
۲۰۱۶ء: ترکی میں بغاوت کی کوشش
اگر مصر کی فوجی بغاوت نے ترکی امارات تعلقات کو نقصان پہنچایا تو ۲۰۱۶ء میں ترکی میں ہونے والی فوجی بغاوت کے نتیجے میں تو دونوں ممالک کے تعلقات بالکل ہی ختم ہو گئے۔ناکام فوجی بغاوت کے دو ہفتے بعد ہی ترک خفیہ ایجنسی کے سینئر حکام نے دعویٰ کیا کہ بغاوت کی منصوبہ بندی کے پیچھے اماراتی حکومت کا بھی ہاتھ ہے،اماراتی حکومت نے ’’الفتح‘‘کے جلاوطن رہنما محمد دحلان کو ترکی کے جلاوطن مذہبی رہنما فتح اللہ گولن سے رابطوں کے لیے استعمال کیا اور اس بغاوت کی منصوبہ بندی کی۔اس طرح کی رپورٹس ذرائع ابلاغ میں بھی سامنے آئیں، تاہم عوامی سطح پر تو ترکی نے اپنا غصہ امریکا پر نکالا کہ اس نے ترکی کے مطلوب فرد فتح اللہ گولن کو اپنے ہاں سیاسی پناہ دے رکھی ہے، جس نے اس بغاوت کی منصوبہ بندی کی۔ نجی محفلوں میں ترک حکام یہ موقف اپناتے نظر آئے کہ متحدہ عرب امارات کی حکومت فتح اللہ گولن سے رابطے میں تھی اور بغاوت کی رات اماراتی ذرائع ابلاغ میں اس بغاوت کی کامیابی کی خبریں بھی چلائی گئیں۔
کچھ ہی ماہ میں ترک حکومت نواز مبصرین نے متحدہ عرب امارات کے خلاف ایک مہم شروع کر دی، جس میں اماراتی حکومت کے ڈی فیکٹو رہنما محمد بن زید پر یہ الزام لگایا گیا کہ وہ خطے میں ترک مخالف اتحاد بنانے کے لیے کوشاں ہیں اور اس بغاوت کے پیچھے بھی ان ہی کا ہا تھ تھا۔۲۰۱۷ء میں ترکی کے وزیر خارجہ نے صحافیوں سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ متحدہ عرب امارات نے گولن تحریک کو تین ارب ڈالر کی مالی مدد فراہم کی ہے تاکہ وہ ترکی میں افراتفری پھیلا سکے۔یہ دعویٰ ترک صدر طیب ایردوان کے خاندان سے قربت رکھنے والے اخبار ’’صباح‘‘ نے بھی کیا۔ سال ۲۰۱۶ء سے ترک حکام متحدہ عرب امارات پر مسلسل یہ الزام لگا رہے ہیں کہ وہ جلاوطن رہنما فتح اللہ گولن کی معاونت کر رہا ہے اور ترکی کی مخالفت میں لابنگ کروائی جا رہی ہے اور ترک حکومت مخالف اخبارات اور میگزین کو فنڈ فراہم کر رہا ہے تا کہ وہ ترک حکومت کے خلاف پروپیگنڈا کرتے رہیں۔ دسمبر ۲۰۱۹ء میں جب ترکی نےGNA کے ساتھ معاہدہ کیا اور لیبیا میں اپنی فوج تعینات کی اس سے کچھ عرصہ قبل ہی ترکی نے محمد دحلا ن کی گرفتاری کے وارنٹ جاری کیے اور اسے خطے میں متحدہ عرب امارات کا ’’ایجنٹ‘‘قرار دیا اور اس پر الزام لگایا کہ اس نے ۱۵ جولائی کی بغاوت کی منصوبہ بندی فتح اللہ گولن کی تحریک FETOکے ساتھ مل کر کی تھی۔ ترکی نے انٹر پول کے ذریعے دحلان کی گرفتاری کا وارنٹ بھی جاری کروایا۔
