
پاکستان میں متوسط طبقے کے جوش و خروش اور تحرک کو ان تمام مقاصد کے لیے استعمال کیا جارہا ہے جو جدید دور میں کسی بھی ریاست کے قومی مقاصد کے یکسر منافی ہیں۔
زمانے بھر کے ماہرین معاشیات کہتے ہیں کہ متوسط طبقہ ہی کسی بھی معاشرے اور معیشت کو متحرک رکھنے میں مرکزی کردار ادا کرتا ہے اور اسی کے دم قدم سے کوئی بھی بڑی اور حقیقی تبدیلی رونما ہوتی ہے۔ مگر جو لوگ معاشیات کا علم نہیں رکھتے اور تجزیہ کار بھی نہیں ان کی نظر میں دو مختلف معاشروں کے متوسط طبقے مختلف ہوسکتے ہیں۔ پاکستان اور بھارت میں متوسط طبقہ رجعت پسند ہے مگر بھارت کے برعکس پاکستان کا متوسط طبقہ نظریاتی، امریکا مخالف اور طالبان نواز ہے۔
بھارت میں متوسط طبقے کی ذہنیت آئین نے متعین کی ہے اور اسے سیکولراِزم قبول کرنے کے قابل بنایا ہے۔ پاکستان کا آئین متوسط طبقے سے اس بات کی توقع رکھتا ہے کہ وہ شرعی قوانین کو قبول کرے گا اور نتیجہ یہ ہے کہ القاعدہ جیسی تنظیموں کے پیش کردہ سخت تر ورژن کو بھی قبول کرنے کی ذہنیت پنپ چکی ہے۔ پاکستان کا متوسط طبقہ قرون وسطیٰ میں ریاستی نظریے کے تحت ذہنوں میں ابھاری جانے والی مطلوبہ جنت کی مانند ہے جس کا مزاج کبھی تبدیل نہیں ہوا کرتا تھا۔
پاکستان اور بھارت کے متوسط طبقے میں بہت سی باتیں مشترک ہیں۔ دونوں ہی شہروں میں رہتے ہیں اور دائیں بازو کو ووٹ دیتے ہیں۔ بھارتیہ جنتا پارٹی شہروں میں ووٹ حاصل کرتی ہے۔ کانگریس دیہی علاقوں میں اکثریت کی حمایت پاتی ہے۔ مسلم لیگ ن پنجاب میں زیادہ ووٹ شہری علاقوں سے لیتی ہے۔ پاکستان پیپلز پارٹی پنجاب اور سندھ کے دیہی علاقوں سے زیادہ ووٹ لیتی ہے۔ کراچی میں متوسط طبقہ رجعت پسند ہے مگر اس کے سیکولراِزم کو اب لسانیت سے نتھی کردیا گیا ہے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ اس کے تحرک کو لندن میں بیٹھے ہوئے متحدہ قائد الطاف حسین نے باندھ رکھا ہے جو ایک مصنوعی کیفیت ہے۔
پنجاب کا متوسط طبقہ کراچی اور حیدر آباد کے متوسط طبقے سے نفرت کرتا ہے۔ کیا ہم کراچی اور حیدر آباد کے متوسط طبقے کو غیر فطری قرار دے سکتے ہیں؟ اگر الطاف حسین نے کراچی اور حیدر آباد میں متوسط طبقے پر اپنا اثر نہ جمایا ہوتا تو کیا ان دونوں شہروں میں بھی احمدیوں کے ساتھ وہی سلوک نہ کیا گیا ہوتا جو پنجاب میں کیا جاتا رہا ہے؟ اور کیا ان دونوں شہروں کے وکلا نے بھی پنجاب کے وکلا کی طرح توہین رسالت کے واقعات میں قتل کرنے والوں کو ہیرو کی طرح سیلیبریٹ نہ کیا ہوتا؟
