
روس اور جارجیاکے درمیان مسلح جھڑپوں بلکہ خونی حملوں کے شروع ہونے کے وقت سے بین الاقوامی بساط پراتحاد اور کشمکش کے توازن میں بڑی تیزی کے ساتھ زبردست تبدیلی آنی شروع ہوئی جس کی کوئی مثال گزشتہ کئی دہائیوں سے نہیں ملتی، اس واقعہ نے جس طرح اس پر نظر رکھنے والوں کو حیرت زدہ کر دیا، یک قطبی نظام کے نتیجے میں اپنائی گئی پالیسی و سیاست کو بھی اس نے متزلزل کر دیا، اس پالیسی کی داغ بیل سوویت یونین کے بکھرنے اور برلن کی دیوار ڈھائے جانے کے وقت ڈالی گئی تھی، مغرب اور روس کی اس نئی کشمکش اور مسلح جھڑپ نے قفقاز کے مسائل کو اجاگر کیا اور بین الاقوامی سیاسی نفاق کو بھی واضح کر دیا ہے، ہر ایک کو واضح طور پر اندازہ ہو گیا کہ ماضی کی تلخیاں بھلانے اور پرانے حسابات چُکانے کا وقت ابھی ختم نہیں ہوا بلکہ اب بھی موجود ہے اور دنیا کے مختلف خطوں میں اہم و بنیادی تبدیلیاں آ جانے کے باوجود بین الاقوامی تعلقات کی راہ اور اس کا رُخ متعین کرنے میں اس کا نہایت اہم رول ہے۔
بین الاقوامی وقائع و حوادث کی راہ میں اس نئے دور کا آغاز اس وقت ہوا جب خطہ میں واشنگٹن کے دیرینہ حلیف و نمایاں اتحادی جارجیائی حکومت نے خطہ کے متزلزل و غیر متوازن پر نظرثانی کی کوشش کی اور جنوبی اوسیشیا پر بھرپور حملہ کر دیا۔ جس کا ردعمل بھی روس کی جانب سے اسی قدر سخت رہا اور اس نے کسی تذبذب و تامل کے بغیر پوری قوت سے جنگ میں کود کر جارجیا کو سبق سکھانے کی ٹھان لی، روس کے اس سخت مؤقف نے دشمنوں سے پہلے خود دوستوں کو حیران و ششدر کر دیا، اس کے بالمقابل امریکا کا موقف اس طرح ظاہر ہوا جیسے وہ کسی بڑی مشکل میں پھنس گیا اور ذہنی الجھن و انتشار کا شکار ہو گیا ہو، اس کی جانب سے مسلسل مذمتی بیان آتے رہے اور کہا جاتا رہا کہ جارجیا کی وحدت و سالمیت کے خلاف یہ روس کی انتہائی نازیبا حرکت اور کھلی جارحیت ہے، اس نے یہ بالکل فراموش کر دیا کہ حملہ آور ہونے کی حماقت خود جارجیا نے کی تھی اور امریکا کے ایماء و اشارہ اور حوصلہ افزائی ہی کی بنیاد پر۔
یہ تو خیر ہوا کہ بین الاقوامی برادری کی زبردست کوششوں اور ثالثی کی بنیاد پر روس نے جنگ بندی کے معاہدے کو منظور کر لیا مگر اب تک یہ واضح نہیں ہو سکا ہے کہ جارجیا کے جن علاقوں پر روس نے قبضہ کر لیا اور وہاں اپنی فوجیں بٹھا دی ہیں وہاں سے وہ کب انخلاء کرے گا، اب تک روس یہی طفل تسلی دے رہا ہے کہ اس کی فوجیں بس اب انخلاء کرنے ہی والی ہیں اور انخلاء کا عمل شروع ہونے ہی والا ہے، مگر یہ یقین سے نہیں کہا جا سکتا کہ روس اپنی سرحدوں کو نظر انداز کرتے ہوئے اور اپنی سلامتی کو یقینی بنائے بغیر مکمل طور پر اپنی سرحدوں پر واپس آئے گا وہ اس بات کی ضرور کوشش کرے گا کہ آئندہ کبھی بھی اس طرح کے واقعات کا اعادہ نہ ہو اور خطہ کے امریکی اتحادی کبھی اس طرح کی حماقت کرنے کی جرأت نہ کر سکیں، وائٹ ہائوس کی انتظامیہ کے پاس چونکہ اب نئے صدارتی فریق کو انتظام سونپنے کے لیے بہت کم وقت باقی رہ گیا ہے اس لیے صدارت کے دونوں ہی امیدواروں نے اس بات کی کوشش شروع کر دی ہے کہ وہ یہ باور کروا سکیں کہ وہی امریکی خارجہ پالیسی کی ترجیحات اور بیرون ملک امریکی مفادات کی حفاظت و دفاع کر سکتے ہیں۔