اس موقف سے انقرہ کو یہ بیانیہ عام کرنے کا موقع ملا کہ ’’بغاوت کی اس ناکام کوشش کے پیچھے ترکی کی کوئی داخلی صورتحال یا یورپ سے دوری کا نتیجہ نہیں بلکہ یہ ایردوان اور ان کے دوستوں کے خلاف ایک عالمی سازش کا نتیجہ ہے۔ اس بیانیے سے ایردوان کو یہ فائدہ بھی ہوتا ہے کہ وہ ملکی حزب اختلاف کو غیر ملکی طاقتوں کی کٹھ پتلی قرار دے دیتے ہیں۔ ایک کالم نگار جن کے بارے میں مشہور ہے کہ ان کے کالم میں AKP پارٹی کا موقف بیان کیا جاتا ہے، انھوں نے اس سرخی سے ایک کالم لکھا ’’سعودی، اماراتی اور امریکی منصوبہ‘‘ جس میں لکھا گیا کہ ’’فوجی بغاوت صرف امریکی، اسرائیلی اور یورپی منصوبہ نہیں تھا بلکہ اس بغاوت کے منصوبے میں علاقائی طاقتیں بھی شامل تھیں۔ گولن تحریک کے دہشت گردوں کو مالی معاونت دبئی سے ملتی رہی ہے اور FETO جیسی دہشت گرد تنظیمیں علاقائی طاقتوں سے رابطے میں تھیں۔ اور یہ لوگ اب بھی اسرائیل، امریکا اور یورپ کی طرح ان ترک مخالف دہشت گرد تنظیموں کی حمایت جاری رکھے ہوئے ہیں‘‘۔
تاہم بغاوت کرنے والے جرنیلوں کو اس منصوبے کے لیے کسی غیر ملکی مدد کی ضرورت نہیں تھی اور نہ ہی عدالت میں ان جرنیلوں کے خلاف کوئی ایسے ثبوت پیش کیے گئے جس میں ان کے دبئی سے تعلقات یا دبئی کا کردار دکھایا گیا ہو۔لیکن ایردوان حکومت کا خیال ہے کہ بغاوت کی منصوبہ بندی میں غیر ملکی طاقتوں کے مقامی نمائندے شامل ہیں۔ایک بات جو ناقابل تردید ہے وہ یہ کہ ۲۰۱۶ء میں متحدہ عرب امارات نے صدر طیب ایردوان کو علاقائی اثرورسوخ کی جنگ میں ایک اہم حریف قرار دیا اور انھیں ایک خطرناک شخصیت کا حامل رہنما بھی قرار دیا۔
بڑھتی ہوئی رقابت داری
نومبر ۲۰۱۶ء میں ڈونلڈ ٹرمپ کے صدر منتخب ہونے کے بعد سے ترکی اور متحدہ عرب امارات کے مابین دشمنی میں اضافہ ہوا۔ دونوں فریقین کو اس بات کا اندازہ ہو گیا تھا کہ ٹرمپ کے صدر منتخب ہونے کے بعد سے امریکا نے علاقائی طاقتوں سے تنازعات کے حل کے لیے بات چیت کرنے پر دباؤ ڈالنے کی روایت ختم کر دی ہے۔ صدر ٹرمپ کی ’’طویل جنگوں‘‘ سے امریکا کو نکالنے کی پالیسی اور سفارت کاری میں عدم دلچسپی نے متحدہ عرب امارات اور ترکی کو واضح اشارے دے دیے کہ وہ خطے میں موجود ’’خلا‘‘ کو پُر کر سکتے ہیں۔
اس امریکی اشارے کے نتیجے میں متحدہ عرب امارات نے سعودی عرب، بحرین اور مصر کے ساتھ مل کر جون ۲۰۱۷ء میں قطر کے معاشی گھیراؤ اور ناکہ بندی کا فیصلہ کیا، تاکہ اسے اسلام پسند وں کی مالی معاونت اور خطے میں ترک پالیسیوں کی حمایت سے روکا جاسکے۔ اس سارے عمل کی رہنمائی متحدہ عرب امارات نے کی۔ اس گھیراؤ کا نتیجہ یہ نکلا کہ قطر داخلی معاملات میں الجھ گیا، جس کی وجہ سے وہ کم ازکم سال ۲۰۱۷ء اور سال ۲۰۱۸ء میں ملک کے معاشی حالات کو بہتر رکھنے کے علاوہ اپنے مالی وسائل کہیں اور خرچ نہ کرسکا۔ تاہم اپنے پڑوسیوں سے لاحق خطرات کے پیش نظر قطر نے ترکی سے مزید قربت اختیار کرلی اور اپنی سفارتی شراکت داری کو فوجی شراکت داری میں تبدیل کر دیا۔ اور انقرہ نے دوحہ میں اپنے فوجی اڈے پر ۵۰۰۰ سے زائد فوجی تعینات کر دیے، جس سے خطے میں اس کے اثرورسوخ میں مزید اضافہ ہو گیا۔ اس کے بدلے میں جیسے ہی قطر معاشی بائیکاٹ کے اثرات سے نکلنے میں کامیاب ہوا اس نے ترکی کی مالی معاونت میں بے پناہ اضافہ کر دیا اور ترکی کو ۲۰۱۸ء تا ۲۰۲۰ء ایک ایسے موقع پر جب اسے مالی معاونت کی شدید ضرورت تھی، قطر نے بھرپور مالی امداد فراہم کی۔
تاہم متحدہ عرب امارات نے اخوان المسلمون کے خلاف جنگ کو مزید ممالک تک پھیلا دیا۔ مثال کے طور پر حوثی باغیوں کے خلاف جنگ میں سعودی اتحاد میں شامل ہو کر اس نے سعودی عرب کو اس بات پر قائل کر لیا کہ ہمیں ’’اصلاح‘‘ کی یمنی شاخ کے خلاف بھی کارروائی کرنی چاہیے کیوں کہ اس کی نوجوان قیادت انقرہ اور دوحہ سے رابطے مضبوط کر رہی ہے۔ اسی دوران ابوظہبی نے شام میں موجود کردوں سے بھی تعلقات قائم کرلیے اور ترکی کی دراندازی کے خلاف مہم میں کردوں کو بھرپور مدد فراہم کرنا شروع کر دی۔
متحدہ عرب امارات اور سعودی عرب نے۲۰۱۸ء میں شامی شہر عفرین اور ۲۰۱۹ء میں شمال مشرقی شام میں ترک فوجی کارروائیوں کی بھرپور مذمت کی۔ صرف مذمت ہی نہ کی بلکہ سعودی اور امارات ترکی کے باغی گروہوں اور دشمن کرد پارٹیوں کو مالی امداد بھی فراہم کرتے رہے اور ان کو امریکا سے بھی امداد دلوانے میں معاونت کی۔ پھر یہ افواہ بھی پھیلی کہ ترکی کے شمال مشرقی شام میں SDF کے ٹھکانوں پر حملوں سے کچھ عرصے قبل ہی SDF کے رہنما Mazloum Kobani نے ابوظہبی کا دورہ کیا تھا۔ ترکی کے سینئر سفارت کار کا کہنا ہے کہ شامی کردوں کی جو مدد امارات نے کی، وہ اس قابل نہیں تھی کہ ہمارے لیے مسائل کھڑے کرتی، تاہم ان کا یہ اقدام ہمارے لیے پریشان کن ضرور تھا۔
۲۰۲۰ء میں کورونا وبا کے حوالے سے انسانی بنیادوں پر مدد کی آڑ میں متحدہ عرب امارات نے شامی صدر بشارالاسد سے دوبارہ تعلقات قائم کیے اور شمالی شام میں ترک اثر و رسوخ کو کم کرنے کے لیے تعاون کا یقین دلایا۔ یہ بھی کہا جاتا ہے کہ امارات نے بشار پر دباؤ ڈالا کہ وہ روسی ثالثی سے ادلب میں ہونے والے جنگ بندی معاہدے کو ختم کر دے اور وہاں ترک حمایتی ملیشیا کے خلاف بھر پور کار روائی کرے۔