ماہر معاشیات اعجاز نبی لکھتے ہیں ’’کسی بھی معاشرے میں حقیقی اور مثبت تبدیلی کی راہ متوسط طبقہ ہموار اور متعین کرتا ہے۔ اگر یہ طبقہ بڑا ہو تو معاشرے میں زیادہ توازن ہوتا ہے۔ ملک میں سیاسی اور معاشی استحکام ہو تو سرمایہ کاری کی سطح بلند ہوتی ہے اور لوگ زیادہ تحرک کے ساتھ کام کرتے ہیں۔ متوسط طبقہ بڑا اور مستحکم ہو تو تمام تنازعات کا ایسا حل تلاش کرتا ہے جس میں تشدد کا عنصر نہ ہو۔ اگر سیاسی عدم استحکام ہو تو معاشی نمو بھی رک جاتی ہے اور اس کے نتیجے میں متوسط طبقہ بھی سکڑنے لگتا ہے‘‘۔
سیاسی تجزیہ کار بھی اس نکتے سے اتفاق کرتے ہیں۔ ان کا استدلال ہے کہ ریاست کا ادارہ ہر طرح کے تحفظ کو یقینی بنانے کے لیے معرض وجود میں لایا گیا تھا۔ لوگ اپنی املاک اور بنیادی حقوق کا تحفظ چاہتے تھے۔ معاشرے اور ریاست کے درمیان معاہدہ یہی تو ہے کہ عوام کے تمام حقوق اور املاک کا تحفظ یقینی بنایا جائے گا اور بدلے میں عوام ریاست کے لیے اپنا سب کچھ قربان کرنے کو تیار رہیں گے۔ یہ عمرانی معاہدے کی اجمالی شکل ہے۔ لیکن اگر ریاست خود کوئی ایسا نظریہ قبول کرے جس کی بنیاد عسکریت پسندی کو فروغ دینا ہو تو متوسط طبقہ بھی لازمی طور پر متاثر ہوگا۔ پاکستان کا المیہ یہ ہے کہ یہ ایک ایسی قومی ریاست ہے جس میں قوم ناپید ہے۔ یہ ایسی ریاست ہے جو امت یعنی عالمگیریت کے تصور پر یقینی رکھتی ہے، دوسرے معاشروں کی خرابیوں اور تنازعات کو درآمد کرتی ہے، خیالی جنت میں رہنے والوں کو اپنے دامن میں سموئے ہوئے ہے اور اس کے نتیجے میں کسی بھی بیرونی بحران کے سامنے مکمل بے بس ہے۔ کوئی بھی بیرونی مسئلہ کسی بھی وقت ہمارے قومی بحران میں تبدیل ہونے کی بھرپور صلاحیت رکھتا ہے۔ اس سے نتیجہ یہ برآمد ہوا ہے کہ پاکستان میں متوسط طبقہ صورت حال سے نالاں ہے اور یہ کیفیت متوسط طبقے کی رجعت پسندانہ تعریف سے متصادم ہے۔
پرویز مشرف کے دور میں ایک ایسا متوسط طبقہ پیدا کرنے کی کوشش کی گئی جس میں سیکولرازم کے لیے نرم گوشہ ہو اور جو جہاد کے نظریے سے دوری اختیار کرے۔ پرویز مشرف غیر نظریاتی آمر تھے اور جہاد کے نظریے سے دوری اختیار کرنے کی تحریک دینے کی پاداش میں آج ان کا شمار پاکستان کے سب سے قابلِ نفرت رہنماؤں میں ہوتا ہے۔ انہوں نے معاملات کو خالص معاشی انداز سے چلانے کی کوشش کی۔
پلاننگ کمیشن کے ماہر معاشیات ندیم الحق کہتے ہیں کہ بھارت کے مقابلے میں پاکستان کا متوسط طبقہ آبادی کے تناسب کے اعتبار سے دگنا ہے۔ ۲۰۰۷ء میں اسٹینڈرڈ چارٹرڈ بینک اور اسٹیٹ بینک کے اُس وقت کے گورنر ڈاکٹر عشرت حسین نے ایک تجزیے میں بتایا تھا کہ پاکستان میں تین سے ساڑھے تین کروڑ افراد ایسے ہیں جن کی سالانہ آمدنی دس ہزار ڈالر سے زیادہ ہے۔ ان میں ایک کروڑ ۷۰ لاکھ ایسے ہیں جو بالائی اور بالائی متوسط طبقے سے تعلق رکھتے ہیں۔
