
سینٹر فار دی اسٹڈی آف اسلام اینڈ ڈیموکریسی سے تیونس کے راہنما راشد غنوشی کا خطاب ہم آپ کی خدمت میں پیش کر رہے ہیں جس میں اُنہوں نے تیونس میں رونما ہوتی ہوئی سیاسی تبدیلیوں اور چیلنجوں کا ذکر کیا ہے۔
میں سینٹر فار دی اسٹڈی آف اسلام اینڈ ڈیموکریسی کا شکر گزار ہوں، جس نے مجھے امریکا کے نامور اسکالروں اور پالیسی سازوں کے ساتھ ساتھ دیگر ممالک سے آنے والے مندوبین سے مخاطب ہونے کا موقع فراہم کیا۔
تیونس میں جمہوریت کا متعارف ہونا صرف تیونس کے لیے نہیں بلکہ پورے خطے کے لیے انتہائی اہم ہے کیونکہ تیونس اس خطے کا پہلا جمہوری اسلامی ملک ہے۔ ہم تیونس میں اپنی ذمہ داری محسوس کرتے ہیں اور ہمیں اندازہ ہے کہ جمہوریت کو کامیابی سے ہمکنار رکھنے کے لیے ہمیں بہت کچھ کرنا ہے۔ تیونس میں جمہوریت کا جو تجربہ ہوا ہے، وہ برآمد کی جانے والی چیز نہیں مگر حقیقت یہ ہے کہ تیونس میں جمہوریت کی کامیابی پورے خطے کے لیے بہترین نمونے کا کردار ادا کرے گی۔
انتخابات سے قبل ہم نے اعلان کیا تھا کہ ہم اپنے سیکولر ساتھیوں کے ساتھ مل کر حکومت کریں گے تاکہ سیاسی نظام میں ہم آہنگی برقرار رہے۔ ہم اگر چاہتے تو غیر جانبدار ارکانِ پارلیمان سے مل کر بھی حکومت تشکیل دے سکتے تھے مگر ہم نے اس بات کو ترجیح دی کہ تمام سیاسی جماعتوں اور فریقوں سے مل کر کام کریں۔ جمہوریت کی طرف رواں ملک کے لیے صرف اکثریتی حکومت کافی نہیں بلکہ یہ پیغام جانا چاہیے کہ جمہوریت سب کے لیے ہے۔ اسی لیے لازم ہے کہ تمام فریقوں کو اعتماد میں لے کر کام کیا جائے تاکہ کسی کو بھی اپنے مفادات داؤ پر لگنے کا خوف نہ رہے۔ ہم اس بات کو سمجھتے ہیں کہ اعتدال پسند اسلام نواز عناصر اور اعتدال پسند سیکولر عناصر مل کر کام کرسکتے ہیں۔ سوال ملک کو مستحکم کرنے کا ہے تاکہ سیاسی نظام بہتر انداز سے چلتا رہے، اور کہیں کوئی بڑی الجھن رونما نہ ہو۔ ملک کو اتفاقِ رائے کی ضرورت ہے۔
ہم نے پوری کوشش کی ہے کہ نظریاتی سطح پر کوئی محاذ آرائی نہ ہو کیونکہ اس کے نتیجے میں ناکامی اور انتشار کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ ہم نے ناکامی اور انتشار ٹالنے کے لیے حکومت سازی اور آئین کی تشکیل سمیت تمام معاملات میں فریقین کو زیادہ سے زیادہ رعایتیں دینے پر رضامندی ظاہر کی ہے۔ کوشش صرف یہ ہے کہ ملک میں استحکام ہو۔
ہم چاہتے ہیں کہ تیونس کا سیاسی نظام پرامن بقائے باہمی کے اصول کی بنیاد پر کام کرتا رہے۔ اسی طور ہم آگے بڑھ سکتے ہیں، کچھ کرسکتے ہیں۔ کانگریس فار دی ری پبلک، اور ڈیمو کریٹک فورم فار ورک اینڈ لبرٹیز سمیت تمام سیاسی جماعتوں کے درمیان مکمل ہم آہنگی کی ضرورت ہے۔ ہمیں چند امور کے حوالے سے واضح ذہن رکھنا چاہیے۔
