیتا ہے اور آمریت کو جمہوریت کے روپ میں پیش کرنے پر بھی اکتفا کرتا ہے۔ انتہا پسندی کو فروغ دیا جاتا ہے اور کرپشن کو بڑھاوا دینے کے ساتھ ساتھ سلامتی کو خطرے میں ڈالنے کی دھمکی بھی دی جاتی ہے۔ جب کشیدگی بڑھتی ہے تب خطے کی کٹھ پتلی حکومتیں اور یورپی ریاستیں مقامی کٹھ پتلی حکومتوں کی حمایت کرتی ہیں۔ امریکا کو ایسے حکمران پسند ہیں جو شور بہت مچاتے ہوں اور کرتے کچھ بھی نہ ہوں۔ ایسے تمام حکمرانوں کو امریکی صدر دوستی اور تعاون کا تاج پہناتے ہیں۔ امریکی صدر کی انگشتِ شہادت کا ایک اشارا کروڑوں ووٹر کی رائے کو ردی کی ٹوکری میں ڈال دیتا ہے۔ امریکی خفیہ ادارے سی آئی اے کی منصوبہ سازی اور فنڈنگ کے ذریعے کرائے جانے والے مظاہروں اور تشدد سے معیشتیں غیر مستحکم کی جاتی ہیں۔ کاروباری اشرافیہ پیداوار و تقسیم کے عمل کو شدید منفی اثرات سے دوچار کرتے ہیں۔ ججوں اور فوجی حکام کو رشوت کی مد میں کروڑ ڈالر پیش کیے جاتے ہیں۔
اگر اقتدار کی تبدیلی متعلقہ ملک کی فوج کے ہاتھوں عمل میں آجائے تو امریکا براہِ راست حملے اور مداخلت سے باز رہتا ہے۔ بڑی اور قدرے مالدار ریاستوں میں حکومتوں کی تبدیلی ایک سے دو عشروں پر محیط ہوتی ہیں۔ انتخابی عمل کے ذریعے معرضِ وجود میں آنے والی کٹھ پتلی حکومت استعماری مقاصد کی تکمیل میں زیادہ معاون و ممد ثابت ہوتی ہیں کیونکہ عوام کو ان پر بہت حد تک اعتبار ہوتا ہے۔ چلی کے معاملے میں یہی ہوا۔
جہاں جمہوری حکومت کے لیے غیر معمولی عوامی حمایت پائی جاتی ہو وہاں امریکا بڑے پیمانے پر قتل عام کے لیے ’’نظریاتی‘‘ اور عسکری امداد فراہم کرنے سے گریز نہیں کرتا۔ ارجنٹائن کے کیس میں یہی ہوا تھا۔
وینزویلا میں اس وقت جو کچھ ہو رہا ہے، وہ بہت خطرناک ہے کیونکہ حکومت کی تبدیلی کا عمل بہت بڑے پیمانے پر قتل عام کی راہ بھی ہموار کرسکتا ہے۔ امریکا کو یہ بات کسی طور پر پسند نہیں کہ عوام اپنے ملک کی بھلائی کا سوچیں، اسے مستحکم کریں اور جو کچھ انہیں خاص طویل جدوجہد کے نتیجے میں ملا ہے اُسے سلامت رکھ پائیں۔ استحصالی طبقہ اور اس کے حاشیہ بردار یہ بات کسی بھی طور برداشت نہیں کرسکتے کہ غریب عوام کو حقوق ملیں اور وہ ڈھنگ سے جینے کے قابل ہوسکیں۔ وہ عوام کو شدید محرومی کے گڑھے میں گرائے رکھنے کے لیے تشدد سمیت کوئی بھی انتہائی راستہ اختیار کرسکتے ہیں۔ ایسا لگتا ہے کہ وینزویلا کے عوام امریکی سلطنت اور اس کے اشاروں پر ناچنے والی کٹھ پتلیوں سے حتمی اور فیصلہ کن معرکے لیے پوری طرح تیار ہیں۔
(پروفیسر جیمز پیٹراس نے کئی ایوارڈ حاصل کیے ہیں۔ وہ سینٹر فار ریسرچ آن گلوبلائزیشن کے ریسرچ فیلو ہیں۔)
(ترجمہ: محمد ابراہیم خان)
“US ‘Regime Changes’: The Historical Record”. (“Global Research”. February 04, 2019)
Leave a Reply