
ترکی اور متحدہ عرب امارات کا آبادی، رقبے اور فوجی طاقت کے حوالے سے آپس میں کوئی جوڑ نہیں، تاہم دونوں ممالک ایک طویل عرصے سے آپس کے تنازعات میں الجھے ہوئے ہیں۔ اور ان کے آپس کے یہ جھگڑے مشرق وسطیٰ اور شمالی افریقا میں جغرافیائی و سیاسی تبدیلیوں کا باعث بن رہے ہیں۔ ان کی محاذ آرائی سے نہ صرف وہ علاقے عدم استحکام کا شکار ہو رہے ہیں جہاں سے یورپ کے مفادات وابستہ ہیں جیسا کہ لیبیا،بلکہ اب تو ان کی محاذآرائی سے مشرقی بحیرہ روم یعنی خودیورپ بھی متاثر ہونے لگا ہے۔ ان دو ممالک کی رقابت یورپ کی تفریق کو گہرا کرتی جا رہی ہے۔ یورپی یونین کے ممالک کے لیے مشکل ہوتا جا رہا ہے کہ وہ خطۂ بحیرہ روم سے متعلق کوئی مربوط پالیسی تشکیل دیں۔
ترکی اور متحدہ عرب امارات دونوں ممالک تنازعات کے بارے میں اپنے بیانیے کو دوسروں پر لاگو کرنے کی کوشش کرتے ہیں اور مختلف پلیٹ فارمز پر ان کا خیال ہوتا ہے کہ ان کے ہی بیانیے کو صحیح سمجھا جائے۔ اور دونوں کے بیانیے آپس میں ٹکراؤ کی کیفیت پیدا کرتے ہیں۔ لیکن اس طرح کی بحث سے ان کی اصل محاذ آرائی پردے کے پیچھے رہ جاتی ہے۔ جیسا کہ ۲۰۱۱ء سے یہ دونوں ممالک خطے کے ہر تنازعے میں ایک دوسرے کی مخالف سمت میں کھڑے ہوتے ہیں۔ تاہم یہ پہلو بحث طلب ہے کہ ان ممالک میں رقابت کی وجہ ابوظہبی کا ’’اسلامسٹ بمقابلہ اعتدال پسندی‘‘ کا نظریہ ہے یا پھر انقرہ کا ’’جمہوریت بمقابلہ مطلق العنان بادشاہت‘‘ کا بیانیہ ہے۔ یہ تنازع پیچیدہ تو ہے مگر بنیادی طور پر یہ ریاستوں کے داخلی استحکام اور خطے میں اثرورسوخ کی جنگ ہے۔
ماضی میں ترکی نے اخوان المسلمون سے یکجہتی کا مظاہرہ کیا۔ تاہم ۲۰۱۱ء کے عرب بہار کی ناکامی اور خاص کر ۲۰۱۶ء کے بعد انقرہ نے توسیع پسندانہ عزائم اور قوم پرستی کو اپنی خارجہ پالیسی کا اہم حصہ بنا دیا ہے۔ اس حکمت عملی کا بنیادی مقصد تو صدر طیب ایردوان کی داخلی حمایت میں اضافہ کرنا ہے، لیکن ساتھ ساتھ اس پالیسی سے خطے کی قیادت کے عزائم کا بھی کھل کر اظہار ہوتا ہے۔ اس لیے اس کو صرف سیاسی اسلام کے پھیلاؤ کی جدوجہد نہیں کہا جا سکتا۔ دوسری طرف ابو ظہبی اپنے آپ کو اسلامسٹوں کے خلاف جدوجہد میں اعتدال پسندی کا مشعل بردار ثابت کرتا ہے۔ اگرچہ حقیقت میں وہ خطے میں ترکی کے اثرورسوخ کو اپنے لیے خطرہ سمجھتا ہے اور اسی کے خلاف جدوجہد میں مصروف ہے۔
ترکی اور متحدہ عرب امارات قرن افریقا سے لے کر مشرقی بحیرۂ روم تک بہت سی پراکسی جنگوں میں شریک ہیں۔ اس کے علاوہ ان کی دشمنی واشنگٹن اور برسلز کے ہالوں میں، توانائی کی صنعت، بندرگاہوں اور سمندروں میں بھی پھیلی دکھائی دیتی ہے۔
