
لاڈلا ہونا کوئی بُری بات نہیں۔ بُری بات یہ ہے کہ لاڈ لاڈ میں بچہ اتنا بگاڑ دیا جائے کہ وہ والدین سمیت ہر کسی سے بدتمیزی کو ایک معمول سمجھنے لگے۔ ایسا تب ہوتا ہے جب باپ سرزنش کرنے لگے تو بچے کے آگے ماں کھڑی ہوجائے اور ماں ڈانٹنے لگے تو باپ بچہ کو گود میں اٹھا لے۔چنانچہ ایک دن بچہ سر پہ مُوتنا شروع کردیتا ہے اور اس کا کوئی کچھ نہیں بگاڑ سکتا۔
اگر عالمی برادری کو ایک بڑا کنبہ سمجھ لیا جائے، تو جس بچے نے سب سے زیادہ ناک میں دم کر رکھا ہے وہ اسرائیل ہے۔ پہلے تو ماں (برطانیہ) نے تربیت کے تمام بنیادی اصولوں کو بالائے طاق رکھا۔ بعدازاں سوتیلے باپ (امریکا) نے اگلی پچھلی تمام کسر نکال دی اور بچے (اسرائیل) کو عملاً باپ کا درجہ دے دیا۔ اور پھر پھوپھی جان (کانگریس) نے تو چاہت دکھانے میں سب کو مات کر کے یہ محاورہ بھی غلط ثابت کردیا کہ ’’ماں سے زیادہ چاہے پھاپھا کٹنی کہلائے‘‘
اقوامِ متحدہ کے ویسے تو ۱۹۳ ممالک رکن ہیں۔ لیکن اب تک جس ممبر کی حرکتوں کے خلاف جنرل اسمبلی، سلامتی کونسل اور اقوامِ متحدہ کے پانچ ذیلی اداروں میں سب سے زیادہ قرار دادیں پیش ہوئیں، وہ اسرائیل ہے۔ اسرائیل کی پیدائش سے اب تک کوئی برس ایسا نہیں گزرا جب جنرل اسمبلی میں اسرائیل کی کسی حرکت کی مذمت میں کوئی قرارداد منظور نہ ہوئی ہو۔ ۲۰۰۳ء میں اقوام متحدہ کی انسانی حقوق کونسل وجود میں آئی، تب سے اب تک اس کونسل نے انسانی حقوق کی پامالی کے ضمن میں جس ملک کی سب سے زیادہ مذمت کی وہ اسرائیل ہے۔ اقوامِ متحدہ کے سب سے اہم ادارے یعنی سلامتی کونسل میں آج تک فلسطین اسرائیل تنازعے پر ۲۲۶ قرار دادیں پیش کی جا چکی ہیں۔ زیادہ تر کو امریکا نے ویٹو کردیا۔ لیکن سلامتی کونسل بہت سی اہم قرار دادیں اس لیے منظور کر پائی کیونکہ امریکا نے رائے شماری سے غیر حاضر رہنے کا فیصلہ کیا۔
اسرائیل کے خلاف اقوامِ متحدہ کی سلامتی کونسل نے جو قرار دادیں متفقہ طور پر منظور کیں، ان میں سب سے اہم ۱۹۶۷ء کی جنگ کے بعد کی قرار داد نمبر۲۴۲ ہے۔ اس میں مطالبہ کیا گیا کہ اسرائیل مقبوضہ علاقے خالی کرکے ۵ جون ۱۹۶۷ء کی سرحدوں تک واپس چلا جائے اور ہمسایہ ممالک سے اپنے تنازعات پُرامن طریقے پر نمٹائے۔
