
امریکی ایوانِ صدر اور محکمۂ خارجہ نے روس سے گیس کی فراہمی روکے جانے کی صورت میں یورپ کو گیس کی فراہمی کی جو یقین دہانی کرائی ہے، وہ سراسر جھوٹ اور فریب پر مبنی ہے۔ یوکرین کے بحران پر روس اور یورپ کے بگڑے ہوئے تعلقات کے تناظر میں امریکی صدر براک اوباما اور وزیرِ خارجہ جان کیری نے چند ہفتوں کے دوران جو بیانات دیے ہیں، اُن سے اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ اس بحران کے حوالے سے امریکی پالیسی ساز کس قدر بدحواس ہیں۔ واضح طور پر محسوس کیا جاسکتا ہے کہ امریکی حکومت یوکرین کے بحران پر حقائق سے یکسر بے خبر ہے اور ساتھ ہی یورپ کے لیے بھی یہ پیغام ہے کہ اس کے لیے امریکا کس قدر ناقابلِ اعتبار ہے۔
یورپی رہنماؤں سے حالیہ ملاقاتوں کے بعد امریکی صدر نے اعلان کیا کہ بڑی بین الاقوامی کمپنیاں جو خفیہ معاہدہ (ٹرانس اٹلانٹک ٹریڈ اینڈ انویسٹمنٹ پارٹنر شپ) کر رہی ہیں، وہ روس کی طرف سے گیس کی فراہمی روکے جانے کی صورت میں یورپ کے لیے امریکی گیس کی فراہمی کا اہتمام کرسکتا ہے۔ امریکا چاہتا ہے کہ توانائی کے معاملے میں یورپ اب روس پر انحصار کم کر دے۔ براک اوباما کا کہنا ہے کہ ایک بار لائسنسز کا معاملہ طے کرلیا جائے تو پھر یورپ کو امریکا سے مائع گیس کی فراہمی قدرے آسان ہوجائے گی اور توانائی کے حوالے سے روس کا انحصار کم کرنے میں بھی خاطر خواہ حد تک مدد ملے گی۔
امریکا کے صدر براک اوباما نے ۲۲ فروری کو یوکرین میں ’’انقلاب‘‘ کے بعد جو ’’مواقع‘‘ پیدا ہوئے، اُن سے فائدہ اٹھاتے ہوئے ٹرانس اٹلانٹک ٹریڈ اینڈ انویسٹمنٹ کے حوالے سے معطل بات چیت کو آگے بڑھانے کی کوشش کی۔ انہوں نے یورپ کو روس کی طرف سے گیس کی فراہمی روک دیے جانے کے امکان سے ڈرایا۔ صدر اوباما نے یہ بھی کہا کہ مائع گیس کی فراہمی کا معاملہ امریکا اور یورپ کی طرف سے ٹریڈ لائسنسز کے اجرا سے جڑا ہوا ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ مائع گیس کی فراہمی کا معاملہ محض ٹریڈ لائسنس سے جڑا ہوا نہیں۔ صدر اوباما اور وزیر خارجہ جان کیری نے چند حالیہ بیانات میں کہا ہے کہ غیر روایتی گیس (یعنی مائع گیس) کی فراہمی کا معاملہ اب بہت حد تک ممکن دکھائی دیتا ہے اور یہ کہ اب امریکا اس پوزیشن میں ہے کہ یورپ گیس کی فراہمی کے معاملے میں روس کے بجائے اس پر انحصار کرے۔ حقیقت یہ ہے کہ یہ بیانات محض جھوٹ پر مبنی ہیں۔ نیٹو کے صدر مقام برسلز میں براک اوباما نے یورپی رہنماؤں پر زور دیا کہ وہ مائع گیس روس کے بجائے اب امریکا سے درآمد کریں۔ یہ معاملہ ایسا آسان نہیں جیسا امریکی رہنما دکھانے کی کوشش کر رہے ہیں۔