حیرت انگیز بات یہ ہے کہ دونوں ممالک اپنی اس دشمنی کو ملک کے داخلی معاملات کی بہتری اور عالمی سطح پر اپنے مقاصد کے حصول کے لیے استعمال کرتے ہیں۔ متحدہ عرب امارات کے لیے ترکی کی مخالفت سے فرانس اور یونان جیسے یورپی ممالک اور مغربی ممالک سے قربت میں اضافہ ہوتا ہے اور واشنگٹن میں بھی اس کی پوزیشن بہتر ہوتی ہے۔ اسی طرح انقرہ کے لیے متحدہ عرب امارات کی دشمنی ایردوان حکومت کے اس بیانیے کو سچ ثابت کرنے میں اہم کردار ادا کرتی ہے کہ ’’غیر ملکی قوتیں ترکی کے ترقی کے سفر میں رکاوٹیں کھڑی کرنا چاہتی ہیں‘‘ یہ تھیم ترکی کے ووٹروں میں کافی مقبول پائی جاتی ہے۔
نظریاتی کشمکش سے قطع نظر ان دونوں ممالک کی رقابت یورپ کے لیے نقصان دہ ثابت ہو رہی ہے۔ ایک ایسے وقت میں جب یورپ مشرق وسطیٰ کے بدلتے ہوئے حالات میں اپنی حکمت عملی کو نئے سرے سے ترتیب دے رہا ہے، ان دونوں ممالک کی دشمنی یورپ کو نہ صرف تقسیم کر رہی ہے بلکہ خطے کو بھی عدم استحکام کا شکار کر رہی ہے۔ مثال کے طور پر لیبیا تنازعے میں ترکی اور متحدہ عرب امارات کی دشمنی یورپ کی جنوبی سرحد تک پہنچ گئی ہے۔ جیسا کہ دونوں ممالک نے لیبیا کی جنگ میں اپنا کردار ادا کیا ہے، فرانس اماراتی حمایت یافتہ جنرل خلیفہ ہفتار کی فوج کی حمایت کر رہا ہے، جب کہ اٹلی ترکی کی حمایت یافتہ Government of National Accord (GNA) کی مدد کر رہا ہے۔ اسی طرح قبرص اور یونان کے ترکی کے ساتھ بحری سرحدوں کے تنازع میں متحدہ عرب امارات نے قبرص اور یونان کو بھرپور سیاسی و فوجی امداد فراہم کر کے اس تنازع میں جلتی پر تیل کا کام کیا ہے۔ جس سے پیرس اور انقرہ میں دوریاں اور بڑھ گئی ہیں۔ اس صورت حال میں یورپی یونین کے لیے مشکل ہوتا جا رہا ہے کہ وہ ترکی کی پالیسی کے جواب میں اتفاق رائے سے کوئی پالیسی بنا سکے۔ ان تنازعات نے نیٹو کو بھی متاثر کیا ہے، ترکی کی ویٹو پاور اس تنظیم کو متحدہ عرب امارات سے قریبی تعلقات قائم کرنے سے روکے رکھتی ہے اور اس کی وجہ سے نیٹو خلیجی ممالک میں اپنا بھرپور کردار ادا کرنے سے قاصر ہے۔
اس مقالے میں ترکی متحدہ عرب امارات تنازع کے تاریخی تناظر پر نظر ڈالی جائے گی اور اس پر تبادلہ خیال کیا جائے گا کہ یورپی یونین کس طرح سے اپنی سلامتی اور خارجہ پالیسی کو اس رقابت سے متاثر ہونے سے بچا سکتی ہے۔ یورپی ممالک اپنے آپ کو اس علاقائی تنازع میں الجھانے سے گریز کریں اور اپنے مشترکہ مفادات میں کوئی ابہام نہ رہنے دیں۔ ابھی تک تو یورپ قریبی خطوں کے ان تنازعات میں اپنے مفادات کا تعین کرنے اور ان کے حصول میں ناکام رہا ہے، یہی وجہ ہے کہ ترکی متحدہ عرب امارات رقابت کو ان تنازعات میں اپنے مفادات کے لیے جگہ میسر آتی ہے اور یورپ مشکلات کا شکار ہو جاتا ہے، جیسا کہ لیبیا، شام اور مشرقی روم میں۔ یورپ کو تنازعات کے منفی اثرات سے بچنے کے لیے حکمت عملی بنا کر رکھنی چاہیے۔ترکی کے ساتھ نسبتاً تعمیری و مستحکم تعلقات رکھنا تزویراتی نقطۂ نظر سے یورپ کے لیے ضروری ہے۔ اس کی بڑی وجوہات پناہ گزینوں کے حوالے سے مسائل اور تجارتی تعلقات ہیں۔ دوسری طرف متحدہ عرب امارات کا کردار بحیرۂ روم کے خطے میں اہمیت اختیار کرتا جا رہا ہے۔ جس کو نظر انداز کرنا یو رپ کے لیے آسان نہیں۔ یورپ کو دونوں ممالک کے ساتھ تعلقات میں برابری کا مظاہرہ کرنا ہو گا۔ آنے والے وقت میں ہو سکتا ہے کہ کسی موڑ پر ترکی متحدہ عرب امارات کی آپس کی رقابتیں ختم ہو جائیں، خاص طور پر انقرہ خطے میں اپنی تنہائی کو ختم کرنے کے لیے متحدہ عرب امارات سے کوئی مصالحت کر لے۔ لیکن یورپ اپنی حکمت عملی مرتب کرنے کے لیے ان دو ممالک کے درمیان مصالحت کے انتظار کا متحمل نہیں ہو سکتا۔ یورپ کو اپنے پڑوس میں جاری مسائل سے نمٹنے کے لیے اور ان دونوں ممالک کی دشمنی سے نمٹنے کے لیے حکمت عملی تیار کرنے میں پہل کرنی ہو گی۔
مشرق وسطیٰ یا یورپ کی پشت پر اس طرح کے تنازعات کا بڑھنا یورپی یونین اور اس کے رُکن ممالک کے مفاد میں نہیں۔ ہو سکتا ہے کہ ترکی اور متحدہ عرب امارات کے درمیان جاری محاز آرائی کو روکنا یورپی یونین کے لیے ممکن نہ ہو، تاہم وہ اس رقابت کے اثرات کو کم کرنے، اس کو بہتر طریقے سے حل کرنے اور اس کے مضر اثرات سے بچنے کے لیے حکمت عملی ضرور ترتیب دے سکتا ہے۔ تاکہ اس کے اور ترکی کے مابین تعلقات کشیدہ نہ ہو ں، جس کے اثرات پورے خطے پر پڑتے ہیں۔
عرب بہار پر خطے کے ممالک کا مسابقتی ردِّعمل:
ترکی امارات تنازع کی ابتداء ۲۰۱۱ء کی ’’عرب بہار‘‘ تحریک سے ہوئی۔ انقرہ اس ’’عرب بہار‘‘ کی تحریک کو اپنے لیے ایک ایسے موقع کے طور پر دیکھ رہا تھا، جس سے فائدہ اٹھا کر وہ خطے میں ایک طویل عرصے سے قائم طاقت کے توازن کو اپنی حمایت میں تبدیل کر سکتا ہے اور اس کے ساتھ ساتھ خطے میں اپنے اثرورسوخ کے دائرے کو بھی وسیع کر سکتا تھا۔ عرب بہار تحریک کے نتیجے میں یمن، تیونس اور مصر جیسے ممالک میں جن جماعتوں کو اقتدار ملا وہ سب ایردوان کی ’’جسٹس اینڈ ڈویلپمنٹ پارٹی‘‘ (AKP) کی حمایت یافتہ اور نظریاتی طور پر اتحادی تھیں۔ ترکی کی ’’جسٹس اینڈ ڈویلپمنٹ پارٹی‘‘ اخوان المسلمون کے لیے ہمدردی کا جذبہ رکھتی اور اس کی حمایت بھی کرتی تھی۔ AKP کو امید تھی کہ ان سب پارٹیوں کے اقتدار میں آجانے سے خطے میں ایک نیا بلاک بنے گا اور یہ بلاک عرب کی بادشاہتوں کے مقابلے میں ترک اتحادی سُنّی حکومتوں کا ہو گا۔
