
کراچی کی آبادی پندرہ سے بیس ملین (ڈیڑھ سے دو کروڑ) بیان کی جاتی ہے، جو بلوچستان اور آزاد کشمیر کی مشترکہ آبادی سے زائد اور صوبہ خیبر پختونخوا سے کچھ ہی کم ہے۔ یورپ کے اکثر ممالک کی آبادی سے زیادہ لوگوں کو سمائے ہوئے ہونے کے باوجود یہ شہر مملکتِ پاکستان میں اپنی حیثیت سے بہت کم اہمیت رکھتا ہے۔ ملک بھر کی اور خصوصاً سیاسی بساط کے بڑی کھلاڑیوں کی توجہ اِسے اُس وقت ملتی ہے، جب روزانہ درجنوں کے حساب سے لاشیں گرنے لگیں۔ لاشوں کی سینچری کبھی پانچ دنوں میں پوری ہوتی ہے، کبھی چار اور کبھی دو تین ہی دنوں میں۔ تب ملک کے حکمراں کراچی کو اِس لائق سمجھتے ہیں کہ اسے گفتگو کا موضوع بنائیں یا کراچی یاترا فرمائیں۔ اپوزیشن کی سب سے بڑی پارٹی کے سربراہ تو گزشتہ تین برسوں میں تین بار بھی کراچی تشریف نہیں لائے۔ وزیراعظم کا دورۂ کراچی اُس سے بھی کم ہوتا ہے جتنا صدر زرداری دبئی اور لندن کے دورے کر لیتے ہیں۔ سیاست کے بڑی کھلاڑیوں کے سیاسی کینوس پر کراچی کسی اہمیت کا حامل ہی نہیں یا وہ اسے بدستور کسی کو ’’ٹھیکے‘‘ پر دیے رہنے کے قائل ہیں۔
۱۹۴۷ء تک جنوبی ایشیا کے تیسرے چوتھے درجے کے شہروں میں شامل رہنے والا کراچی، برصغیر کے مسلمانوں کی عظیم الشان جدوجہد کے بعد حاصل ہونے والے نئے ملک کا دارالحکومت بنا تو تین لاکھ کی آبادی کا یہ شہر ساری دنیا کی نظروں میں آگیا۔ مسلمانوں کے (۱۹۷۱ء تک) سب سے بڑے آزاد ملک کا دارالحکومت ہونے کے سبب کراچی برصغیر جنوبی ایشیا ہی کا نہیں، ساری مسلم دنیا کی توجہ کا مرکز بن گیا۔ ہندوستان کے مسلم اقلیتی صوبوں کے مسلمانوں نے مسلم کُش فسادات، کانگریس کی مسلم بیزار پالیسیوں اور مستقبل کے خدشات و خطرات کے علاوہ، نئے ملک میں دستیاب امکانات کے پیشِ نظر بھی لاکھوں کی تعداد میں پاکستان ہجرت کی۔ تقریباً آٹھ ملین انسان موجودہ بھارت سے نکل کر موجودہ پاکستان میں آبسے۔ مہاجرین کی نصف تعداد پاکستانی پنجاب میں آباد ہوئی۔ ان میں سے بیشتر پنجابی بولنے والے تھے۔ مگر اردو بولنے والے بھی خاصی بڑی تعداد میں پنجاب کے شہروں میں جابسے۔ جبکہ مہاجروں کی بقیہ نصف تعداد سندھ میں آباد ہوئی اور ان میں سے بھی اکثر کراچی و حیدرآباد اور سندھ کے جنوبی شہروں میں۔ ان مہاجروں کی نوے فیصد تعداد اردو، گجراتی اور میمنی بولنے والی تھی۔
پاکستان میں نئے آباد ہونے والے مہاجروں میں سے جو لوگ سندھ میں آباد ہوئے وہ بوجوہ مقامی آبادی میں ضم نہ ہو سکے۔ ہجرت کے بعد کی ساتویں دہائی میں بھی وہ ’’مہاجر‘‘ ہی سمجھے اور سمجھائے جاتے ہیں۔ لیکن ان ’’مہاجروں‘‘ کی آبادی سندھ کی مجموعی آبادی کے پینتیس چالیس فیصد کے قریب ہے۔ اگر سندھ کے پرانے پنجابی آبادکاروں اور بعد میں آنے والے پختونوں کو ملا لیا جائے تو یہ تعداد سندھی و بلوچی آبادی کے قریب پہنچ جاتی ہے۔ سندھی قوم پرست اس تناسب کا انکار کرتے ہیں۔ مگر وہ بھی اِسے چالیس فیصد سے کم نہیں کہہ سکتے۔