مائع گیس کا تجربہ امریکا میں بھی شدید ناکامی سے دوچار رہا ہے۔ شیل اور برٹش پٹرولیم جیسی بڑی کمپنیاں بھی اب مائع گیس کی تیاری کو غیر مفید قرار دے کر ترک کرتی جارہی ہیں۔ شیل نے حال ہی میں یہ اعلان کیا ہے کہ وہ مائع گیس تیار کرنے کے سیٹ اپ میں اپنی سرمایہ کاری اور دیگر اخراجات معتدبہ حد تک کم کر رہی ہے۔ شیل نے امریکی ریاستوں ٹیکساس، پنسلوانیا، کولوراڈو اور کنساس میں شیل گیس سے بھرے ہوئے علاقوں میں سات لاکھ ایکڑ زمین پر تصرف سے دستبردار ہونے کی بات کہی ہے۔ اس کا کہنا ہے کہ مائع گیس کی تیاری اب زیادہ سودمند کاروبار نہیں۔ شیل کے سی ای او بین وین بوئرڈین کا کہنا ہے کہ مائع گیس کے شعبے میں کارکردگی کسی بھی اعتبار سے قابلِ ذکر اور منافع بخش نہیں رہی۔ بہت سے مقامات پر شیل گیس کے ذخائر کی تلاش کا کام شدید ناکامی سے دوچار رہا ہے۔
توانائی کے معروف محقق اور مبصر ڈیوڈ ہیوز نے بتایا ہے کہ کئی برس کی محنتِ شاقّہ کے بعد بھی امریکا میں مائع گیس کا انقلاب برپا کرنے سے متعلق کوششیں انتہائی ناکام ثابت ہوئی ہیں۔ وہ کہتے ہیں کہ امریکا میں مائع گیس کی پیداوار گیس کی مجموعی پیداوار کا چالیس فیصد تک پہنچ گئی تھی۔ مگر اب اس حوالے سے کوئی پیش رفت ممکن نہیں ہو پارہی۔ ۲۰۱۱ء سے مائع گیس کی پیداوار ایک مقام پر رُکی ہوئی ہے۔ مائع گیس کی ۸۰ فیصد پیداوار پانچ علاقوں میں مرتکز ہے مگر ان علاقوں میں بیشتر ذخائر اب خاتمے کے قریب ہیں۔ پیداوار کو برقرار رکھنے اور آگے بڑھانے کے لیے ہر سال کم و بیش ۴۲؍ارب ڈالر کی سرمایہ کاری درکار ہے تاکہ سات لاکھ نئے کنویں کھودے جاسکیں۔ اس کے مقابلے میں ۲۰۱۲ء میں پیدا کی جانے والی مائع گیس کی مجموعی مالیت صرف ۳۲؍ارب ڈالر تھی۔ یہ طے کرنا مشکل ہے کہ مائع گیس کے معاملے میں صدر اوباما کو ان کے مشیر اور معاون غلط مشورے دے رہے ہیں، جھوٹ بول رہے ہیں یا پھر وہ خود ہی جھوٹ بول رہے ہیں۔ بظاہر پہلی بات درست ہے۔
یورپ کو مائع گیس کی بڑے پیمانے پر فراہمی یقینی بنانے کے لیے لازم ہے کہ امریکا میں بنیادی ڈھانچے کو اپ گریڈ کیا جائے اور مائع گیس کے بڑے ٹرمینل تعمیر کیے جائیں۔
