
چودہ فروری ۲۰۱۳ء کو جاری کیے جانے والے ایک سروے سے معلوم ہوا ہے کہ پاکستان میں عوام کا اعتماد سویلین حکومت پر سے اٹھ چلا ہے۔ گیلپ سروے میں ۹۲ فیصد رائے دہندگان نے امریکا کے لیے شدید ناپسندیدگی کا اظہار کیا اور ۵۵ فیصد رائے دہندگان کا کہنا ہے کہ مغربی معاشرے سے بڑھتا ہوا اختلاط مزید خرابیاں لائے گا۔ سروے سے معلوم ہوا ہے کہ مارچ اور اکتوبر ۲۰۱۲ء میں ۲۳ فیصد پاکستانی ہی سویلین حکومت کے حق میں تھے۔ دسمبر ۲۰۰۸ء میں منتخب جمہوری صدر آصف علی زرداری کے منصب پر فائز ہونے کے چند دنوں بعد سویلین حکومت کی حمایت کرنے والے پاکستانی ۵۴ فیصد تھے۔ وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ پاکستان میں سویلین حکومت کے لیے عوام کی حمایت گھٹتی گئی ہے۔ ۲۰۱۰ء میں سویلین حکومت کو کام کرتے ہوئے دیکھنے کے خواہش مند پاکستانیوں کا تناسب ۳۱ فیصد تھا، جو ۲۰۱۲ء میں گھٹ کر ۲۳ فیصد تک آن پہنچا ہے۔
پاکستانی معاشرہ ایک بار پھر فوجی حکمرانی کے حق میں ہوتا جارہا ہے۔ اکتوبر میں ایک گیلپ سروے سے معلوم ہوا کہ فوج کو حکومت میں دیکھنے کے خواہش مند پاکستانی ۸۸ فیصد ہیں۔ ۲۰۰۶ء میں فوج پر اعتماد کرنے والے پاکستانیوں کا تناسب ۸۴ فیصد تھا۔ ۲۰۰۸ء میں فوج پر بھروسہ رکھنے والے پاکستانی ۷۶ فیصد تھے جو حالیہ برسوں میں کم ترین شرح ہے۔ ۲۰۱۲ء کے وسط تک فوج پر اعتماد رکھنے والوں کا تناسب ۸۰ فیصد ہوچکا تھا۔
جس گیلپ سروے کی بنیاد پر پاکستان میں فوجی حکومت کے لیے حمایت بڑھنے اور سویلین حکومت پر اعتماد گھٹنے کی بات کی جارہی ہے، وہ گزشتہ برس ۳۰ ستمبر سے ۱۶؍ اکتوبر کے دوران کیا گیا تھا۔ یہ وہی زمانہ تھا جب امریکا میں گستاخانہ فلم ریلیز ہوئی تھی اور کئی ممالک میں شدید ردعمل دکھائی دیا تھا۔
سیاسی مبصرین کا کہنا ہے کہ مئی میں متوقع عام انتخابات ملک کی سمت کے تعین اور پاک امریکا تعلقات کے حوالے سے غیر معمولی اثرات کے حامل ہوں گے۔ ان کا یہ بھی کہنا ہے کہ پاکستان میں امریکا نے جن لوگوں پر اعتبار و انحصار کیا وہ اپنا کردار ادا کرنے میں زیادہ کامیاب نہیں رہے۔ ہوسکتا ہے کہ عام انتخابات میں وہ لوگ اقتدار میں آ جائیں جو امریکا کے لیے خاصا معاندانہ رویہ رکھتے ہیں۔
امریکا نے پاکستانی سرزمین پر جو کارروائیاں کی ہیں، ان میں ہلاکتوں اور مالی نقصان کے باعث موجودہ حکومت کی پوزیشن کمزور ہوتی گئی ہے اور اب پاکستانی عوام اپنی اور امریکی قیادت کو یکسر مسترد کر رہے ہیں۔ یہ ایسی حقیقت ہے جسے نظر انداز نہیں کیا جاسکتا۔
فوج پر عوام کے بڑھتے ہوئے اعتماد کی کوکھ سے کیا جنم لے گا، یہ بتانا تو فی الحال بہت مشکل ہے مگر خیر، اتنا ضرور کہا جاسکتا ہے کہ پاکستان میں غیر معمولی تبدیلیاں رونما ہو رہی ہیں۔ فوج نے سیاسی امور میں ہمیشہ مداخلت کی ہے۔ اس کے باوجود لوگ اسی کی طرف دیکھ رہے ہیں۔ یہ بات بِلاخوفِ تردید کہی جاسکتی ہے کہ پاکستان کے عام انتخابات کے نتائج امریکا سے تعلقات کی نوعیت پر بھی اثر انداز ہوں گے۔
گیلپ سروے سے یہ بھی معلوم ہوا ہے کہ براک اوباما کے پہلے عہدِ صدارت کے دوران پاکستانیوں کی واضح اکثریت ۹۲ فیصد نے امریکی قیادت کو مسترد کردیا، جو ریکارڈ ہے۔ یکم مئی ۲۰۱۱ء کو ایبٹ آباد میں آپریشن اور اسامہ بن لادن کے قتل کے بعد پاکستان میں امریکیوں کے لیے شدید ناپسندیدگی کے جذبات پیدا ہوئے۔
گزشتہ تین سالوں کے دوران پاکستان میں ایسے لوگوں کی تعداد بڑھی ہے، جو یہ خیال کرتے ہیں کہ مغرب سے بڑھتا ہوا اختلاط خرابیوں کو جنم دے رہا ہے۔ ۲۰۱۱ء میں ۳۹ فیصد پاکستانی یہ سمجھتے تھے کہ مغربی معاشرے سے بڑھتا ہوا تفاعل خرابیاں پیدا کر رہا ہے۔ اب ایسے پاکستانیوں کا تناسب بڑھ کر ۵۵ فیصد ہو گیاہے۔ یہ ذہنی تبدیلی پاکستانی سرزمین پر امریکی ڈرون حملوں کی بڑھتی ہوئی تعداد اور پاکستان کی خودمختاری سے کھلواڑ کے تناظر میں قابلِ غور ہے۔
پاکستان کے نصف (تقریباً ۴۹ فیصد) باشندوں کی عمریں ۱۵؍اور ۲۹ سال کے درمیان ہیں۔ ان کی اکثریت امریکا کو شک کی نظر سے دیکھتی ہے۔ اس کا واضح مطلب یہ ہے کہ پاک امریکا تعلقات مشکلات سے دوچار اور کشیدہ ہی رہیں گے۔
(’’پاکستانی عوام۔ امریکا اور سویلین حکومت‘‘۔ گیلپ سروے رپورٹ)
(“Pakistanis’ Trust in Civilian Govt has Nosedived: US Survey”. “Dawn”. Feb 15th, 2013)
Leave a Reply