قوی امید ہے کہ ایران پاکستان اور ہندوستان اس ماہ یا آئندہ ماہ گیس پائپ لائن معاہدہ پر دستخط کر دیں گے جس پر عملدرآمد سے برصغیر کو لاحق توانائی کی اشد ضرورت کو پورا کرنے میں مدد مل سکے گی۔ درحقیقت اس معاہدے سے تہران کے خلاف امریکی شہہ پر لگائی گئی غیر قانونی پابندیوں کو شدید دھچکا لگے گا اور اس طرح جنوبی ایشیاء میں امریکی اثر و رسوخ کو شکست اور پسپائی کا سامنا ہو گا۔ ساڑھے سات بلین ڈالر کی سرمایہ کاری پر مشتمل یہ ’’امن پائپ لائن‘‘ منصوبہ جنوبی فارس گیس فیلڈ سے پاکستان کے صوبہ بلوچستان کے راستے بھارت گیس لے جانے کا ذریعہ ہو گا۔ ایران سے براستہ پاکستان بھارت کو جانے والی یہ گیس پائپ لائن ۲۷۷۵ کلومیٹرز طویل ہو گی جس کے ذریعہ بھارت اور پاکستان کو روزانہ ۱۵۰ ملین کیوبک میٹرز (۹۰ ملین کیوبک میٹرز بھارت کو اور ۶۰ ملین کیوبک میٹرز پاکستان کو )گیس فراہم کی جا سکے گی۔ لیکن ابتداء میں دونوں ممالک کو صرف ۶۰ ملین کیوبک میٹرز گیس فراہم کی جائے گی۔ اس گیس پائپ لائن (آئی پی آئی) کی منصوبہ بندی سب سے پہلے ۱۹۹۴ء میں ہوئی تھی لیکن سیاسی تنائو، حکومتوں کی تبدیلی، قیمتوں پر تنازعہ اور سب سے تازہ ترین امریکی موقف کے دبائو کے پیش نظر یہ منصوبہ بارہا تعطل کا شکار ہوا۔ بہرحال نیا معاہدہ ایسے وقت میں سامنے آ رہا ہے جبکہ امریکا اور ایران کے درمیان کشیدگی روز افزوں ہے اور امریکا کی یہ پوری کوشش ہے کہ وہ ایران کو کسی طرح بھرپور تنہائی سے دوچار کر دے۔ یہ الگ بات ہے کہ امریکا کی ان کوششوں کا اب تک کوئی خاطر خواہ نتیجہ نہیں نکلا ہے۔ ایندھن کی بڑھتی ہوئی قیمت اور بھارت کی ہر دم فروغ پاتی ہوئی معیشت متقاضی ہے کہ امریکی خواہشات کو یکسر نظر انداز کر دیا جائے ۔ حتیٰ کہ صورتحال اس کی بھی متحمل نہیں ہو سکتی کہ ایران کے بجائے ترکمانستان سے پائپ لائن کے ذریعہ گیس درآمد کے منصوبے پر عمل درآمد کو کامیاب بنایا جائے جو کہ امریکا کا حمایت یافتہ منصوبہ ہے۔ اگرچہ ایران اور پاکستان اس موسم بہار کے اوائل میں اس معاہدے سے متعلق تمام معاملات کو حتمی شکل دے چکے ہیں لیکن ہندوستان اس حوالے سے قدرے متامل رہا ہے۔ آئی پی آئی کے تجزیہ نگاروں کا خیال ہے کہ ہندوستان کا تامل یا پس و پیش امریکی دبائو کی وجہ سے تھا۔ ۲۰۰۶ء میں امریکا اور بھارت کے مابین طیٔ پانے والا جوہری معاہدہ سبب بنا کہ وہ امریکی خارجہ پالیسی کے اہداف کے حصول میں بھارت کو معاونت کرنے پر مجبور کرے۔ لہٰذا بھارت کا ایران سے گیس درآمد کرنا ایرانی اقتصادیات کو استحکام عطا کرنے کے مترادف ہے جو بہرحال واشنگٹن کے لیے بمشکل قابل قبول ہو گا۔