امریکا میں پائی جانے والی توانائی کی برآمد کے حوالے سے متعدد قوانین کے نافذ رہنے کے باعث امریکا میں مائع گیس کے ٹرمینلز کی تعداد خاصی کم ہے۔ امریکا میں توانائی کی کھپت چونکہ زیادہ ہے، اس لیے برآمد تک معاملہ پہنچتا ہی نہیں۔ لوزیانا کے علاقے کیمرون پیرش میں سبین پاس ایل این جی ریسوینگ ٹرمینل واحد بڑی سائٹ ہے، جس کی ملکیت چینئر (Cheniere) انرجی کی ہے۔ اس کے سربراہ کی نشست پر سی آئی اے کے سابق سربراہ جان ڈیوچ براجمان ہیں۔ اب مسئلہ یہ ہے کہ سبین پاس ٹرمینل میں پیدا ہونے والی مائع گیس کا بڑا حصہ بھارت، جنوبی کوریا اور دیگر ایشیائی ممالک کو فروخت کرنے کے معاہدے ہوچکے ہیں۔
ایک بڑا مسئلہ یہ ہے کہ اگر امریکا مائع گیس کی بڑی مقدار یورپ کو فروخت کرتا ہے تو اندرون ملک طلب بڑھنے سے قیمت میں اضافے کا خدشہ ہے۔ اس صورت میں صارفین کے لیے مشکلات پیدا ہوں گی۔ اس وقت مائع گیس لوگوں کو تھوڑی سستی پڑتی ہے، اس لیے زیادہ استعمال ہو رہی ہے۔ جب اس کے نرخ بڑھ جائیں گے تو صَرف بھی کم ہوجائے گا۔ ایسی صورت میں مسائل بڑھیں گے۔ ایسی حالت میں یورپ کے لیے امریکی مائع گیس کی قیمت روس کی طرف سے فراہم کی جانے والی مائع گیس سے کہیں بڑھ جائے گی۔ امریکا چاہتا ہے کہ یورپ کو روس سے دور کرکے اپنے قریب کرلے۔ مگر یورپ کے لوگوں کو اگر گیس مہنگی ملے گی، تو وہ امریکا سے قربت میں کشش کیوں محسوس کریں گے؟ امریکا کے پاس یورپ کو بڑے پیمانے پر گیس فراہم کرنے کے لیے سپر ٹینکر بھی نہیں۔ سپر ٹینکر کا اہتمام کرنے میں تو کئی برس لگ جائیں گے۔ ایسے میں امریکا کے لیے یورپ کو اپنی طرف متوجہ کرنے کے حوالے سے ایسا کچھ بھی نہیں جو فوری اور ٹھوس نتائج پیدا کرسکے۔
اس وقت یورپ اپنی ضرورت کی ۳۰ فیصد گیس روس سے حاصل کر رہا ہے جو اسے خاصی سستی پڑتی ہے اور فوری رسد بھی ممکن ہے۔ روس نے ۲۰۰۷ء میں فرانس کو ۱۴؍فیصد، اٹلی کو ۲۷ فیصد، جرمنی کو ۳۶ فیصد اور فن لینڈ اور بالٹک ریاستوں کو ان کی ضرورت کی ۱۰۰؍فیصد گیس فراہم کی۔
یورپ کے پاس اس وقت روسی گیس کا کوئی حقیقی متبادل نہیں۔ یورپ کی سب سے بڑی معیشت جرمنی نے جوہری، شمسی اور ہوائی توانائی کو خیرباد کہتے ہوئے روایتی طریقوں سے پیدا کی جانے والی بجلی تیار کرنے پر توجہ مرکوز کرکے انتہائی حماقت کا ثبوت دیا ہے۔ اس کے نتیجے میں لاگت کہیں سے کہیں جا پہنچی ہے۔ یورپ کے لیے روس سے مائع گیس نہ خریدنا اور امریکا سے خریدنے کے بارے میں سوچنا سیاسی اور معاشی اعتبار سے حماقت کے مظاہرے کے سوا کچھ نہیں۔
(ایف ولیم انگلڈیل اسٹریٹجک رسک کنسلٹنٹ اور لیکچرر ہیں۔ انہوں نے پرنسٹن یونیورسٹی سے سیاسیات میں اعلیٰ ڈگری لی ہے۔ ان کی کئی کتابیں مقبولیت حاصل کرچکی ہیں۔
(“Replacing Russian gas deliveries with US shale gas? Washington lies to the EU”… “globalresearch.ca”. April 10, 2014)
Leave a Reply