وینزویلا: فوجی بوٹوں کی دھمک

یہ صرف آرمی چیف نہیں بلکہ ایک کمانڈر اور ایک با اختیار اور طاقتور شخصیت ہیں ۔ان خیالات کا اظہار وینزویلاکے صدر نکولس میڈورو نے ایک ٹی وی پروگرام میں کیا۔یہ تعریفی کلمات انہوں نے اپنے لیے نہیں کہے بلکہ یہ اعزازی کلمات انہوں نے وینزویلا کے وزیر دفاع ویلڈمیر پیڈرینوکے بارے میں کہے جن کی منظوری اعزازی طور پر دی گئی ۔تصویر میں صدر کے پیچھے کھڑے ہوئے دراز قدجنرل واضح اور بااختیار شخصیت کے طور پر نظر آرہے ہیں۔

وینزویلا کے صدر نکولس میڈورو نے جولائی میں وزیر دفاع ویلڈمیر پیڈرینو کو خوراک کی کمی پر قابو پانے کے لیے حکومت کا نگران مقرر کیا ،خوراک کی کمی نے عوامی حکومت کے وقار کو مجروح کیا تھا اور حکومت کی بقا پر ایک سوالیہ نشان بنا دیا تھا ۔خوراک کی فراہمی کے اس عظیم مشن میں خوراک کو پوری ریاست میں برابری کے ساتھ تقسیم کرنا ،چھوٹے تاجروں کو اپنانا اور یہ ساراا نتظام فوج کے حوالے کرنا شامل ہے۔

جنرل ویلڈمیر پیڈرینو کے جن کا خاندانی نام ’گوڈفادر‘ ہے کسی بھی حکومتی شخصیت کے سامنے جوابدہ نہیں ہیں۔ میڈورونے تمام وزراء اور حکومتی اداروں (جو خوراک کی تقسیم سے وابستہ ہیں) پر یہ الزام لگایا ہے وہ صدر میڈورو کو اپنا ماتحت سمجھتے ہیں اور ان کا حکم نہیں مانتے، میڈورو نے فوج کوبندرگاہ پرقبضہ کا حکم بھی دیاہے۔

ایک بڑا سوال یہ بھی ہے کے کیا جنرل ویلڈمیر پیڈرینوابھی سے صدر میڈوروکے انچارج ہیں یا مستقبل میں ہوں گے۔ ریٹائر جنرل کلیور الکالاجو کے جنرل ویلڈمیر پیڈرینوکے مداح بھی ہیں، وہ اس بات پر یقین رکھتے ہیں اقتدار جنرل ویلڈمیر پیڈرینو کے پاس ہے۔لیٹن امریکا گوز گلوبل میں دو دانشوروں کے کیے گئے تجزیہ کے مطابق یہ ایک بالکل نئے طرز کی بغاوت ہے جس میں صدر کی کرسی صدر کے پاس رہے گی لیکن اصل اقتدار آرمی کے پاس رہے گا۔

وینزویلا میں کرنل ہوگو شاویز کی سربراہی میں اس سے پہلے بھی ایک ناکام فوجی بغاوت ہوچکی ہے، ناکام فوجی بغاوت کی کوشش کے بعد کرنل ہوگو شاویز نے انتخابات کے ذریعے کامیابی حاصل کی اور ایک سول ملٹری یونین قائم کی، جس میں فوج نے بولیویرین انقلاب میں اہم کردار ادا کیا۔

بے یارو مددگار صدرمیڈورو کو شاویز نے ۲۰۱۳ء میں اپنی وفات سے پہلے اپنا وارث مقرر کیا، صدر میڈورو چونکہ ایک سویلین ہیں اس لیے فوج نے ان کی پذیرائی نہیں کی لیکن انہوں نے فوجی طرز پر اپنی حکومت چلائی اوران کی حکومت میں ایک تہائی وزرا کا تعلق فوج سے ہے۔ ۲۰۰۲ء میں ناکام فوجی بغاوت کے بعد شاویز نے فوج پر مکمل کنٹرول حاصل کر لیا تھا۔ شاویز کے انتقال کے بعد سے ہی ماضی کی طرح دوبارہ اقتدار میں فوج کا عمل دخل نمایاں ہے۔

یہ بات ۶ دسمبر کو وینزویلا میں پالیمانی انتخابات کے بعد اس وقت واضح ہوگئی تھی، جب ۱۷ سال بعد حزب اختلاف نے قومی اسمبلی کا انتخاب جیتا۔ حزب اختلاف کے انتخابات جیتنے کے بعد جنرل ویلڈمیر پیڈرینو نے ٹیلی ویژن پر آکر جمہوری عمل کی پرامن منتقلی پر قوم کو مبارک باد دی، جنرل ویلڈمیر پیڈرینو نے اس میں حکومت کی ناکامی کی بات کی تھی، سیاسی ماہرین کا اس حوالے سے کہنا تھا کہ جنرل ویلڈمیر پیڈرینوکا وہ خطاب حزب اختلاف کی فتح کو مسترد کرنے کے لیے نہیں تھا بلکہ وہ حقیقت میں صدر میڈورو کے لیے ایک تنبیہ تھی۔ اس تمام صورتحال کو دیکھتے ہوئے یہ کہنا مشکل ہے کہ جنرل ویلڈمیر پیڈرینو شاویز کے انقلاب کے ساتھ وفادار نہیں بلکہ اصل میں وہ صدر میڈورو کے ساتھ وفادار نہیں ہیں۔