۲۰۱۱ء میں AKP کی اشرافیہ نے سلطنت عثمانیہ کی تجدیدنو کے دعوے کرنا شروع کر دیے تھے اور وہ چاہتے تھے کہ ترکی عالمی منظر نامے میں ایک بڑا کردار ادا کرے۔ انھیں لگتا تھا کہ ترکی کے اس وقت کے وزیر خارجہ احمد داؤد اولو کی ’’پڑوسیوں سے جھگڑوں سے پاک تعلقات‘‘ کی پالیسی اور مشرق وسطیٰ میں ترکی کی سافٹ پاور کو بڑھانے کی حکمت عملی ایک کامیاب حکمت عملی ہے، جس سے ترکی کی جغرافیائی و سیاسی طاقت میں بے پناہ اضافہ ہو گا۔ ترکی کے سابق سفیر کا کہنا ہے کہ ۲۰۱۲ء میں صدر طیب ایردوان کا خیال تھا کہ ’’اسرائیل کو چھوڑ کر باقی پورا خطہ جلد ترکی کے زیر اثر ہوگا‘‘۔ ’’عرب بہار‘‘ کے دوران انقرہ نے مصر میں اخوان المسلمون کی حکومت اور تیونس میں النہضہ کی حکومت سے نہ صرف قریبی سیاسی تعلقات قائم کرلیے بلکہ وہاں کے عوام کی بھی بھرپور حمایت کی۔ ۲۰۱۱ء میں صدر ایردوان نے شام میں بھی حکومت کی تبدیلی کی بھرپور حمایت کی اور وہاں کی حزب اختلاف کی جماعتوں کا کھل کر ساتھ دیا۔
’’عرب بہار‘‘ کی تحریک کے اس سارے عمل سے خلیجی ممالک میں موجود بادشاہتوں کوخطرہ لاحق ہو گیا۔ اگرچہ ان ممالک میں بہت محدود سی مخالفت سامنے آئی، تاہم انقلاب کی اس لہر کو انھوں نے اپنی آمرانہ حکومتوں کے لیے ایک چیلنج کے طور پر لیا۔ انھیں یہ محسوس ہوا کی ان کے مقامی معاشروں میں بھی اس قسم کی لہر سر اٹھا سکتی ہے۔ متحدہ عرب امارات میں بہت ہی محدود سطح پر مظاہرے ہوئے، جن کا الزام اخوان کی مقامی شاخ ’’اصلاح‘‘پر لگایا گیا۔
اس ساری صورت حال کے تزویراتی تجزیے کے بعد متحدہ عرب امارات نے اندازہ لگایا کہ ’’ریجنل آرڈر‘‘ ازسرنو ترتیب دیا جا رہا ہے۔ امریکا اور یورپ کھل کر سامنے آنے سے گریزاں ہیں۔ متحدہ عرب امارات کے تجزیہ نگار Mohammed Baharoon کا کہنا تھا کہ ’’یک قطبی دنیا کی جگہ اب مختلف نیٹ ورکس لے لیں گے، اس نظام میں علاقائی طاقتیں اہم کردار ادا کریں گی‘‘ یعنی دنیا میں عالمی طاقتیں اپنے تسلط اور طاقت کو قائم رکھنے کے لیے علاقائی طاقتوں کو اپنے نمائندہ کے طور پر استعمال کریں گی۔ ان علاقائی طاقتوں کے ذریعے وہ سیاسی اور معاشی اثرورسوخ کا دائرہ وسیع کرنے کی کوشش کریں گی۔ ایسے میں انقرہ کا علاقائی طاقت کا کردار ابوظہبی کو پریشان کر رہا تھا۔ ترکی خطے میں وہ واحد حکومت تھی جسے ایک اسلامسٹ پارٹی کامیابی سے چلا رہی تھی۔ اس لیے ترکی قدرتی طور پر عرب بہار کی تحریک میں شامل اسلامی تحریکوں کا رہنما ملک بن رہا تھا۔