سندھ اور خصوصاً کراچی کے پیچیدہ، تہ در تہ اور ہمہ پہلو بحران کا جائزہ چند صفحات میں ممکن نہیں۔ فی الوقت کراچی کے ابلتے لاوے کے پس منظر، پیش منظر اور مستقبل کے ممکنہ نقشے پر چند اشارے کیے اور چند نکات دیے جارہے ہیں۔ کراچی سے باہر اور دور رہنے والے قارئین ان کی مدد سے حالات کی سنگینی، گہرائی اور گیرائی کا اندازہ کر سکیں گے۔
’’کراچی بحران‘‘ کا ایک ظاہر ہے اور ایک باطن۔ کچھ امور نمایاں ہو کر سامنے آئے ہوئے ہیں اور کچھ معاملات تہ میں موجود، لیکن فعال ہیں۔ جس طرح آتش فشاں سے نکلنے والا مواد (دھواں، گیس، گرمی، دھماکے، پتھر، لاوا وغیرہ) تو سب کو دکھائی دیتا ہے، مگر آتش فشاں کے اندر کی صورتحال، آتش فشانی کے اسباب اور اس کی حرکیات پر عموماً نظر نہیں ہوتی۔ یہی معاملہ کراچی کا ہے۔ اس کی آتش فشانی سے ہونے والے نقصانات پر ہاہاکار مچی ہوئی ہے۔ میاں نواز شریف جیسا کوہِ سکوت بھی دو ہفتے کے لیے سعودی عرب جانے سے پہلے اس معاملہ پر زبان کھولنے پر مجبور ہو گیا۔ خود وزیرِ اعظم پاکستان سید یوسف رضا گیلانی کو اپنے اہم شب و روز میں سے ایک سالم روز و شب کراچی آنے کے لیے قربان کرنا پڑا۔ آخر کراچی میں ہو کیا رہا ہے کہ سارے کالم نویس، تجزیہ نگار، اینکر پرسنز اور سیاست کار بھی واویلہ کرنے لگے ہیں؟ آئیے، کراچی کا مسئلہ سمجھنے کی کوشش کرتے ہیں:
۱۔ کراچی شہر کی آبادی ’’مہاجروں‘‘ کے آ بسنے کی وجہ سے اسّی فیصد مہاجروں پر مشتمل ہو گئی تھی۔ لیکن مہاجروں کی سیاسی حمایت (ایم کیو ایم سے قبل) کسی واحد سیاسی پارٹی کی جھولی میں کبھی نہیں گری۔ تاہم جماعت اسلامی اور اس کے بعد جمعیت علمائے پاکستان (JUP) کو مہاجروں کی سب سے زیادہ حمایت میسر تھی۔ یہ دونوں جماعتیں کراچی میں مہاجر چہرہ، مہاجر شناخت اور مہاجر سماجی کلچر کی حامل رہی ہیں اور اب بھی ہیں۔ ان دونوں جماعتوں کے علاوہ مسلم لیگ، پیپلز پارٹی اور بعض دوسری بہت چھوٹی سیاسی جماعتیں بھی چند فیصد مہاجر سپورٹ رکھتی تھیں۔
۲۔ بیسویں صدی کی اسّی کی دہائی میں دو اہم واقعات نے کراچی کی کایا کلپ میں عمل انگیز کا کردار ادا کیا۔ فقہ جعفریہ کے پیروکاروں نے حدود اور زکوٰۃ کے نظام کے پاکستان میں نفاذ کی مخالفت کی اور تحریک چلائی۔ کراچی کے ایم اے جناح روڈ سے اسلام آباد کے مرکزی حکومتی سیکرٹریٹ تک بڑے بڑے دھرنے دیے گئے۔ یہاں تک کہ اُس وقت کی حکومت کو نظامِ زکوٰۃ میں ترامیم کرنا پڑیں۔ اِس تحریک اور ان دھرنوں میں ایک پڑوسی ملک کی فعال شمولیت نہ صرف موجود، بلکہ عیاں اور عریاں تھی۔ وہاں کی انقلابی لہریں پاکستان کی شیعہ آبادی کو لپیٹ میں لے چکی تھیں۔ اس کے ردِعمل میں ملک بھر میں سپاہِ صحابہ جیسی تنظیمیں کھڑی ہوگئیں یا کی گئیں اور کراچی میں سوادِ اعظم اہلِ سنت کا ظہور ہوا۔ اسّی کی دہائی کے ابتدائی عرصے میں شیعہ سنّی تنازعہ اتنا بڑھا کہ کراچی میں فرقہ وارانہ فسادات پھوٹ پڑے۔ متعدد امام بارگاہیں نذرِ آتش ہوئیں۔ شیعہ مسلک کے حکمت کاروں نے شیعہ سنّی تقسیم کے بجائے معاشرے کی کسی اور تقسیم میں اپنی سلامتی دیکھی۔ وہ اس کے لیے برسرِ کار بھی آگئے۔ ایم کیو ایم کے بنتے ہی شیعہ آبادی تقریباً صد فیصد اس کے ساتھ ہو گئی۔ خود ایم کیو ایم کے قائد کے اوّلین اساتذۂ سیاست و خطابت غالی شیعہ تھے۔
