مصر میں نئے صدر کی تلاش!

گزشتہ سال مصریوں نے تاریخی انتخابات میں ووٹ ڈالے تھے۔ وہ نیا آئین چاہتے تھے اور ان کی خواہش تھی کہ جمہوریت پوری آب و تاب کے ساتھ جلوہ گر ہو۔ حسنی مبارک کی آمریت کا خاتمہ ہونے کے بعد بیشتر مصریوں کی آنکھوں میں کچھ خواب تھے اور وہ ان خوابوں کو شرمندۂ تعبیر دیکھنا چاہتے تھے۔ بیشتر مصریوں کو یقین تھا کہ فوج جمہوریت کی طرف لے جانے والے راستے پر رہنمائی کرے گی۔ مگر تمام امیدیں بار آور ثابت نہیں ہوئی ہیں۔ گزشتہ ماہ جب پارلیمنٹ کے نسبتاً کمزور ایوان بالا شورٰی کونسل کے انتخابات ہوئے تو عوام نے برائے نام دلچسپی لی اور ٹرن آؤٹ ۵ء۶ فیصد رہا۔

جنوری ۲۰۱۱ء میں مصر میں انقلابی لہر اٹھی۔ عوام بیدار ہوئے اور تین عشروں سے چلی آرہی آمریت کو اکھاڑ پھینکا۔ دلوں میں امنگیں تھیں۔ آنکھوں میں خواب تھے۔ سب کچھ اچھا دکھائی دے رہا تھا۔ کوشش یہ تھی کہ ملک کی تقدیر بدل جائے۔ مگر رفتہ رفتہ خرابیاں پھر نمودار ہونے لگیں۔ کسی بھی عبوری کابینہ سے وابستہ تمام توقعات پوری نہ ہوسکیں۔ جو لوگ عبوری سیٹ اپ کے نگران مقرر ہوئے ان میں حوصلہ نہ تھا۔ تذبذب نمایاں تھا۔ نتیجہ یہ نکلا کہ عوام کی امنگیں اپنی منزل تک نہ پہنچ سکیں۔ عبوری کابینائیں اصلاحات پر عملدرآمد کے حوالے سے خاصی نیم دلانہ سوچ کی حامل واقع ہوئی ہیں۔ چیف ایگزیکٹیو کی حیثیت سے کام کرنے والی مسلح افواج کی سپریم کونسل نے اب تک جو پالیساں اپنائی ہیں ان میں نیم دلی اور بیزاری نمایاں ہے۔ صاف ظاہر ہوتا ہے کہ فوج کوئی بھی ٹھوس قدم اٹھانا نہیں چاہتی۔ مصری فوج اب تک گزشتہ سال کی عوامی لہر کے بطن سے پیدا ہونے والی جمہوری امنگوں کو قبول کرنے کے موڈ میں دکھائی نہیں دیتی۔

جرنیلوں نے حال ہی میں مکمل جمہوری نظام کی طرف لے جانے کا نظام الاوقات جاری کیا ہے۔ مئی میں انتخابات ہوں گے جن کے بعد ۲۱ جون کو صدر کے انتخاب کی باری آئے گی۔ مشکل یہ ہے کہ مصر میں اب بھی قومی سطح پر ہم آہنگی کا شدید فقدان ہے۔ صدر کے منصب کے لیے صرف ایک امیدوار میں دم خم دکھائی دیتا ہے اور وہ خاتون ہے۔ سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ یہ خاتون کس طور ایک منقسم ملک کو چلا سکیں گی۔ بیوروکریسی میں کرپشن، نا اہلی اور اقربا پروری نمایاں ہے اور دوسری طرف معیشت کا برا حال ہے۔

قابل غور بات یہ ہے کہ مصر کا نیا حکمران اس حالت میں ذمہ داریاں سنبھالے گا کہ اسے اپنے اختیارات اور ذمہ داریوں کا پوری طرح علم نہ ہوگا۔ نیا آئین مرتب ہوگا تو اسے معلوم ہوسکے گا کہ اسے کیا کرنا ہے اور اس کے اختیارات کیا ہیں۔ پارلیمنٹ نے اس ادارے کے قیام اور ذمہ داریوں سے متعلق بحث ابھی شروع ہی کی ہے جسے نیا آئین ترتیب دینا ہے۔