اقتدار میں آرمی کا مستقبل اب اس بات سے جڑا ہے کہ وہ کس طرح حزب اختلاف کے ساتھ مل کر ریفرنڈم کے ذریعے سے صدرمیڈورو کوہٹاتی ہے۔ یکم اگست کو پہلے مرحلے میں الیکشن کمیشن نے حزب اختلاف کو صدر کے خلاف ریفرنڈم کے انعقاد کی اجازت دے دی ہے اور اب دوسرے مرحلے میں حزب اختلاف کو صدر کے خلاف ۴ ملین آبادی کے پانچویں حصے کے ووٹ حاصل کرنے ہیں، حزب اختلاف صدر کو شکست دینے کے لیے اپنے ہدف کو حاصل کرلے گی،صدرکے حامی صرف ایک تہائی ہیں، جو کہ ان کی کارکردگی سے مطمئن ہیں، اگر تمام صورتحال کا جائزہ لیا جائے تو یہ کہا جاسکتا ہے کہ صدر کو اقتدار چھوڑنا پڑے گا۔

ہر گزرتا لمحہ صدر میڈورو کے لیے بہت اہم ہے اگر ۱۰جنوری سے پہلے صدر کو اقتدار سے ہٹا دیا گیا تو صدارتی انتخابات دوبارہ ہوں گے، لیکن اگر جنوری کے بعد ریفرنڈم مکمل ہوا تو صدر کی جگہ نائب صدر اقتدار سنبھالیں گے اور جنرل ویلڈمیر پیڈرینو اس دوران اقتدار پر اپنی گرفت مزید مضبوط کریں گے۔

اس وقت فوج غذائی قلت کے خاتمے میں مکمل ناکام ہوچکی ہے اور اس سے فوج کے وقار میں کمی آئی ہے۔ اگرچہ فوج کے غذا کے تقسیم کے نظام سے تاجروں کو بے دخل کردیا گیا ہے اس کے باوجود تاجروں کو غذائی قلت کے خاتمے میں ناکامی کا ذمہ دار ٹھہرانا پاگل پن ہے۔

غذا کا فقدان قیمت کو کنٹرول میں نہ رکھنے کی وجہ سے پیدا ہوا، زندگی کی ضروری بنیادی اشیا دوگنی قیمت پر فروخت کی گئیں۔ روز مرہ استعمال کی گھریلو اشیا جن میں روٹی سے لے کر ٹشو پیپر تک شامل ہے، فروخت کے لیے موجود نہیں۔ تیل کی قیمتوں میں کمی کے باوجود حکومت کے پاس اتنی رقم نہیں کہ اشیا کو درآمد کرکے غذائی بحران پر قابو پایا جاسکے۔ غذا کی غیر قانونی مارکیٹ اس بحران کا سبب نہیں بلکہ نتیجہ ہے۔ صدر نے پوری شدت سے اقتصادی حقیقت کا انکارکیا ہے۔ صدر میڈورو نے پچھلے سال ہی ایک ایسے فرد کو تجارتی وزیر مقرر کیا ہے، جس نے سویت یونین کو ’انتہائی خودکفیل ملک‘ کہتے ہوئے اس کی تعریف کی تھی۔

فوج کے سپاہی اس سلسلے میں زیادہ مدد نہیں کر سکتے کیونکہ کولمبیا کے ساتھ ملی ہوئی سرحدی پٹی پر فوجی چوکیوں کو اسمگلروں کی جانب سے نقد رقم فراہم کی گئی ہے۔ نیشنل گارڈ کے سابق کمانڈراور منشیات کے سابق نگراں نیسٹر نیولر پر نیویارک میں امریکی عدالت نے کوکین کی اسمگلنگ کا جرم ثابت کیا ہے، فردِ جرم عائد ہونے کے کچھ دنوں کے بعد ہی صدرمیڈورو نے سابق کمانڈر کو وزیر داخلہ کا منصب عطاکیا۔

۱۱ جولائی کو غذا کی فراہمی کے ایک بڑے مشن کا افتتاح کیا گیا تھا لیکن اس کے بعد بھی اس سلسلے میں کوئی زیادہ بہتری دیکھنے میں نہیں آئی، وینزویلا کے باشندے روٹی کے حصول کے لیے سپر مارکیٹس میں خالی شیلفوں کے آگے لمبی لمبی قطاروں میں کھڑے ہو تے ہیں، یہ ملک میں طلب اور رسد کے لیے مظاہرے کریں گے، یہ باشندے پریڈمیں کھڑے فوجی سپاہیوں کی طرح احکامات کی بجاآوری نہیں کریں گے۔

(ترجمہ: سمیہ اختر)

“Venezuela: Army rations”.(“The Economist”. August 6, 2016)