دوسرا اہم واقعہ سندھ میں بحالی جمہوریت کی تحریک کا (جو MRD کے نام سے معروف ہے) پُرتشدد راستے پر چل پڑنا تھا۔ سندھ میں ریلوے لائنیں اکھاڑی گئیں، سرکاری املاک کو لوٹا گیا اور پاکستان کے روایتی حمایتی لسانی گروہوں اور جماعتوں کو تشدد کا نشانہ بنایا گیا۔ واضح رہے کہ اُس وقت جنرل محمد ضیاء الحق کا مارشل لاء نافذ تھا۔
۳۔ ملک کی نادیدہ ہیئتِ مقتدرہ (Invisible Establishment) دونوں واقعات سے دہل کر رہ گئی۔ اُس نے صورتحال کو بدلنے کے لیے اور خوفناک امکانات اور مستقبل کے خطرات سے نمٹنے کے لیے کچھ فرقہ وارانہ اور کچھ لسانی منصوبہ بندی کی۔ فرقہ وارانہ بنیادوں پر نئے چہرے اور نئے پلیٹ فارم سامنے آنے لگے۔ اُن ہی میں سے ایک ’’سوادِاعظم اہلِ سنت‘‘ کا پلیٹ فارم تھا۔ یہ مکمل طور پر دیوبندی مکتبِ فکر پر مشتمل تھا۔ ۱۹۸۵ء کے غیرجماعتی عام انتخابات میں اس نے کراچی بھر سے اپنے امیدوار کھڑے کیے یا کسی نہ کسی کی حمایت کی۔ اہم بات یہ ہے کہ کسی بھی حلقہ میں اس نے جماعت اسلامی کے امیدوار کی حمایت نہیں کی، بلکہ جماعت کے امیدواروں کو ہرانے کے لیے ہر ممکن کام کیا۔ (اس الیکشن میں جمعیت علمائے پاکستان نے حصہ نہیں لیا تھا)۔ کچھ دیدہ اور کچھ نادیدہ دست کاریوں کا حاصل عملاً یہ ہوا کہ قومی اسمبلی کے لیے کراچی سے جماعت اسلامی کے صرف دو امیدوار جیت سکے۔ اس کے نامی گرامی اصحاب کو شکست ہوئی۔ جمعیت علمائے پاکستان (نورانی) بھی بائیکاٹ کے سبب اسمبلیوں سے باہر رہی۔ کراچی اور حیدرآباد میں نئے سیاسی چہرے، اپنے لیے کسی مضبوط عوامی بنیاد اور مستحکم سیاسی پلیٹ فارم کے بغیر الیکشن جیت کر اسمبلیوں میں آبیٹھے۔ یہ لوگ نئی سول گورنمنٹ کا حصہ بھی بنے۔ جماعت اپوزیشن میں رہی۔ جنرل ضیاء کی مرکزی اور جسٹس غوث علی شاہ کی صوبائی حکومتوں نے جماعت اسلامی کا اپوزیشن کا کردار پسند نہیں کیا۔ اُس سے جان چھڑانے اور اسے سبق سکھانے کے لیے حکمتِ عملی بنی اور رو بہ عمل لائی گئی۔
۴۔ سندھ میں کسی ’’سندھی قوم پرستانہ تحریک‘‘ کا مداوا کرنے کے لیے نادیدہ ہیئتِ مقتدرہ نے مہاجروں اور پنجابی آبادکاروں کی تنظیمیں کھڑی کرنے کی کوششیں کیں۔ پنجابی اسٹوڈنٹس ایسوسی ایشن کی فعالیت اور مہاجر قومی موومنٹ کا ظہور اسی حکمتِ عملی کا نتیجہ تھا۔ PSA تو پھل پھول نہ سکی۔ مگر MQM نے خوب ترقی کی۔ کراچی اور حیدرآباد کے مربوط، منظم اور منصوبہ بند لسانی فسادات میں بہنے والا ہر قطرۂ خون اس کے لیے توانائی کا انجکشن بنتا رہا۔ جوں جوں ایم کیو ایم توانا ہوتی گئی، مہاجروں کی روایتی سیاسی جماعتیں (جماعت اسلامی اور جے یو پی) عوامی حمایت اور سیاسی اثراندازی سے محروم ہوتی چلی گئیں۔ جے یو پی کے وابستگان تو ( مسلکاً بریلوی رہتے ہوئے بھی) سیاسی طور پر تقریباً پورے کے پورے ہی ایم کیو ایم کا حصہ بن گئے۔ جبکہ جماعت اسلامی اپنے فکری و نظریاتی کام کی وجہ سے اپنی تنظیم، کارکنوں اور باقاعدہ متفقین کو محفوظ رکھنے میں کامیاب رہی۔ مگر عوامی حمایت برقرار نہ رکھ سکی۔