٭ سب سے پہلے ذہن میں یہ بات واضح ہونی چاہیے کہ اسلام اور جمہوریت میں کوئی تنازع نہیں۔ یہ دونوں ساتھ ساتھ چل سکتے ہیں۔ دنیا بھر میں پایا جانے والا یہ تصور سراسر بے بنیاد ہے کہ اسلام اور جمہوریت کے درمیان ٹھنی ہوئی ہے اور یہ کہ جمہوری کلچر اسلام نواز معاشرے میں نہیں چل سکتا۔ جمہوریت کا یہ مفہوم ہرگز نہیں کہ حکومت چلانے کی ذمہ داری صرف سیکولر عناصر کو سونپ دی جائے اور اسلام کی سربلندی کی بات کرنے والوں کو یا تو نظر انداز کردیا جائے یا پھر جیلوں میں بند کر دیا جائے۔ اور اس کا یہ مطلب بھی نہیں کہ اگر انتخابات میں سیکولر عناصر کامیاب نہیں ہوسکے تو انہیں نظر انداز کرکے آئین میں ایسی ترامیم کردی جائیں، جن سے ان کے اقتدار میں آنے کی راہ مزید ناہموار ہوتی ہو۔
٭ دوسری اہم بات یہ ہے کہ اگر اسلام نواز عناصر اقتدار میں آئے ہیں تو اس کا یہ مطلب ہرگز نہیں کہ ریاست اور معاشرے پر اس کا کنٹرول قائم ہوگیا اور یہ کہ انقلاب پر بھی اسی کا اجارہ ہوگیا۔ یہ سب کچھ تو استبداد کے نظام میں ہوتا ہے جبکہ کوئی طالع آزما تمام معاملات اپنے ہاتھ میں لینے کے بعد سب پر اپنی مرضی تھوپنے کی کوشش کرتا ہے۔ ریاست کا اصل فریضہ یہ نہیں ہے کہ وہ لوگوں پر کوئی خاص طرزِ زندگی مسلط کرے۔ ریاست کا اصل فریضہ تو اپنی حدود میں رہنے والے تمام افراد کو تحفظ اور اپنی مرضی کی زندگی بسر کرنے کے بھرپور مواقع فراہم کرنا ہے۔
٭ تیسری اہم بات یہ ہے کہ کئی عشروں تک اسلام نواز اور سیکولر عناصر کے درمیان کشیدگی اور رسّہ کشی رہی، جس کے نتیجے میں آمروں کو اپنی مرضی کا کھیل کھیلنے کی بھرپور آزادی ملتی رہی۔ اس دوران ریاست کی توانائی ضائع ہوتی رہی۔ ملک میں استحکام پیدا کرنے کے کئی مواقع ضائع ہوئے۔ اب وقت ہے کہ اسلام اور سیکولر ازم کے درمیان اختلافات دور کرنے پر توجہ دی جائے۔ یہی ایک صورت ہے ملک میں حقیقی استحکام پیدا کرنے اور معاملات کو بہتر انداز سے چلانے کی۔
اب آئیے آئین کی طرف۔
آئین اس اعتبار سے ایک اہم دستاویز ہے کہ یہ حکمرانوں کو چند اصولوں اور ضابطوں کے بندھن میں باندھ کے رکھتا ہے۔ اگر آئین نہ ہو تو حکومت کرنے والے بے قابو ہوجائیں اور اپنی مرضی کی راہ پر گامزن رہیں۔ ہم نے اولین اسلامی ریاست میں حکمرانی کا ایک ایسا تصور بھی دیکھا تھا، جسے بجا طور پر الشفاء قرار دیا گیا۔ اس نظام میں سب کی مرضی مقدم تھی اور مفادِ عامہ کو ہر شے پر اولیت دی گئی تھی۔ آئین وہ دستاویز ہے جس کے ذریعے کسی بھی معاشرے میں مختلف مذاہب، زبانوں اور ثقافتوں سے تعلق رکھنے والوں کو مل کر رہنے کے آداب سکھائے گئے۔ ساتھ ہی ساتھ حقوق اور ذمہ داریوں کے تعین کے لیے شہریت کے حقوق بھی دیے گئے۔ ہمیں اس بات کی خوشی ہے کہ تیونس میں نئے آئین کی تشکیل کے لیے قائم کی جانے والی کمیٹیوں نے اپنی سفارشات مرتب کرلی ہیں اور وہ چند ہی دنوں میں اپنی سفارشات منتخب اسمبلی کے سامنے پیش کریں گی تاکہ نئے آئین کی تشکیل کے حوالے سے پیش رفت ممکن بنائی جاسکے۔
نئے آئین کی تشکیل میں اس امر کا خیال رکھا جائے گا کہ اس میں صرف ان کی نمائندگی نہ ہو جنہیں جمہوری اعتبار سے عددی برتری حاصل ہے، بلکہ یہ تیونس میں بسنے والے تمام افراد کے حقوق کا علمبردار ہو، تاکہ وہ ملک کی تعمیر و ترقی میں اپنا کردار پوری ایمانداری سے ادا کرسکیں۔
ہم نے آئین کو ہر اعتبار سے جامع، بے داغ اور متوازن بنانے کے لیے تمام سیاسی جماعتوں اور سیاسی تنظیموں سے بھی مشاورت کی ہے تاکہ ان کی سفارشات کی روشنی میں خوب سے خوب تر کو یقینی بنایا جاسکے۔ اس عمل کا بنیادی مقصد آئین کے معاملے میں وسیع تر اتفاقِ رائے ممکن بنانا ہے تاکہ بعد میں کسی کو کسی بھی معاملے میں شکایت کا موقع نہ ملے۔ ہم نے سیاسی جماعتوں کے درمیان مکالمے کا اہتمام کیا تاکہ شریعت، جمہوریت، تسلیم شدہ بنیادی حقوق اور طرزِ حکومت کے بارے میں اتفاقِ رائے کی منزل تک پہنچا جاسکے اور ہمیں خوشی ہے کہ ہم اپنے مقصد میں بہت حد تک کامیاب رہے ہیں۔ ہم نے پانچ ہفتوں تک بھرپور مذاکرات کیے، مشاورت ہوئی، آرا پیش کی گئیں، ان پر تنقید ہوئی اور پھر آئین میں جہاں جہاں شریعت کا لفظ استعمال ہوا ہے یا حوالہ دیا گیا ہے، اس کے حوالے سے ہر طرح کی اشکال دور کرنے پر توجہ دی گئی۔ عوام نے پارلیمانی طرزِ حکومت کو ترجیح دی ہے۔ ہم نے ایک ایسا مخلوط نظام تشکیل دینے پر توجہ دی جس میں اختیارات صدر اور وزیراعظم کے درمیان بٹے ہوئے ہوں تاکہ معاملات توازن کے ساتھ چلتے رہیں۔ اسی صورت ملک کو حقیقی سیاسی استحکام کی منزل تک لے جایا جاسکتا ہے۔ ہمیں پارٹی کے اندر سے بھی تنقید کا سامنا کرنا پڑا۔ کچھ لوگوں نے یہ اعتراض کیا کہ ہماری پارٹی ہر معاملہ میں اصولوں پر کچھ زیادہ ہی سمجھوتہ کر رہی ہے۔ ہم نے ناراض ارکان کو سمجھایا کہ ہم چونکہ سب سے بڑی جماعت ہیں، اس لیے ہمیں آگے بڑھ کر کچھ ایسا کرنا ہے، جس سے ملک میں سیاسی استحکام پیدا ہو اور کسی کو حق تلفی کی شکایت بھی نہ ہو۔ بنیادی سوال صرف یہ ہے کہ ملک کو آگے کس طور لے جایا جاسکتا ہے۔