۲۰۱۸ء کے بعد سے متحدہ عرب امارات نے ایتھوپیا، اریٹیریا اور صومالیہ کے ساتھ تعلقات میں بہتری لانے کے لیے جو مالی وسائل فراہم کیے اور سرمایہ کاری کی اس کی واحد وجہ خطے میں ترکی کے اثرورسوخ کو کم کرنا تھا۔ نہ صرف ان ممالک میں سرمایہ کاری کی بلکہ ان ممالک میں موجود ترک حمایتی رہنماؤں کے لیے بھی مسائل کھڑے کیے۔ سوڈان میں ۲۰۱۸ء۔۲۰۱۹ء کے انقلاب کے نتیجے میں متحدہ عرب امارات وہاں ترک اور قطر حمایتی رہنما عمر البشیر کو ہٹانے میں کامیاب ہو گیا اور اس طرح سوڈان میں امارات نے اپنے قدم مضبوط کر لیے۔ ترک اخبار ’’یانی سفاک‘‘ جسے حکومتی پارٹی کا اخبار سمجھا جاتا ہے اس میں لکھا گیا کہ سوڈان میں فوجی بغاوت ملک میں ترکی کے سیاسی و معاشی اثرورسوخ کو کم کرنے کے لیے کروائی گئی تاکہ سوڈان سے ترک حمایتی انتظامیہ کا خاتمہ کیا جاسکے۔
اثرورسوخ کے لیے عالمی سطح کی جنگ
جیسے جیسے ان دونوں ممالک کی دشمنی بڑھتی جا رہی ہے تو دونوں ممالک کھلے عام ایک دوسرے کے خلاف پروپیگنڈا کرتے دکھائی دیتے ہیں۔ دونوں ممالک عرب ممالک کے عوام کی حمایت حاصل کرنے اور عالمی سطح پر سیاسی حمایت کے حصول کے لیے کشمکش کرتے نظر آتے ہیں۔ متحدہ عرب امارات اپنی مؤثر پروپیگنڈا مشینری اور ترکی کے خلاف عالمی سطح پر موجود رقابت کی وجہ سے پروپیگنڈے کی اس جنگ میں ترکی سے آگے ہے۔ کیوں کہ یورپی یونین کے ارکان ممالک میں سے فرانس، قبرص اور یونان پہلے سے ہی ترکی کی جارحانہ پالیسیوں اور ایردوان کے بیانیے کو اپنے لیے خطرہ سمجھتے ہیں، اس لیے متحدہ عرب امارات کی یورپی یونین کے معاملات میں دخل اندازی کو سب نظر انداز کر دیتے ہیں۔
قطر کے ’’الجزیرہ‘‘ اور ترکی “TRT” چینل کے خلاف متحدہ عرب امارات پروپیگنڈے کا ایک مستقل سلسلہ جاری رکھے ہوئے ہے، ان چینلوں کے بارے میں یہ تاثر دیا جاتا ہے کہ یہ آمرانہ حکومت کے آلہ کار ہیں اور یہ عرب عوام کو اسلام پسند پروپیگنڈے کے ذریعے ان کو موجودہ حکمرانوں کے خلاف بغاوت پر اکساتے ہیں اور عوام میں اشتعال پھیلانے کی کوشش کر رہے ہیں۔
جیسا کہ ابوظہبی کے علم میں ہے کہ خطے میں اسلامی تحریکوں کے مابین جو اختلافات تھے وہ وقت آنے پر نہ صرف کم ہو جاتے ہیں بلکہ ان اختلافات سے کوئی فرق نہیں پڑتا، اسی طرح قطر اور ترکی جن اسلامی تحریکوں کی حمایت کرتے ہیں وہ خطے کے استحکام کے لیے ایک چیلنج بن چکی ہیں۔ یہ بات ابوظہبی نے سب سے زیادہ پیرس کو سمجھانے کی کوشش کی ہے۔
ایک طرف ترکی کا امیج غیر جمہوری طرزِ عمل کی وجہ سے متاثر ہو رہا تھا تو دوسری طرف متحدہ عرب امارات اپنے امیج کو بہتر بنانے کے لیے مختلف اقدامات کر رہا تھا۔ اماراتی حکومت نے اپنے آپ کو آزاد خیال ثابت کرنے کے لیے گرجا گھر اور مندروں کی تعمیر کی بھی اجازت دی۔ نہ صرف یہ بلکہ سیاسی و جغرافیائی مفادات کے لیے اسرائیل کو تسلیم بھی کیا۔ اس کے ساتھ ساتھ انہوں نے اپنے ان اقدامات مخالف اسلامی تحریکوں کے بیانیے کو دنیا بھر کے سامنے خطرہ بنا کر پیش کیا۔ اسی تناظر میں ’’اخوان‘‘ کو بھی متحدہ عرب امارات نے القاعدہ اور داعش جیسی تنظیموں کی صف میں لاکھڑا کیا۔