۵۔ سندھ میں علیحدگی کی سوچ اور قوم پرستی کا زور توڑنے کے لیے ملک کی نادیدہ ہیئتِ مقتدرہ نے خود قوم پرستوں پر بھرپور کام کیا اور ان سے بھرپور کام لیا۔ جی ایم سید کو بعض حوالوں سے رام کیا گیا۔ ذاتی سطح پر انہیں اہمیت دی گئی اور نوازا بھی گیا۔ لیکن انہی جی ایم سید نے ایک اور چال چلی جس نے سندھ کی آبادیوں کی نئی صف بندی میں جوہری فرق ڈال دیا۔ انہوں نے ایم کیو ایم پر ہاتھ رکھا، اس کے قائد کو اپنے قصبے سَن بلایا اور نئی ابھرتی مہاجر قیادت کو پنجابیوں اور پختونوں کے خلاف تحریک چلانے اور کارنر کرنے پر آمادہ کر لیا۔ جی ایم سید کی سوچ اور حکمتِ عملی یہ تھی کہ چونکہ سندھی دیگر قومیتوں کی مشترکہ قوت سے تنہا نہیں نمٹ سکتے۔ لہٰذا پہلے انہیں آپس میں دست بگریباں کیا جائے پھر باری باری نمٹا جائے یا نمٹایا جائے۔ ان کی حکمتِ عملی ایم کیو ایم کی مدد سے کامیاب رہی اور سندھ کی پرانی سماجی صف بندی تبدیل ہو گئی۔
۶۔ جی ایم سید کی مذکورہ بالا حکمتِ عملی اور ایم کیو ایم کی کوتاہ نظری کا حاصل یہ ہوا کہ ۱۹۸۵ء تک سندھ میں آباد لوگوں کی جو صف بندی سندھی اور غیر سندھی (مہاجر، پنجابی، پختون) کی بنیاد پر تھی، وہ چند برسوں میں مہاجر اور غیرمہاجر (سندھی، بلوچ، پختون، پنجابی) کی تقسیم بن گئی۔ یعنی مہاجر اکیلے رہ گئے اور دیگر لسانی آبادیاں ان سے شاکی، ناراض اور بڑی حد تک خوف زدہ کر دی گئیں۔ آج جو کچھ کراچی میں ہو رہا ہے، اس میں اس نئی سماجی و لسانی صف بندی کا بنیادی کردار ہے۔
۷۔ ’’مہاجر قومی موومنٹ‘‘ (بعدہٗ متحدہ قومی موومنٹ) سندھ کے مہاجروں میں اُس شان و شوکت، زور و قوت، عوامی تائید و حمایت اور ہیبت و دہشت کے ساتھ ابھری کہ اس کی مثالیں کم ہی ملیں گی۔ پاکستان کی تاریخ سے اس کی صرف دو مثالیں دی جاسکتی ہیں۔ مشرقی پاکستان میں ’’عوامی لیگ‘‘ کی اور سندھی اور سندھی بلوچی آبادیوں میں ’’پیپلز پارٹی‘‘ کی۔ بیسویں صدی کی دو خالص یورپی تحریکوں (جرمنی کی نازی پارٹی اور اٹلی کی فاشی پارٹی) کے مماثل، ان کی خوشہ چینی سے تنظیم بندی کرنے اور انہی کے رنگ ڈھنگ اختیار کر لینے والی ایم کیو ایم کو کراچی شہر پر وہ غلبہ و تسلط حاصل ہوا کہ جس کا ردِعمل (بلکہ سلسلۂ عمل و ردِعمل) آج کراچی کو لہولہان کیے ہوئے ہے۔ پاکستان میں کسی پارٹی نے آج تک ریاست، اس کے اداروں اور ریاستی وسائل کو اُس طرح نہیں برتا اور نہیں استعمال کیا جس طرح ایم کیو ایم نے کیا ہے، بالکل ایک الگ ریاست بن کر۔ گویا ریاست کے اندر ریاست ہے۔ جو ادارے ریاستی سطح پر ہوتے ہیں، تقریباً وہ تمام ادارے ایم کیو ایم نے اپنی سطح پر تشکیل دے رکھے ہیں اور حسبِ موقع و ضرورت انہیں بروئے کار بھی لاتی ہے۔ یہاں تک کہ ملک کی مسلح افواج کی طرح ان کی بھی عسکری ہیئتِ مقتدرہ ہے، جس کے کور اور ڈویژنز ہیں۔ پارٹی کا یہ عسکری بازو عام حالات میں نظروں سے اوجھل (اپنی ’’چھائونیوں‘‘ میں) ہوتا ہے۔ طلبی پر آتا ہے، اسائنمنٹ پورے کرتا ہے اور پھر روپوش ہو جاتا ہے۔ اسی طرح ’’ریونیو‘‘ کا پورا سسٹم ہے۔ جزا اور سزا کا اپنا نظام ہے۔ وفاداریوں کا اپنا محور، اپنے اصول، اپنے پیمانے اور اپنے معیارات ہیں، جن سے آزادی یا غفلت کے بھیانک نتائج نکلتے ہیں۔