ہمیں پورا یقین ہے کہ ہم آئین کے ایک مسودے تک پہنچ گئے ہیں، جس میں اسلام کی حقانیت اور برتری تسلیم کرنے کے ساتھ ساتھ بنیادی حقوق اور جمہوریت سے متعلق نئے تصورات کو بھی اہمیت دی گئی ہے۔ اور اس متوازن طرزِ فکر کے ساتھ ہم آئین کو نافذ کرکے ملک میں حقیقی سیاسی، معاشرتی اور معاشی استحکام یقینی بنانے میں کامیاب ہوں گے۔ انیسویں صدی سے مصلحین اِسی کیفیت کا خواب دیکھتے آئے ہیں۔ ہمیں امید ہے کہ نئے آئین کے ذریعے ہم مصلحین کے خواب کو شرمندۂ تعبیر کرنے میں ضرور کامیاب ہوں گے۔ نئے آئین میں مساوات، بنیادی حقوق اور اختیارات کی متوازن تقسیم یقینی بنانے کی کوشش کی گئی ہے۔
ہمیں پورا یقین ہے کہ نئے آئین کے نفاذ کے بعد جب انتخابات ہوں گے تو ان میں لوگوں کو زیادہ شفافیت دکھائی دے گی اور اس کے نتیجے میں تشکیل پانے والی حکومت زیادہ مستحکم اور پائیدار ہوگی، جو ملک کی تعمیر و ترقی میں اپنا کردار زیادہ احسن طریقے سے ادا کرسکے گی۔ آئندہ انتخابات کی مانیٹرنگ کے لیے آنے والوں کو بخوبی اندازہ ہوجائے گا کہ ملک میں کس حد تک تبدیلی آچکی ہے، کس قدر سیاسی استحکام یقینی بنایا جاسکا ہے۔ ہمیں اس بات کا بھی یقین ہے کہ آئندہ عام انتخابات میں تمام سیاسی فریق حصہ لیں گے اور اپنی صلاحیت کے مطابق سیاسی نظام میں اپنا کردار ادا کرنے کی کوشش کریں گے۔ جمہوریت کا سفر جاری رکھنے کے لیے لازم ہے کہ انتخابات باقاعدگی سے ہوتے رہیں۔ انتخابات کے انعقاد ہی سے جمہوریت پھلتی پھولتی ہے کیونکہ لوگوں کو اپنی رائے دینے کا موقع ملتا ہے۔
ایسا نہیں ہے کہ سب کچھ درست ہوچکا ہے اور ہماری راہ میں اب کوئی دشواری نہیں رہی۔ ہمیں اب بھی بہت سے چیلنجوں کا سامنا ہے۔ معاشی مشکلات کم نہیں ہوئیں۔ برآمدات میں اضافہ بنیادی مسئلہ ہے۔ غیر ملکی سرمایہ کاری جس رفتار سے بڑھنی چاہیے تھی، اس رفتار سے نہیں بڑھ رہی۔ اس کے نتیجے میں مشکلات بڑھی ہیں۔ یورپ ہماری معیشت پر اثر انداز ہو رہا ہے۔ سیاحت کا شعبہ زیادہ متاثر ہوا ہے۔ حکومت کو بہت سی مشکلات کا سامنا ہے مگر اس کے باوجود ہم بیروزگاری کو ۱۸ سے ۱۶ فیصد تک لانے میں کامیاب ہوئے ہیں۔ سیاحت کا شعبہ متاثر ضرور ہوا ہے مگر اس کے باوجود ہماری کارکردگی مایوس کن نہیں رہی۔ گزشتہ سال ساٹھ لاکھ سے زائد سیاحوں نے تیونس کا رخ کیا۔
اس حقیقت سے انکار نہیں کیا جاسکتا کہ تیونس میں انقلاب برپا ہونے کے باوجود ہر علاقے کے لوگ بہتر حالات سے ہمکنار نہیں ہوئے۔ سیدی بوزید (Sidi Bouzid) اور کیسیرین (Kasserine) میں لوگ اب بھی اپنے حالات کی تبدیلی کے منتظر ہیں۔ وہ چاہتے ہیں کہ انقلاب کے ثمرات ان تک بھی پہنچیں اور ہم اس سلسلے میں بھرپور کوششیں کر رہے ہیں۔
