پہلا اصول: ہمیشہ گزرتے لمحات کی حدود میں رہئے
حیاتِ انسانی گزرتے لمحات ہی کا نام ہے۔ جو لمحہ بیت گیا وہ ہمیشہ کے لیے گزر گیا۔ آنے والے لمحے کو ہم جلدی نہیں لا سکتے اور انسان کی زندگی کسی بھی لمحے ختم ہو سکتی ہے۔ آنے والے لمحات ہر گز یقینی نہیں ہیں۔
پھر ہمارے ہاتھ میں کیا ہے؟
صرف یہی گزرتے ہوئے لمحات
لہٰذا انسان کو جو کرنا ہے انہی گزرتے ہوئے لمحات میں کر لینا چاہیے۔ اس لمحے کا انتظار نہیں کرنا چاہیے جو ممکن ہے اس کی زندگی ختم ہونے کے بعد آئے اور اسے کبھی بھی نصیب نہ ہو، اور نہ اس لمحے کا انتظار کرنا چاہیے جو گزر گیا ہے۔ کیونکہ جو لمحہ گزر گیا، وہ آنے والے راستے پر نہیں گیا۔
اس لیے انسان گزرتے ہوئے لمحات کی حدود سے باہر نہیں جا سکتا۔ چنانچہ اسے چاہیے کہ وہ ماضی اور مستقبل سے دستبردار ہو کر اس لمحے کے متعلق سوچے ،جو، اب، اِس وقت گزر رہا ہے۔ جو وقت گزر گیا اور جو آنے والا ہے، ان دونوں سے قطع نظر کر لے۔ کیونکہ ماضی اور مستقبل عدمِ محض کے سواکچھ نہیں ہیں۔
اس صورتحال کی تصویر کشی امیر المومنین حضرت علی ؓ نے اس طرح کی ہے:
’’ جو گزر گیا وہ ختم ہو گیا اور آنے والا کہاں ہے؟ اٹھو اور دو معدوم چیزوں کے درمیان (ایک موجود، فرصت)سے فائدہ اٹھائو‘‘۔
زندگی میں کامیابی کے اسباب
زندگی میں کامیابی کا راز دو چیزوں میں پوشیدہ ہے:
۱۔دائرہ فکر، گزرتے ہوئے لمحات کی حد تک رکھنا۔
۲۔ انہی گزرتے ہوئے لمحات تک اپنے عمل کو وسعت دینا۔
زندگی میں ناکامی کے اسباب
اسی طرح ناکامی وہزیمت کے بھی دو اسباب ہیں:
۱۔ماضی یا مستقبل کو اپنی سوچ کا محور قرار دینا۔
۲۔اپنے عمل کو مستقبل کے لیے اٹھارکھنا۔ باالفاظ دیگر آج کا کام کل پرچھوڑنا۔
کامیاب اور ناکام افراد کا تقابل
یہی ہیں کامیاب لوگوں کی کامیابی کے راز اور ناکام لوگوں کی ناکامی کے اسباب۔ اگر آپ کو یقین نہ آئے تو بلا تامل تجربے اور مشاہدے کی کسوٹی پر پَرکھ لیجئے۔ ہمارا دعویٰ سو فیصد درست ثابت ہوگا۔
جب ہم معاشرے کی کامیاب شخصیتوں پر نگاہ ڈالتے ہیں، تو یہ انہی گزرتے ہوئے لمحات میں اپنے اپنے کاموں میں مشغول نظر آتیں ہیں۔ ان کا نہ ماضی سے کوئی رشتہ ہے اور نہ انہیں مستقبل کی فکر ہوتی ہے۔ یہ لوگ گزرتے ہوئے لمحات کے علاوہ کسی چیز پر بھروسہ نہیں کرتے۔ اگر آپ انہیں کہیں کہ یہ کام ہم کل کریں گے ، تو وہ فوراً جواب میں کہتے ہیں کہ کل کی فکر رہنے دیجئے جو ہمیں ابھی کرنا ہے اس کی فکر کیجئے۔
بد بخت، شکست خوردہ اور بزدل افراد ان کے برعکس ہوتے ہیں، وہ یہ کہتے ہیں:
جب مجھے فرصت ملے گی تو میں یہ کام کر لوں گا۔میں دولت مند ہونے کے بعد اللہ کی راہ میں کثیر دولت خرچ کروں گا۔ جب میں ان مشکلات سے نجات حاصل کرلوں گا، تب تمام زندگی اسلام کے لیے وقف کردوں گا، میں یہ کردوں گا،میں وہ کردوں گا۔
نیز وہ کہتے ہیں:
ہم تمام برائیاں ترک کر دیں گے۔ہم اچھے اچھے عمل انجام دیں گے۔ ہم اپنی تمام دینی ذمہ داریاں پوری کریں گے۔ ہم تہجد پڑھیں گے۔ ہم متقی بنیں گے، ہم اپنی زندگی اللہ کی عبادت و ریاضت کے لیے وقف کر دیں گے۔