۸۔ بدقسمتی یہ رہی کہ کراچی کو کسی نے اپنا شہر نہیں سمجھا، بلکہ اس کو وہ اہمیت ہی نہیں دی جس کا یہ بہت بڑا، کلیدی اور اہم شہر مستحق تھا۔ ہم اوپر بتا آئے ہیں کہ اس شہر کے لیے نہ وفاقی حکمرانوں کے پاس وقت ہے، نہ اپوزیشن کی سب سے بڑی قیادت کے پاس اور نہ صوبائی حکومت کے اُس حصے کے پاس جو بیرونِ کراچی سے پورے سندھ کے نمائندوں کے طور پر آتا ہے۔ وزیراعلیٰ اور کراچی کے باہر کے مرکزی و صوبائی وزراء اس شہر سے کوئی حقیقی رشتہ نہیں رکھتے، سوائے اس کے کہ وہ اپنے دولت کدے اس شہر میں بھی رکھتے ہیں اور یہاں کے تاجروں اور صنعتکاروں سے جینے اور کاروبار کرنے کا خراج وصول کرنا اپنا حق سمجھتے ہیں۔ اسی طرح ملک کے دیگر علاقوں سے آنے والے لوگ کراچی کو زیادہ سے زیادہ ایک ’’دبئی‘‘ سمجھتے ہیں، ایسا دبئی جہاں کی معاش اور مال سے تو پورا استفادہ کرنا ہے، مگر جسے اپنا گھر سمجھ کر بنانے سنوارنے کا کوئی فریضہ ادانہیں کرنا اور نہ اس کے سماجی و انتظامی ضابطوں کی پاسداری کرنی ہے۔
۹۔ کراچی کثیراللسانی شہر تو ساٹھ سال سے ہے۔ مگر اب آبادی کا تناسب تیزی سے تبدیل ہو رہا ہے۔ اگر پہلے یہاں ’’مہاجروں‘‘ کا تناسب اسّی فیصد تھا تو اب یہ پچاس فیصد سے کچھ ہی زیادہ ہو گا۔ اب اس شہر کی دوسری بڑی آبادی پختونوں پر مشتمل ہے۔ تیسری بڑی آبادی پنجابی اور سرائیکی بولنے والوں کی ہے۔ چوتھے نمبر پر سندھی اور پھر بلوچ آتے ہیں۔ اس کے بعد بنگالی اور برمی ہیں۔
آنے والے برسوں میں شہر میں ’’مہاجروں‘‘ کا تناسب گھٹتا چلا جائے گا۔ ملک بھر سے پختون، پنجابی، سندھی آتے رہیں گے، مگر اب بھارت سے ’’مہاجرین‘‘ کے آنے کے دروازے بند ہیں۔ یوں وقت کی رفتار ’’مہاجروں‘‘ کے خلاف ہے۔ یہ بات شاید ایم کیو ایم نہیں سمجھتی۔ اسی لیے وہ تمام نہ سہی، کسی ایک لسانی گروہ سے بھی دیرپا، بلکہ مستقل حلیفانہ تعلق کی سوچ سے عاری ہے۔ اس کے برعکس تمام لسانی گروہوں کو اینٹی مہاجر بنا کر کراچی اور سندھ بھر کے ’’مہاجروں‘‘ کو ایسی پوزیشن میں کھڑا کر دیا گیا ہے کہ ان کے خیال میں ان کے لیے واحد آپشن ایم کیو ایم کی کوٹھری میں بند ہو جانا ہی رہ گیا ہے۔ کیونکہ اس بند گھر کے باہر سب لوگ اور سب کچھ ان کے خلاف ہے۔ کروڑ سے اوپر آبادی کے حامل کسی گروہ کی یہ اجتماعی سوچ اور سماجی طرزِ عمل (Mind Set & Social Behaviour) تقریباً خودکشی کی مانند ہے۔ لسانی فسادات اور خصوصاً اے این پی اور پیپلز پارٹی کی مافیائوں کے دبائو نے ’’مہاجروں‘‘ کے لیے شہر کی نئی مضافاتی بستیوں میں رہنے کے امکانات محدود کر دیے ہیں۔’’مہاجر‘‘ اب وسطِ شہر کی طرف واپس آنے پر مجبور ہوتے جارہے ہیں۔ اگلے برسوں میں کراچی شہر کا بیرونی دائرہ ’’مہاجروں‘‘ کے لیے رہنے کے قابل شاید ہی رہے۔ ایم کیو ایم انہیں ایک مٹھی کی طرح بند کرتی چلی جارہی ہے۔ وہ ایسی پالیسی اور حکمتِ عملی بنانے اور لے کر چلنے کے قابل ہی نہیں جو دور رس طور پر ’’مہاجروں‘‘ کے لیے تحفظ اور سلامتی کو یقینی بنا سکے۔ کاش کہ مہاجر قیادت اگلے پچیس پچاس برس سامنے رکھ کر سوچے کہ اُس کے ووٹروں یعنی ’’مہاجروں‘‘ کا مستقبل کس طرح محفوظ و مامون بنایا جاسکتا ہے اور طویل المیعاد مستقبل کے کیا تقاضے ہیں؟ بین اللسانی ہم آہنگی، تعاون اور کراچی کا امن و سکون اور ہموار تعمیر و ارتقا؟ یا موجودہ کیفیات اور حالات؟