آئین کا مسودہ کیا ہوگا، یہ تو بہت بعد کی بحث ہے۔ سردست جھگڑا اس بات کا ہے کہ آئین ترتیب دینے والی کونسل یا ادارے میں غالب اکثریت کس کی ہو۔ نئی پارلیمنٹ میں ۷۰ فیصد نمائندگی رکھنے والے اخوان المسلمون اور سلفی تحریک کا کہنا ہے کہ آئین ساز ادارے میں ان کی نمائندگی سب سے بڑھ کر ہونا چاہیے۔ یہ دونوں جماعتیں مل کر یا تو پارلیمانی جمہوریت پر اکتفا کریں گی یا پھر فرانس جیسا نظام چاہیں گی جس میں حکومت کی تشکیل پارلیمنٹ کے ذریعے ہوتی ہے، صدر کی مرضی سے نہیں۔ سیکولر عناصر چاہتے ہیں کہ سخت صدارتی نظام لایا جائے کیونکہ اسی صورت مصر میں سیکولر ازم ابھر سکتا ہے اور مذہبی شدت پسندی کا گراف نیچے لانے میں مدد مل سکتی ہے۔ سیکولر عناصر چاہتے ہیں کہ نئے آئین کا مسودہ تیار کرنے میں اساتذہ اور مزدوروں کی انجمنوں اور اہل علم کا کردار بھی مرکزی نوعیت کا ہونا چاہیے۔

ایسا لگتا ہے کہ مصر میں اب جو صدر آئے گا وہ حسنی مبارک کے سے اختیارات ہی کا حامل ہوگا۔ یہ بات پورے یقین سے البتہ نہیں کہی جاسکتی کہ فوج نئے صدر کے سامنے سر تسلیم خم کرے گی۔ یہی سبب ہے کہ آئندہ صدارتی انتخابات کو بہت سے لوگ اسلامی عناصر کی اکثریت والی پارلیمنٹ اور مسلح افواج کی سپریم کونسل کے درمیان زور آزمائی کے موقع کے طور پر دیکھ رہے ہیں۔ مسلح افواج کو مصری معاشرے اور معیشت میں جو نمایاں برتری حاصل رہی ہے اسے بچانے اور مفادات کے تحفظ کو یقینی بنانے کی ایک یہی صورت رہ گئی ہے کہ مصر کے نئے آئین کے مطابق صدر کا منصب غیر معمولی طور پر مستحکم ہو۔

ایک خدشہ یہ بھی محسوس کیا جارہا ہے کہ کہیں مسلح افواج اور اخوان المسلمون ایک نہ ہوجائیں۔ اگر ایسا ہوا تو ممکنہ طور پر محمد سالم الاعوا کو متفقہ امیدوار کی حیثیت سے قبول کرلیا جائے گا۔ سالم الاعوا قدامت پرست ہیں اور اخوان المسلمون کے ہمدردوں میں شمار کیے جاتے ہیں تاہم وہ فوج کے اختیارات اور مراعات کا دفاع بھی کرتے ہیں۔ وہ سیکولر اور عیسائیوں کے مخالف تصور کیے جاسکتے ہیں اور عیسائیوں پر انہوں نے اسرائیل سے ساز باز کے الزامات بھی عائد کیے ہیں۔

کسی امیدوار پر اتفاق رائے کے نہ ہونے سے کئی خدشات اُبھرتے ہیں۔ صورت حال گنجلک بھی ہوسکتی ہے۔ فوج کے سابق اعلیٰ افسران بھی صدارتی انتخاب کی دوڑ میں شرکت کے لیے بے تاب ہیں۔ حسنی مبارک کے دور کے ایک وزیر اعظم اور فضائیہ کے سابق سربراہ احمد شفیق بھی صدر بننے کی دوڑ میں شریک ہیں۔

حسنی مبارک دور کے وزیر خارجہ اور عرب لیگ کے سابق سیکریٹری جنرل امر موسیٰ بھی صدارتی دوڑ میں شریک ہیں اور خاصے نمایاں ہیں مگر اخوان المسلمون انہیں ضرورت سے زیادہ سیکولر قرار دیکر مسترد کرنے کا عندیہ دے چکی ہے۔