یہ لو گ اسی طرح کی اور بہت سی باتیں کہتے ہیں۔ کب؟ کب؟ مستقبل میں؟ آئندہ آنے والے وقت میں؟ یہ مستقبل کب آئے گا؟ اور یہ آنے والا وقت کو نسا ہے؟
یہ مستقبل اور آنے والا وقت کبھی نہیں آتا۔ یہ ذمہ داریوں سے فرار اور ان سے چھٹکارا پانے کے لیے بہانے بازی کے سوا کچھ نہیں کرتے۔ یہ لوگ اسی طرح کی ٹال مٹول سے کام لے کر اپنے کاموں کو ہر روز ملتوی کرتے ہوئے دن گزاردیتے ہیں۔ ہر نیا دن ان کے لیے کام کا دن نہیں ہوتا بلکہ ان کے عمل کا زمانہ مستقبل یا ’’کل‘‘ ہوتا ہے۔
اور یہ مستقبل اور ’’کل‘‘ جس میں انہوں نے کام کرنا ہے کبھی نہیں آئے گا۔ یہ لوگ مستقبل کے لیے زندہ رہتے ہیں۔ موجودہ اور گزرتے ہوئے لمحات میں کام اور عمل انجام دینے کے جو مواقع ان کے ہاتھ میں ہوتے ہیں وہ انہیں گنوادیتے ہیں اورا س طرح وہ مقصد حیات تو درکنار ایک معمولی سا ہدف بھی حاصل نہیں کر پاتے۔
مستقبل پر غیر مشروط اعتماد اور موجودہ وقت سے ان کا فرار فطری نہیں ہے،بلکہ موجودہ وقت میں مختلف مسائل و مشکلات سے دو چار رہنے کی وجہ سے ہے۔
اگر آپ ان سے پوچھیں کہ ان مشکلات ومسائل کا خاتمہ کب ہوگا؟ تو ان کے پاس اس کا کوئی معقول جواب نہیں ہوتا اور وہ اپنی حیرانگی کا برملا اظہار کرتے ہیں۔ اس کے باوجود اس پر اصرار کرتے ہیں کہ ان کی مشکلات جلد ختم ہو جائیں گی۔ یہاں تک کہ یہی بات دہراتے دہراتے وہ خود ختم ہو جاتے ہیں لیکن ان کی مشکلات ختم ہونے میں نہیں آتیں۔ یہ لوگ ایسے مستقبل کا خواب دیکھتے ہیں جس میں مشکلات نام کی کوئی چیز نہ ہو۔
الٰہی انسان کی خصوصیت
الٰہی انسان کی خصوصیات میں سے ایک خصوصیت یہ ہے کہ وہ اپنی زندگی کو گزرتے ہوئے لمحات کی حدود سے باہر نہیں جانے دیتا۔ بلند مقاصد رکھنے والی یہ شخصیات زندگی پر کبھی بھی بھروسہ نہیں کرتیں، بلکہ ہمیشہ موت کی منتظر رہتی ہیں۔ یہ لوگ اپنے عمل کو دوسری دنیا کے لیے ملتوی نہیں کرتے،بلکہ اس خیال سے عمل میں مصروف رہتے ہیں کہ کل انہیں مرناہے۔اس کے ساتھ ساتھ وہ دنیا کے لیے بھی اس طرح کام کرتے ہیں جیسے انہوں نے ہمیشہ زندہ رہنا ہے۔ بالفاظ دیگر وہ امیر المومنین حضرت علی ؓ کے اس فرمان پر عمل پیرا ہوتے ہیں:
’’اپنی دنیا کے لیے اس طرح کام کرو جیسے تم نے ہمیشہ اس میں رہنا ہے اوراپنی آخرت کے لیے اس طرح عمل کرو گویا تم نے کل ہی مرجا نا ہے‘‘
اللہ سے بے نیاز افراد
اللہ سے بے نیاز افراد کے عمل کی بنیاد یہ فکر ہے کہ انہوں نے یہاں اس دنیا میں ابدی زندگی حاصل کرنی ہے، یا جو مزے کرنا ہیں اسی زندگی میں کرنا ہیں۔ دوسری دنیا کی زندگی کا تصور ان کے ذہن میں نہیں ہوتا۔ حالانکہ یہ لوگ ہزاروں بلکہ لاکھوں افراد کو اپنی آنکھوں سے مرتے دیکھتے ہیں لیکن اس وہم کا شکار رہتے ہیں کہ انہوں نے یہاں ہمیشہ رہنا ہے۔ وہ بے چینی کے ساتھ یہ خواب دیکھتے ہیں کہ موت دوسروں پر تو آسکتی ہے لیکن ان پر نہیں آئے گی۔ یہی سوچ و فکر انسان کو گمراہ کرنے میں شیطان کی مدد کرتی ہے اور انسان کو امیدیں دلاتے ہوئے اسے بہکا کر منزل مقصود سے دور بلکہ کوسوں دور لے جاتی ہے۔
