
دنیا کو آگے چل کر سلامتی کے حوالے سے جو چند بڑے خطرات لاحق ہوسکتے ہیں اُن میں ایک سعودی عرب اور متحدہ عرب امارات کو حساس ہتھیاروں اور آلات کی ٹیکنالوجی کی منتقلی بھی شامل ہے۔
آج کی دنیا جدید ترین ٹیکنالوجی کی مدد سے بنائے جانے والے ہتھیاروں اور متعلقہ ساز و سامان کے حوالے سے مسابقت سے عبارت ہے۔ ہتھیاروں کو زیادہ سے زیادہ جدید اور کارگر بنانے کے معاملے میں یورپ نے بھی بہت محنت کی ہے مگر امریکا اس معاملے میں سب پر بازی لے گیا ہے۔ آج بھی سب سے زیادہ پیچیدہ اور کارگر جدید ہتھیار امریکا ہی بنارہا ہے۔ دنیا کے سب سے بڑے اسلحہ فروخت کرنے والے ادارے لاک ہیڈ مارٹن، بوئنگ اور ریتھیون جیسے بڑے اداروں کو امریکی حکومت نے اجازت دے رکھی ہے کہ سعودی عرب کو اندرون ملک جدید ترین ہتھیاروں کی تیاری کے قابل بنانے کے حوالے سے جدید ترین آلات اور ٹیکنالوجی فراہم کریں۔
سعودی عرب، متحدہ عرب امارات اور دیگر ممالک اگر اپنے ہاں اسلحہ ساز اداروں کو مستحکم کرنے میں کامیاب ہوگئے تو آگے چل کر وہ اسلحے اور دفاعی آلات کے حوالے سے امریکا پر کم منحصر ہوں گے اور جدید ترین ہتھیار برآمد کرنے کے قابل بھی ہو جائیں گے۔
امریکی کانگریس کی ریسرچ سروس کو ۲۰۱۷ء میں معلوم ہوا کہ متحدہ عرب امارات نے ۲۰۱۴ء میں دی ایمیریٹس ڈیفنس انڈسٹریز کمپنی قائم کی ہے۔ متحدہ عرب امارات نے روس، سعودی عرب، کویت، الجزائر اور لیبیا سے کسٹمر ایگریمنٹس پر دستخط کیے ہیں۔ یہ بات قابلِ ذکر ہے کہ متحدہ عرب امارات میں تیار کردہ آرمرڈ وہیکلز، اسالٹ رائفلز اور پرسونل کیریئرز یمن میں لڑائی کے دوران دکھائی دی ہیں۔
معروف اسکالر جوڈی وٹوری نے ٹرانسپرنسی انٹر نیشنل کے لیے تیار کردہ ایک رپورٹ ’’دی ملٹری انڈسٹریل کمپلیکس اینڈ یو ایس فارن پالیسی۔۔ دی کیسز آف سعودی عربیہ اینڈ یو اے ای‘‘ میں لکھا ہے: ’’مئی ۲۰۱۷ء میں اُس وقت کے سعودی نائب ولی عہد محمد بن سلمان نے سعودی عربین ملٹری انڈسٹریز کمپنی (SAMI) کے قیام کا اعلان کیا جو امریکی ڈیزائن کے مطابق میزائل، ہتھیار اور الیکٹرانکس سسٹم تیار کرے گی۔ یہ کمپنی دراصل محمد بن سلمان کے اِس خواب کا حصہ ہے کہ ۲۰۳۰ء تک سعودی عرب کے تمام دفاعی اخراجات نصف ہوجانے چاہییں۔
سعودی عرب اور متحدہ عرب امارات کے معاملے میں جو کچھ ہو رہا ہے وہ تجارت کے حوالے سے چین کے معاملے میں امریکی سوچ کی یاد دلا رہا ہے۔ چینی مارکیٹ میں بڑا شیئر پانے کے لیے امریکی کمپنیاں جدید ترین ٹیکنالوجی چینی کمپنیوں کے حوالے کرنے کے لیے تیار کررہی ہیں۔ یہ بات زیادہ حیرت انگیز نہیں کہ آج بہت سی چینی کمپنیاں امریکی اداروں سے حاصل کردہ یا چرائی ہوئی ٹیکنالوجی کی مدد سے نہ صرف اندرونی مارکیٹ کی تشفی کر رہی ہیں بلکہ بیرونی منڈیوں میں بھی اپنا شیئر بڑھا رہی ہیں۔ یہ دیکھ کر مزید حیرت ہو رہی ہے کہ امریکی حکومت انتہائی سادگی کا مظاہرہ کرتے ہوئے ایک بڑی غلطی دہرا رہی ہے اور مقصد صرف یہ ہے کہ ہتھیاروں کی فروخت کا دائرہ وسیع سے وسیع تر کیا جائے۔ یہ بات بھی سب پر واضح ہو جانی چاہیے کہ خالص سیاسی اور اسٹریٹجک نقطۂ نظر سے دیکھیے تب بھی یہ سب کچھ غلط ہے۔ امریکا ہی کہا کرتا تھا کہ مشرقِ وسطیٰ کو سب سے آخر میں جس چیز کی زیادہ ضرورت پڑے گی، وہ ہیں مزید ہتھیار۔ جب مشرقِ وسطیٰ کو اسلحے کی کم ضرورت پڑنی ہے تو وہاں اسلحہ ساز اداروں کو مضبوط بنانے کی کیا ضرورت ہے؟ مغربی ہتھیار اور ٹیکنالوجی منتقلی سے متعلق معاہدے اور نظام نقائص سے بھرے پڑے ہیں تو اسلحہ سازی کے عمل کو مقامی رنگ دینے کا عمل تخفیفِ اسلحہ سے متعلق تمام دعوؤں اور تصورات کی نفی کرتا ہے۔ متحدہ عرب امارات کے اسلحہ ساز تو بہت خوش ہوں گے کہ اب وہ ’’دوستوں‘‘ کو بڑے پیمانے پر اسلحہ فروخت کرسکیں گے۔
ایک طرف تو چین کے حوالے سے امریکا میں یہ پریشان کن تصور پایا جارہا ہے کہ وہ اسلحہ سازی اور دیگر شعبوں میں امریکی مفادات کے لیے شدید خطرہ بن کر ابھر رہا ہے اور دوسری طرف متحدہ عرب امارات کو اسلحہ سازی میں مدد فراہم کرنا؟ شاید یہ تو دنیا میں سے سب سے کم محسوس کی جانے والی ضرورت ہے۔ ایسا لگتا ہے کہ اس معاملے میں امریکا اپنی روایت برقرار رکھے گا یعنی وقت گزر جانے کے بعد ہی ہوش میں آئے گا۔
اسلحے کا بے مثال تاجر
ایران کے جنرل سلیمانی کی ہلاکت کے بعد سعودی حکام امریکی ایوانِ صدر پہنچے۔ امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کو ہتھیار بیچنے کا شوق ہے اور اُن کے پسندیدہ کسٹمر سعودی عرب کے ولی عہد محمد بن سلمان ہیں۔ ۳ جنوری کو امریکی فوج کے ہاتھوں ایران کے جنرل قاسم سلیمانی کی ہلاکت کے فوراً بعد صدر ٹرمپ اسلحہ فروخت کرنے پر تُل گئے۔ اُن کے نزدیک یہ امریکی کانگریس یا نیٹو کے ارکان سے مشاورت سے کہیں بڑھ کر اور بہتر تھا۔
سعودی ولی عہد محمد بن سلمان کے بھائی اور نائب وزیر دفاع خالد بن سلمان کے دورۂ امریکا کا اہتمام کیا گیا۔ انہوں نے ۶؍ اور ۷ جنوری کو امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ، وزیر دفاع اور وزیر خارجہ سے ملاقات کی۔ حیرت انگیز بات یہ ہے کہ یہ ملاقاتیں خفیہ رکھی گئیں۔ سعودی حکام نے تو معاملہ طشت از بام کیا تاہم امریکی ایوانِ صدر کی ویب سائٹ پر خالد بن سلمان کی ملاقاتوں کا تاحال کوئی باضابطہ ذکر نہیں۔ امریکی صدر نے ۷ جنوری کو ایک ٹوئیٹ کے ذریعے بتایا کہ انہوں نے سعودی عرب کے نائب وزیر دفاع سے ملاقات کی ہے۔ اس ملاقات کے دوران چونکہ صدر ٹرمپ کے ذہن پر صرف اور صرف کیش سوار تھا اس لیے انہوں نے اپنے ٹوئیٹ میں لکھا کہ خالد بن سلمان سے ملاقات میں اسلحے، تیل، تجارت، دفاع، سلامتی اور مشرق وسطیٰ میں استحکام پر بات ہوئی۔
امریکا اور دیگر ترقی یافتہ ممالک سے بڑے پیمانے پر ہتھیاروں کی خریداری کا نتیجہ کیا برآمد ہوگا؟ مشرق وسطیٰ میں بہت جلد صورتِ حال انتہائی خطرناک اور نازک ہوجائے گی۔ کوئی بھی اور خطہ اِتنے بڑے پیمانے پر اسلحہ نہیں خرید رہا۔ اور اس خطے کو اسلحہ فراہم کرنے والا سب سے بڑا ملک امریکا ہے۔ سب سے زیادہ اسلحہ سعودی عرب خرید رہا ہے۔