بھارت کو شاید سب سے زیادہ پریشانی پاکستان کے مُکر جانے کے خدشے کی وجہ سے ہے اس لیے کہ ٹرانزٹ فیس کے حوالے سے بھارت کے لیت و لعل سے پاکستان میں اکتاہٹ کی کیفیت پائی جاتی ہے۔ بھارت ٹرانزٹ فیس کی مد میں پاکستان کی مطلوبہ رقم ادا کرنے کو تیار نہیں تھا۔ اس کا کہنا تھا چونکہ اس گیس پائپ لائن سے خود پاکستان بھی گیس درآمد کی صورت میں استفادہ کرے گا لہٰذا ٹرانزٹ فیس کے طور پر پاکستان کی مطلوبہ رقم زیادہ ہے۔ ایک رپورٹ کے مطابق پاکستان کا مطالبہ ۶۰ Cents فی ملین بی ٹی یو (برٹش تھرمل یونٹ) تھا۔ جبکہ بھارت کی پیشکش ۱۵ Cents فی ملین بی ٹی یو تھی جو کہ مطلوبہ رقم سے بہت ہی کم تھی۔
اس دوران پاکستانی حکام نے اعلان کیا کہ پاکستان ہمالیہ کے راستے چین تک پائپ لے جانے کو آمادہ ہے۔ چین کے معاملے میں اسلام آباد کو ٹرانزٹ فیس کی طرف سے بھی کوئی پریشانی نہیں ہے بلکہ اسے پورا اطمینان ہے کہ چین اس صورت میں اسے معقول ٹرانزٹ فیس ادا کرے گا۔اگرچہ حقیقتاً چین تک گیس پائپ لائن تعمیر کرنا ایک مشکل کام ہے لیکن سابق امریکی سفیر برائے روس اور بھارت Thomas Pickeringکے بقول ’’پاکستان نے چین کو بیچ میں لاکر بہت ہی ہوشیاری کا ثبوت دیا ہے‘‘۔
لگتا ہے چین کے خوف نے بھارت کو اس معاملے میں پھر سرگرم کر دیا ہے۔ ۲۳ جون ۲۰۰۸ء کو سعودی عرب کے شہر جدہ میں ایرانی حکام سے ملاقات کے بعد بھارتی وزیر برائے پیٹرولیم و قدرتی گیس مرلی دیوڑا نے حیرت انگیز بیان جاری کیا کہ وہ بھی اس حوالے سے پیش قدمی کرنے کو تیار ہیں۔ اس اعلان کے فوراً بعد ہی مرلی دیوڑا نے کہاکہ وہ اس حوالے سے پاکستانی و ایرانی افسران و ماہرین سے مسلسل رابطے میں ہیں اور انہیں توقع ہے کہ اس سلسلے میں باضابطہ معاہدہ اس ماہ کے آخر میں طے پا جائے گا۔
کچھ عرصہ پہلے ہی ڈیلی ٹائمز نے اپنی ایک رپورٹ میں نشاندہی کی تھی کہ بھارت اور پاکستان کے درمیان ٹرانزٹ فیس کے معاملے میں اختلاف دور ہو گیا ہے اور ۴۰ Cents فی ملین بی ٹی یو بھارت پاکستان کو ادا کرنے پر رضامند ہو گیا ہے۔ ۲۷ جون کو پاکستانی وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی کے دورہ دہلی کے دوران بھارت اور پاکستان دونوں نے یہ مشترکہ بیان دیا کہ ان کے مابین تمام دوطرفہ مسائل حل کر لیے گئے ہیں جو گیس پائپ لائن کی تعمیر میں تاخیر کا سبب بنے ہوئے تھے۔ شاہ محمود قریشی جن کے پاس فی الوقت وزارت پیٹرولیم کا بھی قلمدان ہے، نے اپنے ہم منصب پرنب مکھر جی اور مرلی دیوڑا سے اس مسئلے پر بات چیت کی۔ اس موقع پر مرلی دیوڑا نے کہا کہ ٹرانزٹ فیس ایک معمولی مسئلہ ہے ہم ٹرانزٹ فیس کی وصولیابی کے اصولوں پر متفق ہو چکے ہیںاور بھارت اس منصوبے کے حوالے سے اپنے عہد کی پابندی کا تہیہ کیے ہوئے ہے۔