خالق ِ انسان نے جو انسان کی رگ رگ سے واقف ہے ، فرمایا ہے:
’’ وہ(شیطان) ان سے اچھے اچھے وعدے بھی کرتا ہے اور بڑی بڑی امیدیں بھی دلاتا ہے اور شیطان جو وعدے کرتا ہے وہ نرا دھوکا ہی دھوکا ہیں‘‘۔ (سورۃ النساء:۱۲۰)
یہ لوگ دائمی بد بختی میں رہتے ہیں۔ ان کا کام ماضی پر کفِ افسوس ملنا اور رونا ہے ، مستقبل کی آرزو اور اس کا غم واندوہ سہنا اور ناقابلِ بھروسہ آنے والے وقت کے لیے مضطرب رہنا ہے۔ وہ سہانے مستقبل کے خواب دیکھتے ہیں اور یہ سمجھتے ہیں کہ انہیں مستقبل میں ان کی پسندیدہ چیزیں مل جائیں گی۔ اسی امید پر قائم رہتے ہوئے وہ حاصل شدہ مواقع کھونے کے علاوہ بالآخر زندگی سے ہاتھ دھو بیٹھتے ہیں۔
زندگی میں کامیابی کیسے حاصل کریں؟
زندگی میں کامیابی حاصل کرنے کے لیے اس مختصر سی زندگی پر کبھی بھی بھروسہ نہیں کرنا چاہیے۔ اور اس طرح کہنا صحیح نہیں ہے کہ میں مستقبل میں دن رات کام کروں گا،بڑے بڑے مقاصد پورے کروں گا اور قوم کی خدمت کروں گا۔ وغیرہ وغیرہ۔۔
کیوں؟
اس لیے کی آپ جس مستقبل کی بات کرتے ہیں وہ آپ کے اختیارمیں نہیں ہے۔ اور اس طرح صرف آپ کی عاجزی کا اظہار ہوتا ہے۔
اگر واقعی آپ نے قوم کی خدمت کرنی ہے تو ابھی اٹھیئے اس گزرتے ہوئے وقت میں اسی موجودہ دن یا رات میں ، قوم کی خدمت کیجئے۔ موجودہ وقت اور ہاتھ میں موجود پرندوں کو آزاد کر کے، آنے والے وقت یا جنگل میں موجود پرندوں کی آرزو کیوں؟
آپ کا نعرہ اور زندگی کا نصب العین یہ ہونا چاہئیے کہ:
’’زندگی میں اس طرح کا م کرو گویا یہاں ہمیشہ رہنا ہے اور آخرت کے لیے ایسے کوشش کرو جیسے کل مر جانا ہے‘‘۔
اس زندگی کا ہر دن ایک نیا دن ہے ، ہر لمحہ نیا اور تازہ لمحہ ہے۔ اگر آپ نے ’’آج‘‘ کو ضائع کر دیا اور اس سے استفادہ نہ کیا تو آپ نے اسے ہمیشہ کے لیے کھو دیا ، اس کے علاوہ آپ نے اس کے انجام کو بھی برباد کر دیا، کیونکہ ہر آنے والا دن ایک نیا اور ’’آج‘‘ کا دن ہوتا ہے اور اس کی ذمہ داریاں اور فرائض بھی نئے ہوتے ہیں۔
حدیث میں آیا ہے:
’’کوئی دن اولاد آدم پر نہیں گزرتا ، مگر یہ کہ وہ دن اسے یہ کہتا ہے: اے ابن آدم! میں ایک نیا دن ہوں اور کل تم پر گواہ ہوں گا، پس جو نیکی کرناہے مجھ (آج) میں کر لو اور جو اچھی بات کہنی ہے مجھ(آج) میں کہہ لو۔ اس کی گواہی میں روزِ قیامت دوں گا۔ اس کے بعد تم مجھے کبھی نہ دیکھ پائو گے۔‘‘
بعض افراد اعتراض کرتے ہیں کہ کیا حال کی طرح مستقبل کے لیے منصوبہ بندی نہیں کرنی چاہیے؟
ان کا اعتراض درست ہے۔اس کا جواب یہ ہے کہ مستقبل کے لیے منصوبہ بندی ضروری ہے۔ لیکن مستقبل کی وجہ سے آج رنج والم میں مبتلا ہوجانا ’’آبیل مجھے مار‘‘ کے مترادف ہے۔
(انتخاب: ’’کامیاب زندگی‘‘)
{}{}{}
Leave a Reply