قاسم سلیمانی کے قتل کے بعد مشرق وسطیٰ میں جو کشیدگی پیدا ہوئی ہے اور جس طرح کی صورتِ حال بن رہی ہے، اُسے دیکھتے ہوئے کہا جاسکتا ہے کہ اسلحے کی دوڑ میں تیزی آئے گی اور اسلحے کے مزید انبار لگیں گے۔ سعودی عرب اور متحدہ عرب امارات صرف بڑے پیمانے پر اسلحے کی خریداری تک محدود نہیں رہنا چاہتے بلکہ اپنے ہاں اسلحہ ساز ادارے قائم کرنے میں بھی غیر معمولی دلچسپی لے رہے ہیں۔
امریکا اسلحہ فروخت کرنے والا سب سے بڑا ملک ہے، اور امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ اسلحے کے بہت اچھے سیلزمین ہیں۔ انہوں نے ۲۰۱۷ء میں صدر کی حیثیت سے پہلا غیر ملکی دورہ کیا تو سعودی عرب گئے اور وہاں انہوں نے شاہ سلمان کے ساتھ اسلحے کی فروخت کے ایک بڑے معاہدے پر دستخط کیے۔ میڈیا میں اس بات کو نمایاں طور پر پیش کیا گیا کہ امریکا اور سعودی عرب کے درمیان طے پانے والے اس معاہدے کی مالیت کم و بیش ۱۱۰؍ارب ڈالر ہے۔
امریکی کانگریس بہت سے معاملات میں اسلحے کی فروخت پر پابندی عائد کرتی ہے یا چند سخت شرائط عائد کرتی ہے۔ مئی ۲۰۱۹ء میں صدر ٹرمپ نے کانگریس کے تحفظات ایک طرف ہٹاتے ہوئے ہنگامی حالات کا اعلان کیا اور ایران کو بہانہ یا جواز بناکر کم و بیش ۸؍ارب ڈالر کے قطعیت کے ساتھ نشانہ بنانے والے اسلحے و گولا بارود اور دیگر دفاعی سامان کی فروخت کا معاہدہ کیا۔
اب بالکل صاف دکھائی دے رہا ہے کہ صدر ٹرمپ ایران کے حوالے سے پیدا ہونے والی خصوصی صورتِ حال سے متعلق ہنگامی حالت کا اعلان کریں گے اور یوں مشرق وسطیٰ میں اپنے حلیفوں کو بڑے پیمانے پر اسلحے کی فروخت بھی تیز کردی جائے گی۔ ایسے میں حیرت کی کوئی بات نہیں کہ لاک ہیڈ مارٹن، بوئنگ، ریتھیون اور دیگر امریکی اسلحہ ساز اداروں کے سیلزمین سعودی عرب، متحدہ عرب امارات اور دیگر ممالک کو زیادہ سے زیادہ اسلحہ فروخت کرنے کی کوشش کر رہے ہیں۔
اسلحے کی فروخت اور بدعنوانی
امریکا بہت بڑے پیمانے پر مشرق وسطیٰ کو اسلحہ فروخت کرتا ہے اور اسلحے کی فروخت کے ہر معاہدے سے کرپشن یا رشوت بھی جڑی ہوئی ہے۔ مشرق وسطیٰ کے ممالک سے کیے جانے والے اسلحے کی فروخت کے معاہدوں میں رشوت یا کرپشن کس حد تک ہے، اسلحہ فروخت کرنے کے معاملے میں سیلز ایجنٹس کتنا کمیشن کھاتے ہیں، کتنی رشوت لیتے ہیں یہ سب کچھ شاید کبھی معلوم نہ ہوسکے۔
اس حقیقت کو کسی طور نظر انداز نہیں کیا جاسکتا کہ ہمیں بہت کچھ اس لیے بھی معلوم نہیں ہو پاتا کہ مشرق وسطیٰ کی حکومتیں چاہتی ہیں کہ اسلحہ اور متعلقہ دفاعی ساز و سامان خریدنے سے متعلق معاہدوں کو مکمل طور پر صیغۂ راز میں رکھا جائے۔ سعودی حکومت چاہتی ہے کہ اسلحے کے تمام معاہدے مکمل رازداری کے ساتھ کیے جائیں۔ امریکی حکومت اگر چاہے تو دفاعی سودوں میں زیادہ شفافیت پر زور دے سکتی ہے مگر وہ ایسا اس لیے نہیں کرتی کہ اُسے صرف اسلحہ بیچنے سے غرض ہے۔