۱۰۔ دنیا بھر میں کثیرالنوع سماجی گروہوں پر مبنی شہر اکثر لاقانونیت کے خطرے سے دوچار رہتے ہیں۔ مگر ایم کیو ایم نے گزشتہ ربع صدی میں منظم لاقانونیت کو جو فروغ دیا، اس فضا میں اب متعدد خوفناک مافیائوں کی کراچی میں بہار آگئی ہے۔ لسانی اور فرقہ وارانہ مافیائوں نے شہر کو بری طرح تقسیم، بے امان اور لہولہان کر رکھا ہے۔ ایم کیو ایم کے ’’رول ماڈل‘‘ پر عوامی نیشنل پارٹی، پیپلز پارٹی اور بریلوی مکتبِ فکر سے تعلق رکھنے والی مافیائوں نے باقاعدہ شہری علاقے تقسیم کر لیے ہیں۔ چھوٹی اور بے نام و نسب مافیائیں ان کے علاوہ ہیں۔ لیکن یہ ’’نام و نسب‘‘ والی چار مافیائیں سب سے بڑھ کر ہیں، جو باری باری دست بگریباں رہتی ہیں۔ بلکہ سچی بات یہ ہے کہ ایم کیو ایم اور بقیہ سبھوں میں جھگڑا رہتا ہے۔ ایک طرف ایم کیو ایم ہوتی ہے اور دوسری طرف کوئی اور۔ زمینوں پر قبضہ، بھتہ وصولی، آبادیوں پر کنٹرول، یہاں تک کہ بجلی کے نظام کی نگرانی پر بھی ان کے درمیان تصادم معمول بن گیا ہے۔ کسی ایک کے زیرِ کنٹرول محلے اور علاقے میں رہنے اور کاروبار کرنے کا ’’ٹیکس‘‘ (مختلف ناموں سے) دیے بغیر نہ رہنا ممکن ہے اور نہ کاروبار کرنا۔ بعض علاقوں میں تو بیک وقت دو تین مافیائوں کو یہ ’’ٹیکس‘‘ دینا پڑتا ہے۔
۱۱۔ یہ بھی عجوبہ ہے کہ پیپلز پارٹی، ایم کیو ایم اور اے این پی اپنی اپنی مافیائوں کی سرپرستی اور دوسرے کی بیخ کنی پر تُلی ہوئی ہونے کے باوجود، حکومتی گھاٹ پر یکجا ہیں اور سرکاری وسائل کی کنگا سے یکجا اَشنان کرنے میں کوئی عار محسوس نہیں کرتیں۔ لیکن صورتحال کا الم ناک پہلو یہ ہے کہ جب تینوں حکومتی پارٹیاں قانون شکنی، مافیا پروری اور سرکاری ہی نہیں، شہریوں کے نجی وسائل کی لوٹ مار میں جُتی ہوئی ہیں تو پھر شہر کا معمول کا نظامِ کار درہم برہم ہوئے بغیر نہیں رہ سکتا۔ پولیس تھانوں میں پناہ گیر ہے یا پھر عام آدمی کو روک کر، چالان کرنے اور جیب ٹٹولنے پر مامور ہے۔ رینجرز کی ناک کے نیچے بھتہ خوری، قبضہ گیری، اغوا، ڈاکے، قتل وغیرہ کا بازار خوب گرم ہے۔ ریاستی رِٹ ختم اور حکومتی نظم و نسق مفلوج ہو چکا ہے۔ اِسی کیفیت کو Total Administrative Failure and Law & Order Break Down کہا جاتا ہے۔ سنگین جرائم کرنے والا، خوفِ خدا سے تو عاری ہوتا ہی ہے، اسے قانون کا، قانون نافذ کرنے والی مشینری کا، عدالتوں کا، کسی احتساب و گرفت اور سزا کا بھی کوئی خوف نہیں۔ اگر پکڑا بھی گیا تو کوئی نہ کوئی پارٹی اس کو اپنا کارکن قرار دے کر رہا کرا لے گی۔ یوں گویا کراچی ایک ایسا جنگل بنتا جارہا ہے جس کے ہر باسی کو اپنے تحفظ اور سلامتی کا خود ہی انتظام کرنا ہو گا۔ ورنہ وہ بے امان رہے گا۔