آج تک سلامتی کونسل میں لگ بھگ تین درجن قراردادیں اس لیے منظور ہو سکیں کیونکہ امریکا نے ان کی مخالفت نہیں کی۔ مثلاً صدر لنڈن بی جانسن کے دور میں سلامتی کونسل اسرائیل عرب تنازعے کے تناظر میں ۷، نکسن کے دور میں ۱۵، فورڈ کے دور میں ۲، کارٹر کے دور میں ۱۴، ریگن کے دور میں ۲۱، بش سینئر کے دور میں ۹، کلنٹن کے دور میں ۳ اور بش جونیئر کے دور میں ۶ قرار دادیں منظور کرنے میں کامیاب ہو پائی۔ ایک تاثر یہ ہے کہ اوباما کے آٹھ سالہ دور میں اسرائیل امریکا تعلقات میں مسلسل کشیدگی رہی اور اسرائیلی وزیرِاعظم نیتن یاہو سے اوباما کی کبھی نہیں بنی۔ ہو سکتا ہے یہ تاثر درست ہو، مگر اوباما پہلے امریکی صدر ہیں جنھوں نے سلامتی کونسل میں اسرائیل کے خلاف ۲۳دسمبر ۲۰۱۶ء سے قبل ایک بھی قرار داد منظور نہیں ہونے دی۔ مگر جاتے جاتے اوباما کا پیمانۂ صبر بھی لبریز ہو گیا اور چار دن پہلے ۱۵؍ رکنی سلامتی کونسل نے امریکی غیرحاضری کے طفیل صفر کے مقابلے میں ۱۴ ووٹوں سے ایک ایسی قرار داد منظور کرنے میں کامیابی حاصل کر لی جس پر فوری طور پر تو شاید عمل نہ ہو پائے لیکن مستقبل کی خودمختار اور آزاد فلسطینی ریاست کے قیام میں یہ قرارداد ایک اہم قانونی و اخلاقی سنگِ میل ضرور بنے گی۔
اس قرارداد میں کھل کر کہا گیا ہے کہ ۱۹۶۷ء کی جنگ کے نتیجے میں اسرائیل کے قبضے میں آنے والے فلسطینی علاقے اور مشرقی بیت المقدس میں اسرائیل نے جو یہودی بستیاں تعمیر کی ہیں، وہ غیر قانونی ہیں اور یہ بستیاں اسرائیل اور فلسطین کے مابین دو ریاستی حل کی راہ میں ایک سنگین رکاوٹ ہیں۔ لہٰذا مزید تعمیراتی کام فوری طور پر روکا جائے اور ان بستیوں کو ختم کیا جائے۔ ۲۰۱۱ء میں ایسی ہی قرارداد امریکا نے یہ کہہ کر ویٹو کر دی تھی کہ بستیوں کے مستقبل کا معاملہ اسرائیلی و فلسطینی مذاکرات کاروں کو دوطرفہ طور پر طے کرنا چاہیے۔ تاہم چار برس بعد اس قرارداد کو امریکا نے آسانی سے منظور ہونے دیا۔
اسرائیل اس وقت صدمے سے دوچار ہے۔اسے قطعاً امید نہیں تھی کہ اوباما جاتے جاتے ’’اپنے دوست‘‘ کی پیٹھ میں چھرا گھونپ دیں گے۔ یہ قرارداد دراصل مصر نے تیار کی تھی مگر نومنتخب امریکی صدر ڈونالڈ ٹرمپ اور اسرائیلی وزیرِاعظم نیتن یاہو کی درخواست پر مصر کے فوجی حکمران جنرل عبد الفتح السیسی نے یہ قرارداد پیش نہ کرنے کا فیصلہ کیا۔ البتہ سلامتی کونسل کے دیگر غیر مستقل ارکان سینیگال، نیوزی لینڈ، یوکرین، ملائشیا اور وینزویلا نے اس قرارداد کو اُچک لیا اور جمعہ کے اجلاس میں پیش کردیا۔ امریکا نے ویٹو کے بجائے خاموش رہنے کا فیصلہ کیا۔ یوں دیگر چار مستقل ارکان برطانیہ، فرانس، روس اور چین کی حمایت سے منظوری کا کارنامہ ممکن ہوگیا۔ اور تو اور مصر نے بھی غیر حاضر رہنے کے بجائے قرارداد کے حق میں ووٹ ڈالا۔