سعودی عرب اور متحدہ عرب امارات اسلحے کی خریداری کے لیے جو معاہدے کرتے ہیں اُسے صیغۂ راز میں رکھے جانے کے باعث کرپشن یا رشوت ستانی کا پہلو نظر انداز نہیں کیا جاسکتا۔ مرکزی ڈگر سے ہٹ کر کچھ ایسے انتظامات بھی کیے جاتے ہیں، جن کا مرکزی سودوں اور معاہدوں سے کوئی تعلق نہیں ہوتا۔ سعودی عرب اور امارات کی حکومت کے منتخب کردہ کاروباری شعبوں کے لیے فنڈ فراہم کیے جاتے ہیں۔ جوڈی وٹوری نے ٹرانسپرنسی انٹر نیشنل کے لیے مرتب کی گئی اپنی رپورٹ میں بتایا ہے کہ سعودی عرب سے کیے جانے والے معاہدوں میں رشوت کا تناسب ایک تہائی اور متحدہ عرب امارات سے کیے جانے والے معاہدوں میں دو تہائی تک ہوسکتا ہے۔ انہوں نے پانچ سال قبل مکڈونلڈگلس سے کیے جانے والے پانچ ارب ڈالر کے ایک معاہدے کا حوالہ دیا ہے۔ یہ معاہدہ تیل کو غیر معمولی حد تک صاف کرکے شیمپو اور پینٹ میں استعمال کے قابل بنانا تھا۔
جوڈی وٹوری کی رپورٹ میں فرانس کے ایک اسلحہ ساز ادارے سے کیے جانے والے معاہدے کا بھی ذکر کیا گیا ہے، جس کے تحت سعودی حکومت کی نشاندہی پر فرانسیسی ادارے نے تازہ پھولوں کے لیے گرین ہاؤسز قائم کرنے پر فنڈنگ کی۔
امریکی اسلحہ ساز ادارے اس نکتے پر زور دیتے ہیں کہ وہ رشوت ستانی اور بدعنوانی کی دیگر شکلوں سے متعلق امریکی قوانین کے حوالے سے بہت حساس ہیں، یعنی کچھ بھی ایسا ویسا نہیں کرتے مگر حقیقت یہ ہے کہ سعودی عرب سے کیے جانے والے بیشتر آف سیٹ معاہدوں میں امریکیوں کو اصولوں پر سودے بازی کرنا پڑتی ہے اور بہت سے معاملات میں انہیں سعودیوں کی شرائط کے تحت کام کرنا پڑتا ہے۔ سعودی حکام اپنے کسی ایجنٹ کو ڈرائیونگ سیٹ پر بٹھاتے ہیں یعنی معاملات اُن کے حق میں رہتے ہیں۔
امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ سعودی عرب کو اسلحہ فروخت کرنے کے معاملے میں مشنری جذبے کے ساتھ کام کرتے ہیں۔ سعودی عرب کو غیر معمولی تعداد و مقدار میں اسلحہ اور گولا بارود فروخت کرنے کی پشت پر کوئی بھی عالمی ہنگامی حالت یا نازک مرحلہ نہیں۔ یہ سب کچھ صرف اس لیے ہو رہا ہے کہ صدر ٹرمپ اس میں غیر معمولی دلچسپی لے رہے ہیں۔ اکتوبر ۲۰۱۸ء میں سعودی صحافی جمال خاشقجی کے قتل کے حوالے سے ہونے والی ساری تنقید اور انسانی حقوق سے متعلق خدشات کو ایک طرف ہٹاکر امریکی صدر نے سعودی عرب کو بہت بڑے پیمانے پر اسلحہ فروخت کرنے کی اجازت دی۔ جنرل قاسم سلیمانی کی ہلاکت سے سعودی یقینا خوش ہوئے ہوں گے کہ امریکی عوام کی توجہ اب اُن پر نہیں، ایران پر ہے۔ اسلحہ بیچنے کے معاملے میں صدر ٹرمپ اس قدر پرجوش، بلکہ جذباتی ہیں کہ اُنہیں اس بات سے بھی خوف نہیں آتا کہ اس عمل میں وہ انتہائی حساس ہتھیار اور دیگر ساز و سامان سعودیوں کے ہاتھ میں دے سکتے ہیں۔
(ترجمہ: محمد ابراہیم خان)
“US Tech Transfer: First to China, Now to the Middle East”.(“theglobalist.com”. January 20 to 22, 2020)
Leave a Reply