متحدہ عرب امارات ترکی کے خلاف لابنگ کا یہ کام پچھلی ایک دہائی سے کر رہا ہے، لیکن گزشتہ چند برسوں میں تو باقاعدہ لابنگ فرم کی خدمات حاصل کی گئیں اور امریکی ایوان نمائندگان میں خصوصی طور پر لابنگ کروا کر ترک مخالف بل منظور کروائے گئے۔ اسی طرح کے قوانین کی وجہ سے امریکا نے ترکی کو فضائی دفاعی نظام ایس۔۴۰۰ کی فروخت بھی فی الحال روک دی۔
امارات کی یہ لابنگ صرف امریکا تک محدود نہیں رہی بلکہ اس نے یورپی یونین میں بھی ترکی کے خلاف بھرپور مہم چلائی۔ اس مہم کا مرکزی نکتہ اسلامی تحاریک تھیں، جن کی حمایت ترکی کر رہا تھا۔ امارات کی اس مہم کا مثبت جواب فرانس نے دیا اور اماراتی پیغام کو نہ صرف قبول کیا بلکہ ترکی کے خلاف بیانات دینا بھی شروع کر دیے۔ فرانس کے جارحانہ بیانات کی وجہ سے اکثرو بیشتر ایردوان اور میکرون کے درمیان تندوتیز بیانات کا سلسلہ بھی چلتا رہا جو بعد میں بڑھ کر بحری تنازع تک پہنچ گیا۔
یورپ کے لیے سفارشات
یورپ کو چاہیے کہ متحدہ عرب امارات اور ترکی کے تنازع سے اپنے آپ کو باہر رکھے۔ اس تنازع میں کسی کی حمایت سے یورپی یونین میں موجود تقسیم واضح نظر آنے لگتی ہے۔ جیسا کہ قبرص اور فرانس ترکی کے خلاف ایک اتحاد کے طور پر سامنے آئے۔ یورپ اگر ترکی پر دباؤ بڑھاتا ہے تو نہ صرف لیبیا اور شام میں معاملات خراب ہوں گے بلکہ ترکی تنگ آکر مہاجرین کا معاہدہ بھی ختم کرنے کا اعلان کر سکتا ہے۔
اس سارے مسئلے میں یورپ کے لیے چیلنج ہو گا کہ وہ کس طرح مسلمانوں کے سوسائٹی میں کردار پر اپنے موقف کو اعتدال کے دائرے میں رکھتا ہے۔ دوسری طرف قبرص اور یونان جیسے ممالک کو یہ یقین دلانا ہو گا کہ ان کے زمینی تنازع کا مسئلہ یورپی یونین حل کروائے گی تاکہ وہ اس مسئلے میں متحدہ عرب امارات کو درمیان میں نہ لائیں۔ امارات کے آنے سے ترکی کے غصے میں اضافہ ہو گا اور معاملہ حل ہونے کے بجائے مزید پیچیدہ ہو جائے گا۔ ان ممالک کو چاہیے کہ وہ اپنے مسائل کے حل کے لیے یورپی یونین کی طرف دیکھیں نہ کہ باہر کسی ملک کا رخ کریں۔ اسی طرح یورپی یونین کو بھی چاہیے کہ وہ کسی کی آپس کی دشمنی میں دخل اندازی کرنے کے بجائے اپنے مفادات کو سامنے رکھ کر معاملات کو ڈیل کرے۔
(ترجمہ: حافظ محمد نوید نون)
“Useful enemies: How the Turkey-UAE rivalry is remaking the Middle East”.(“ecfr.eu”. March 15, 2021)
Leave a Reply