ان بیانات سے اس بات کی تصدیق ہوتی ہے کہ معاملہ دستخط کے قریب پہنچ چکا ہے۔ ۳۰ جون کو بھارت کی قومی سلامتی کے مشیر ایم کے نرائنن تہران کے دورے پر تشریف لے گئے جہاں انہوں نے ایران کے اعلیٰ حکام سے ملاقات کی ہے۔ ایران کی قومی سلامتی کونسل کے سیکریٹری سعید جلیلی اور ایرانی پارلیمنٹ کے اسپیکر ڈاکٹر علی لاریجانی سے ملاقات کے دوران ایم کے نارائن نے جو بیانات دیے ہیں اُس سے بھی یہی بات واضح ہوتی ہے کہ آئی پی آئی پائپ لائن سے متعلق سہ فریقی معاہدہ پر دستخط محض اب چند دنوں کی بات رہ گئی ہے۔ بہرحال باوثوق ذرائع سے پتا چلا ہے کہ Delivery Point کے حوالے سے ایک اختلاف ابھی باقی رہتا ہے۔ بھارت کا مطالبہ ہے کہ گیس ڈلیوری پوائنٹ ہند پاک سرحد پر ہو جبکہ ایران کی خواہش ہے کہ ڈلیوری پوائنٹ پاک ایران سرحد پر ہو۔ لیکن تینوں ممالک اس اختلاف کو معاہدے کی تکمیل میں کوئی بڑی رکاوٹ تصور نہیں کرتے ہیں۔پروگرام کے مطابق اس پائپ لائن کی تعمیر کا آغاز ۲۰۰۹ء میں ہونا ہے اور اس کی تکمیل ۲۰۱۲ء میں متوقع ہے جبکہ گیس کی فراہمی کو ۲۰۱۳ء تک یقینی بنایا جانا ہے۔
اس دوران امریکا کا تجویز کردہ متبادل یعنی TAPI (ترکمانستان، افغانستان، پاکستان، انڈیا) پائپ لائن کمزوری سے دوچار ہو چکا ہے۔ ٹی اے پی آئی منصوبہ کا مقصد ترکمانستان سے گیس براستہ افغانستان اور پاکستان بھارت لے جانا ہے۔ اس منصوبے پر عمل درآمد کے نتیجے میں ایران اس سارے سلسلے سے بالکل باہر ہو جائے گا اور وسطی ایشیاء پر روس کا اثر و رسوخ بھی ماند پڑ جائے گا۔ لیکن منصوبے پر آنے والے اخراجات دو گنا ہو جائیں گے جس کا تخمینہ ۲۰۰۲ء میں ۶ء۷ بلین ڈالر لگایا گیا تھا۔ چونکہ اس پائپ لائن کو براہ راست جنگ زدہ افغانستان سے گزرنا ہے اس لیے توانائی کے ماہرین اس منصوبے پر آنے والے اخراجات کے تعین کے حوالے سے ہنوز غیر یقینیت کا شکار ہیں۔
عالمی بینک کے سابق ماہر اقتصادیات و توانائی John Foster کا خیال ہے کہ ٹی اے پی آئی کے حامی ممالک آئی پی آئی (ایران، پاکستان، انڈیا) منصوبے کے ساتھ جارحانہ مسابقت کے نتیجے میں اپنے بجٹ کا اندازہ کم لگا رے ہیں۔ لہٰذا ان کا کہنا ہے کہ بجٹ کے تعین کے معاملے میں کچھ کھیل کھیلے جا رہے ہیں۔ ٹی اے پی آئی کی مقدارِ گیس کے حوالے سے بھی شکوک شبہات پائے جاتے ہیں۔ اس منصوبے کے سرمایہ کار ایشیائی ترقیاتی بینک نے ابھی تک ترکمانستان کے گیس ذخائر سے متعلق کوئی ڈیٹا افشاء نہیں کیا ہے۔ جس کا نتیجہ یہ ہے کہ خود مرلی دیوڑا کا کہنا ہے کہ ’’یہ منصوبہ بہت ہی ابتدائی مرحلے میں ہے۔ ہم ابھی تک یہ یقین حاصل نہیں کر سکے ہیں کہ وہاں گیس ہے بھی کہ نہیں، اور اگر ہے تو کتنی ہے‘‘۔ مرلی دیوڑا کا کہنا ہے کہ بھارت کی روز بروز ترقی کرتی ہوئی معیشت توانائی کی گزر گاہ حیات (Lifeline) کے حوالے سے مزید انتظار کی متحمل نہیں ہو سکتی ہے۔ ۲۰۰۷ء میں جب عالمی توانائی کے صرفہ میں تین فیصد اضافہ ہوا تو بھارت اس افزائش میں تیسرے نمبر کا حصہ دار تھا۔ آج جو اقتصادی صورتحال ہے اس میں ترقی میں توانائی کی اہمیت روز افزوں ہے یہ صرف گاڑیوں اور دیگر ذرائع مواصلات کے لیے اہم نہیں ہے بلکہ اشیائے صرف کی مضبوط مارکیٹ کے لیے بھی اہم ہے۔
آئی پی آئی منصوبہ پاکستان کو ٹرانزٹ فیس کی صورت میں سالانہ ۱۴۸ ملین ڈالر کا منافع دے گا اور یہ چیز اس کے ہمسایہ پر، جو کہ اس سے حجم میں کئی گنا بڑا ہے اور دولت میں بھی اس سے فزوں تر ہے، ایک طرح کی تزویراتی (Strategic) برتری کی صورت پیدا کرے گی۔ ایرانی نیوز ایجنسی اِرنا کے مطابق ’’امریکا مخالفت کرے یا نہ کرے ہر دو صورت میں آئی پی آئی منصوبہ اس موسم گرما میں باضابطہ معاہدے کی صورت میں پایۂ تکمیل کو پہنچتا دکھائی دیتا ہے‘‘۔ کاغذی طور پر بھارت اور پاکستان امریکی اعتراضات کا تدارک اس طرح کر سکتے ہیں کہ ہر ایک اپنی سرزمین پر پائپ لائن کی تعمیر کے کام کو خود منظم کرے۔ سابقہ مذاکرات میں روسی کمپنی گازپروم اور برٹش پیٹرولیم ممکنہ Bidders کے طور پر سامنے آئے تھے۔ پسِ پردہ بہرحال افسران یہ اعتراف کرتے ہیں کہ جنوبی ایشیائی ممالک محض امریکی ہدایات سے صرفِ نظر کرنا چاہ رہے ہیں۔ رکنِ پارلیمان نورجہاں پانیزئی، جو پاکستان کے ان علاقوں کی نمائندگی کرتی ہیں جہاں سے آئی پی آئی پائپ لائن کو گزرنا ہے، اس منصوبہ کا خیر مقدم کرتی ہیں اور اپنے حلقہ انتخاب کے لیے فراہمیٔ روزگار کا اسے بہترین منصوبہ سمجھتی ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ ’’بھارت اور پاکستان خود اپنے منصوبے کا انتخاب کریں گے اور یہ کہ ہم نے فیصلہ کیا ہے کہ ہمارے اپنے مسائل میں امریکی دخالت کا کوئی کام نہیں ہے‘‘۔
امریکی حکمت عملی میں بھارت اور پاکستان کے اہم کردار کے پیش نظر ماہرین کا کہنا ہے کہ اس بات کا امکان نہیں ہے کہ واشنگٹن ایران سے معاملات کرنے پر اپنے اتحادیوں کی سیاسی یا مالی لحاظ سے کوئی سرزنش کرسکے۔
بہرحال جب تک معاہدہ پر باضابطہ دستخط نہیں ہو جاتا ہے اس وقت تک امریکا پس پردہ اس معاہدے کو روکنے کی اپنی ہر ممکن کوشش کرے گا۔ اگر آئی پی آئی معاہدہ پایۂ تکمیل کو پہنچ جاتا ہے تو پھر خطے کے ممالک ایران، پاکستان اور بھارت کے مابین تعاونِ باہمی کا یہ واضح ثبوت ہو گا جو امریکا کے عالمی اثر و رسوخ کو بہرحال متاثر کرے گا۔
{}{}{}
Leave a Reply