۱۲۔ کوئی اگر یہ سمجھتا ہے کہ کراچی والوں کو گناہوں کی سزا مل رہی ہے۔ کیونکہ ان کے گناہ ملک بھر کے لوگوں کے مقابلے میں زیادہ ہیں اور سب سے بڑے پاپی کراچی والے ہیں، تو یہ خلافِ واقعہ ہے اور اہلِ کراچی کے ساتھ زیادتی بھی۔ ملک بھر میں سب سے زیادہ دین کو سمجھنے، سمجھ کر اس پر چلنے، راہِ خدا میں مال خرچ کرنے، نمازیں پڑھنے، خانۂ خدا کو آباد کرنے والوں اور غریب پرور لوگوں کا شہر ہے۔ سارے ملک کے مدارس کراچی والوں کے عطیات سے چلتے ہیں۔ مسجدوں کی تعمیر سے لے کر رفاہِ عامہ کے عام کاموں میں مالی معاونت تک، یہ شہر انفاق و ایثار کا قابلِ رشک کلچر رکھتا ہے۔ ان خوبیوں کے باوجود، اسلام کے معاملے میں حساس اور جذباتی اہلِ کراچی کی، مگر ہاں، ایک بہت بڑی غلطی ہے کہ وہ ربع صدی سے ظالموں کے ووٹر بنے ہوئے ہیں۔ ہو سکتا ہے کہ خداوند تعالیٰ کی طرف سے انہیں اس غلطی پر تنبیہ کی جارہی ہو۔ مگر یہ پاپپیوں کا شہر بہرحال نہیں۔ اہلِ کراچی کی درجِ بالا نیکیاں ہی بالآخر اﷲ کی رحمت کو مائل کرنے کا سبب بنیں گی۔ کیا عجب کہ مافیائوں کی طول پکڑتی یہ جنگ، بالآخر ان سب کو کمزور کر دے اور انہیں اہلِ کراچی میں سے ہر گروہ کی نظر سے گرا دے اور دل سے نکال دے۔ کراچی کے عوام ایک بار پھر ملّی و قومی احساسات سے معمور، تعمیرِ جہاں کا عزم اور صالح معاشرے کے قیام کا ایجنڈا رکھنے والوں اور تمام انسانوں سے محبت کرنے اور سب کا درد رکھنے والوں کی پُشت پر کھڑا کر دے۔ یوں اصلاحِ احوال کا راستہ کُھل جائے۔
۱۳۔ کراچی کے حوالے سے ایک اور حقیقت یہ ہے کہ اس کے باسیوں میں سے جو ’’مہاجر‘‘ ہیں، ان کا کوئی اور ’’وطن‘‘ کوئی اور گائوں یا ضلع نہیں۔ جو کچھ ہے کراچی ہی ہے، کراچی ہی میں ہے۔ جبکہ دیگر سارے لسانی اور سماجی گروہوں کے دیگر شہر، قصبے، گائوں، ضلعے، وطن وغیرہ موجود ہیں۔ دوسری تلخ حقیقت یہ ہے کہ آزادی کے بعد یہ ساتواں عشرہ ہے۔ مگر ’’مہاجر‘‘ بوجوہ ’’مہاجر‘‘ ہی ہیں۔ وہ سندھی نہ بن سکے اور سندھ کے پرانے باشندے انہیں سندھی نہ سمجھ سکے۔ مرکزی اقتدار میں سندھی وزیراعظم یا سندھی صدر اور صوبے کی سطح پر بھرپور صوبائی حکومتی ڈھانچا ’’سندھی‘‘ ہوتا ہے تو اہلِ کراچی (اپنی صلاحیتوں، قابلیتوں اور صوبائی دارالحکومت کا باشندہ ہونے کے باوجود) اقتدار کے کھیل سے خود کو باہر سمجھتے ہیں۔ ایم کیو ایم نے اس کھیل میں کبھی جو گی اور کبھی بلیک میلر بن کر حصہ لیا تو اس کا یہ عمل مہاجر احساسِ محرومیٔ اقتدار کی تلخی میں دارُو ثابت ہوا۔ اسی کیفیت کی ایکسپلائیشن پر ایم کیو ایم کا بت کھڑا ہے اور برسوں کھڑا رہے گا۔ اہلِ کراچی کو اگر اختیار و اقتدار سے محرومی کی تلخی سے حقیقی طور پر نکالا جاسکے تو یہ بت رفتہ رفتہ پگھل جائے گا۔ اس کے لیے کراچی میں ایک بااختیار اور باوقار شہری حکومتی نظام ضروری بھی ہے اور مفید بھی ہے۔ مگر سندھ کا روایتی ذہن اس کو ماننے کے لیے تیار نہیں۔ یہاں کی نئی پختون قیادت (اے این پی) بھی اس پر راضی نہیں۔ بلوچستان میں دبائو کا شکار جنگجو بلوچ عنصر بھی کراچی کی رزم گاہ میں داخل ہو چکا ہے۔ وہ بھی ایسی کسی دور رس تعمیری اسکیم میں مددگار نہ ہو گا۔ نتیجہ؟ ظاہر و باہر ہے کہ کراچی بدستور سلگتا اور ابلتا رہے گا۔ اس کا علم و دانش برباد اور معزز و معتبر مقام پامال ہو ہی چکا۔ رفتہ رفتہ اس کی صنعتی، تجارتی اور مالیاتی حیثیت بھی تحلیل اور منتقل ہوتی چلی جائے گی۔ نائیجریا کا سب سے بڑا اور پھولتا پھلتا شہر لاگوس آج گمنام ہے، برباد ہو چکا ہے۔ وہاں بھی کم و بیش ایسے ہی مسائل تھے۔ اس انجام سے بچنے کی فکر یوں تو کراچی کے تمام اسٹاک ہولڈرز کو ہونی چاہیے۔ لیکن سب سے زیادہ اُن کو ہونی چاہیے کہ جو (کراچی) شہر کے سب سے بڑے اسٹاک ہولڈر ہیں۔ کیا مستقبل قریب میں ایسا ہو سکے گا؟ اس کے آثار نظر نہیں آتے۔
۱۴۔ لگتا ہے کہ ایم کیو ایم کے ’’بلیک میلنگ کارڈز‘‘ کو غیرموثر کرنے کا فیصلہ مقتدر دائروں میں ہو چکا ہے۔ لیکن اگر اس مقصد کے حصول کے لیے ’’شیطان بہ مقابلہ شیطان‘‘ اور ’’عسکریت بہ مقابلہ عسکریت‘‘ کا فارمولا اپنایا گیا تو کراچی تباہ و برباد ہو جائے گا۔ ’’مہاجر قوم پرستی‘‘ سے مقابلے کے لیے اگر ’’پختون قوم پرستی‘‘، ’’بلوچ قوم پرستی‘‘ اور ’’سندھی قوم پرستی‘‘ جیسی ’’علاج بالمثل‘‘ تدابیر کی گئیں تو ایم کیو ایم ’’مہاجروں‘‘ میں مزید جڑ پکڑ لے گی۔ ایم کیو ایم سے جُڑا ہوا ’’مہاجر‘‘ جب تک کسی مؤثر سیاسی پلیٹ فارم کو اپنا بہی خواہ، ہمدرد، محافظ اور مددگار نہ سمجھے گا، وہ خونم خون ہو کر بھی ایم کیو ایم کو نہیں چھوڑے گا۔ پیپلز پارٹی ۴۴ سال میںبھی مہاجروں کے لیے اپنا دامنِ دل وسیع نہیں کر سکی۔ آئندہ بھی اس کا کوئی امکان نہیں۔ مسلم لیگ ایسا کر سکتی ہے، لیکن اس کی قیادت جس ’’اسٹیل‘‘ سے بنی ہے، وہ لچک کی حامل ہے اور نہ وسعت کی۔ دینی جماعتوں اور خصوصاً جماعت اسلامی سے پاکستانی ہیئتِ مقتدر خوف زدہ ہے اور پھر عالمی استعمار کو بھی مطمئن رکھنا ہے۔ اس لیے اس کو آگے بڑھتا، وہ دیکھ نہیں سکتی۔ حالانکہ مہاجر چہرہ، مہاجر شناخت اور مہاجر سماجی کلچر رکھنے والی جماعت اسلامی کراچی کے ’’مہاجروں‘‘ کے لیے بہت بہتر متبادل سیاسی پلیٹ فارم ہو سکتی ہے۔ یہ پلیٹ فارم ’’مہاجروں‘‘ کے علاوہ پختونوں، پنجابیوں، بلوچوں اور خود سندھیوں کو بھی متوازن اور معتدل طور پر اپنے پَروں کے نیچے سمیٹ لینے، سمیٹے رکھنے اور آگے لے کر چلنے کی غیرمعمولی استعداد رکھتا ہے۔ مگر اقتدار کے مراکز ایسا ہونے دیں گے؟ یہ بہت بڑا سوال ہے۔
۱۵۔ کراچی کی موجودہ آتش فشانی میں صرف مقامی، لسانی، گروہی، سیاسی، مذہبی عوامل ہی کارفرما نہیں، بلکہ یہ عالمی استعماری ضروریات اور حکمتِ عملی کا بھی حصہ ہے۔ کراچی کے باہم دست بگریباں گروہوں کے امریکا سے عموماً اچھے مراسم ہیں۔ امریکی سفیر اور امریکا سے آئے ہوئے سیاست کار اور اہلکار اِن سب جماعتوں کے قائدین سے تواتر سے ملتے رہتے ہیں۔ اِسی طرح ان جماعتوں کے قائدین باقاعدگی کے ساتھ امریکا کا دوستانہ دورہ کرتے رہتے ہیں۔ گویا کراچی کے ’’رومن اکھاڑے‘‘ کے تمام خونیں کردار امریکا سے قربت کا ’’اعزاز‘‘ رکھتے ہیں۔ کیا اس کے بعد بھی کوئی یہ سمجھ سکتا ہے کہ ’’کراچی بحران‘‘ محض مقامی مسئلہ ہے؟
☼☼☼
Leave a Reply