ماہرینِ معیشت و معاشرت کہتے ہیں کہ متوسط طبقہ ہی کسی بھی معاشرے میں قومی سوچ اور مزاج کا سب سے بڑا ستون ہوتا ہے۔ امیر ترین طبقہ کسی تبدیلی میں دلچسپی نہیں رکھتا۔ غریب ترین طبقہ بے چارہ کسی تبدیلی کے بارے میں سوچنے کی پوزیشن ہی میں نہیں ہوتا۔ ایسے میں متوسط طبقہ ہی امیدوں کا مرکز ٹھہرتا ہے۔ قومی ریاست کے مقاصد کے حصول میں متوسط طبقہ ہی مرکزی کردار ادا کرتا ہے۔ قومی سوچ کا سب سے مضبوط مظہر منظم فوج کی صورت میں ہمارے سامنے آتا ہے۔
پاکستان اور بھارت کے متوسط طبقے قومی ریاست کے نمایاں ترین مظہر کی حیثیت سے عسکری تیاریوں کو مرکزی حیثیت دیتے ہیں۔ پاکستان میں مسلم لیگ ن نے جوہری ہتھیاروں کی تیاری اور پھر جوہری دھماکوں کے ذریعے قومی مقاصد کی تکمیل میں مرکزی کردار ادا کیا جبکہ پیپلز پارٹی کے بارے میں یہ تاثر عام ہے کہ اس نے جوہری پروگرام کو منجمد کرنے میں زیادہ دلچسپی لی۔ بھارت میں بھارتیہ جنتا پارٹی نے ملک کو جوہری قوت بنانے میں مرکزی کردار ادا کیا۔
بعض تجزیہ کاروں نے متوسط طبقے اور فوج کے درمیان بعض مشکوک رابطوں اور رشتوں کی نشاندہی کی ہے مگر وہ تجزیہ کرتے وقت عوام کو نظر انداز کردیتے ہیں۔ وہ اس بات کو بیان کرنے سے قاصر رہتے ہیں کہ جب بھی فوج اقتدار پر قبضہ کرتی ہے تو متوسط طبقہ کیوں اس کا خیر مقدم کرتا ہے اور کیوں اسے یہ محسوس ہوتا ہے کہ معاشرے کے بہترین مفادات کی نگرانی فوج ہی کرسکتی ہے۔ اس کا ایک سبب تو یہ بھی ہوسکتا ہے کہ فوج میں افسران کی غالب اکثریت کا تعلق متوسط طبقے سے ہوتا ہے۔ اس سے بھی پہلے ہمیں جنوبی ایشیا میں آبادی کی تقسیم پر نظر دوڑانا چاہیے۔ عرب ریاستوں کے برعکس جنوبی ایشیا میں ۶۰ فیصد سے زائد آبادی دیہات میں ہے۔ پنجاب میں شہروں کی تعداد بھی پورے ملک کے مقابلے میں زیادہ ہے۔ ملک کی آبادی کا بڑا حصہ پنجاب میں ہے، اس لیے فطری طور پر فوج میں پنجابی نمایاں پوزیشن میں ہیں۔ عام طور پر بحریہ میں ساحلی علاقوں کے لوگ ہوتے ہیں مگر پاکستانی بحریہ میں بھی حیرت انگیز طور پر پنجابیوں کی اکثریت ہے۔