اس کے علاوہ یہ خطرہ بھی موجود تھا کہ انقرہ کو ایک امیر ملک قطر کی شراکت داری بھی حاصل ہو جائے،جو کہ دیگر خلیجی ممالک کے برخلاف اسلامی تحریکوں کو مصر،لیبیااور شام جیسے ممالک میں اپنا اثرورسوخ بڑھانے کے لیے ایک آلے کے طور پر استعمال کرنے کا حامی ہے۔امارات کو یہ خطرہ تھا کہ انقرہ اور دوحہ مل کر اپنے آپ کو خطے میں موجود اسلامی جماعتوں کے نیٹ ورک میں مرکزی پوزیشن دلوانے میں کامیاب ہو جائیں گے اور اس سارے عمل سے متحدہ عرب امارات کی نہ صرف مرکزی حیثیت ختم ہو جائے گی بلکہ اسے ایک کنارے پر دھکیل دیا جائے گا۔ سال ۲۰۲۰ء تک ترکی دیگر علاقائی طاقتوں، ایران جسے کورونا اور ٹرمپ انتظامیہ کی پابندیوں نے کافی کمزور کر دیا ہے،کے مقابلے ایک طاقتور حریف بن کر سامنے آچکا ہے۔
حالیہ برسوں میں متحدہ عرب امارات کے عوام اور ذرائع ابلاغ میں ترک مخالف بیانیے کا بھرپور پرچار کیا گیا۔ نہ صرف ذرائع ابلاغ کے نمائندوں بلکہ ملک کی اشرافیہ نے بھی اس مہم میں بڑھ چڑھ کر حصہ لیا۔۲۰۱۷ء میں امارات کے وزیر خارجہ عبداللہ بن زید النہیان نے ٹویٹر پر ایک ویڈیو شیئر کی جس میں ترک فوجیوں کو مدینہ شہر میں لوٹ مار کرتے دکھایا گیا تھا،یہ ویڈیوایک صدی قبل کی تھی۔اس ویڈیو کے شئیر کرنے سے سفارتی سطح پر ترکی نے احتجاج کیا۔۲۰۲۰ء میں متحدہ عرب امارات کے خارجہ امور کے نگران انوا ر گارگش نے ترکی کے توسیع پسندانہ عزائم کے خلاف نہ صرف ذرائع ابلاغ میں بلکہ سفارتی سطح پر بھی آواز اٹھانے کی ضرورت پر زور دینے کی بات کی۔ جرمن چینل کو انٹرویو دیتے ہوئے انھوں نے یورپ کو اس بات پر اکسایا کہ وہ بھی فرانس کی طرح ایردوان کے ’’اسلامی نظریاتی پروجیکٹ‘‘کے خلاف مشترکہ موقف اختیار کرے،اس پروجیکٹ کے تحت ایردوان دوبارہ سے عثمانی سلطنت کا قیام چاہتے تھے۔دبئی پولیس کے سابق چیف ضاحی خلفان نے ۲۰۲۰ء میں ترکی کے بائیکاٹ کا مطالبہ کیا اور کہا کہ جب لوگ ترکی کا سفر کرتے ہیں تو وہ دراصل ایک جابرانہ ریاست کی طرف سفر کرتے ہیں۔
ان حالات میں جب متحدہ عرب امارات اپنے عوام اور بین الاقوامی طاقتوں کے سامنے اپنے آپ کو ’’اسلامسٹ ترکی‘‘ کے متبادل کے طور پر ایک اعتدال پسند ریاست کی حیثیت سے پیش کر رہا تھا عین اسی وقت ترکی خلیجی بادشاہتوں کو ان کے طرزِ حکمرانی کی وجہ سے خطے میں عدم استحکام کی وجہ بنا کر پیش کر رہا تھا۔ ترکی کے ایک سینئر عہدیدار کا کہنا تھا کہ ’’ہمارا نقطہ نظر متحدہ عرب امارات کے نظریے سے یکسر مختلف ہے‘‘۔ انھیں آمریت پسند ہے جب کہ ہمارے ہاں اگرچہ جمہوریت کمزور ہے لیکن پھر بھی جمہوری نظامِ حکومت ہی ہے۔ ہمارے ہاں انتخابات ہوتے ہیں ایک باقاعدہ حزب اختلاف ہوتی ہے، انتخابی مہم چلتی ہے، کیا اس سب کا تصور خلیجی ممالک میں کیا جا سکتا ہے؟
یورپی اور امریکی پالیسی سازوں کے لیے یہ دونوں بیانیے پریشان کن ہیں،ایک طرف ترکی ہے جو عرصے سے قائم لبر ل آزادیوں کو کنٹرول کرتا جا رہا ہے اور دوسری طرف عرب ممالک جہاں جمہوری آزادی کو روز بروز محدود کیا جا رہا ہے۔