معاشی امور سے ہٹ کر سلامتی کا مسئلہ بھی بہت اہم ہے۔ چند ایک علاقوں میں سکیورٹی کا معاملہ اب بھی شدید مشکلات سے عبارت ہے۔ انقلاب نے ریاست اور اس کی اتھارٹی کو کمزور کردیا ہے۔ اس سے چند گروہوں کو موقع ملا ہے کہ وہ آگے بڑھیں اور قانون کے دائرے سے نکلتے ہوئے طالع آزمائی کریں۔ بات مذہب والوں کی کیجیے یا ان کے مخالفین کی، دونوں طرف کے انتہا پسندوں نے قانون کی بالادستی کے تصور کو بالائے طاق رکھتے ہوئے ہر معاملے میں اپنی مرضی تھوپنے کی کوشش کی ہے۔ ہم ان گروہوں کو بتادینا چاہتے ہیں کہ جمہوریت کہیں سے بھی کمزور نہیں پڑی۔ قانون کی بالا دستی کو نظر انداز کرنے والوں کو اپنی روش بدلنی ہوگی۔ ہم ریاستی اختیارات کو بحال کرنے کی بھرپور کوشش کر رہے ہیں۔
سلفی مسئلے کے حوالے سے میں صرف اتنا کہوں گا کہ یہ سابق صدر زین العابدین بن علی کے دور کا تحفہ ہے۔ جن علاقوں میں سلفیوں کا زور ہے وہاں شدید پس ماندگی ہے۔ اگر معاشی ناہمواری دور کردی جائے اور لوگوں کو بہتر معیارِ زندگی بسر کرنے کے مواقع فراہم کیے جائیں تو بہت کچھ درست ہو جائے گا۔ سلفی مسئلہ خاصا پیچیدہ ہے، اس لیے اس کا حل بھی پیچیدہ اور کئی مراحل پر مشتمل ہوگا۔ سلفیوں میں جو تشدد پر مائل ہیں، ہم انہیں تشدد ترک کرنے کی تحریک دے رہے ہیں تاکہ انتہا پسندوں کو معاشرے میں الگ تھلگ رکھنا ممکن ہو۔ اس کے لیے مذاکرات لازم ہیں۔ انہیں قائل کرنا پڑے گا کہ اسلام کے بارے میں جو نظریہ وہ رکھتے ہیں، وہ غلط ہے۔ ساتھ ہی ساتھ انہیں اس امر پر بھی قائل کرنا پڑے گا کہ اگر انہیں برابری کی بنیاد پر تمام شہری حقوق چاہئیں تو قانون کی بالا دستی قبول کرنی پڑے گی۔
جو لوگ قانون کی بالا دستی تسلیم نہیں کرتے اور تشدد کے ذریعے اپنے نظریات دوسروں پر تھوپنا چاہتے ہیں، ان سے سختی سے نمٹا جائے گا۔ انہیں راہِ راست پر لانے کا یہی ایک کارگر طریقہ ہے۔ گزشتہ برس ایسے سیکڑوں افراد کو جیلوں میں بند کیا گیا، جو قانون کی بالا دستی پر یقین نہیں رکھتے اور کچھ لوگ مقابلوں میں مارے گئے۔ سلامتی کے معاملے کو طے کرنے میں بنیادی حقوق اور قانون کی بالا دستی کا احترام لازم ہے۔ سب کچھ داؤ پر لگاکر اگر تحفظ یقینی بنا بھی لیا جائے تو اس سے کیا فرق پڑتا ہے۔
ہم جانتے ہیں کہ تیونس کا تجربہ کامیاب رہا تو خطے میں بہت سے ممالک کی تقدیر بدلے گی اور وہ بہتر حالات کی طرف بڑھیں گے۔ ہم اس حوالے سے اپنی ذمہ داری خوب سمجھتے ہیں۔ ہم پورے یقین سے یہ بات کہہ رہے ہیں کہ اسلامی یا سیکولر اعتبار سے تیونس خزاں کے دور میں داخل نہیں ہوگا بلکہ جمہوریت کے عہدِ بہاراں میں داخل ہوگا جس کے نتیجے میں ہر طرف استحکام ہوگا۔
(“Visions for a New Tunisia: How Islam & Democracy can Support each other”… “ikhwanweb.com”. June 11, 2013)
Leave a Reply