شمال مغربی افریقا میں صحرائے صحارا کے مختلف حصوں سے القاعدہ کے مشتبہ ارکان کے بڑھتے ہوئے حملوں نے امریکا اور نِیجر (Niger) کو قریب کردیا ہے۔ سابق فرانسیسی نو آبادی سے امریکا نے معاہدہ کیا ہے، جس کے تحت نِیجر کی حکومت ڈرون حملوں کے لیے اپنی زمین پر امریکی اڈے بنانے کے لیے رضامند ہوگئی ہے۔ افریقا میں اب تک امریکی ڈرون حملوں کے لیے مستقل واحد اڈہ جبوتی میں ہے، جو نِیجر سے تین ہزار کلومیٹر دور ہے۔ نیٹو کے ڈرونز کی رینج سو میل ہے اور وہ اٹھارہ ہزار فیٹ کی بلندی پر اڑتے ہیں۔ زیادہ بلندی پر اڑنے والے ڈرونز کی رینج زیادہ ہوتی ہے مگر خیر وہ بہتر نشانہ بھی نہیں لے سکتے۔
نِیجر سے ہونے والے معاہدے کا مطلب یہ ہے کہ اب عسکریت پسند دنیا کے کسی بھی خطے یا علاقے میں محفوظ نہیں رہ سکیں گے اور ان پر ہر وقت نظر رکھی جاسکے گی۔ برطانوی خبر رساں ادارے نے بتایا کہ امریکا سے طے پانے والے ڈرون بیس معاہدے پر نِیجر کے صدر محمدو عیسافُو نے دستخط کیے۔ مختلف خبر رساں اداروں کی رپورٹس میں بتایا گیا ہے کہ نِیجر کو اسلام نواز شدت پسندوں کی سرگرمیوں سے خطرات لاحق ہیں، اس لیے اس کی حکومت نے اپنے مفاد کے تحت امریکا سے یہ معاہدہ کیا ہے تاکہ عسکریت پسندوں پر نظر رکھی جاسکے اور ضرورت محسوس ہونے پر ان کے خلاف بروقت کارروائی بھی یقینی بنائی جاسکے۔ شمالی افریقا کے مغربی حصے میں شدت پسند تیزی سے اپنی پوزیشن مستحکم کرتے جارہے ہیں۔ القاعدہ سے تعلق رکھنے والے شدت پسندوں نے مالی میں سرگرمیاں اس حد تک بڑھادی ہیں کہ ایک مرحلے پر ایسا محسوس ہوا کہ وہ فرانسیسی فوجیوں کو انجانے میں جا لیں گے۔
مالی سے ۵۰۰ کلومیٹر دور لیبیا کی سرحد کے نزدیک الجزائر میں گیس کی ایک تنصیب پر حملے سے مغربی طاقتوں نے محسوس کرلیا کہ اب خطرہ بڑھ گیا ہے اور کہیں بھی کچھ بھی ہوسکتا ہے۔ فرانس نے الجزائر سے کہا ہے کہ وہ اپنی سرحدوں کی جامع نگرانی کا اہتمام کرے تاکہ مالی سے اسلام پسند اس کے علاقے میں داخل نہ ہوں۔
مالی اور نِیجر سے زیادہ خطرہ تو نائیجیریا کے لیے ہے، جو خطے میں تیل پیدا کرنے والا سب سے بڑا ملک ہے۔ نائیجیرین سرزمین پر اسلامی شدت پسند تنظیم بوکو حرم حکومت کے لیے واضح طور پر بڑا خطرہ ہے۔ مالی میں شدت پسندوں کو کنٹرول کرنے کے لیے نائجیریا نے بھی فوری طور پر فوجی بھیجنے کا اہتمام کیا۔ فرانس، امریکا اور یورپی یونین کے علاوہ افریقی اتحاد کی تنظیم کے ردعمل نے بوکو حرم کو جنگ بندی کی راہ پر گامزن ہونے کی تحریک دی ہے۔
نِیجر میں امریکا نے ڈرون حملوں کے لیے اڈے بنانے کے ساتھ ساتھ نئے معاہدے کے تحت فوجیوں کو تربیت دینے کا اہتمام بھی کیا ہے، جو فوجیوں کو دہشت گردی اور عسکریت پسندی سے نمٹنے کی تربیت دے رہے ہیں۔
نِیجر میں اسلامی شدت پسندوں کی موجودگی کوئی نئی بات نہیں۔ ۱۹۸۹ء میں لیبیا نے نِیجر ہی کی سرزمین پر ایک فرانسیسی طیارے کو تباہ کردیا تھا۔ اس طیارے میں سوار ۱۷۱؍افراد میں چند امریکی بھی تھے۔
امریکی موجد اور محقق نکولا ٹیسلا نے سو سال قبل اڑنے والے نگراں کیمرے کا خواب دیکھا تھا۔ پائلٹ کے بغیر اڑنے والے طیاروں یعنی ڈرونز کو نگرانی اور جاسوسی کے لیے استعمال کیا جاتا رہا ہے۔ عسکری زبان میں ان ڈرونز کو ISR کہا جاتا ہے یعنی (انٹیلی جنس، سرویلنس اور ری کنیسنس) ڈرون سے میزائل بھی داغے جاسکتے ہیں۔ امریکا نے پاکستان اور افغانستان کے درمیان قبائلی علاقوں، یمن اور دیگر ممالک میں ڈرون سے خوب کام لیا ہے۔ ڈرون حملوں میں عام شہری بھی بڑی تعداد میں موت کے گھاٹ اترتے ہیں۔ اس حوالے سے امریکا کو شدید تنقید کا بھی سامنا کرنا پڑا ہے۔ ڈرون کے استعمال کے حوالے سے بہت سے تنازعات پائے جاتے ہیں۔ اب تک یہ طے نہیں ہوسکا کہ ڈرون حملے بین الاقوامی قانون کی خلاف ورزی ہیں یا نہیں۔ اور اگر ہیں تو کس حد تک۔ ڈرون میں کوئی فوجی پائلٹ نہیں ہوتا اور اسے آپریٹ کرنے والے بھی سویلینز ہوتے ہیں۔
(رابرٹ ویلر کا تعلق امریکی ریاست کولوراڈو کے شہر ڈینور سے ہے۔ وہ آل وائسز چینل کے اینکر ہیں۔)
(“US Signs Pact with NIGER for Anti-Al-Qaida Drone Bases”.. “allvoices.com” Jan. 29th, 2013)
Leave a Reply