پنجاب کی متوسط طبقے سے تعلق رکھنے والی فوج کو یقینی طور پر متوسط طبقے کی اقدار کا بھی خوب احساس ہوگا۔ ’’پاکستان ڈیفنس‘‘ کے عنوان سے کام کرنے والی ایک ویب سائٹ (www.defence.pk) پر یہ رائے موجود ہے ’’فوج کی اسلامائزیشن اب طالبان کے ہاتھوں کا کھلونا بن کر رہ گئی ہے۔ ہندوستان کے کافروں سے مقابلے کے لیے اسلام کو بنیادی قوت متحرکہ سمجھا جاتا ہے۔ فوج میں اسلامائزیشن کا عمل ضیاء الحق نے شروع کیا جنہوں نے یونٹ کے مُلّا کو میدان جنگ کا حصہ بنادیا‘‘۔
المیہ یہ ہے کہ پاکستان میں متوسط طبقے کی توانائی اور جوش و خروش کو قومی ریاست کے مقاصد سے متصادم نظریاتی مقاصد کے حصول کا ذریعہ بنادیا گیا ہے۔ متوسط طبقے کو اسلام کے سانچے میں ڈھال دیا گیا ہے۔ ریاست نے نظریاتی ساخت ایسی قائم کی ہے کہ تمام امیدوں کا مرکز اب یہی اسلام نواز متوسط طبقہ ہے۔ متوسط طبقہ اور فوج ایک دوسرے کو مستحکم کر رہے ہیں۔ فوج میں افسران کا طبقہ بار بار یاد دلاتا ہے کہ ہمیں اپنی نظریاتی شناخت اور ساخت نہیں بھولنا چاہیے اور اس یاد دہانی کے لیے حزب اللہ کے بانی ظہیر الاسلام عباسی اور ان کے ہم خیال افسران کے ہاتھوں اقتدار پر قبضے کی کوشش جیسے واقعات سامنے آتے ہیں۔ حزب التحریر کے ایجنٹ میجر علی کا بھی کچھ ایسا ہی معاملہ ہے۔
آج کے پاکستان کا ریاستی اور قومی مزاج وہی ہے جو متوسط طبقہ جمہوریت کے تحت اور میڈیا کے زیر اثر سوچتاہے۔ آج تمام چینل اردو ہیں کیونکہ انگریزی زبان کے چینل چلانے کی کوششیں ناکام ہوچکی ہیں۔ پاکستان میں اردو متوسط طبقے کی زبان ہے۔ عالمی نقطۂ نظر اردو کے ذریعے ہی پیش کیا اور سمجھا جاسکتا ہے۔
پاکستان کی فوج ’’حکمتِ عملی‘‘ کو بھول کر ’’عزت و وقار‘‘ (Honour) کو زیادہ اس لیے یاد رکھتی ہے کہ اس کا تعلق متوسط طبقے سے ہے۔ افلاطون نے بھی عزت و وقار کا تفصیل سے ذکر کیا ہے۔ آج پاکستان کی خارجہ پالیسی میں وقار کو بنیادی حیثیت حاصل ہے۔ بیرون ملک جنوبی ایشیائی باشندوں کا متوسط طبقہ معاشی تبدیلیوں سے عبارت ہے۔ بیرون ملک مقیم بھارتی باشندے رجعت پسند ہیں اور بھارتیہ جنتا پارٹی کی حمایت کرتے ہیں۔ بیرون ملک مقیم پاکستانیوں کی اکثریت بھی دائیں بازو کی حمایتی ہے اور مسلم لیگ ن یا پھر عمران خان کی حامی ہے۔ بنیادی فرق یہ ہے کہ بیرون ملک مقیم بھارتی متوسط طبقے نے میزبان معاشروں کو قبول کرلیا ہے۔ پاکستانیوں نے اب تک اُمّہ کا تصور ترک نہیں کیا اور اسی لیے ان میں انتہا پسندانہ عزائم بھی بار بار بھڑک اٹھتے ہیں۔ ہمارا مسئلہ یہ ہے کہ ہم دوسرے معاشروں کے مطابق اپنے آپ کو تبدیل کرنے کے بجائے ان معاشروں کو اپنے عقائد اور معاشرت کے اعتبار سے تبدیل کرنے کی کوشش میں مصروف رہتے ہیں۔
(“Origin of Our National Mindset”)
Leave a Reply