صدر مرسی حکومت کا جانا رقابت میں اضافہ کا باعث:
انقرہ اور ابوظہبی میں اصل کشمکش کا آغاز ۲۰۱۳ء میں اس وقت ہوا، جب عرب ممالک کی حمایت یافتہ مصری فوج نے عرب ممالک کی حمایت سے جنرل عبد الفتح السیسی کی قیادت میں صدر مرسی کی حکومت کا تختہ الٹ دیا۔ صدر ایردوان اور AKP پارٹی کے دیگر رہنما مصری فوج کے اس اقدام پر بہت برہم ہوئے اور اس پرانھوں نے کھلے عام ناراضی کا اظہار کیا۔ صدر ایردوان نے رابعہ اسکوائر پر ہونے والے قتلِ عام کے خلاف ’’چار انگلیوں‘‘ سے ایک علامتی نشان بھی بنایا، اخوان المسلمون کے لوگوں سے اظہار یکجہتی کے لیے بنایا گیا یہ علامتی نشان دنیا بھر میں مشہور ہوا۔
مصر میں مرسی حکومت کا خاتمہ ہوا تو عین اسی وقت ترکی کے شہری علاقوں میں صدر ایردوان کے خلاف مظاہرے شروع ہوگئے۔ صدر ایردوان نے اپنے علامتی نشان کو استعمال کرتے ہوئے اپنی قدامت پسند بنیاد کو لوگوں میں مضبوط کیا اور اپنی پارٹی کو ان مظاہرین کے خلاف بھرپور استعمال کیا اور ان مظاہرین کے خلاف یہ پروپیگنڈا کیا گیا کہ ’’صدر طیب ایردوان چوں کہ اخوان المسلمون کی حمایت کر رہے ہیں اس لیے غیر ملکی طاقتیں ملک میں انتشار پھیلانے کے لیے اس سیکولر لابی کو استعمال کر رہی ہیں۔
۲۰۱۳ء کے بعد سے ہونے والے ہر انتخابات میں صدر ایردوان نے اس پروپیگنڈے کو جیت کی کنجی بنا لیا ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ AKPپارٹی جمہوریت کی نگہبان ہے اور بیرونی طاقتیں ان ایجنٹوں کے ذریعے ملک میں افراتفری پھیلانا چاہتی ہیں۔ اس بیانیے کو بنیاد بنا کر صدر طیب ایردوان اپنے داخلی دشمنوں کے خلاف بھر پور کار روائی کرتے ہیں۔
المیہ یہ ہے کہ اماراتی قیادت بھی بالکل اسی طرح کا پروپیگنڈا اپنے ملک میں اصلاح (اخوان کی اماراتی شاخ) کے خلاف کیے جانے والے ظالمانہ کریک ڈاؤن کو صحیح ثابت کرنے کے لیے کر رہی ہے۔ اور اسی بیانیے کو اختیار کرتے ہوئے اماراتی قیادت نے مصری فوج کی بغاوت کو بھی جائز قرار دیا اور اس کی حمایت بھی کی۔
AKPکی قیادت کا کہنا ہے کہ مصر میں فوجی بغاوت کی ایک وجہ خطے میں ترکی کے بڑھتے ہوئے اثر و رسوخ کو کم کرنا بھی تھا۔ عرب بہار میں ترکی کے موقف کی وجہ سے عرب عوام میں ترکی کی مقبولیت میں غیر معمولی اضافہ ہوا تھا۔ سیسی کے اقتدار سنبھالنے کے بعد اماراتی قیادت نے کوشش کی کہ تیونس کی مذہبی جماعت اور حکومت بھی اس کی اتحادی بن جائے اور ترکی سے دوری اختیار کرلے۔
(ترجمہ: حافظ محمد نوید نون)
(۔۔۔جاری ہے!)
“Useful enemies: How the Turkey-UAE rivalry is remaking the Middle East”.(“ecfr.eu”. March 15, 2021)
Leave a Reply