جان میک کین اور اوباما میں سے ہر ایک نے روس کی مسلح یلغار کو مسترد کرتے ہوئے اس کی مذمت کی اور مغرب سے اتحاد رکھنے والے جارجیائی صدر کی مدد کرنے کا عہد کیا، دوسری طرف اس بحران سے متعلق یورپی ممالک کا ردعمل ملا جلا رہا اور ان کے بیانات متضاد آتے رہے، پولینڈ اور اوکرانیا جیسے مشرقی یورپ کے ممالک امریکا کے سُر میں سُرملا کر باتیں کرتے اور مذمتی بیان جاری کرتے رہے جبکہ یورپ کے بڑے ملکوں میں سے کسی نے روسی مؤقف کی تائید کی تو کسی نے اس کی مخالفت کی، اٹلی نے واضح طور پر جارجیا کے اقدام کی مذمت کرتے ہوئے روسی مؤقف کو حق بجانب قرار دیا۔ جرمنی نے بھی کھل کر روس کی مخالفت کرنے سے گریز کیا اور رکھ رکھائو کی پالیسی اختیار کرتے ہوئے جنگ بندی کی اپیل کرتا رہا۔ خود فرانس جس کے پاس اس وقت یورپی یونین کی قیادت ہے نے غیر جانبداری کا مظاہرہ کیا اور ثالثی کا رول ادا کرنے کو ترجیح دی، ریپبلکن امیدوار جان میک کین کا موقف زیادہ سخت تھا اور یہ فطری بات ہے، کیونکہ ریپبلکن پارٹی کا مؤقف تمام بین الاقوامی مسائل میں اسی طرح جارحانہ ہوا
کرتا ہے، اس لیے روس کے خلاف ریپبلکن امیدوار نے اگر جارحانہ مؤقف اختیار کیا تو یہ خلاف توقع نہیں بلکہ توقع کے عین مطابق تھے۔
دوسری طرف ڈیموکریٹک پارٹی کے امیدوار اوباما کا مؤقف بھی میک کین کے مؤقف سے مختلف نہیں تھا، مگر اتنا فرق ضرور تھا کہ میک کین جس طرح سخت لب و لہجہ استعمال کر رہے تھے اوباما اپنا لب و لہجہ سخت کرنے سے قاصر تھے، مگر بنیادی طور پر دونوں کا مؤقف یکساں اور ایک دوسرے سے ہم آہنگ تھا روس کے بارے میں ان کے خیالات پہلے بھی اچھے نہیں تھے انہوں نے صدارتی امیدوار بننے سے پہلے بھی جس وقت میڈویڈوف روس کے صدر منتخب ہوئے تھے کہا تھا کہ روس میں جمہوریت پستی کی طرف جا رہی ہے، روس کی لعنت ملامت کرنے میں سبقت لے جانے کی کوشش کے طور پر اوباما نے جرمنی کے اپنے حالیہ دورے کے دوران برلن میں کہا تھا کہ سرد جنگ کی اصل روح ابھی باقی ہے جو امریکی و روسی تعلقات کو استوار کرنے میں حائل و رکاوٹ بنی ہوئی ہے مگر انہوں نے یہ فراموش کر دیا کہ اس تلخی اور تعلقات کی خرابی کی وجہ روس کا مؤقف نہیں بلکہ خود امریکا کی مطلق العنانی اور اس کا غرور ہے اور اس غرور و نخوت کی وجہ سے وہ مشرقی کیمپ کے زوال کے بعد سے آئے دن مختلف بین الاقوامی طاقتوں کی اہانت و تذلیل اور تضحیک کرتا رہتا ہے۔
امریکا کے اس طرز عمل کی وجہ سے خود اس کے روایتی اتحادی اور پرانے ساتھی بھی اس سے دلبرداشتہ ہیں کیونکہ امریکا کا سلوک ان کے ساتھ بھی ڈپلومیسی کی روایات کے برخلاف اور بین الاقوامی تعلقات کے تقاضوں کے منافی ہے۔
تجزیہ نگاروں کا خیال ہے کہ موجودہ روسی انتظامیہ جسے امریکی سیاستدان مختلف منفی القاب و آداب سے یاد کرتے ہیں وہی انتظامیہ ہے جسے بورس یلسن کے زمانہ میں حکومت کے زوال کے بعد نئی تشکیل کے وقت واشنگٹن کا تعاون حاصل تھا۔
امریکی سیاستدانوں کا خیال تھا کہ اگر اس وقت روس کی مدد کی جاتی ہے تو روس مغرب کی گود میں آکر بیٹھ جائے گا مگر جب اقتدار پیوٹن کے ہاتھ میں آیا تو امریکا کے اندازے غلط ثابت ہو گئے۔ انہوں نے یہ ثابت کر دکھایا کہ روس کا قومی جذبہ تمام تر نظریاتی تبدیلیوں سے بالاتر ہے اور اس کی وجہ یہ تھی کہ مغرب کے ساتھ روس کی کشمکش آج کی نہیں بلکہ پرانی اور قومی بنیادوں پر ہے ، جس کی تاریخ بہت پرانی اور شہنشاہی سامراجیت سے جڑی ہے۔ جہاں کی خصوصیت تہذیبی رنگا رنگی اور مشرق و مغرب کو یکساں طور پر اپنے یہاں جگہ دینا ہے۔
