
تین عسکری گروہوں کے کمانڈروں نے این بی سی نیوز کو بتایا کہ امریکا کی طویل ترین جنگ کے خاتمے کے لیے اس کے اعلیٰ عہدیدار سابق طالبان راہنماؤں سے بات چیت کر رہے ہیں۔ طالبان ذرائع کے مطابق یہ بات چیت افغانستان، قطر اور متحدہ عرب امارات میں ہوئی ہے۔ ایک شریک کار نے بتایا کہ قطر کے دارالحکومت دوحہ کے ایک ہوٹل میں طالبان سے مذاکرات کرنے والے وفد میں کبھی بھی پانچ سے زیادہ امریکی عہدیدار شامل نہیں تھے۔ طالبان حکومت نے افغانستان میں القاعدہ کے لیڈر اسامہ بن لادن کو پناہ دے رکھی تھی۔ نائن الیون حملوں کے بعد افغانستان کے خلاف امریکی جارحیت کے وقت ہی سے اس کے جنگجو امریکی سرپرستی میں نیٹو فورسز کے خلاف برسرپیکار تھے، تاکہ ملک میں شریعت کے قوانین نافذ کیے جاسکیں۔ اس جنگ میں ۲۴۰۰ سے زائد امریکی فوجی مارے جاچکے ہیں۔
دوحہ مذاکرات میں شریک ہونے والوں نے بتایا کہ ملاقاتیں دوستانہ ماحول میں ہوئیں، جن میں چائے کے ساتھ بسکٹ بھی پیش کیے گئے۔ انہوں نے مزید بتایا کہ اندر اور باہر سیکورٹی اتنی سخت تھی کہ ہوٹل کے اسٹاف کو بھی اندر جانے کی اجازت نہیں تھی۔ اپنی ذاتی سیکورٹی کو لاحق خطرے کے پیش نظر طالبان وفد کے ارکان نے ایسے اقدامات کر رکھے تھے کہ وہ روسی، چینی اور عرب ممالک کی انٹیلی جنس ایجنسیوں کی نظر میں نہ آسکیں۔ ایک مذاکرات کار نے بتایا کہ ’’ہم اکٹھے ہوٹل نہیں جاتے، ہم کبھی مذاکرات کی جگہ پر پہلے نہیں جاتے، جب امریکی وفد کے ارکان وہاں پہنچ جاتے ہیں تو پھر ہم ایک ایک کرکے وہاں پہنچتے ہیں، سیکورٹی خدشات کے پیش نظر ہم ہوٹل کی کچھ منازل پر لفٹ میں جاتے ہیں اور کچھ پر سیڑھیوں کے ذریعے سے‘‘۔
۱۳ جون ۲۰۱۳ء کو قطر کے شہر دوحہ میں قائم ہونے والے افغان عسکریت پسندوں کے سیاسی دفتر کے باہر ایک سیکورٹی گارڈ کھڑا ہوتا ہے۔ این بی سی نیوز طالبان سے ان باتوں کی تصدیق نہیں کرسکا، کیونکہ انہیں میڈیا سے بات کرنے کی اجازت نہیں تھی، اس لیے انہوں نے ہمارے ساتھ نام صیغہ راز میں رکھنے کی شرط پر بات چیت کی تھی۔ مذاکرات اور ان کے سہولت کار کے طور پر طالبان سابق کمانڈرز اور سیاسی رہنماؤں پر تکیہ کرتے ہیں، جن میں سے بعض ماضی میں امریکا یا افغانستان کی جیلوں میں قید رہ چکے ہیں اور اب زیادہ سرگرم کردار ادا نہیں کرتے۔ اب وہ پُرامن علاقے میں مقیم ہیں، وہ کھیتوں میں کام کرتے ہیں اور شہد یا قالینوں کی تجارت کرتے ہیں۔ طالبان جو اب پورے افغانستان میں پھیل چکے ہیں اور ملک کے بعض حصوں میں شیڈو حکومت بھی چلاتے ہیں وہ سرکاری طور پر اس بات کی تردید کرتے ہیں کہ ان کے امریکا یا اشرف غنی کی حکومت کے ساتھ مذاکرات چل رہے ہیں۔ امریکی وزارت خارجہ کے ترجمان نے اس بات کی تصدیق نہیں کی کہ ایسی کوئی بات چیت ہوئی ہے، مگر ساتھ یہ بھی کہاکہ ٹرمپ حکومت اس تنازع کو حل کرنے کے لیے بے تاب ہے۔ ترجمان نے ایک بیان میں کہا ہے کہ امریکا امن کی بحالی کے لیے افغان حکومت سے قریبی مشاورت سے ہر ممکن اقدامات کر رہا ہے، نیز یہ کہ افغانستان کے سیاسی مستقبل کے حوالے سے مذاکرات طالبان اور افغان حکومت کے درمیان ہی ہوں گے۔ اور یہ اس امریکی پالیسی کا اعادہ ہے جس کے تحت ان کا ملک ہمیشہ مذاکرات شروع کرنے کے لیے افغان حکومت کی حوصلہ افزائی کرتا ہے۔ ایک اور افغان کمانڈر نے افغانستان سے دیے گئے ایک انٹرویو میں بتایا کہ اسی ماہ مذاکرات کا ایک دور متحدہ عرب امارات میں بھی ہوا ہے۔ اس نے بتایا کہ ’’امریکی اہلکار کابل اور یو اے ای میں ہمارے سابق ارکان سے مل رہے ہیں۔ اور پھر یہ ارکان بات چیت کے دوران ملنے والے کثیر جہتی آپشن کے پیغامات ہم تک پہنچا دیتے ہیں۔ امریکی عہدیدار اس حالیہ امن عمل میں غیر معمولی دلچسپی کا اظہار کر رہے ہیں‘‘۔ امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ انتخابی مہم کے دوران کیے گئے وعدے کے مطابق افغانستان سے قریباً ۱۴۰۰۰؍امریکی فوجیوں کو نکالنے میں اپنی دلچسپی کا اظہار کر چکے ہیں۔ افغانستان میں امریکی کمانڈر جنرل جان نیکولسن نے رائٹر کو بتایا ہے کہ امریکا طالبان کے ساتھ براہ راست مذاکرات کرنے کے لیے تیار ہے۔
تاہم منگل کے روز افغانستان میں موجود نیٹو مشن نے ان اطلاعات کی تردید کردی کہ جنرل نیکولسن نے یہ کہا ہے کہ امریکا اس گروپ سے براہ راست مذاکرات کرے گا۔ نیکولسن نے اپنے اگلے بیان میں کہاکہ ’’امریکا افغان عوام یا افغان حکومت کا متبادل نہیں ہے‘‘۔ گزشتہ ماہ وزیر خارجہ پومپیو نے کہا تھا کہ امریکا افغانستان میں عالمی فوج کے کردار پر طالبان کے ساتھ مذاکرات کی حمایت، سہولت کاری اور ان میں شرکت کے لیے تیار ہے، مگر یہ امن عمل افغان سرپرستی میں ہوگا۔ اس سترہ سالہ جنگ کی بھاری قیمت چکائی جا چکی ہے اور ۲۰۱۸ء کے پہلے چھ ماہ مہلک ترین ثابت ہوئے ہیں، جس میں اب تک ۱۶۹۲ شہری مارے جاچکے ہیں۔ اقوام متحدہ کے مطابق اس میں ہزاروں افغان فوجی بھی ہلاک ہو چکے ہیں۔ طالبان کی واضح برتری نظر آرہی ہے یا ایک منقسم اور کمزورافغان حکومت جسے جنگ سے بیزاربیرونی آقاؤں کی حمایت بھی حاصل ہے، کے خلاف کم ازکم ایک تعطل ضرور پیدا ہوچکا ہے۔ افغان تعمیر نو کی نگرانی کرنے والے انسپکٹر جنرل کی اپریل کی رپورٹ کے مطابق طالبان کا افغانستان کے ۴۰ فیصد حصے پرقبضہ ہے۔ تاہم طالبان پر مذاکرات کے لیے پاکستان کی طرف سے بھی خاصا دباؤ ہے جس پر عرصے سے طالبان کو پناہ دینے اور مسلح کرنے کا الزام عائد ہو رہا ہے۔
افغانستان میں طالبان کمانڈر نے بھی اسی موقف کی تشریح کی ہے جوکہ طالبان نے ملک میں غیر ملکی فوج کی موجودگی کے حوالے سے اپنا رکھا ہے۔ اس نے کہا ’’ہمارا موقف بالکل واضح ہے اور یہ وہی پرانا موقف ہی ہے۔ امریکا کو افغانستان سے اپنی فوجیں نکالنا ہوں گی، قیدیوں کا تبادلہ کرنا ہوگا اور ہمیں اپنے مسائل کو افغان کلچر اور روایات کے مطابق طے کرنے کا موقع دینا ہوگا‘‘۔
افغان حکومت اور طالبان کے درمیان ہونے والی مختصر جنگ بندی اس وقت ختم ہوگئی، جب ایک حملے کے نتیجے میں تیس افراد مارے گئے تو طالبان پر مذاکرات کے لیے دباؤ میں اضافہ ہوگیا۔
طالبان نے ۲۰۱۳ء میں قطر کے شہر دوحہ میں اپنا دفتر قائم کرنے کے بعد اپنا اسٹاف وہاں متعین کیا تھا۔ اس سے اگلے سال طالبان نے پانچ اعلیٰ طالبان عہدیداروں کے بدلے میں امریکی سارجنٹ Bowe Berrgdhal کو رہا کیا تھا، جو اپنے کیمپ سے نکل کر طالبان کے ہاتھوں اغوا ہوگیا تھا۔
(بشکریہ: این بی سی نیوز، ترجمہ: زاہد رامے)
Leave a Reply