اسرائیل نے سلامتی کونسل کے ۱۴؍ارکان کے سفیروں کو تل ابیب کے دفترِ خارجہ میں طلب کر کے باضابطہ احتجاج کیا۔ سینیگال اور یوکرین کے وزرائے خارجہ کے مجوزہ اسرائیلی دورے منسوخ کر دیے گئے۔ پہلی بار امریکی سفیر ڈین شپیرو کو نیتن یاہو کے دفتر میں طلب کرکے احتجاجی مراسلہ تھمایا گیا۔ اقوامِ متحدہ کے پانچ ذیلی اداروں سے تعاون اور مالی معاونت معطل کر دی گئی۔ فلسطینی اتھارٹی سے سویلین معاملات پر تعاون روک دیا گیا۔ نیتن یاہو نے الفاظ چبائے بغیر کہا کہ ’’اس ڈرامے کے پیچھے اوباما اور امریکی وزیرِ خارجہ جان کیری کا ہاتھ ہے‘‘۔
نامزد امریکی صدر ٹرمپ نے اپنے ٹویٹر ردِ عمل میں کہا کہ ۲۰ جنوری (عہدہِ صدارت سنبھالنے کی تاریخ) کے بعد اقوامِ متحدہ کے ساتھ معاملات میں تبدیلی آئے گی۔طاقتور امریکن اسرائیل پبلک افیئرزکمیٹی، ورلڈ جوئش کانگریس، متعدد ڈیموکریٹ اور ری بپبلکن ارکانِ کانگریس اوباما پر شدید طیش میں ہیں۔ مگر منہ سے جھاگ نکالنے کے سوا جاتے صدر کا کچھ نہیں بگاڑ سکتے۔
۱۹۷۴ء میں جب ’’دہشت گرد‘‘ یاسر عرفات نے پہلی بار اقوامِ متحدہ کی جنرل اسمبلی کے روم پر بطور مہمان مقرریہ کہا تھا کہ ’’میرے ایک ہاتھ میں بندوق اور دوسرے میں شاخِ زیتون ہے۔ اس شاخ کو گرنے مت دیجیے‘‘۔ تب سے آج تک بے شمار رکاوٹوں کے باوجود فلسطینیوں نے اپنی شناخت تسلیم کروانے کے سفر میں حسبِ توقع پیش رفت نہ ہونے کے باوجود بھی زبردست کامیابیاں حاصل کی ہیں۔ اقوامِ متحدہ کے ۱۲۶؍ارکان فلسطینی اتھارٹی تسلیم کر چکے ہیں۔ اقوامِ متحدہ کی دستاویزات میں اب فلسطینی اتھارٹی کو اسٹیٹ آف فلسطین لکھا جاتا ہے۔ فلسطینی ریاست کو قانوناً اپنی زمینی و فضائی حدود پر اختیار ہے۔ یہ ریاست تمام بین الاقوامی تنظیموں کی رکن بننے کی اہل ہے۔ یہ اسرائیل کو جرائم کی بین الاقوامی عدالت میں گھسیٹنے کی بھی مجاز ہے۔
معاملات سست رفتار سہی مگر درست سمت میں جا رہے ہیں اور قوی امکان ہے کہ ہم اپنی زندگی میں ہی ایک آزاد اور خود مختار فلسطین دیکھ لیں گے۔ وقت سے لڑنے والوں کو کبھی کامیابی حاصل نہیں ہوتی اور وقت فلسطینیوں کے ساتھ ہے۔
(بحوالہ: ’’دلیل ڈاٹ پی کے‘‘۔ ۲۷ دسمبر ۲۰۱۶ء)
Leave a Reply