گزشتہ دنوں پولینڈ اور امریکا کے درمیان ایک معاہدہ طے پایا ہے جس پر بڑی عجلت بازی میں دستخط کیے گئے ہیں اس معاہدہ سے یہ بات بالکل واضح ہو جاتی ہے کہ سرد جنگ کے زمانہ میں وجود میں آنے والے ناٹو کا قیام درحقیقت امریکی مفادات کی خدمت کے لیے ہوا ہے۔ اس کا مقصد یورپ کی حفاظت کے لیے فوجی چھتری فراہم کرنا ہر گز نہیں ہے۔ اس کی واضح دلیل یہ ہے کہ امریکا مشترکہ یورپی فورسز کے منصوبے کو سختی سے مسترد کرتا ہے اور متحدہ قوت کی تشکیل کا مخالف ہے۔
امریکا کی یہ کوشش بھی ہے کہ وہ روس اور مشرقی یورپ کے درمیان پائی جانے والی پرانی عداوت و دشمنی کا استحصال کرتے ہوئے اس سے استفادہ کرے اور یورپ کے اندرونی مؤقف کو کمزور کرتا رہے تاکہ وہ ہمیشہ امریکا کا دُم چھلّا بنا رہے اور امریکا کے اثر و رسوخ ان ممالک میں ہمیشہ برقرار رہیں، اس طرح یہ بات یقین سے کہی جا سکتی ہے کہ یورپ اور روس کے درمیان پائے جانے والے پرانے اختلافات سے سب سے زیادہ فائدہ حاصل کرنے والا امریکا ہی ہے۔ اس لیے اس کی ایڑی چوٹی کی کوشش ہے کہ یورپ اور روس کے درمیان باہمی تعاون اور فوجی و عسکری اتحاد کی بنیاد قائم نہ ہو سکے۔ یا دونوں کے درمیان کوئی ایسی صورت پیدا نہ ہو جو ناٹو کے تسلط و غلبہ سے ہٹ کر ہو، اسی کی طرف روسی صدر میڈویڈیوف نے اپنے پہلے بیرونی دورہ کے درمیان جرمنی میں اشارہ کیا تھا۔
گزشتہ صدی کے نصف سے دنیا کو فوجی چھائونی میں تبدیل کر دینے میں امریکا کو اگرچہ کامیابی حاصل ہوئی اور دنیا میں کمیونزم کے پھیلائو کو روکنے اور اس کی یلغار پر بند باندھنے کے بہانے سوویت یونین کی قیادت والے مشرقی کیمپ کو ختم اور اس کی بیخ کنی کرنے کے مقصد سے اس نے اپنی پوری قوت و صلاحیت اور وسائل و دولت اس راہ میں جھونک دی، مگر نصف صدی کی اس کامیابی کے باوجود آج امریکا دنیا خاص طور پر روس کا مقابلہ کرنے میں تنہا کھڑا ہے۔ اب اس کے لیے آسان نہیں رہا بلکہ نہایت مشکل و دشوار ہے کہ وہ دوسرے ملکوں کو قائل و مطمئن کر سکے کہ وہ خطرات سے کھیلنے اور بدترین سازشوں میں شریک ہونے کے لیے امریکا کے ساتھ ہو لیں اور آنکھ بند کر کے اس کے پیچھے چلنا شروع کر دیں۔
امریکی صدور کا انتخاب چونکہ سرمایہ دارانہ نظام کے مفادات کی حفاظت کے لیے ہوتا ہے اس لیے آئندہ انتخابات میں چاہے میک کین صدر منتخب ہوں یا اوباما، اس سے کوئی بڑا فرق پیدا ہونے والا نہیں اور نہ ہی روس سے امریکا کی عداوت و دشمنی میں کمی آنے والی یا کوئی بڑی سیاسی تبدیلی آنے والی ہے اور جب تک ان دونوں کی عداوت باقی رہتی ہے خطہ میں کشمکش کی صورت باقی رہے گی اور ہر کوئی اس سے استفادہ کی کوشش کرتا رہے گا۔
صدارتی امیدوار آج عوام کو یہی باور کرنے کی کوشش کر رہے ہیں کہ وہی روس سے زیادہ دشمنی رکھنے والے اور امریکی مفادات کی یہاں حفاظت کرنے والے ہیں، ان دونوں کو چاہیے کہ وہ منفی پہلو کے بجائے مثبت رُخ اپنائیں اور یہ تسلیم کریں کہ اب روس کو صفحہ ہستی سے مٹانا ممکن نہیں، اس لیے مثبت انداز میں تعلقات کی نئی داغ بیل ڈالنے کی کوشش کریں اسی میں ان کا بھی بھلا ہے اور دنیا کا بھی۔
(بشکریہ: نقوش ڈاٹ کام)
Leave a Reply