اخوان المسلمون کی ممکنہ حمایت کے حامل امیدواروں میں سالم الاعوا کے علاوہ حزیم ابو اسمٰعیل بھی شامل ہیں۔ وہ فوج کے خلاف ہیں اور صلوٰۃ اور پردے کو لازمی قرار دینے کی بھرپور حمایت کرتے ہیں۔ عبدالمنعم ابوالفتوح بھی صدارتی امیدواروں میں تیزی سے نمایاں ہوتے جارہے ہیں۔ ان کا تعلق اخوان المسلمون سے رہا ہے۔ انہیں اخوان کی صفوں سے اس وقت نکالا گیا جب انہوں نے غیرلچکدار حفظِ مراتب کو چیلنج کرنے کی کوشش کی۔ عبدالمنعم ابوالفتوح ڈاکٹر ہیں اور انہوں نے حسنی دور میں طویل مدت جیل میں گزاری۔ انہیں اخوان میں نمبر ٹو سمجھے جانے والے اور ممکنہ اگلے وزیراعظم خیرات الشطر (Khairat al-Shater) کے حامیوں کی حمایت بھی حاصل ہے۔ اس میں کوئی شک نہیں خیرات الشطر سے مخاصمت کے باعث اخوان المسلمون صدارتی دوڑ میں ان کی حمایت سے محروم رہے گی تاہم اس کے باوجود یہ خیال کیا جارہا ہے کہ بہت سے اسلام نواز عناصر انہیں ووٹ دینا پسند کریں گے۔

عبدالمنعم ابوالفتوح نے معاشرتی بہبود کا جامع پروگرام دیا ہے۔ وہ صحت عامہ کے معاملے کو حکومت کی تحویل میں لینے کا ارادہ رکھتے ہیں۔ تعلیم اور دیگر بنیادی سہولتوں کی فراہمی میں بھی وہ حکومت کی جانب سے معاونت پر یقین رکھتے ہیں۔ وہ چاہتے ہیں کہ فوج پر سویلین سیٹ اپ کی نگرانی رہے اور یہ کہ بوڑھے جرنیلوں کو جبری ریٹائر کیا جانا چاہیے۔ اس سوچ نے عبدالمنعم ابوالفتوح کو نوجوانوں میں غیر معمولی مقبولیت سے ہمکنار کیا ہے۔

ایٹمی توانائی کے عالمی ادارے آئی اے ای اے کے سابق سربراہ محمد البرادعی کے صدارتی انتخاب کی دوڑ سے نکل جانے کا عبدالمنعم ابوالفتوح نے بھرپور فائدہ اٹھایا ہے۔ البرادعی نے جمہوریت کی جانب سفر پر فوج کی جانب سے اثر انداز ہونے کی کوشش پر دل برداشتہ ہوکر صدارتی انتخاب کی دوڑ سے الگ ہونا بہتر سمجھا۔ محمد البرادعی کے ایک سابق حمایتی کا کہنا ہے کہ عبدالمنعم ابوالفتوح کا معاملہ مختلف ہے۔ وہ مخالفین کی بات سننے اور جواب دینے کا حوصلہ رکھتے ہیں۔

صدارتی انتخاب میں حصہ لینے کا شوق تو بہتوں کو ہے مگر اس کے لیے لازم سمجھی جانے والی شرائط پوری کرنے سے وہ قاصر ہیں۔ صدارتی امیدوار بننے کے لیے پارلیمنٹ کے تیس ارکان یا پھر تیس ہزار ووٹروں کی حمایت ناگزیر ہے۔ انتخابی اخراجات کی حد ۱۶ لاکھ امریکی ڈالر ہے مگر خیر، اس حد کے مطابق خرچ کرنے والے کم ہی ہوں گے۔

مصر میں صدارتی انتخابات کے حوالے سے سب کچھ ٹھیک دکھائی نہیں دیتا۔ ایسا محسوس ہوتا ہے کہ فوجی اسٹیبلشمنٹ سب کچھ آسانی سے قبول اور ہضم نہیں کرے گی۔ عبدالمنعم ابوالفتوح اور امر موسیٰ کو حادثات کا سامنا کرنا پڑا ہے۔ شک کی سوئی فوج کی طرف گھومتی ہے۔ اس سے اندازہ ہوتا ہے کہ مصر میں نئے آئین کی تشکیل اور صدر کا انتخاب کوئی آسان مرحلہ نہ ہوگا۔

(“Wanted; maybe a President?”… Weekly “The Economist”. March 10th, 2012)

Be the first to comment

Leave a Reply

Your email address will not be published.


*